صلح بمعنی درستی و مصالحت ہے اس کا مقابل فساد ہے بمعنی لڑائی و جھگڑا۔ (مراٰة المناجیح، باب الصلح)

دینِ اسلام کی بہت ساری خصوصیات میں سے ایک خاصیت یہ ہے کہ یہ مذہب امن و سلامتی کو قائم کرنے کا بہترین درس دیتا ہے۔ اسلام ہر طرح کے فتنہ و فساد سے نہ صرف خود بچنے کا حکم دیتا ہے بلکہ لوگوں کے مابین ہونے والے جھگڑوں کو بھی احسن انداز سے روکنے کی تلقین کرتا ہے، جس کا حکم خود اللہ پاک قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۠(۱۰) ترجمۂ کنزالایمان: مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔ (پ26، الحجرات:10) معاشرے کی خوبصورتی اس کے امن و امان میں پوشیدہ ہے اور امن و امان کو قائم کرنے اور باقی رکھنے کے لیے ایسے لوگوں کا موجود ہونا ضروری ہے جو لوگوں کے درمیان پائے جانے والے معاملات کا درست فیصلہ کریں اور حتی الامکان فریقین کے مابین صلح کرانے کی کوشش کریں۔ احادیثِ مبارکہ میں صلح کرانے کے بہت سے فضائل موجود ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں:

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں جو درجے میں روزے،نماز اور زکوٰۃ سے بھی افضل ہو؟ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کیوں نہیں۔ ارشاد فرمایا: آپس میں صلح کروا دینا۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین، 4/365، حدیث: 4919)

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں ایسے عمل کے بارے میں نہ بتاؤں جسے اللہ اور اس کا رسول پسند کرتے ہیں؟ وہ یہ ہے کہ جب لوگ ایک دوسرے سے ناراض ہو کر روٹھ جائیں تو ان میں صلح کروادو۔(الترغیب والترھیب، 3/ 321، حدیث: 8)

صلح کرانے میں اگر جھوٹ کا سہارا بھی لینا پڑے تو لیا جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت ِاُمِّ کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے کہ اچھی بات پہنچاتا ہے یا اچھی بات کہتا ہے۔ (بخاری، کتاب الصلح، باب لیس الکاذب الذی یصلح بین الناس،2/210، حدیث:2692)

صلح کرانے میں ایک شرط کا خیال رکھنا لازم ہے کہ صلح ایسی ہو جو شریعت سے ٹکراتی نہ ہو۔ حلال کو حرام کرنے یا حرام کو حلال کرنے کے لیے صلح کروانا ناجائز و گناہ ہے، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اَقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں کے مابین صلح کرواناجائز ہے مگر وہ صلح (جائز نہیں) جو حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے۔(ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فی الصلح، 3/425، 3594)

لہٰذا ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے جو تین طلاقیں قائم ہونے کے بعد بھی شوہر و بیوی کے درمیان صلح کروا رہے ہوتے ہیں جبکہ تین طلاقوں کے بعد وہ عورت اس مرد پر حرام ہو جاتی ہے اور اس ناجائز صلح کرانے کے بعد ان دونوں کا اکٹھے رہنا حرام اور اس کا گناہ نہ صرف شوہر و بیوی کو ہوگا بلکہ ناجائز صلح کروانے والوں کو بھی ہوگا۔

صلح کرانے کے طریقے: صلح کرانے کے بہت سے طریقے ہیں جیسے اگر دو شخصوں کے مابین کوئی رنجش ہو تو ان دونوں کو اکیلے میں ایک دوسرے کے بارے میں کہا جائے کہ ”فلاں آپ سے محبت رکھتا ہے یا آپکے بارے میں دل صاف رکھتا ہے“ وغیرہ۔ یا کوئی تحفہ لے کر دیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ یہ فلاں کی طرف سے ہے تو اس طرح دونوں کے درمیان احساس کا جذبہ اٹھے گا اور آپسی معاملات کو حل کرنے میں آسانی ہوگی۔ اسی طرح اگر دونوں کو اچھے ماحول بالخصوص عاشقانِ رسول کی تبلیغِ قرآن و سنت کی عالمگیر دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ کرادیا جائے تو اچھوں کی صحبت ملنے سے دل نرم ہو جائیں گے اور جلد صلح کرنےکا جذبہ بھی بیدار ہوجائے گا، ان شآء اللہ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے صلح کرنے والا اور کروانے والا بننے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین