حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں اپنے بھائیوں میں سے کسی بھائی کے ساتھ صلہ رحمی کروں یہ چیز بیس درہم صدقہ کرنے سے بھی زیادہ محبوب ہے، قرابت داروں پر خرچ کرنے والا شخص سخی اور صاحب جو وکرم ہے۔

قرآن کی روشنی میں:

اور وہ کہ جوڑتے ہیں اسے جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا اور اپنے رب سے ڈرتے اور حساب کی برائی سے اندیشہ رکھتے ہیں۔ (القرآن ، سورة الرعد، آیت ۲۱۔۱۳)

احادیث کی روشنی میں :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:صلہ رحمی اہل و عیال اور اہل خاندان میں باہمی محبت ، مال میں فراوانی اور عمر میں درازی کا باعث ہوتی ہے۔(مسند احمد)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جسے یہ بات خوشگوار لگے کہ اس کے رزق میں اضافہ ہو اور اس کی عمر دراز ہو اسے صلہ رحمی کرنی چاہیے۔ (بخاری و مسلم شریف)

ایک اور مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اللہ پراور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔(متفق علیہ)

پیارے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: رشتہ داری رحمن کی ایک شاخ ہے، پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ، اے رشتے داری جو تجھے جوڑے گا میں اس سے جڑوں گا، دراصل اللہ تعالیٰ کا ڈر وہ جس کی وجہ سے ہم رحم کے رشتے کو نبھا سکتے ہیں اور انسانیت کے تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں، اگر میں اپنے خاندان کو جوڑے رکھتی ہوں اور اس کی تربیت پر توجہ دیتی ہوں اگر اپنے خاندان کو رول ماڈل بنانا چاہتی ہوں تو اس لیے کہ میرا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوجائے اور اگر ہم اسی سوچ کو بناد بناتے ہیں ، خاندان کی خبر گیری کرتے ہیں تو یقینا وہ سوسائٹی وجود میں آئے گی جسے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وجود میں آئے۔

اسلام میں خاندان کا تصور بہت وسیع ہے اور اس میں بنیادی اور کلیدی کردار عورت کا ہے اکثر عورتیں ہی خاندان کے لئے فیصلے اور طریقے متعین کرتی ہیں اور اسی بنا پر اسے قرآن میں گھروں میں رہنے کا حکم فرمایا ہے تاکہ وہ مضبوطی سے اپنے فرائض انجام دے سکے، عورت کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ کس طرح اپنے گھر اور خاندان کی حفاظت کرتی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :دنیا کی بہترین متاع نیک بیوی ہے۔(مسلم شریف)

اور نیک بیوی وہ ہے جب تم اسے دیکھو تو وہ تمہیں خوش کردے۔جب کوئی حکم دو تو اطاعت کر ے اور جب تم گھر پر رہو تو وہ تمہارے گھر اور بچو کی حفاظت کرے۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں