صِلَہ ٔرِحمی(رشتے داروں  کے ساتھ اچھا سُلوک ) اِسی کا نام نہیں کہ وہ سلوک کرے تو تم بھی کرو یہ چیز تو حقیقت میں اَدلا بدلا کرنا ہےکہ اُس نے تمہارے پاس چیز بھیج دی تم نے اُس کے پاس بھیج دی، وہ تمہارے یہاں آیا تم اُس کے پاس چلے گئے حقیقتاً صِلَۂ رِحم یعنی کامِل دَرَجے کا رشتے داروں سے حسنِ سلوک یہ ہے کہ وہ کاٹے اور تم جوڑو وہ تم سے جدا ہونا چاہتا ہے اور تم اُس کے ساتھ رشتے کے حقوق کا لحاظ کرو۔(رَدُّالْمُحتارج۹ص۶۷۸)

حضورصَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم َکا فرمانِ ہے: جسے یہ پسند ہوکہ اُس کے لیےجنت میں محل بنایا جائے اوراُس کے دَرَجات بلند کیے جائیں اُسے چاہیے کہ جو اُس پرظلم کرے یہ اُسے معاف کرے اورجو اُسے محروم کرے یہ اُسے عطا کرے اورجو اُس سے قطعِ تعلُّق کرے یہ اُس سے تعلُّق جوڑے۔(اَلْمُستَدرَک لِلْحاکِم ج۳ ص۱۲حدیث ۳۲۱۵)

حضرتِ سیِّدُنا فقیہ ابواللَّیث سمرقندی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ القَوِیفرماتے ہیں : صِلَۂ رِحْمی کرنے کے چند فائدے ہیں :٭ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رِضا حاصل ہوتی ہے ٭لوگوں کی خوشی کا سبب ہے ٭فرشتوں کو مَسَرّت ہو تی ہے ٭مسلمانوں کی طرف سے اس شخص کی تعریف ہوتی ہے٭ شیطان کو اس سے رَنج پہنچتا ہے٭عمربڑھتی ہے٭ رِزْق میں برکت ہو تی ہے٭فوت ہوجانے والے آباءو اجداد(یعنی مسلمان باپ دادا) خوش ہوتے ہیں ٭آپس میں مَحَبَّت بڑھتی ہے۔(تَنبیہُ الغافِلین ،ص۷۳)

ساس، جیٹھانی، بھابھی ، نند یہ ایسے رشتے ہیں جو صدیوں سے لڑائی، جھگڑے میں اول سمجھے جاتےہیں ہم بات کریں گے نند کی جسے لوگ بھابھی کی حاسد سمجھتےہیں اکثر لوگ نند کے بارے میں اسطرح کےجملے کہتے نظر آتے ہیں جیسے ، نند کا بس چلے تو بھابھی کو سانس لینے پر بھی پابندی لگا دیں ، بھابھی کو تنگ کر کے نند کودلی سکون ملتا ہے وغیرہ۔

لیکن اب وقت کے ساتھ ساتھ ان رشتوں میں بھی مثبت تبدیلیا ں آنی چایئے نند اپنی بھابھی کی بہن اور دوست بھی بن سکتی ہے بس ہمیں اپنی سوچ کو منفی خیالات سے پاک رکھنےکی ضرورت ہے۔

اسی طرح کسی بھی رشتے میں مٹھاس اس وقت ہی آتی ہے جب دونوں جانب سے برابر مقدار میں خلوص شامل کیا جائے یعنی اگر نند اپنی بھابھی کے لیے پیار کا جذبہ رکھتی ہے تو دوسری طرف بھابھی کو بھی چاہیے اپنی نند کے ساتھ مخلص رہے تو ہی یہ رشتہ مضبوط ہوتاہےاگرسسرال میں لڑکی اپنی نند کے سب سے قریب ہوجائےتواخلاص سے بھر پورنئے رشتے کے ساتھ ساتھ گھر کا ماحول بھی خوش گوار ہوگا۔

اگر آپ کی نند چھوٹی ہے تو اس کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں اس کی چھوٹی چھوٹی جائز خواہشات کا احترام کریں اور اگر آپ کی نند بڑی ہیں تو ان کو وہی عزت دیں جو آپ اپنی ماں یا بڑی بہن کو دیتی ہیں ہر رشتے کی طرح یہ رشتہ بھی پیار کا طلبگار ہوتا ہے کیونکہ نندیں بہنوں کا روپ ہوتی ہیں۔

رِضائے الٰہی کے لیے رشتے داروں کے ساتھ صِلۂ رِحمی اور ان کی بدسلوکی پر انہیں در گزر کرنا ایک عظیم اَخلاقی خوبی ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّکے یہاں اس کا بڑا ثواب ہے ۔ (ہاتھوں ہاتھ پھوبھی سے صلح کر لی ص5)

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


ایک بہترین معاشرے کی تخلیق کے لئے خواتین کا ہر اعتبار سےتربیت یافتہ ہونابہت ضروری ہوتا ہے۔اگر خواتین کی تربیت دینی واخلاقی لحاظ سے کر دی جائے تو صرف گھر ہی نہیں بلکہ پورامعاشرہ سنور جائے گا۔کیونکہ ہمارا پیارا دین اسلام ہمیں ہر ہر موڑ پر رہنمای فرماتا ہے،نیز ہمیں ہمیشہ بھلای کا حکم بھی فرماتاہے۔مزید بھلای کے کاموں پر اجر عظیم کی بشارت عطا کر رہا ہوتا ہے۔

حسن سلوک سے سجی سنوری خواتین جب کسی گھر کی زینت بنتی ہے تو اپنی تربیت کے ذریعے روٹھوں کو منانے والی اور بچھڑے کو ملانے والی بن کر گھر کو امن کا گہوارہ بنا دیتی ہے۔

عورت اپنے ساس کو ماں، نند کو بہن، سمجھ کر اور ساس بھی ماں بن کر، نند، بہن بن کر صلہ رحمی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔

کئی گھروں میں حسن سلوک کی کمی لوگوں کو علیحدگی پر امادہ کر دیتی ہے۔

تھوڑی تھوڑی باتوں میں عدم برداشت ہمیں دوریاں دے جاتی ہیں۔

خواتین اگر حکمت عملی کے ساتھ آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اس بات کو یاد کرتے ہوئے جس کا مفہوم ہے"جس نے اللہ عزوجل کی رضا کے لئےعاجزی کی اللہ پاک اسے بلندی عطا فرماتا ہے۔" (شعب الایمان)

پہل کریں تو ضرور کامیابی ملے گی۔کبھی پکوان بناکر لے جائیں تو کبھی خود حاضر ہو جائیں۔

گلے شکوے مٹا کر معافی مانگ کر حسن اخلاق کا مظاہر کرکے صلہ رحمی کو عام کرنے والی بن سکتی ہیں۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم : نیت المؤمن خیر من عملہیعنی مسلمان کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔

اپنے عنوان کا آغاز کرنے سے پہلے نیتیں کررہی ہوں کہ جو کچھ بھی لکھوگی صرف اور صرف اللہ او راس کے یپارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے لکھوں گی، اگر لکھنے میں کوئی غلطی ہوجائے تو اللہ عزوجل مجھے اپنی رحمت کے صدقے میں معاف فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

صلہ رحمی کرنا صدا اے مسلمان

مہربان ہوگا خدا اے مسلمان

اسی سے دل میں محبت ہی ہوگی

یہی تیر ی عظمت زیادہ کرے گی

میرے عنوان کا سبق ہے صلہ رحمی، صلہ یعنی بدلہ ، احسان یا نیک سلوک کرنا اور رحم جو ہے یعنی جو آپ کے رحم کے رشتے دار ہیں جن سے آپ کے نسب کا تعلق ہے، جن سے آپ کے خون کا تعلق ہے جن سے آپ کا رحم کا تعلق ہے ان سے نیک سلوک کرنا اللہ عزوجل نے قرآن میں خاص موقعوں پر اس تعلق سے احکامات بیان کیے ہیں، ہم سب کے لیے جہاں وہ اپنی عبادت کا تذکرہ کررہا ہے نماز پڑھنے کا زکاة دینے کا بس میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ایسے تذکرہ ہورہے ہیں وہاں پھر احسان کر و اپنے والدین کے ساتھ اور قریب کے رشتہ داروں کے ساتھ اپنے اقارب و عزیزوں کے ساتھ، سورہ بنی اسرائیل میں اللہ عزوجل ایک آیت میں ارشاد فرماتاہے:تَرجَمۂ کنز الایمان:اور رشتے داروں کو ان کا حق دے۔ (سورہ بنی اسرئیل ،26)

اب ایک خواتین ان رشتوں کو کس طرح نبھا سکتی ہے، ان کو نبھانے کے لیے کچھ حقوق ہیں، ان میں رشتے داروں کے کیا حقوق ہیں والدین کے کیا حقوق ہیں، اور ان حقوق پر وہ کس طرح عمل کرسکتی ہے ایک خواتین اگر اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے گی ان کی خدمت کریں ان کا ہر کہنا مانے اور اپنے ہر کام میں اپنے والدین کی خوشی کو ترجیح دیں ، یاد رکھئے صلہ رحمی میں جو سب سے پہلا کردار والدین کا ہی ہے۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


اسلام جہاں ہمیں زندگی کے کئی پہلوؤں پر ہماری تربیت کرتا ہے وہاں ہمیں صلہ رحمی کا بھی حکم دیتا ہے۔

صلہ رحمی کیا ہے؟:

صلہ رحمی کے معنی رشتے کو جوڑنا ہے یعنی رشتے والوں کے ساتھ نیکی اور سلوک کرنا۔

یاد رکھیے کہ صلہ رحمی واجب ہے اور رشتہ توڑنا حرام ہے۔(احترام مسلم ،ص ۸)

عورت بھی اپنے مقام کے مطابق صلہ رحمی کا اہم فریضہ ادا کرسکتی ہیں اگر وہ ماں ہے تو بچوں کے ساتھ اگر وہ بیٹی ہے تو ماں باپ کے ساتھ اگر وہ بہن ہے تو اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ وغیرہ۔اگر عورت بھی معاشرے میں صلہ رحمی کا کردار اپنے اپنے طور پر ادا کرے تو معاشرے میں نا اتفاقی ، جھگڑے اور قطع رحمی کا خاتمہ ہوجائے اور معاشرہ محبت اور بھائی چارہ کا نظارہ پیش کرنے لگے۔

فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم :

صدقہ اور صلہ رحمی سے اللہ عزوجل عمر میں برکت دیتا ہے بری موت کو دفع کرتا اور ناپسندیدہ شے کو دور کرتا ہے ۔

(حکایتیں اور نصیحتیں ،ص ۲۳۴)

ہر کوئی چاہتا ہے کہ میری عمر میں برکت ہو بُری موت سے بچوں اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔

خواتین کا کردار صلہ رحمی پر:

ماں اپنے بچوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے ساتھ پیش آئے اگر وہ کوئی غلطی کریں تو اس کو سمجھائے اور مار پیٹ سے کام نہ لے اگر بیٹا شادی شدہ ہوجائے اور وہ الگ رہتا ہو تو اس کے گھر جا کر اس سے اس سے ملاقات کرے اس کے بچوں کے لیے تحفہ لے کر جائے، اپنے بیٹے سے کسی بات پر ناراضگی ہو اگر وہ بات شریعت سے نہ ٹکراتی ہو تو اسے معاف کردے یہ سوچ کر کہ میں نے بھی شاید کبھی ماں باپ کو ناراض کیا ہوگا اور انہوں نے معاف کردیا۔

بیٹی:

اگر بیٹی ہے تو ماں باپ کی فرمانبرداری کرے اگر وہ کسی بات پر ڈانٹ دیں حتی کہ ہاتھ بھی اٹھالیں تو ہرگز ہرگز ان سے ناراض نہ ہوں بلکہ یہ سوچیں کہ بچپن میں انہوں نے مجھے کن محنتوں سے پالا اان کے پاس کچھ بھی نہ ہو پھر بھی میری خواہشوں کو پورا کیا، اگر ماں باپ بوڑھے ہوجائیں تو ان کے ساتھ صلہ رحمی یہ ہے کہ ان کی ہر بات خوشی سے مانیں ان کے پاس بیٹھیں ان سے باتیں کریں۔

بہن:

بہن بھی بہت اہم کردار ادا کرسکتی ہے صلہ رحمی کابہن اپنے ہر بہن بھائی کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرے اگر بہن بڑی ہے تو ماں کی طرح اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال رکھے اگر وہ تنگ کریں تو درگزر کرے بہن بھائیوں کو بے جا نہ ڈانٹے نہ مارے اگر بڑی بہن چھوٹے بہن بھائیوں کو کچھ کہہ دے بُرا بھلا کہے تو چھوٹے بہن بھائیوں کو چاہیے کہ معاف کردیں ہر گز ان کی بے ادبی نہ کرے۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں اپنے بھائیوں میں سے کسی بھائی کے ساتھ صلہ رحمی کروں یہ چیز بیس درہم صدقہ کرنے سے بھی زیادہ محبوب ہے، قرابت داروں پر خرچ کرنے والا شخص سخی اور صاحب جو وکرم ہے۔

قرآن کی روشنی میں:

اور وہ کہ جوڑتے ہیں اسے جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا اور اپنے رب سے ڈرتے اور حساب کی برائی سے اندیشہ رکھتے ہیں۔ (القرآن ، سورة الرعد، آیت ۲۱۔۱۳)

احادیث کی روشنی میں :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:صلہ رحمی اہل و عیال اور اہل خاندان میں باہمی محبت ، مال میں فراوانی اور عمر میں درازی کا باعث ہوتی ہے۔(مسند احمد)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جسے یہ بات خوشگوار لگے کہ اس کے رزق میں اضافہ ہو اور اس کی عمر دراز ہو اسے صلہ رحمی کرنی چاہیے۔ (بخاری و مسلم شریف)

ایک اور مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اللہ پراور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔(متفق علیہ)

پیارے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: رشتہ داری رحمن کی ایک شاخ ہے، پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ، اے رشتے داری جو تجھے جوڑے گا میں اس سے جڑوں گا، دراصل اللہ تعالیٰ کا ڈر وہ جس کی وجہ سے ہم رحم کے رشتے کو نبھا سکتے ہیں اور انسانیت کے تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں، اگر میں اپنے خاندان کو جوڑے رکھتی ہوں اور اس کی تربیت پر توجہ دیتی ہوں اگر اپنے خاندان کو رول ماڈل بنانا چاہتی ہوں تو اس لیے کہ میرا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوجائے اور اگر ہم اسی سوچ کو بناد بناتے ہیں ، خاندان کی خبر گیری کرتے ہیں تو یقینا وہ سوسائٹی وجود میں آئے گی جسے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وجود میں آئے۔

اسلام میں خاندان کا تصور بہت وسیع ہے اور اس میں بنیادی اور کلیدی کردار عورت کا ہے اکثر عورتیں ہی خاندان کے لئے فیصلے اور طریقے متعین کرتی ہیں اور اسی بنا پر اسے قرآن میں گھروں میں رہنے کا حکم فرمایا ہے تاکہ وہ مضبوطی سے اپنے فرائض انجام دے سکے، عورت کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ کس طرح اپنے گھر اور خاندان کی حفاظت کرتی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :دنیا کی بہترین متاع نیک بیوی ہے۔(مسلم شریف)

اور نیک بیوی وہ ہے جب تم اسے دیکھو تو وہ تمہیں خوش کردے۔جب کوئی حکم دو تو اطاعت کر ے اور جب تم گھر پر رہو تو وہ تمہارے گھر اور بچو کی حفاظت کرے۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


معاشرے میں خواتین کا سب سے زیادہ واسطہ لوگوں کو پڑتا ہے، الحمدللہ عزوجل اللہ و رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا انسانیت پر بہت بڑا فضل و احسان ہے کہ اس نے صلہ رحمی کا حکم فرما کر اپنے ماننے والوں کو ایک دوسرے کی عزت و ناموس کا محاظ بنادیا، آئیے، فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسم کی روشنی میں صلہ رحمی کے متعلق سنتے ہیں تاکہ اس کو بڑھانے کا جذبہ بیدار ہو۔

۱۔ ہر حسن سلوک صدقہ ہے غنی کے ساتھ ہویافقیر کے ساتھ۔

(مجمع الزوائد کتاب الزکوة ج ۳، ص ۳۲۳حدیث نمبر4754)

۲۔ جس نے والدین سے حسن سلوک کیا اسے مبارک ہو کہ اللہ اس کی عمر بڑھا دے۔

(مستدرک ،کتاب بالبرو الصلوة ج 5 ص ۲۱۳، حدیث ۷۳۳۹)

۳۔ صلہ رحم واجب ہے اور قطع رحم حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔(بہار شریعت ج۳، ص ۵۵۸حصہ ۱۶)

رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک اسی کا نام نہیں کہ وہ سلوک کرے تو تم بھی کرو ، یہ چیز تو حقیقت میں مکافات (ادلا بدلہ )کر نا ہے کہ اس نے تمہاری طرف چیز بھیج دی تم نے اس کے پاس بھیج دی، وہ تمہارے یہاں آئی تم اس کے پاس چلی گئی، حقیقۃً صلہ رحمی یہ ہے کہ وہ کاٹے اور تم جوڑو وہ تم سے جدا ہونا چاہتی ہےتم اس کے ساتھ رشتے کے حقوق کی رعایت و لحاظ کرو۔

خواتین صلہ رحمی کو کس طرح بڑھا سکتی ہے اس کی مختلف صورتیں درجِ ذیل ہے۔

۱۔ ان کو صدقہ یا تحفہ دینا

۲۔ انہیں کسی کام میں تمہاری مدد درکار ہو تو اس کام میں ان کی مدد کرنا

۳۔ انہیں سلام کرنا

۴۔ان کی ملاقات کو جانا

(۵) ان کے پاس اٹھنا بیٹھنا

(۶) ان سے بات چیت کرنا

(۷) ان کے ساتھ لطف و مہربانی سے پیش آنا

(۸) محارم رشتے داروں سے ناغہ دے کر ملتے رہیں، (ایک ملنے کو جائیں دوسرے دن نہ جائے کہ اس طرح کرنے سے محبت و الفت زیادہ ہوتی ہے، باقی قرابت داروں سے جمعہ جمعہ ملتی رہیں یا مہینے میں ایک بار۔

ابھی ہم نے صلہ رحمی بڑھانے کے طریقے ملاحظہ کیے۔ اب سنتے ہیں کہ صلہ رحمی سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔؟

صلہ رحمی دنیا و ہ آخرت میں فائدہ مند ہے کنزالعمال میں ہے اللہ عزوجل سے ڈرو اور صلہ رحمی کرو کہ یہ تمہارے لیے دنیا میں زیادہ باقی رہنے والا ہے اور آخرت میں تمہارے لیے بہتر ہے۔(کنزالعمال جلد ۳، ص ۶۳۳)

اللہ عزوجل ہمیں خوب سے خوب صلہ رحمی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


صلہ کا لغوی معنی :ضم اور جمع کے ہیں، یوں کہا جاتا ہے شے کو دوسری شے سے ملانا۔

اصلاحی معنی یہ ہیں کہ رشتہ داریاں قائم رکھنا اور رشتوں داروں سے اچھا سلوک کرنا۔

صلہ رحمی فقط یہی نہیں کہ جو ہم سے تعلق جوڑے ہم بھی اس سے تعلق جوڑیں بلکہ یہ بھی حکم ہے کہ جو ہم سے تعلق توڑے ہم اس سے تعلق جوڑیں۔حدیث مبارکہ ہے:بدلہ دینے والا صلہ رحمی کرنے والا نہیں بلکہ صلہ رحمی کرنے والا تو وہ شخص ہے جب اس سے ناطہ توڑا جائے تو وہ ا س کو ملائے۔(صحیح بخاری کتاب الادب جلد ۸)

حدیث پاک میں صاف الفاظ میں بیان ہوا کہ صلہ رحمی یہ نہیں جو بدلے کے طور پر انسان کرے بلکہ صلہ رحمی یہ ہے کہ وہ کاٹے تو جوڑے ہماری معاشرت بلکہ ہماری اسلامی بہنوں میں یہ رواج عام ہے کہ اگر کوئی ان کے ساتھ اچھائی کرے تو بدلے میں وہ بھی اچھائی کرتی ہے، خواتین کو ان احادیث پر غور کرنا چاہیے اور ان پرعمل کرنا چاہیے۔

حضور علیہ السلام نے فرمایا:جس کو یہ پسند ہو کہ عمر میں درازی اور رزق میں فراخی ہو اور بری موت دفع ہو وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور رشتے داروں سے حسن سلوک کرے۔( المستدرک ج ۵،ص ۲۲۲)

ہمیں ان احادیث کے اجر پر غور کرنا چاہیے کہ اگر ہم اپنی لمبی عمر چاہتی ہیں تو رشتوں کا لحاظ رکھنا ہوگا، خواتین صلہ رحمی کو درجِ ذیل صورتوں میں بڑھا سکتی ہے۔

۱۔ رشتہ داروں سے ہر ہفتہ یا ہر مہینہ میں ملاقات کرنا

۲۔ رشتہ داروں کی مدد کرنا۔

۳۔ ان کی حاجت پوری کرنا۔

۴۔ خوشی و غمی میں شریک ہونا،ا گر رشتہ دار قریب ہوں تو سلام کرنا ، اگر رشتہ دار دور ہوں تو ان سے فون وغیرہ پر رابطہ کرنا۔

۵، رشتہ داروں پر مال خرچ کرنا۔یعنی تحائف دینا اگر غریب ہیں تو صدقہ دینا امت کا اسی بات پر اتفاق ہے کہ صلہ رحمی واجب ہے۔

اللہ عزوجل نے قران مجید میں صلہ رحمی کا حکم فرمایا :آیت مبارکہ ۔ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى تَرجَمۂ کنز الایمان:، اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں سے ۔(سورہ بقرہ: 83)

تفسیر نعیمی میں ہے قربیٰ بمعنی قرابت ہے یعنی اپنے اہل قرابت کے ساتھ احسان کرو۔

صلہ رحمی کا صرف یہ مطلب نہیں کہ انہیں چیزیں عطا کرو بلکہ خواتین صلہ رحمی کو تب بڑھا سکتی ہے جب وہ ان کی باتوں پر صبر کرے، اور اپنے اندر برداشت کی قوت پیدا کرے۔

ایک عورت بہترین بیوی ثابت ہوتی ہے جب وہ اپنے خاوند کو خوش کرسکے خاوند تب خوش ہوگا جب وہ خاوند کے رشتہ داروں کو خوش رکھے گی۔

لہذا عورت کو چاہیے کہ شوہر کو ناراض کرکے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا وبال اپنے سرنہ لیں ، کہ اس میں دنیا و آخرت دونوں کی بر بادی ہے۔

نیک بیوی کی صفات حدیث مبارکہ میں بیان ہوئی ہیں آپ علیہ السلام نے فرمایا: جو عورت اس حال میں فوت ہوئی کہ اس کا شوہراس سے راضی تھا وہ جنت میں داخل ہوگی۔

ان تمام احادیث اور آیتِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ ایک عورت تب ہی اچھی ، بہن، بیوی ، بہو ،بیٹی، ساس اور نند ثابت ہوسکتی ہے جو صحیح معنوں میں ان رشتوں کا لحاظ رکھ سکے اور حق ادا کرسکے سب سے پہلے اپنے غصے کوکنٹرول کرنا ہوگا،دوسری بات برداشت کی قوت پیدا کرنا ہے، تب ہی یہ رشتے بخوبی انجام پاسکیں گے ۔

ہے فلاں و کامرانی نرمی و آسانی میں

ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی میں

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


ہمارا پیار ا دین اسلام جہاں ہمیں اخوت ( بھائی چارہ) اور برداشت سکھاتا ہے وہی یہ پیار ا دین ہمیں صلہ رحمی کا درس بھی دیتا ہے، آج معاشرے میں نااتفاقی اور محبت و الفت کی کمی کی ایک بہت بڑی وجہ صلہ رحمی کی کمی ہے، جس کے سبب ہمارا معاشرہ بکھر کر جدا جدا ہوگیا ہے اب ہمیں اس اس بکھرے ہوئے معاشرے کو سمیٹ کر ایک بہترین معاشرہ قائم کرنا ہے اور اس میں بہترین کردار ایک عورت ادا کرسکتی ہے کہ ایک عورت ہی ماں، بہن ، بیوی، بہو، بیٹی ساس اور نند کی صورت میں اپنے معاشرے میں بہترین سدھار پیدا کرسکتی ہے، اور اس کا بہترین طریقہ صلح رحمی اور برداشت کو قائم کرنا ہے۔

صلح رحمی کسے کہتے ہیں؟:

صلہ کے لغوی معنی ہے ایک شے کو دوسری شے کے ساتھ ملانا اصطلاحی معنی ، رشتے داریاں قائم رکھنا اور رشتے داروں سے اچھااسلوک کرنا۔ (صلح رحمی اور قطع تعلقی کے احکام ،ص ۲۲۲)

صلہ رحمی اللہ عزوجل کی ایسی اطاعت ہے کہ پچھلی شریعتوں میں بھی اس کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں اس کی تعریف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

ترجمہ کنزالایمان: اور وہ کہ جوڑتے ہیں اسے جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا اور اپنے رب سے ڈرتے اور حساب کی برائیوں سے اندیشہ رکھتے ہیں۔(سورة الرعد آیت نمبر:21)

ایک اور مقام پر صلح رحمی کے متعلق اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: وَاتَّقُوااللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَالْاَرْحَامَؕ-

ترجمہ کنزالایمان :اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو (سورة النسا آیت: ۱)

اس آیت مبارکہ میں رشتوں کا لحاظ رکھنے کا ارشاد فرمایا گیا ہے آج ہمارے معاشرے میں ایک تعداد ایسی ہے جو غیروں کے ساتھ تو اچھا سلوک کرتی ہیں ان سے اچھے انداز ملتی ہیں لیکن اپنے گھر والوں اور رشتے داروں کے لیے ایک مسکراہٹ بھی نہیں ہوتی ان کے پاس بیٹھنے کے لیے چند لمحے نہیں ہوتے، غیروں پر رحم کرنا اگر چہ بہت بڑی نیکی ہے لیکن گھر والوں پر رحم کرنا ضروری ہے اور اس پر زیادہ اجرو ثواب ہے۔

چنانچہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت میں سے قیامت کے دن ایک شخص کولایا جائے گا اور اس کے پاس ایسی کوئی نیکی نہیں ہوگی جس بنا پر جنت کی امید کی جاسکے تو اللہ کریم ارشاد فرمائے گا اس کو جنت میں داخل کردو اس لیے کہ یہ اپنے گھر والوں پر رحم کرتا تھا۔(کنزالعمال، جلد ۱۶، ص ۳۷۹)

رشتے داروں کے ساتھ سلوک اس کا نام نہیں کہ وہ اچھا سلوک کرے تو تم بھی کرو بلکہ یہ تو مکافات یعنی ادلا بدلہ کرنا ہے حقیقتاً صلہ ر حمی پر ہے، کہ وہ کاٹے اور تم جوڑو وہ تم سے جدا ہونا چاہتی ہو اور تم اس کے ساتھ رشتے کے حقوق کی رعایت و لحاظ رکھو۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں وسعت اور اس کی عمر دراز ہو تو اسے چاہیے کہ وہ صلح رحمی کرے۔(صحیح بخاری جلد۸، ص ۵)

صلح رحمی کو بڑھانے کی مختلف صورتیں ہیں:

مثلاًایسے رشتے داروں سے وقتا فوقتا ملاقات کو جانا، پریشان اسلامی بہن کی مدد کرنا، ان کی حاجت پوری کرنا، انہیں سلام کرنا، ان کے پاس ا ٹھنا بیٹھنا ہے، ان سے بات چیت کرنا ، ان سے لطف و مہربانی سے پیش آنا، اگر کسی اسلامی بہن کی کوئی بات بُری لگ جائے تو اسے در گزر کرنا، رشتے داروں پر مالی خرچ کرنا یعنی اگر وہ غریب ہیں تو ان کی مدد کرنا کہ غریب کی مدد کرنا بھی صدقہ ہے، ان کی مہمان نوازی کرنا، ان کے دکھ درد میں شریک ہونا، جب انسان رشتوں کو ملاتا ہے تو ان کی عزت و تکریم کرتا ہے تو اس کی رشتے دار بھی عزت کرتے ہیں کہ جب ایسا شخص بیمار ہوتا ہے تو اس کی عیادت کو جاتے ہیں، اور جب مرجاتا ہے تو اس کی نیک ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔

جس مؤمن کے اچھے ہونے کی گواہی اس کے مرنے کے بعد لوگ دیں تو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسے مومن کے لیے جنت کی بشارت دی ہے۔(صلح رحمی اور قطع تعلقی کے احکام، ص ۴۱)

اللہ کریم ہمیں صلح رحمی قائم کرنے اور قطع تعلقی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


ہمارے معاشرے میں امن و سکون کی کمی پائی جاتی ہے ہر کوئی اپنی اپنی میں لگا ہوا ہے گویا ہر طرف نفسی نفسی کا عالم ہے کسی گھر میں لڑائی جھگڑا ہے تو کسی جگہ بدامنی و بے برکتی ہے، اس کی ایک بڑی وجہ صلہ رحمی کا نہ پایا جانا بھی ہے اگراگر ہماری خواتین صلہ رحمی میں اپنا کر دار ادا کرے تو کتنے ہی مسائل حل ہوجائیں گے اور امن چین کی فضا قائم ہوجائے گی۔

صلہ رحمی میں خواتین کا کردار:

ایک عورت کبھی ماں کبھی بیوی ، کبھی بہو، بہن بیٹی ، پھوپھی خالہ وغیرہ کی صورت میں ہوتی ہے اگر ہر عورت اپنے اپنے حقوق ادا کرنے میں اپنا کردار ادا کرے ہمارا معاشرہ ایک پُر امن معاشرہ بن جائے گا۔مثلا اگر بیوی ہے تو اپنے شوہر کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس گھر والوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا مظاہرہ کرے بچو ں کی اچھی پرورش کرے انہیں ادب سکھائے اس طرح پیارو محبت کی فضا قائم ہوگی اورگھر امن کا گہوارا بھی بن جائے گا۔

اسلامی بہنوں کو چاہیے صلہ رحمی کے معاملے میں اپنی صحابیات و صالحات رضی اللہ عنھن کی سیرت کا بھی مطالعہ کیجئے تاکہ معلوم ہو ہماری نیک بیبیوں کے کیا انداز ہوا کرتے تھے چنانچہ ام المومنین حضرت سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے زیادہ دیندار زیادہ پرہیزگار ، زیادہ سچی ، زیادہ صلہ رحمی اور زیادہ صدقہ کرنے والی کوئی عورت نہیں دیکھی۔(مسلم ص ۳۱۵، حدیث ۲۴۴۲)

فضیلت:

اسی طرح صلح رحمی کے فضائل پر غور کرے کہ فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم :قیامت کے دن اللہ عزوجل کے عرش کے سائے میں تین قسم کے لوگ ہوں گے، ( ان میں سے ایک ہے) صلہ رحمی کرنے والا۔

(الفردوس با ثور۔۔ الخطاب، ج۲، ص ۹۹، حدیث ۲۵۶۲)

قیامت کے دن جب سورج سوا میل پر آگ برسا رہا ہوگا لوگ اپنے پسینے میں سینے تک یا کان تک ڈوبے ہوں گے ان جان کنی کے حالات میں صلہ رحمی کرنے والے کو عرش کا سایہ ملے گا۔

صلہ رحمی نہ کرنے سے کیا نقصان ہوگا ؟:

وعیدات:

حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا : ر شتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔

( بخاری ج ۴، ص ۹۸، حدیث ۵۹۸۴)

غور کیجئے اس سے زیادہ نقصان کس کو ہوگا جس کے بارے میں آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرمادیں وہ جنت میں نہیں جائے گا،اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی مسلمان اسلامی بہنوں کے ساتھ خیر خواہی حسنِ سلوک اور صلہ رحمی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


معاشرے میں محبت و الفت کی کمی، نااتفاقی اور قطع رحمی کی ایک بڑی وجہ حسد جیسی باطنی بیماری ہے، اور بدقسمتی سے اس مرض سے خواتین دو چار ہیں، اگر خواتین حسد و جلن کی بیماری کو اپنے اندر سے ختم کردیں تو معاشرے میں صلہ رحمی بڑھ سکتی ہے، اس بیماری کے خاتمہ سے عورت کسی بھی شعبے میں ہو کسی بھی رشتے میں ہو وہ خود بھی سکون سے رہ سکتی ہے، اور دوسروں کے لیے بھی راحت کا باعث بن سکتی ہے، حسد کی مذمت احادیث مبارکہ میں بھی ملتی ہے، فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آپس میں حسد نہ کرو ، آپس میں بغض و عداوت نہ رکھو، پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی بیان نہ کرو اور اے اللہ کے بندو!بھائی بھائی ہو کر رہو۔ (صحیح بخاری کتاب الادب ج ۴، ص ۶۰۶۶ ص ۱۷۷)

مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں ، یعنی بدگمانی ، حسد، بغض وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن سے محبت ٹوٹتی ہے، اور اسلام بھائی چارہ اور محبت چاہتا ہے۔لہذا یہ عیوب چھوڑ دو تاکہ بھائی بھائی بن جاؤ۔ (مراة المناجیع ۶، صحیح ۶۰۸)

تکبر ریا کاری ، جھوٹ غیبت

سے بھی اور حسد سے بچایا الہی

اگر اس معاشرے میں صلہ رحمی کو بڑھانا ہے تو حسد کا علاج ضروری ہے، عورت ایک ماں ہوتی ہے ماں اپنی اولاد کی تربیت کرتی ہے، وہی ماں اپنی ساس اور نند کی برائی کرے گی تو اپنی اولاد کے دلوں میں دادی اور پھپھو کی محبت کو کم کرے گی اور آگے جا کر یہ محبت کی کمی ان میں قطع تعلقی کا باعث بنے گی اسی طرح عورت آپس میں حسد، و بغض کی وجہ سے ایک دوسرے کی دشمن ہوجاتی ہے اور پھر ان کی نفرت پروان چڑھ کر دو بھائیوں کے درمیان جدائی کا سبب بن جاتی ہے، اسی طرح ساس بہو کی لڑائیاں ایک عورت کو اس کے گھر سے بے گھر کردیتی ہے اور یوں معاشرے میں فساد برپا ہوجاتا ہے، اگر یہی عورت حسد کو ختم کرکے اپنے رب پر بھروسہ کرے تو صلہ رحمی فروغ پاسکتی ہے، اگر عورت ماں ہونے کی حیثیت سے رشتوں کا احترام اپنی اولاد کی تربیت کا حصہ بنائے تو وہی اولاد رشتوں کو مضبوط کرے گی ، صلہ رحمی فروغ پائے گی، اگر ددو عورتیں دل سے کدورت و بغض کو نکال دے اور اللہ کے دیئے پر راضی ر ہے تو دو خاندانوں میں جدائی نہ ہو اسی طرح اگر ساس بہو کی غلطیوں کو در گزر کرے تو طلاق جیسے معاشرے کے بڑے فساد سےبچاسکتا ہے۔(المعجم الکبیر ،حدیث ۲۳۳۷،ص ۲۲۸)

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


آج کل لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر قطع رحمی کرتے ہیں یعنی رشتہ داریاں توڑتے نظر آرہے ہیں اس کی وجہ سے معاشرے میں پیار و محبت نام کی چیز نظر نہ آنے کے مترادف ہے۔اگر ہمارے معاشرے سے قطع تعلقی کی نحوست ختم ہو جائے تو پیار و محبت اور امن و سکون معاشرے کا جزو لاینفک بن سکتا ہے خوشگوار معاشرے کے لیے گھرانوں کا خوشگوار ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ معاشرے Society كی بنیاد ہے۔اس قطع رحمی کی نحوست کو معاشرے سے ختم کرنے کے لیے عورت کا اہم اور بنیادی کردار ہے اس کے لیے عورت بحیثیتِ بہو، ساس اور بیوی کیا کردار ادا کرسکتی ہے اس کی مختصر تفصیل درجِ ذیل ہے۔

بحیثیت بہو:

عورت صلہ رحمی کو بڑھانے کے لیے گھر کا بہت ہم کردار ادا کرسکتی ہے یہاں چند ایک چیزیں بیا ن کی جاتی ہیں کہ جن پر عمل کرکے بہو صلہ رحمی کو فروغ دینے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔بہو کو چاہیے کہ گھر کے ا فراد کے آپسی جھگڑے میں فریق نہ بنے بلکہ جہاں تک ممکن ہو حکمت عملی سے غیر جانب دار رہ کر صلح کی کوشش کرے کہ قرآن پاک میں مسلمانوں کے درمیان صلح کروانے کا حکم دیا گیا ہے۔(پارہ 26 ، سورہ الحجرات 10)

ایک کا راز دوسرے کو بتا کر ہمدرد بننے کی کوشش نہ کرے مثلاً ساس کی کمیٹی ( بیسی) نکلی تو سسر کو بتاکر ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کرنا، یا ایک نند کا راز دوسری کو بتا کر اچھی بننا اپنا ہی مستقبل خراب کرنا ہے ، کہ پول بالاخر کھل ہی جاتا ہے۔

گھر کا سکون برباد کرنے میں سب سے زیادہ کردار گھر کی باتیں باہر کرنے، سسرال والوں کی غیبت و چغلی کرنے اور ان کی شکایات میکے میں کرنے کا ہے ، کیونکہ اس سے غیبتوں، چغلیوں اور تہمتوں کا دروازہ کھلتا ہے جس کی وجہ سے صلہ رحمی کے بجائے قطع رحمی و قطع تعلقی کو خوب فروغ ملتا ہے لہذا بہو کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ساس اگر کسی وجہ سے پریشا ن ہو تو بہو کو چاہیے کہ اس کی دلجوئی کرے کہ اس باہمی تعلقات اچھے ہونے کے ساتھ ساتھ صلہ رحمی کا جذبہ بھی بڑھتا چلا جائے گا۔

بحیثیت بیوی :

میاں بیوی کا رشتہ بڑا پاکیزہ ہوتا ہے شوہر کے گھر میں اگر بیوی سلجھی ہوئی اور باسلیقہ ہو تو نظامِ زندگی بڑا اچھا چل سکتا ہے، بیوی کو چاہے کہ کبھی بھی اپنے خاوند کے سامنے ساس نند وغیرہ کی برائی بیان نہ کرے کیونکہ عام طور پر جھگڑا اس بے وقوفی کی وجہ سے ہی ہوتا ہے اور قطع رحمی کے امکانات کافی بڑھ سکتے ہیں۔

اگر ساس، نند وغیرہ سے کبھی جھگڑا یا کوئی ایسی ویسی بات ہو بھی جائے تو اولاً کوشش کرنی چاہیے کہ شوہر کو اس جھگڑے کا پتا نہ چلے کیونکہ جب شوہر کو جھگڑے کا پتا چلے گا تو ہوسکتا ہے وہ غصے میں آکر اپنی ماں یا بہن سے قطع تعلقی کر بیٹھے جو کہ شرعا ایک ممنوع کام ہے۔

اگر بیوی سے صبر نہ ہوسکے اور شوہر کو بتانے کی نوبت آ ہی جائے تو پھر کوشش کرے کہ بات کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان نہ کرے یعنی چھوٹی سی بات کا پہاڑ نہ بنائے کہ اسی طرح کرنے سے شوہر کے دل میں اپنی ماں بہن کے بارے میں طرح طرح کی بدگمانیاں پیدا ہوسکتی ہیں جو کہ صلہ رحمی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔

بحیثیت ساس:

معاشرے میں ساس بہت زیادہ اہمیت کا حامل رشتہ ہے، ساس اگر اپنی بہو کو اپنی بیٹی کی جگہ رکھ کر اس سے حسنِ سلوک کرے گی تو معاشرے میں صلہ رحمی کی اچھی فضا قائم ہوسکتی ہے۔سا س کو چاہیے کہ اگر بہو کسی معاملے میں کوئی غلطی کر بیٹھے تو اس کے شوہر یعنی اپنے بیٹے کو شکایتی کرنے یا خود ڈانٹنے اور جھاڑنے سے پرہیز کرے بلکہ معاملے کی نوعیت کے مطابق اصلاح کی کوشش کرکے صلہ رحمی کے عنصر کا پروان چڑھے ۔

اگر کبھی بیٹی اور داماد یا بیٹے اور بہو میں کسی بات پر تنازعہ ( رنجش جھگڑا) ہوجائے تو ان کے تنازعے کو بڑھانے کے بجائے ان میں صلح کروانے کی کوشش کرے۔اگر ہر گھر میں ساس یہ اصول " ہم تو بُرا کسی کا دیکھیں، سنیں نہ بولیں" نافذ کروانے میں کامیاب ہوجائے تو کسی حد تک ممکن ہے کہ صلح رحمی کی خوشبوئیں آنا شروع ہوجائیں۔

اللہ کریم جلا جلالہ ہمیں صلہ رحمی کرنے اور قطع رحمی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں