اسلام ایک ایسا آفاقی مذہب ہے جو مسلمانوں کو آپس میں پیار محبت امن اور رواداری کا درس دیتا ہے، اگر کسی کا باہم لڑائی جھگڑا ہو جائے تو دوسرے کو صلح کروانے کی تلقین اور اس پر اجر کی نوید (خوشخبری) سناتا ہے اور بندہ مؤمن کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ صلح کروانا ہمارے پیارے آقا و مولیٰ امام الانبیاء صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت ہے، آپ نے دشمنیاں ختم کیں، خونی بدلے معاف کیے، ایک دوسرے کو معاف کرنے کا ہنر سکھایا، صلح کے ستون پر معاشرے کی عمارت قائم فرمائی۔

مسلمان بھائیوں میں صلح کرواؤ: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۠(۱۰) ترجمۂ کنزالایمان: مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔ (پ26، الحجرات:10)

عبادات سے افضل عمل:حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں جو درجے میں روزے، نماز اور زکوٰۃ سے بھی افضل ہو۔صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کیوں نہیں۔ ارشاد فرمایا: آپس میں صلح کروا دینا۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین، 4/ 345، حدیث: 4919)

کونسی صلح جائز نہیں؟ حضورِ اَقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:مسلمانوں کے مابین صلح کروانا جائز ہے مگر وہ صلح (جائز نہیں) جو حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے۔(ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فی الصلح، 3/ 425، حدیث: 3594)

اللہ کا پسندیدہ قدم:امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: اللہ عزوجل کو سب سے زیادہ وہ قدم پسند ہیں جو مسلمانوں میں صلح اور باہمی تعلقات کی اصلاح کے لیے اٹھیں۔(تفسیر قرطبی، 7/129، النسآء، تحت الآیہ: 114)

امیر اہل سنت کی صلح میں پہل:ہمارے بڑوں کے آپس میں کچھ مسائل ہوئے ہوں گے جس کی وجہ سے میری (یعنی امیرِ اہلِ سنّت کی) خالہ کے ہاں ہم لوگوں کا آنا جانا بند تھا اور نہ ہی وہ آتی تھیں۔ کھارادر میں شہید مسجد کے پاس خالہ کا گھر تھا اور میں اسی مسجد میں امامت کرتا تھا، اللہ کے کرم سے مجھے توفیق مل گئی اور میں ہمت کرکے خالہ کے گھر چلا گیا(میرا تو ویسے بھی ان سے کوئی جھگڑا نہیں تھا)، مجھے دیکھ کر وہ لوگ حیران ہوگئے اور کہنے لگے: تُم؟ میں نے کہا: ہاں! میں صلح کرنے آیا ہوں، مُعاف کردو! خالو سے ملا تو انہوں نے کہا کہ تُم اتنے بڑے آدمی ہوگئے ہو اورہم سے خود ملنے آئے ہو!(یہ ان دنوں کی بات ہے جب دعوتِ اسلامی کو بنےہوئے تھوڑا عرصہ ہوا تھا لیکن دعوتِ اسلامی کی وجہ سے میرا نام ہوگیا تھا)، یوں ان سے صلح کرکے میں گھر آیا اور اپنی بہن وغیرہ کو سمجھا بُجھا کر کہا کہ میں راہ ہموار کرکے آیا ہوں لہٰذا تم لوگ خالہ کے ہاں چلے جاؤ اور اَلحمدُلِلّٰہ وہ لوگ بھی ان کے ہاں چلے گئے اور اللہ پاک کے کرم سے خالہ کے ہاں ہمارے آنے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔( مدنی مذاکرہ رَمَضانُ المبارَک1441ھ کی 25ویں شب)

مولانا روم فرماتے ہیں:

تو برائے وصل کردن آمدی نے برائے فضل کردن آمدی

یعنی تو جوڑ پیدا کرنے کیلئے آیا ہے، توڑ پیدا کرنے کیلئے نہیں آیا۔(مثنوی شریف دفتر دوم، ص173)