صلح کروانا ہمارے پیارے آقا، مدینے والے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور مسلمانوں میں لڑائی جھگڑا کروا کر ان کی آپس میں پھوٹ ڈلوانا اور نفرتیں پھیلانا، یہ شیطان کے اہم اہداف میں سے ہے، بسا اوقات شیطان نیکی کی دعوت عام کرنے والوں کے درمیان پھوٹ ڈلوا کر بغض و حسد کی ایسی دیوار کھڑی کر دیتا ہے کہ جسے صلح کے ذریعے مسمار کرنا مشکل ہوتا ہے، صلح کروانے والے کو چاہئے کہ پہلے وہ اللہ عزوجل سے کامیابی کی دعا کرے، پھر ان دونوں کو الگ الگ بٹھا کر ان کی شکایات سنے اور اہم نکات لکھ لے۔

ایک فریق کی بات سن کر کبھی بھی فیصلہ نہ کرے، یہ بھی ممکن ہے جس کی بات سنی، وہ غلطی پر ہو، اس طرح دوسرے کی حق تلفی کا بھی قوی امکان ہے، فریقین کے بات سننے کے بعد ان کو صلح پر آمادہ کرے اور سمجھائے کہ ہمارے مکی مدنی آقا، دو عالم کے داتا صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایذاء دینے والوں، ستانے والوں، بلکہ اپنی جانی دشمنوں کو بھی معاف فرما دیا، فریقین کو صلح کے فضائل اور آپس کے اختلافات کے سبب پیدا ہونے والے لڑائی جھگڑے، بغض و حسد، گالی گلوچ، بے جا غصہ، کینہ وغیرہ کے دینی و دنیوی نقصانات بیان کئے جائیں، مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

تو برائے وصل کردن آمدی

نے برائے فصل کردن آمدی

یعنی تو جوڑ پیدا کرنے کے لئے آیا ہے، توڑپیدا کرنے کے لئے نہیں آیا۔

اللہ پاک نے قرآن کریم میں صلح کروانے کا حکم بھی ارشاد فرمایا:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَؒ۱۰

ترجمہ کنزالایمان:"مسلمان، مسلمان بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم پر رحمت ہو۔"(پ26، حجرات:10)

تفسیر:

اس آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان اپنے مسلمان کا بھائی ہے اور صلح کروانے کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ صلح کروانے والے پر اللہ عزوجل کی رحمت برستی ہے اور یہ نیک صالح عمل ہے۔

فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ١۪ وَ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗۤ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۱ترجمہ کنزالایمان:"تو اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس میں (صلح و صفائی) رکھو اور اللہ اور رسول کا حکم مانو، اگر ایمان رکھتے ہو۔"(پارہ 9، سورہ انفال، آیت1)

تفسیر:

اس آیت مبارکہ کے شانِ نزول سے روایات بیان کی گئی ہیں، جن میں ایک یہ ہے، حضرت ابو امامہ باہلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے آیتِ انفال کے بارے میں پوچھا:تو آپ نے فرمایا"اس آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتا ہے، اس کو چاہئے کہ اللہ سے ڈرے اور اپنے مسلمان بھائیوں کے درمیان صلح کروائے، تا کہ اس کے فضائل و برکات پاسکے۔

حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، شہنشاہِ خوش خصال، پیکرِ حسن و جمال، دافعِ رنج وملال، صاحبِ جودونوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کہ سب سے افضل صدقہ روٹھے ہوئے لوگوں میں صلح کروا دینا ہے۔"(الترغیب والتر ہیب، کتاب الادب، باب اصلاح بین الناس، رقم ، جلد 3/321)

شرح:

حدیث مبارکہ میں وضاحت سے بیان ہوا ہے کہ صدقہ کرنا افضل ہے، بہت سے ایسے کام ہیں جن سے صدقہ کیا جا سکتا ہے، جن میں بہترین صدقہ صلح کروانا ہے۔

2۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرورِ ذیشان صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مغفرت نشان ہے:"جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کرائے گا، اللہ عزوجل اس کا معاملہ درست فرمائے گا اور ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔"(الترغیب والتر ہیب، کتاب الادب، باب اصلاح بین الناس، جلد 3/321، رقم9)

شرح:

اس سے صاف ظاہر ہے کہ صلح کروانے والے کے تو وارے ہی نیارے ہیں کہ صلح کروانے میں جو کوشش کر رہا ہے مسلمان بھائیوں کو ملانے کی، صرف اللہ کی رضا کے لئے ہر کلمہ کے بدلے غلام آزاد کرنے کا ثواب اور صلح کرواتے ہی اس کی مغفرت ہو جاتی ہے۔

3۔حضرت سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ فضیلت نشان ہے:"کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتائیے،ارشاد فرمایا:وہ عمل جو آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دیتا ہے، کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے۔(سنن ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین، جلد 4/325، رقم4919)

شرح:

سب سے بہتر عمل صلح کروانا ہے کہ روٹھنے والے نہ صرف آپس میں ناراض ہوتے ہیں، بلکہ ان کے درمیان دلوں میں اور بھی غلط خیالات جیسے بغض، حسد، کینہ جنم لیتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"صلح کروانا جائز ہے، مگر وہ صلح جو حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے، وہ جائز نہیں۔"(ابوداؤد 3/425، ح3594)

ان آیات و روایات سے صلح کروانے کی اہمیت اور اس کے فضائل و برکات معلوم ہوئے، لہٰذا جب کبھی مسلمانوں میں ناراضگی ہو جائے، ان کے درمیان صلح کروا کر یہ فضائل و برکات حاصل کرنے چاہئے، بعض دفعہ شیطان یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ انہوں نے صلح پر آمادہ نہیں ہونا، سمجھانا بیکار ہے۔

یاد رکھئے! مسلمان کو سمجھانا بیکار نہیں، بلکہ مفید ہے، جیسا کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے:

ترجمہ کنزالایمان:"اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے۔"(پارہ 27، الذٰریٰت:55)

اللہ عزوجل ہمیں نرمی اپنا نے، ایک دوسرے کو منانے اور لڑائی جھگڑے سے خود کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین