محمد انس رضا عطّاری (درجہ
دورۃالحدیث شریف جامعۃُ المدینہ فیضان مدینہ فیصل آباد)
فطری طور پر ہر انسان کا اپنا الگ
مزاج ہے۔ ہم ہر روز دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں مختلف اختلافات یا غلط فہمیاں،
ناچاقی اور قطع تعلقی کا باعث بن جاتی ہیں۔ باہمی معاملات میں اکثر اوقات غلط
فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور یہ غلط فہمیاں بڑھتے بڑھتے نفرت و عداوت، قطع کلامی و
قطع تعلقی تک جا پہنچتی ہیں۔ نتیجتاً معاشرے میں فساد شروع ہوجاتا ہے، تو انسانی
نظامِ زندگی تباہ ہو کر رہ جاتا ہے، حتیٰ کہ خاندانوں کے خاندان اجڑ جاتے ہیں۔ ان
سارے فتنوں سے بچاؤ کیلئے اسلام میں باہمی صلح و صفائی پر بہت زور دیا گیا ہے۔
قرآنِ مجید اور اَحادیثِ مبارکہ میں بکثرت مقامات پر مسلمانوں کو آپس میں صلح
صفائی رکھنے اور ان کے درمیان صلح کروانے کا حکم دیا گیا اور اس کے بہت فضائل بیان
کئے گئے ہیں۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِهَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا
جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَهُمَا صُلْحًاؕ-وَ الصُّلْحُ خَیْرٌؕ- ترجمۂ کنز الایمان: اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی زیادتی
یا بے رغبتی کا اندیشہ کرے تو ان پر گناہ نہیں کہ آپس میں صلح کرلیں اور صلح خوب ہے ۔(پ5، النسآء:128)
حضرت اُمِّ کلثوم بنت عقبہ رَضِیَ
اللہ عَنْہَا سے روایت ہے، سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا:وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے کہ اچھی بات پہنچاتا ہے یا
اچھی بات کہتا ہے۔(بخاری، کتاب الصلح، باب لیس الکاذب الذی یصلح بین الناس، 2/210،
حدیث:2692)
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ عَنْہُ
سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد
فرمایا: کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں جو درجے میں روزے، نماز اور زکوٰۃ سے
بھی افضل ہو۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی
اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! کیوں نہیں۔ ارشاد فرمایا: آپس میں صلح کروا
دینا۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین، 4/365، حدیث: 4919)
پیارے اسلامی بھائیو! صلح کروانا
افضل عبادت ہے لیکن صلح کرواتے وقت یہ بات ذہن میں رہے کہ مسلمانوں میں صرف وہی صلح کروانا جائز ہے جس
میں شرعی طور پر کوئی برائی نہ ہو چنانچہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مسلمانوں کے مابین صلح کروانا جائز ہے مگر وہ صلح (جائز
نہیں) جو حرام کو حلال کردے یا حلال کو حرام کر دے۔(ابوداؤد، 3/ 425، حدیث: 3594)
مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: زوجین میں اس طرح صلح کرائی جائے کہ خاوند اس عورت کی سوکن(اپنی
دوسری بیوی)کے پاس نہ جائے گا یا مسلمان مقروض اس قدر شراب و سود اپنے کافر قرض
خواہ کو دے گا۔ پہلی صورت میں حلال کو حرام کیا گیا، دوسری صورت میں حرام کو حلال،
اس قسم کی صلحیں حرام ہیں جن کا توڑ دینا واجب ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 4/ 303)