ہمارا
پیار ا دین اسلام جہاں ہمیں اخوت ( بھائی چارہ) اور برداشت سکھاتا ہے وہی یہ پیار
ا دین ہمیں صلہ رحمی کا درس بھی دیتا ہے، آج معاشرے میں
نااتفاقی اور محبت و الفت کی کمی کی ایک بہت بڑی وجہ صلہ رحمی کی کمی ہے، جس کے
سبب ہمارا معاشرہ بکھر کر جدا جدا ہوگیا ہے اب ہمیں اس اس بکھرے ہوئے معاشرے کو
سمیٹ کر ایک بہترین معاشرہ قائم کرنا ہے اور اس میں بہترین کردار ایک عورت ادا
کرسکتی ہے کہ ایک عورت ہی ماں، بہن ، بیوی، بہو، بیٹی ساس اور نند کی صورت میں
اپنے معاشرے میں بہترین سدھار پیدا کرسکتی ہے، اور اس کا بہترین طریقہ صلح رحمی
اور برداشت کو قائم کرنا ہے۔
صلح رحمی کسے کہتے ہیں؟:
صلہ
کے لغوی معنی ہے ایک شے کو دوسری شے کے ساتھ ملانا اصطلاحی معنی ، رشتے داریاں
قائم رکھنا اور رشتے داروں سے اچھااسلوک کرنا۔ (صلح رحمی اور قطع تعلقی کے احکام ،ص
۲۲۲)
صلہ رحمی اللہ عزوجل کی ایسی اطاعت ہے کہ
پچھلی شریعتوں میں بھی اس کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں اس کی تعریف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
ترجمہ کنزالایمان: اور وہ کہ جوڑتے ہیں اسے جس کے
جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا اور اپنے
رب سے ڈرتے اور حساب کی برائیوں سے اندیشہ رکھتے ہیں۔(سورة الرعد آیت نمبر:21)
ایک اور مقام پر صلح رحمی کے متعلق اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: وَاتَّقُوااللّٰهَ
الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَالْاَرْحَامَؕ-
ترجمہ کنزالایمان :اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو (سورة النسا آیت: ۱)
اس آیت مبارکہ میں رشتوں کا لحاظ رکھنے کا ارشاد فرمایا گیا
ہے آج ہمارے معاشرے میں ایک تعداد ایسی ہے جو غیروں کے ساتھ تو اچھا سلوک کرتی ہیں
ان سے اچھے انداز ملتی ہیں لیکن اپنے گھر والوں اور رشتے داروں کے لیے ایک مسکراہٹ
بھی نہیں ہوتی ان کے پاس بیٹھنے کے لیے چند لمحے نہیں ہوتے، غیروں پر رحم کرنا اگر
چہ بہت بڑی نیکی ہے لیکن گھر والوں پر رحم کرنا ضروری ہے اور اس پر زیادہ اجرو
ثواب ہے۔
چنانچہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ
تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت میں سے قیامت کے دن ایک شخص
کولایا جائے گا اور اس کے پاس ایسی کوئی نیکی نہیں ہوگی جس بنا پر جنت کی امید کی
جاسکے تو اللہ کریم ارشاد فرمائے
گا اس کو جنت میں داخل کردو اس لیے کہ یہ اپنے گھر والوں پر رحم کرتا
تھا۔(کنزالعمال، جلد ۱۶، ص ۳۷۹)
رشتے داروں کے ساتھ سلوک اس کا نام نہیں کہ وہ اچھا سلوک
کرے تو تم بھی کرو بلکہ یہ تو مکافات یعنی ادلا بدلہ کرنا ہے حقیقتاً صلہ ر حمی پر
ہے، کہ وہ کاٹے اور تم جوڑو وہ تم سے جدا ہونا چاہتی ہو اور تم اس کے ساتھ رشتے کے
حقوق کی رعایت و لحاظ رکھو۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا
کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں وسعت اور اس کی عمر دراز ہو تو اسے چاہیے
کہ وہ صلح رحمی کرے۔(صحیح بخاری جلد۸، ص ۵)
صلح رحمی کو بڑھانے کی مختلف صورتیں ہیں:
مثلاًایسے رشتے داروں سے وقتا فوقتا ملاقات کو جانا، پریشان
اسلامی بہن کی مدد کرنا، ان کی حاجت پوری کرنا، انہیں سلام کرنا، ان کے پاس ا ٹھنا
بیٹھنا ہے، ان سے بات چیت کرنا ، ان سے لطف و مہربانی سے پیش آنا، اگر کسی اسلامی
بہن کی کوئی بات بُری لگ جائے تو اسے در گزر کرنا، رشتے داروں پر مالی خرچ کرنا
یعنی اگر وہ غریب ہیں تو ان کی مدد کرنا کہ غریب کی مدد کرنا بھی صدقہ ہے، ان کی
مہمان نوازی کرنا، ان کے دکھ درد میں شریک ہونا، جب انسان رشتوں کو ملاتا ہے تو ان
کی عزت و تکریم کرتا ہے تو اس کی رشتے دار بھی عزت کرتے ہیں کہ جب ایسا شخص بیمار
ہوتا ہے تو اس کی عیادت کو جاتے ہیں، اور جب مرجاتا ہے تو اس کی نیک ہونے کی گواہی
دیتے ہیں۔
جس مؤمن کے اچھے ہونے کی گواہی اس کے مرنے کے بعد لوگ دیں
تو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسے مومن کے لیے جنت کی بشارت دی ہے۔(صلح رحمی اور قطع تعلقی کے احکام، ص
۴۱)
اللہ کریم ہمیں صلح رحمی قائم کرنے اور قطع تعلقی سے بچنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ
الْاَمِیْن صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں