معاشرے میں محبت و الفت کی کمی، نااتفاقی اور قطع رحمی کی ایک
بڑی وجہ حسد جیسی باطنی بیماری ہے، اور بدقسمتی سے اس مرض سے خواتین دو چار ہیں،
اگر خواتین حسد و جلن کی بیماری کو اپنے اندر سے ختم کردیں تو معاشرے میں صلہ رحمی
بڑھ سکتی ہے، اس بیماری کے خاتمہ سے عورت کسی بھی شعبے میں ہو کسی بھی رشتے میں ہو
وہ خود بھی سکون سے رہ سکتی ہے، اور دوسروں کے لیے بھی راحت کا باعث بن سکتی ہے،
حسد کی مذمت احادیث مبارکہ میں بھی ملتی ہے، فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ
وسلم آپس میں حسد نہ کرو ، آپس میں بغض و عداوت نہ رکھو، پیٹھ
پیچھے ایک دوسرے کی برائی بیان نہ کرو اور اے اللہ کے بندو!بھائی بھائی ہو کر رہو۔ (صحیح بخاری کتاب الادب ج ۴، ص ۶۰۶۶ ص ۱۷۷)
مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان اس حدیث پاک
کے تحت فرماتے ہیں ، یعنی بدگمانی ، حسد، بغض وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن سے محبت ٹوٹتی
ہے، اور اسلام بھائی چارہ اور محبت چاہتا ہے۔لہذا یہ عیوب چھوڑ دو تاکہ بھائی
بھائی بن جاؤ۔ (مراة المناجیع ۶، صحیح ۶۰۸)
تکبر ریا کاری ، جھوٹ غیبت
سے بھی اور حسد سے بچایا الہی
اگر اس معاشرے میں صلہ رحمی کو بڑھانا ہے تو حسد کا علاج
ضروری ہے، عورت ایک ماں ہوتی ہے ماں اپنی اولاد کی تربیت کرتی ہے، وہی ماں اپنی
ساس اور نند کی برائی کرے گی تو اپنی اولاد کے دلوں میں دادی اور پھپھو کی محبت کو
کم کرے گی اور آگے جا کر یہ محبت کی کمی ان میں قطع تعلقی کا باعث بنے گی اسی طرح
عورت آپس میں حسد، و بغض کی وجہ سے ایک دوسرے کی دشمن ہوجاتی ہے اور پھر ان کی
نفرت پروان چڑھ کر دو بھائیوں کے درمیان جدائی کا سبب بن جاتی ہے، اسی طرح ساس بہو
کی لڑائیاں ایک عورت کو اس کے گھر سے بے گھر کردیتی ہے اور یوں معاشرے میں فساد
برپا ہوجاتا ہے، اگر یہی عورت حسد کو ختم کرکے اپنے رب پر بھروسہ کرے تو صلہ رحمی
فروغ پاسکتی ہے، اگر عورت ماں ہونے کی حیثیت سے رشتوں کا احترام اپنی اولاد کی
تربیت کا حصہ بنائے تو وہی اولاد رشتوں کو مضبوط کرے گی ، صلہ رحمی فروغ پائے گی،
اگر ددو عورتیں دل سے کدورت و بغض کو نکال دے اور اللہ کے دیئے پر راضی ر ہے تو دو خاندانوں میں جدائی نہ ہو اسی
طرح اگر ساس بہو کی غلطیوں کو در گزر کرے تو طلاق جیسے معاشرے کے بڑے فساد
سےبچاسکتا ہے۔(المعجم الکبیر ،حدیث ۲۳۳۷،ص ۲۲۸)
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں