آج
کل لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر قطع رحمی کرتے ہیں یعنی رشتہ داریاں توڑتے نظر آرہے
ہیں اس کی وجہ سے معاشرے میں پیار و محبت نام کی چیز نظر نہ آنے کے مترادف ہے۔اگر
ہمارے معاشرے سے قطع تعلقی کی نحوست ختم ہو جائے تو پیار و محبت اور امن و سکون
معاشرے کا جزو
لاینفک
بن سکتا ہے خوشگوار معاشرے کے لیے گھرانوں کا خوشگوار ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ
معاشرے Society كی بنیاد ہے۔اس قطع رحمی کی نحوست
کو معاشرے سے ختم کرنے کے لیے عورت کا اہم اور بنیادی کردار ہے اس کے لیے عورت
بحیثیتِ بہو، ساس اور بیوی کیا کردار ادا کرسکتی ہے اس کی مختصر تفصیل درجِ ذیل
ہے۔
بحیثیت بہو:
عورت صلہ رحمی کو بڑھانے کے لیے گھر کا بہت ہم کردار ادا کرسکتی ہے یہاں چند ایک چیزیں
بیا ن کی جاتی ہیں کہ جن پر عمل کرکے بہو صلہ رحمی کو فروغ دینے میں کامیاب ہوسکتی
ہے۔بہو کو چاہیے کہ گھر کے ا فراد کے آپسی جھگڑے میں فریق نہ بنے بلکہ جہاں تک
ممکن ہو حکمت عملی سے غیر جانب دار رہ کر صلح کی کوشش کرے کہ قرآن پاک میں
مسلمانوں کے درمیان صلح کروانے کا حکم دیا گیا ہے۔(پارہ 26 ، سورہ الحجرات 10)
ایک کا راز دوسرے کو بتا کر ہمدرد بننے کی کوشش نہ کرے مثلاً
ساس کی کمیٹی ( بیسی) نکلی تو سسر کو
بتاکر ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کرنا، یا ایک نند کا راز دوسری کو بتا کر اچھی
بننا اپنا ہی مستقبل خراب کرنا ہے ، کہ پول بالاخر کھل ہی جاتا ہے۔
گھر کا سکون برباد کرنے میں سب سے زیادہ کردار گھر کی باتیں
باہر کرنے، سسرال والوں کی غیبت و چغلی کرنے اور ان کی شکایات میکے میں کرنے کا ہے
، کیونکہ اس سے غیبتوں، چغلیوں اور تہمتوں کا دروازہ کھلتا ہے جس کی وجہ سے صلہ
رحمی کے بجائے قطع رحمی و قطع تعلقی کو خوب فروغ ملتا ہے لہذا بہو کو اس سے پرہیز
کرنا چاہیے۔ساس اگر کسی وجہ سے پریشا ن ہو تو بہو کو چاہیے کہ اس کی دلجوئی کرے کہ
اس باہمی تعلقات اچھے ہونے کے ساتھ ساتھ صلہ رحمی کا جذبہ بھی بڑھتا چلا جائے گا۔
بحیثیت بیوی :
میاں بیوی کا رشتہ بڑا پاکیزہ ہوتا ہے شوہر کے گھر میں اگر
بیوی سلجھی ہوئی اور باسلیقہ ہو تو نظامِ زندگی بڑا اچھا چل سکتا ہے، بیوی کو چاہے
کہ کبھی بھی اپنے خاوند کے سامنے ساس نند وغیرہ کی برائی بیان نہ کرے کیونکہ عام
طور پر جھگڑا اس بے وقوفی کی وجہ سے ہی ہوتا ہے اور قطع رحمی کے امکانات کافی بڑھ
سکتے ہیں۔
اگر ساس، نند وغیرہ سے کبھی جھگڑا یا کوئی ایسی ویسی بات ہو
بھی جائے تو اولاً کوشش کرنی چاہیے کہ شوہر کو اس جھگڑے کا پتا نہ چلے کیونکہ جب
شوہر کو جھگڑے کا پتا چلے گا تو ہوسکتا ہے وہ غصے میں آکر اپنی ماں یا بہن سے قطع
تعلقی کر بیٹھے جو کہ شرعا ایک ممنوع کام ہے۔
اگر بیوی سے صبر نہ ہوسکے اور شوہر کو بتانے کی نوبت آ ہی
جائے تو پھر کوشش کرے کہ بات کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان نہ کرے یعنی چھوٹی سی
بات کا پہاڑ نہ بنائے کہ اسی طرح کرنے سے شوہر کے دل میں اپنی ماں بہن کے بارے میں
طرح طرح کی بدگمانیاں پیدا ہوسکتی ہیں جو کہ صلہ رحمی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بن
سکتی ہے۔
بحیثیت ساس:
معاشرے میں ساس بہت زیادہ اہمیت کا حامل رشتہ ہے، ساس اگر
اپنی بہو کو اپنی بیٹی کی جگہ رکھ کر اس سے حسنِ سلوک کرے گی تو معاشرے میں صلہ
رحمی کی اچھی فضا قائم ہوسکتی ہے۔سا س کو چاہیے کہ اگر بہو کسی معاملے میں کوئی
غلطی کر بیٹھے تو اس کے شوہر یعنی اپنے بیٹے کو شکایتی کرنے یا خود ڈانٹنے اور
جھاڑنے سے پرہیز کرے بلکہ معاملے کی نوعیت کے مطابق اصلاح کی کوشش کرکے صلہ رحمی
کے عنصر کا پروان چڑھے ۔
اگر کبھی بیٹی اور داماد یا بیٹے اور بہو میں کسی بات پر
تنازعہ ( رنجش جھگڑا) ہوجائے تو ان کے تنازعے کو بڑھانے کے بجائے ان میں صلح
کروانے کی کوشش کرے۔اگر ہر گھر میں ساس یہ اصول " ہم تو بُرا کسی کا دیکھیں، سنیں نہ
بولیں" نافذ کروانے میں کامیاب ہوجائے تو کسی حد تک ممکن ہے کہ صلح رحمی کی
خوشبوئیں آنا شروع ہوجائیں۔
اللہ کریم جلا
جلالہ ہمیں صلہ رحمی کرنے اور قطع رحمی سے بچنے کی توفیق عطا
فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں