دھاتیں:80 سے زیادہ عناصر دھات کی شکل میں پائے جاتے ہیں، زیادہ تر دھاتیں بہت عامل(reactive) ہوتی ہیں اور اس کی وجہ سے بیرونی پرت میں آزاد حالت میں نہیں ملتیں، بلکہ کسی دوسرے عنصر(element) یا عناصر کے ساتھ مرکب(کمپاؤنڈ) حالت میں ملتی ہیں۔ صرف سونا اور پلاٹینم آزاد حالت میں ملتے ہیں اور وہ بھی بہت ہی کم، شاذونادر چاندی، تانبا، پارہ اور بسمتھ بھی آزاد حالت میں مل جاتے ہیں، کیونکہ یہ دھاتیں کیمیائی اعتبار سے بہت کم عامل ہوتی ہیں۔ساری دھاتیں زنگ یا آکسائیڈ کی غیر موجودگی میں چمک دار ہوتی ہیں، ان میں سے بجلی اور حرارت آسانی سے گزر سکتی ہے اور یہ عموماً مضبوط، سخت اور بھاری ہوتی ہیں اور وزن اور ہتھوڑے کی چوٹیں برداشت کر لیتی ہیں، ساری دھاتیں کمرے کے درجہ حرارت پر موجود ہوتی ہیں، سوائے پارہ اور سیزیٹم کے، لوہا، تانبا، نکل اور کرو میٹم دھاتوں کی مثالیں ہیں:قرآن ِکریم میں ہر شے کا ذکر ہوا ہے۔ قرآنِ کریم میں دھاتوں کا ذکر درج ذیل ہے، ان میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے:1۔زخرف :زخرف کا معنی ہے”سونا“، نیز کسی چیز کے حسن کا کمال بھی زخرف کہلاتا ہے، سورۂ زخرف کی آیت نمبر 35 میں کلمہ”وزخرفا“مذکور ہے:وزخرفا وان کل ذلک لما متاع الحیوۃ الدنیا والآخرۃ عند ربک للمتقین۔ترجمہ:اور سونا اور جو کچھ ہے،سب دنیاوی زندگی ہی کا سامان ہے اور آخر تمہارے ربّ کے پاس پرہیزگاروں کے لئے ہے۔آیت نمبر 33 ۔35 کا خلاصہ یہ ہے:اگر اس بات کا لحاظ نہ ہوتا کہ کافروں کے مال و دولت کی کثرت اور عیش و عشرت کی بہتات دیکھ کر سب لوگ کافر ہو جائیں گے تو ہم ضرور کافروں کو اتنا سونا چاندی دے دیتے کہ وہ انہیں پہننے کے علاوہ ان سے اپنے گھروں کی چھتیں اور سیڑھیاں بناتے، جن پر وہ چڑھتے اور وہ اپنے گھروں کے لئے چاندی کے دروازے بناتے اور بیٹھنے کے لئے چاندی کے تخت بناتے اور وہ طرح طرح کی آرائش کرتے۔کیونکہ دنیا اور اس کے سامان کی ہمارے نزدیک کچھ قدر نہیں، یہ بہت جلد زائل ہونے والا ہے اور جو کچھ ہے سب دنیاوی زندگی ہی کا سامان ہے،جس سے انسان بہت ہی تھوڑا عرصہ فائدہ اٹھا سکے گا اور آخرت تمہارے ربّ کے پاس ہے،ان پرہیزگاروں کے لئے، جنہیں دنیا کی چاہت نہیں۔(خازن، الزخرف، تحت الآیۃ33۔35،4/105)2۔حدید:عربی میں لوہے کو حدید کہتے ہیں، اس سورت کی آیت نمبر 25 میں اللہ پاک نے حدید یعنی لوہے کے فوائد بیان فرمائے ہیں: لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۚوَ اَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ۔ترجمہ:اور ہم نے اُتارا،اس میں سخت لڑائی(کا سامان)ہے اور لوگوں کے لئے فائدےہیں۔لوہے کا فائدہ:لوہے کا فائدہ یہ ہے کہ اس میں انتہائی سخت قوت ہے، یہی وجہ ہے کہ اس سے اسلحہ اور جنگی سازوسامان بنائے جاتے ہیں اور اس میں لوگوں کے لئے اور بھی فائدے ہیں کہ لوہا صنعتوں اور دیگر پیشوں میں بہت کام آتا ہے۔3۔المطففین:آیت نمبر 14: کَلَّا بَلْ سکتہ رَانَ عَلیٰ قُلُوبِھِمْ مَّا کَانُوا یَکْسِبُوْنَ۔ ترجمہ: ہرگز نہیں بلکہ ان کے کمائے ہوئے اعمال نے ان کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے۔ہرگز نہیں:یعنی اس سرکش اور گنہگار کا یہ کہنا غلط ہے کہ قرآن تو سابقہ لوگوں کے قصّوں، کہانیوں کی بات ہے، یعنی اس طرح کی باتیں کرکے اس کا اثر اپنے اوپر نہیں ہونے دیتے، تو اصل بات یہ ہے کہ ان کے دل زنگ آلودہ اور سیاہ ہو گئے ہیں، اسی وجہ سے وہ حق کو نہیں پہچان سکتے۔(المطففین، تحت الآیۃ 8،10/367)4۔الفیل:سورۂ فیل کی آیت نمبر 4 میں ہے:تَرْمِیْهِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ۔ترجمہ: جو انہیں کنکر کے پتھروں سے مارتے تھے۔اس واقعہ فیل مراد ہے۔(الفیل، تحت الآیۃ 1۔5،4/407۔410)قرآنِ کریم کا ایک ایک لفظ بہت اہمیت کا حامل ہے، مختلف دھاتوں کا روزمرہ زندگی(انسانی) میں کردار بہت اہم رہا ہے، جیسا کہ لوہا صدیوں سے لے کر آج تک ذریعہ معاش میں اس کا اہم کردار رہا ہے، دھات بھی اللہ پاک کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، جس پرہمیں اللہ پاک کی شکر گزار رہنا چاہئے۔


کُرّہ ٔزمین پر پائے جانے والے ربّ کریم کے بے شمار احسانات میں سے ایک مختلف قسم کی دھات بھی ہیں، دھاتوں میں سونا، چاندی،تانبا، سیسہ، پیتل وغیرہ شامل ہیں، زیورات برتن، ہزار قسم کی سجاوٹ کی اشیاء،بجلی کے تار، الیکٹرانک کی اشیا وغیرہ سب ان دھاتوں ہی کی مصنوعات ہیں، کچھ خوش نصیب دھات ایسے بھی ہیں، جن کا ذکر ربِّ کریم نے قرآنِ کریم میں فرمایا۔ سونا:قرآن ِکریم  میں اس کے لئے”ذھب“کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، اس کے علاوہ قرآنِ کریم کی ایک سورت کا نام زخرف ہے، جس کا معنی بھی سونا ہے، چنانچہ سورۂ زخرف، آیت 43 میں نعمتوں کے ذکر میں سونے کا تذکرہ فرمایا: ان پر سونے کی تھالیوں اور باموں کے دور ہوں گے۔ چاندی:قرآنِ کریم میں چاندی کا ذکر موجود ہے، اس کے لئے”فضۃ“کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، قیامت کا منظر بیان کرتے ہوئے چاندی کا ذکر ہے، سورۃ المعارج آیت 8 میں ارشاد ہے: جس دن آسمان پگھلی ہوئی چاندی جیسا ہو جائے گا۔تانبا: تانبے کا ذکر قرآن ِکریم میں موجود ہے:ترجمہ:اور ہم نے اس کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہا دیا۔(سورۃ سبا، آیت 12)لوہا:حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے لوہا نرم کیا گیا، جس کے ذریعے وہ زرہیں بنا کر بیچتے تھے، اس کا ذکر بھی قرآن ِکریم میں سورۂ سبا میں موجود ہے، اس کے ساتھ مروی ہے : لوہا آسمان سے زمین کی طرف اتارا گیا۔سیسہ:سورۃ الصف میں مجاہدین کی صف کی تعریف کرتے ہوئے ربّ کریم فرماتا ہے: بے شک اللہ ان لوگوں سے محبت فرماتا ہے، جو اس کی راہ میں اس طرح صف باندھ کر لڑتے ہیں، گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔یعنی ان میں ایک سے دوسرا ملا ہوا، ہر ایک اپنی اپنی جگہ جما ہوا،اور دشمن کے مقابلے میں سب ایک چیز کی طرح ہیں۔(صراط الجنان، جلد 10)اگر کوئی خوف رکھنے والا ہو تو وہ ان دھاتوں کو دیکھ کر کبھی خدا کی عظمت کا اعتراف کرے، کبھی فکرِآخرت اسے گھیر لے، کبھی قیامت کا دہشت ناک منظر اس کی آنکھوں کے سامنے ہو، تو کبھی جنت میں پیش کئے جانے والے سونے اور چاندی کے برتنوں کی یاد میں کھو جائے۔اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں اپنا خوف عطا فرمائے۔آمین


دھات:وہ معدنی جوہر جس میں پگھلنے کی صلاحیت ہوتی ہے، اسے دھات کہتے ہیں،  جیسے سونا، چاندی، دھات کو پتھروں، چٹانوں اور زمین کی تہہ سے نکالا جاتا ہے، فطری طور پر دھاتیں ٹھوس حالت میں پائی جاتی ہیں۔ قرآن اور دھات:قرآن ِکریم میں اَز ابتداء تا اِنتہا ہر چیز کا بیان ہے، بعض کا صراحتاً اور بعض کا اجمالاً، بعض کا ظاہراً بیان ہے اور کچھ کا پوشیدہ طور پر، ربّ کریم فرماتا ہے:مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ۔ترجمۂ کنز العر فان:ہم نے اس کتاب میں کسی شے کی کمی نہیں چھوڑی۔(پ7،انعام:38)ایک جگہ ارشاد فرمایا:وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ۔ترجمۂ کنزالعرفان: اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے۔ (پارہ 14، سورہ نحل:89)شَیْءٍ ہر موجود کو کہتے ہیں، اس میں جملہ موجودات داخل ہیں۔ حضرت ابوبکر مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:عالم میں کوئی چیز ایسی نہیں، جو کتاب اللہ میں مذکور نہ ہو۔ (الاتقان فی علوم القرآن،ج2،ص477) قرآنِ کریم میں ظاہراً تقریباً چار دھاتوں کا ذکر موجود ہے، نمبر1:لوہا، نمبر 2: سونا، نمبر 3:چاندی، نمبر4: تانبا۔ لوہا:یہ سیاہی مائل سخت دھات ہے، جو مقناطیسی عناصر میں سے ہے، اس کا ایٹمی نمبر 26 ہے، یہ تقریباً تین ہزار تین سو سال پہلے دریافت ہوا، یہ سستی ترین دھات ہے، جو زمین میں عام پائی جاتی ہے اور صنعتی میدان میں اس کا استعمال کثیر ہے، قرآنِ کریم کی ایک سورت کا نام حدید یعنی لوہا ہے، ربّ کریم نے اس کے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْهِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ۔ترجمہ ٔکنزالعرفان:ہم نے لوہا اتارا،اس میں سخت لڑائی (کا سامان) ہے اور لوگوں کے لئے فائدے ہیں۔(پارہ 27، سورہ حدید، آیت 25) مفسرین فرماتے ہیں: اتارنے سے مراد پیدا کرنا ہے۔ نبی پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے چار بابرکت چیزیں آسمان سے زمین کی طرف اتاریں، لوہا، آگ ،پانی، نمک۔ (مسند الفردوس، باب الالف،1/175، حدیث656)رب کریم نے حضرت داؤد علیہ السلام کے معجزے کا ذکر کرتے ہو ئے فرمایا:وَ اَلَنَّا لَهُ الْحَدِیْدَ ۙ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور ہم نے اس کے لئے لوہا نرم کیا۔ (پ22،سبا:10) لوہا حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھ میں گندھے ہوئے آٹے کی طرح نرم ہو جاتا تھا۔سونا:یہ نرم چمکدار اور پیلے رنگ کی دھات ہے، یہ تقریباً آٹھ ہزار سال پہلے دریافت ہوا، اس کا ایٹمی نمبر 79ہے، یہ مہنگی ترین دھات ہے، اسی سے زیورات اور سکے بنائے جاتے ہیں، سونے کے سکے کو دینار کہتے ہیں، اللہ پاک نے سورۂ الِ عمران آیت نمبر 75 میں دینار کا ذکر فرمایا ہے، نیز سونا جنتیوں کا زیور ہے، اللہ پاک فرماتا ہے:یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ۔ترجمۂ کنزالعرفان:انہیں ان باغوں میں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ (پ15،الکہف:31)چاندی:یہ چمکیلی سفید یاسر مئی رنگت والی دھات ہے، یہ تقریباً چھ ہزار سال پہلے دریافت ہوئی، اس کا ایٹمی نمبر 47 ہے، اس سے بھی زیورات اور سکے بنائے جاتے ہیں، چاندی کے سکے کو درہم کہتے ہیں، اللہ پاک نے سورہ ٔیوسف آیت نمبر 20 میں درہم کا ذکر فرمایا ہے، نیز جنت میں چاندی کے برتن ہوں گے، ربّ کریم فرماتا ہے:وَ یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِاٰنِیَةٍ مِّنْ فِضَّةٍ وَّ اَكْوَابٍ كَانَتْ قَؔوَارِیْرَاۡ ۙ۔ترجمۂ کنزالعرفان:اور ان پر چاندی کے برتنوں اور گلاسوں کا دور ہوں گے۔(پ29، الدھر:15) اور جنتیوں کو چاندی کا زیور پہنایا جائے گا، ارشاد باری ہے:وَّ حُلُّوْۤا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ ۚ۔ترجمۂ کنزالعرفان:اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے۔(پ29، الدھر: 21)شرعی مسئلہ:سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا پینا ناجائز ہے، عورت کے لئے سونے چاندی کے زیورات پہننا جائز ہے اور مرد کے لئے فقط چاندی کی ساڑھے چار ماشے سے کم وزن اور ایک نگینے والی فقط ایک انگوٹھی پہننا جائز ہے، اس کے علاوہ ہر دھات کا بنا ہوا زیور پہننا نا نا جائز ہے۔تانبا:یہ نرم روشن اور سرخ رنگت والی دھات ہے، یہ تقریباً چھ ہزار دو سو سال پہلے دریافت ہوا، اس کا ایٹمی نمبر 29 ہے، اس سے تاریں، سکے اور سجاوٹی اشیاء بنائی جاتی ہیں، میٹالرجیکل صنعت میں یہ سب سے اہم دھات ہے، ربّ کریم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے تانبے کے چشمے کو ظاہر فرمایا، اللہ پاک فرماتا ہے:وَ اَسَلْنَا لَهٗ عَیْنَ الْقِطْرِ ؕترجمۂ کنزالایمان:ہم نے اس کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہا دیا۔ (22،سبا:12)مفسرین فرماتے ہیں:یہ چشمہ تین دن تک سر زمین ِیمن میں پانی کی طرح جاری رہا۔(تفسیرمدارک،ص958)اللہ پاک ہمیں فہمِ قرآن عطا فرمائے۔آمین


قرآنِ پاک میں ہر چیز کی رہتی دنیا تک کے لئے رہنمائی موجود ہے، اس طرح اس میں ہر چیز کا بیان بھی موجود ہے، جس میں دھات بھی شامل ہیں، مثلاً لوہا، ترازو وغیرہ، ربّ کریم ارشاد فرماتا ہے:لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۚ وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْهِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ وَ رُسُلَهٗ بِالْغَیْبِ ؕاِنَّ اللّٰهَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ۔ترجمہ:بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور عدل کی ترازو اُتاری کہ لوگ انصاف پر قائم ہوں اور ہم نے لوہا اتارا، اس میں سخت آنچ اور لوگوں کے فائدے اور اس لئے کہ اللہ دیکھے اس کو جو بے دیکھے، اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے، بے شک اللہ قوت والا غالب ہے۔ (پارہ 27، سورہ حدید، آیت 25) لوہا:مفسرین نے فرمایا: یہاں آیت میں”اتارنا“ پیدا کرنے کے معنی میں ہے اور مراد یہ ہے کہ ہم نے لوہا پیدا کیا اور لوگوں کے لئے معادن سے نکالا اور انہیں اس کی صنعت کا علم دیا۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے چار بابرکت چیزیں آسمان سے زمین کی طرف اتاریں، لوہا، آگ ،پانی، نمک۔(مسند الفردوس، باب الالف،1/175، حدیث656)لوہے کا فائدہ یہ ہے کہ اس میں انتہائی سخت قوت ہے، یہی وجہ ہے کہ اس سے اسلحہ اور جنگی سازوسامان بنائے جاتے ہیں اور اس میں لوگوں کے لئے اور بھی فائدے ہیں کہ لوہا صنعتوں اور دیگر پیشوں میں بہت کام آتا ہے، آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا : لوہا نازل کرنے سے مقصود یہ ہے کہ اللہ پاک اس شخص کو دیکھے، جو جہاد میں لوہے کو استعمال کرکے اللہ پاک کے دین کی مدد کرتا ہے۔


قرآن ِمجید فرقانِ حمید وہ کتاب ہے کہ جو آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر نازل فرمائی گئی، جس میں ہر شے کا بیان ہے۔وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً وَّ بُشْرٰى لِلْمُسْلِمِیْنَ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے اور ہدایت اور رحمت اور بشارت مسلمانوں کو۔(پارہ 14، سورہ نحل:89) ابنِ ابو الفضل عرسی نے کہا: اوّلین و آخرین کے تمام علوم قرآنِ پاک میں ہیں، غرض یہ کتاب جامع ہے، جمیع علوم کی، جس کسی کو اس کا جتنا علم ملا ہے اتنا ہی جانتا ہے۔قرآن میں علومِ دینیہ بھی ہیں اور علومِ دنیا بھی، اس میں جہاں عبادات، معاملات، اطاعات، مہلکات اور منجیات کا علم ہے، وہاں سائنس، فلسفہ، حکومت، معاشرت اور وراثت جیسے علوم بھی مذکور ہیں۔قرآن میں یہاں تک کہ پہاڑوں، دریا، چشمے، کنویں،کوہسار، نباتات اور حیوانات کا ذکر بھی ہے اور ہر چھوٹی، بڑی شے کا بھی، قرآن میں مختلف دھاتوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ 1۔الحدیدیعنی لوہا:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا ؕیٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَهٗ وَ الطَّیْرَ ۚوَ اَلَنَّا لَهُ الْحَدِیْدَ ۙ۔ترجمۂ کنز الایمان:اور ہم نے داؤد کو اپنا بڑا فضل دیا اور اے پہاڑوں،اس کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرو اور اےپرندو اور ہم نے اس کے لئے لوہا نرم کیا۔(سورہ سبا، آیت 10)2۔القطر یعنی تانبا:وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَّ رَوَاحُهَا شَهْرٌ ۚ وَ اَسَلْنَا لَهٗ عَیْنَ الْقِطْرِ ؕ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور سلیمان کے بس میں ہوا کر دی،اس کی صبح کی منزل ایک مہینہ کی راہ اور شام کی منزل ایک مہینے کی راہ اور ہم نے اس کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہایا۔(سورہ سبا،آیت 12)3۔الفضۃ یعنی چاندی:زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِ ؕ۔ترجمۂ کنزالایمان:لوگوں کے لئے آراستہ کی گئی ان کی خواہشوں کی محبت عورتیں اور بیٹے اور تلے اوپر سونے چاندی کے ڈھیر اور نشان کئے ہوئے گھوڑے اور چوپائے۔(سورۂ ال عمران،14)4۔الذہب یعنی سونا:اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّ لُؤْلُؤًا ؕ۔ترجمۂ کنز الایمان:بے شک اللہ داخل کرے گا انہیں جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے بہشتوں میں، جن کے نیچے نہریں بہیں، اس میں پہنائے جائیں گے سونے کے کنگن اور موتی۔(سورۃ الحج، 23)


قرآن پاک کی بھی کیا ہی شان ہے ۔ اللہ پاک نے اس پاک کتاب میں ہم انسانوں کے لئے اتنا کچھ رکھا ہے کہ ہماری زندگیاں بِیت جائیں مگر ہم اس وسیع کتاب کے علم کا کامل اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ اگر تفکر کریں تو یہی سمجھ آتا ہے کہ اس میں ہر چیز ذکر موجود ہے۔

اللہ پاک نے اس میں مختلف مقامات پر دھاتوں کا بھی ذکر فرمایا۔ جن میں سے کچھ یہاں مذکور ہیں:

(1) وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْهِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ وَ رُسُلَهٗ بِالْغَیْبِؕ-اِنَّ اللّٰهَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ۠ (۲۵) ترجمۂ کنز العرفان: اور ہم نے لوہا اتارا، اس میں سخت لڑائی (کا سامان) ہے اور لوگوں کے لئے فائدے ہیں اور تاکہ اللہ اس شخص کو دیکھے جو بغیر دیکھے اللہ اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے، بیشک اللہ قوت والا، غالب ہے۔ (پ27،الحدید:25) اس آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے مفتی قاسم صاحب دامت برکاتہم العالیہ لکھتے ہیں کہ اللہ پاک نے اپنے رسولوں کو ان کی امتوں کی طرف روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ساتھ ہی جن چیزوں کو نازل فرمایا ان میں سے لوہا (جو کہ ایک دھات) ہے اس کو بھی نازل فرمایا۔

مفسرین نے فرمایا کہ یہاں آیت میں ”اتارنا“ پیدا کرنے کے معنی میں ہے اور مراد یہ ہے کہ ہم نے لوہا پیدا کیا اور لوگوں کے لئے مَعادِن سے نکالا اور انہیں اس کی صنعت کا علم دیا ۔ اور لوہے کا فائدہ یہ ہے کہ اس میں انتہائی سخت قوت ہے، یہی وجہ ہے کہ اس سے اسلحہ اور جنگی ساز و سامان بنائے جاتے ہیں اور اس میں لوگوں کیلئے اور بھی فائدے ہیں کہ لوہا صنعتوں اور دیگر پیشوں میں بہت کام آتا ہے۔

(2) وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًاؕ-یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَهٗ وَ الطَّیْرَۚ-وَ اَلَنَّا لَهُ الْحَدِیْدَۙ(۱۰) ، ترجمہ کنزالعرفان: اور بیشک ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے بڑا فضل دیا۔ اے پہاڑو اور پرندو ! اس کے ساتھ (اللہ کی طرف) رجوع کرو اور ہم نے اس کے لیے لوہا نرم کردیا۔ (پ 22 ، سبا: 10) اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ہے: اللہ پاک نے حضرت داؤد علیہ السّلام کو ایک یہ بھی معجزہ عطا فرمایا کہ جب آپ لوہے کو ہاتھ میں لیتے تو وہ موم کی طرح یا گندھے ہوئے آٹے کی طرح نرم ہوجاتا۔

(3) وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ (۳۴) ترجمۂ کنزالعرفان: اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کر رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔(پ 10،التوبۃ:34)

وَ یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِاٰنِیَةٍ مِّنْ فِضَّةٍ وَّ اَكْوَابٍ كَانَتْ قَؔوَارِیْرَاۡۙ(۱۵) قَؔوَارِیْرَاۡ مِنْ فِضَّةٍ قَدَّرُوْهَا تَقْدِیْرًا(۱۶) ترجمۂ کنز العرفان: اور ان پر چاندی کے برتنوں اور گلاسوں کے دَور ہوں گے جو شیشے کی طرح ہوں گے۔ چاندی کے شفاف شیشے جنہیں پلانے والوں نے پورے اندازہ سے (بھر کر) رکھا ہوگا۔(پ 29 ، الدھر: 16،15) تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ ان نیک بندوں پر چاندی کے برتنوں اور گلاسوں میں جنتی شراب کے دَور ہوں گے اور وہ برتن چاندی کے رنگ اور اس کے حسن کے ساتھ شیشے کی طرح صاف شفاف ہوں گے ۔

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ کس طرح مختلف اعتبار سے دھاتوں کا تذکرہ کیا گیا۔ کہیں پر لوہے کے سخت ہونے کا ذکر کہ یہ جنگ و جہاد میں استعمال کیا جائے تو کہیں پر وہی لوہا نبی کے ہاتھ میں آکر موم کی طرح نرم بن جاتا ہے۔ کہیں پر سونے چاندی کا ذکر کہ جنتیوں کے لئے چاندی کے برتن ہوں گے، تو کہیں پر سونے چاندی کی وجہ سے جہنمیوں کو عذاب دیا جائے گا۔ یہ تمام خدائے پاک واحد و قہار کی قدرت کے کرشمے ہیں۔بے شک اللہ پاک ہر شی پر قادر ہے۔


اللہ پاک نے ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بے شمار معجزات عطا فرمائے۔ ان میں سے  ایک قرآن پاک کا معجزہ ہے اور یہ ایسا معجزہ ہے کہ جس کے سچے ،بے عیب اور محفوظ ہونے کی گواہی اللہ پاک نے قرآن میں بیان فرمائی ہے ۔ یہاں تک کہ اس میں کس کس چیز کا بیان ہے وہ بھی اللہ پاک نے اس میں بیان فرما دیا ہے۔چنانچہ ارشاد باری ہے:وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا جو ہر چیز کا روشن بیان ہے ۔(پ 14،النحل:89) اور دوسرے مقام پر آیت کے ایک حصے میں ارشاد خداوندی ہے: مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ ترجمہ کنزالعرفان: ہم نے اس کتاب میں کسی شے کی کوئی کمی نہیں چھوڑی ۔(پ 7،الانعام: 38)

ان آیات بینات سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی عظمت شان کتاب ہے جو تمام علوم کی جامع کتاب ہے ۔ حدیث مبارکہ میں ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پیش آنے والے فتنوں کی خبر دی تو صحابہ نے ان فتنوں سے بچنے کے متعلق دریافت کیا نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ کی کتاب جس میں تم سے پہلے واقعات کی بھی خبر ہے تم سے بعد کے واقعات کی بھی اور تمہارے آپس کے فیصلے بھی ہیں۔ (جامع ترمذی، کتاب فضائل القرآن ، حدیث: 2951)

غرض یہ کہ یہ کتاب تمام علوم کی جامع کتاب ہے اور جس کسی کو اس کا جتنا علم ملا ہے وہ اتنا ہی اس کو جانتا ہے مزید اس بارے میں جاننے کے اعلی حضرت کی کتاب ”اِنبَاء الحی اَنّ کَلامهُ المصون تِبیانٌ لکلِ شَئٍ“ ( قرآن میں ہر چیز کا بیان ) کا مطالعہ فرمائیں ۔

قرآن کریم میں چار دھاتوں کا صریح بیان ہے۔(1) لوہا ،(2) تانبا ،(3) سونا ،(4) چاندی

(1) لوہا : لوہا ایک ایسی نعمت ہے جو اللہ پاک نے اتاری اور اس میں بے شمار فوائد رکھے۔ ارشاد باری ہے:وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْهِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم نے لوہا نازل کیا اس میں سخت لڑائی (کا سامان) ہے اور لوگوں کے لئے فائدے ہیں۔(پ27،الحدید:25) ایک دوسرے مقام پر حضرت داؤد علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ اَلَنَّا لَهُ الْحَدِیْدَۙ(۱۰) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم نے اس کے لئے لوہے کو نرم کر دیا۔(پ 22 ، سبا: 10) اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام لوہے کا کام کیا کرتے تھے اور اسی سے اپنی زندگی کا گزر بسر کرتے تھے۔ صاحب تفسیر صراط الجنان مسند الفردوس کے حوالے سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک نے چار بابرکت چیزیں آسمان سے زمین کی طرف اتاری ہیں: لوہا ،آگ، پانی ،نمک ۔

فوائد : زمانۂ قدیم سے لوہا دنیا کی تعمیر و ترقی میں بہت اہم کردار ادا کرتا آیا ہے اور آج بھی معمولی سے سوئی سے لے کر بحری جہاز ،ریلوے انجن، پٹڑیاں، اوزار، عمارتی مشینیں، کرینیں، گھریلو و زرعی مصنوعات ،انجینئرنگ اور فن تعمیر کے لوازمات، اسلحہ سازی، ٹینک، آرمرڈ کاریں ،بمبار طیارے، آبدوزیں ،بحری جنگی جہاز، ایٹم بم غیرہ دیگر اشیا بھی لوہے کی مرہون منت ہیں۔

(2)تانبا :تانبا بھی وہ دھات ہے جس ذکر کا قرآن پاک میں ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے : وَ اَسَلْنَا لَهٗ عَیْنَ الْقِطْرِؕ ترجمہ کنزالعرفان : اور ہم نے اس کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہادیا۔(پ 22 ، سبا: 12)

یہ معجزہ اللہ پاک نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو عطا فرمایا کہ ان کے لئے تانبے کو نرم کر دیا۔ مدارک اور خازن کے حوالے سے صاحب تفسیر صراط الجنان نے لکھا : مفسرین کرام فرماتے ہیں وہ تانبے کا چشمہ تین دن تک سرزمین یمن میں پانی کی طرح جاری رہا اور ایک قول یہ ہے کہ وہ چشمہ مہینے میں تین دن چلتا ایک علیحدہ بھی ہے کہ جیسے حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے لوہا نرم کر دیا جاتا تھا ویسے ہی حضرت سلیمان علیہ السّلام کے لئے تانبے کو نرم کر دیا جاتا ہے اور وہ اس سے جو بنانا چاہتے بنا لیتے تھے۔

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بھی تانبے کا برتن استعمال کرنا ثابت ہے حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ایک بار رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمارے گھر تشریف لائے ہم نے آپ کے لئے تانبے کے برتن میں پانی نکالا ۔( بخاری ، کتاب الوضو ، حدیث: 197)

فوائد:قدیم زمانہ سے ہی تانبے کا استعمال ہو رہا ہے اس کے برتن وغیرہ اور دیگر اشیا بنتی رہی ہیں۔ دور جدید میں اگرچہ ہیں کیمیکلز سے تیار ہونے والے پلاسٹک کے برتنوں اور دیگر اشیا نے جگہ لے لی مگر تانبہ آج ہی اپنی ایک پہچان رکھتا ہے اس سے مختلف چیزیں تیار ہوتی ہیں بالخصوص اسلحہ اور گولیوں کے خول وغیرہ۔

تانبے کے برتن میں پانی پینے کے فوائد: ایک ریسرچ کے مطابق تانبے کا برتن استعمال کرنے سے بالخصوص پانی پینے سے درج ذیل فوائد حاصل ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں : نظام ہاضمہ کی بہتری، وزن میں کمی، جلد کو بھدا ہونے سے بچاتا، انفیکشن سے حفاظت، دل کی بیماریاں، بلڈ پریشر کے خطرات سے حفاظت، زخم کو تیزی سے مندمل کرنا شامل ہیں۔( ایکسپریس 26 نومبر 2017)

(4،3)سونا چاندی: سونا چاندی کا بھی ذکر قرآن پاک میں موجود ہے۔ ارشاد باری ہے :

وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ (۳۴) ترجمۂ کنزالعرفان: اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کر رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔(پ 10،التوبۃ:34) ایک اور مقام پر ارشاد خداوندی ہے: وَّ حُلُّوْۤا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍۚ ترجمہ کنزالعرفان: اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے۔(پ 29،الدھر:21)

ایک دوسرے مقام پر جنت کے نعمت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّ لُؤْلُؤًاۚ-وَ لِبَاسُهُمْ فِیْهَا حَرِیْرٌ (۳۳)، ترجمۂ کنزالعرفان: (ان کیلئے) بسنے کے باغات ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے، انہیں ان باغوں میں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا۔ ( پ 22 ، فاطر: 33)

قدیم زمانہ میں سونے چاندی کے زیورات کے علاوہ برتن بھی ہوا کرتے تھے ، مگر اسلام میں سونے چاندی کے برتن کا استعمال حرام قرار دیا گیا ہے اور اس کا استعمال منع فرمایا گیا۔ جن کا ذکر احادیث مبارکہ میں کثرت سے مل جاتا ہے ۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سنا آپ نے فرمایا: ریشم اور دیبا نہ پہنو ،سونے اور چاندی کے برتن میں نہ پیوں اور انکی پلیٹوں میں نہ کھاؤ، کیونکہ یہ چیزیں کفار کے لئے دنیا میں ہیں اور ہمارے لئے آخرت میں ہے ۔ (بخاری، کتاب الاطعمہ ، حدیث: 5426)

فوائد:سونا چاندی نا صرف زیورات برتن وغیرہ کے لئے استعمال ہوتا ہے بلکہ اس کے اور بھی بے شمار فائدے ہیں قدیم زمانے میں سونے چاندی کی کرنسی ہوا کرتی تھی اور اسی سے ہی کاروبار کیا جاتا تھا بلکہ 70 کی دہائی سے پہلے تک جب تک ڈالر عالمی تجارت کیلئے متعارف نہ تھا تب تک سونے سے ہی تجارت کی جاتی تھی۔ اس کے بعد سونے کی جگہ ڈالر نے عالمی تجارت میں اپنا مقام بنایا لیکن اس بات کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اب سونے کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے بلکہ آج بھی کسی بھی ملک کی معیشت کو دیکھنا تو اس کے سونے کے ذخائر کو دیکھا جاتا ہے اور اس ملک کی کرنسی کا دارو مدار بھی سونے کے ذخائر پر ہوتا ہے جتنا اس ملک کے پاس سونا ہو گا سونے کے ذخائر ہوں گے اتنا ہی اس ملک کی معیشت اور اس ملک کا پیسہ مستحکم ہوگا یہاں تک کہ اگر کسی ملک کو سونا بیچنے کی نوبت آتی ہے تو یہ سمجھا جائے گا کہ اس ملک کا دیوالیہ ہو گیا ہے۔اس لحاظ سے بھی سونے کی بڑی قدر و قمیت ہے ۔

یاد رکھیں: لوہے ، تانبے ، اور سونے کے زیورات، انگھوٹی ،چھلہ ، چین وغیرہ مرد کے لئے بالکل حرام ہے۔جبکہ چاندی( ساڑھے چار ماشے) ایک نگ والی انگھوٹی پہننے کی اجازت ہے۔ اور خواتین کے لئے آرٹیفیشل ( تانبے، لوہے) جیولری پہننا جائز ہے ۔


جہاں قرآن مجید ایک طرف ہدایت دینے والی کتاب ہے اور شفاء ورحمت ہے وہیں دوسری طرف قرآن مجید میں ہر شئی کا واضح بیان بھی موجود ہے یعنی کائنات کی پوشیدہ سے پوشیدہ چیز چاہے آسمانی ہو یا زمینی، انسانی ہو یا حیوانی یا چاہے اس کا تعلق جمادات سے  ہو تمام تر چیزوں کا علم و بیان اس پاک کتاب میں موجود ہے۔ اسی طرح اللہ پاک نے قرآن مجید میں چند دھاتوں کا بھی ذکر فرمایا ہے جن کا ذکر مندرجہ ذیل ہے۔

لوہے کا بیان:وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْهِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ وَ رُسُلَهٗ بِالْغَیْبِؕ-اِنَّ اللّٰهَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ۠ (۲۵) ترجمۂ کنز العرفان: اور ہم نے لوہا اتارا، اس میں سخت لڑائی (کا سامان) ہے اور لوگوں کے لئے فائدے ہیں اور تاکہ اللہ اس شخص کو دیکھے جو بغیر دیکھے اللہ اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے، بیشک اللہ قوت والا، غالب ہے۔ (پ27،الحدید:25)

لوہے کا فائدہ: اس میں ا نتہائی سخت قوت ہے، یہی وجہ ہے کہ اس سے اسلحہ اور جنگی ساز و سامان بنائے جاتے ہیں اور اس میں لوگوں کیلئے اور بھی فائدے ہیں کہ لوہا صنعتوں اور دیگر پیشوں میں بہت کام آتا ہے۔(تفسیر صراط الجنان تحت ھذہ الآیۃ)

سونے اور چاندی کا بیان: زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِؕ-ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ(۱۴)ترجمۂ کنز العرفان: لوگوں کے لئے ان کی خواہشات کی محبت کو آراستہ کر دیا گیا یعنی عورتوں اور بیٹوں اور سونے چاندی کے جمع کئے ہوئے ڈھیروں اور نشان لگائے گئے گھوڑوں اور مویشیوں اور کھیتیوں کو( ان کے لئے آراستہ کردیا گیا۔) یہ سب دنیوی زندگی کا سازو سامان ہے اور صرف اللہ کے پاس اچھا ٹھکانا ہے۔(پ 03،اٰل عمران:14)

سونا چاندی پیدا کرنے کا مقصد: لوگوں کیلئے من پسند چیزوں کی محبت کو خوشنما بنادیا گیا، چنانچہ عورتوں ، بیٹوں ، مال و اولاد، سونا چاندی، کاروبار، باغات، عمدہ سواریوں اور بہترین مکانات کی محبت لوگوں کے دلوں میں رچی ہوئی ہے اور اِس آراستہ کئے جانے اور ان چیزوں کی محبت پیدا کئے جانے کا مقصد یہ ہے کہ خواہش پرستوں اور خدا پرستوں کے درمیان فرق ظاہر ہوجائے۔(تفسیر صراط الجنان تحت ھذہ الآیۃ)

تانبے کا بیان: وَ اِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآءٍ كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَؕ ، ترجمہ کنزالعرفان : اور اگر وہ پانی کے لیے فریاد کریں تو ان کی فریاد اس پانی سے پوری کی جائے گی جو پگھلائے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو اُن کے منہ کو بھون دے گا ۔ (پ 15 ، الکھف: 29)

تانبا ایک ایسی دھات ہے جس کا استعمال ہمارے معاشرے میں قدیم زمانے سے کیا جارہا ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد تابنے سے بنے برتنوں میں کھانا کھایا کرتے تھے، لیکن اب دور جدید میں ہم نے نئے متبادل تلاش کرلئے ہیں۔

قرآن مجید میں ہر شئی کا واضح بیان ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم قرآن مجید کے مفاہیم میں غور و فکر کریں اور یہی بات ہمیں احادیث مبارکہ اور بزرگان دین کے اقوال میں ملتی ہے۔


﴿وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً وَّ بُشْرٰى لِلْمُسْلِمِیْنَ۠(۸۹)ترجَمۂ کنزُالعرفان: اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا جو ہر چیز کا روشن بیان ہے اور مسلمانوں کیلئے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے۔(پ14،النحل:89)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: قراٰنِ عظیم گواہ ہے اور اس کی گواہی کس قدر اعظم ہے کہ وہ ہر چیز کا تبیان ہے اور تبیان اس روشن اور واضح بیان کو کہتے ہیں جواصلاً پوشیدگی نہ رکھے کہ لفظ کی زیادتی معنی کی زیادتی پر دلیل ہوتی ہے اور بیان کے لئے ایک تو بیان کرنے والا چاہئے ، وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے اور دوسرا وہ جس کے لئے بیان کیا جائے اور وہ وہ ہیں جن پر قراٰن اترا (یعنی) ہمارےسردار رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور اہلِ سنت کے نزدیک ”شے“ ہر موجود کو کہتے ہیں تو اس میں جملہ موجودات داخل ہو گئے، فرش سے عرش تک ، شرق سے غرب تک ، ذاتیں اور حالتیں ، حرکات اور سکنات، پلک کی جنبشیں اور نگاہیں، دلوں کے خطرے اور ارادے اور ان کے سوا جو کچھ ہے (وہ سب اس میں داخل ہوگیا) اور انہیں موجودات میں سے لوحِ محفوظ کی تحریر ہے۔(الدولۃ المکیۃ،ص75)

اس سے معلوم ہوا کہ قراٰنِ مجید میں ہر مخلوق کے بارے میں معلومات موجود ہیں اور انہیں مخلوقات میں سے ایک مخلوق دھات ہے۔ قراٰنِ مجید میں 4 قسم کی دھاتوں کا ذکر کیا گیا ہے:

(1)لوہا:(Iron)ایک خاکستری رنگ کی دھات جو معدنی ڈھیلوں کو پگھلا کر حاصل کی جاتی ہے اور530 درجۂ حرارت پر پگھلتی ہے اس سے آلات، اوزار اور ہتھیار وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔ قراٰنِ مجید میں 5 مقامات پر لوہے کا ذکر آیا ہے اور ایک پوری سورت کا نام لوہے پر ہے جسے ”سورةُ الحدید“ کہتے ہیں۔ وہ پانچ مقامات یہ ہیں:بنی اسرائیل،آیت: 50،الکھف، آیت: 96، الحج، آیت:21، سبا، آیت: 10 اور الحدید، آیت: 25۔ ان میں سے ایک آیت ہے:﴿وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًاؕ-یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَهٗ وَالطَّیْرَۚ-وَاَلَنَّا لَهُ الْحَدِیْدَۙ(۱۰) ترجَمۂ کنزُ العرفان: اور بیشک ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے بڑا فضل دیا۔ اے پہاڑو اور پرندو! اس کے ساتھ (اللہ کی طرف) رجوع کرو اور ہم نے اس کے لیے لوہا نرم کردیا۔ ( پ 22 ، سبا: 10)

(2)تانبا(Copper):ایک سرخی مائل نارنجی رنگ کی دھات ہے۔ اس سے بآسانی تار اور ورق بنائے جا سکتے ہیں۔ اس دھات سے بجلی اور حرارت بہت آسانی سے گزرتی ہے اسی لئےتانبے سے بجلی کی تاریں اور دیگیں کثرت سے بنائی جاتی ہیں۔قراٰنِ مجید میں 4 مقامات پر تانبے کا ذکر ملتا ہے۔وہ یہ ہیں: الکھف: 29 اور 96 ، سبا:12اور الدُّخان:45 ۔ ان میں سے ایک آیت یہ ہے: ﴿وَاِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآءٍ كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَؕ ترجَمۂ کنزُ العرفان:اور اگر وہ پانی کے لیے فریاد کریں تو ان کی فریاد اس پانی سے پوری کی جائے گی جو پگھلائے ہوئےتانبے کی طرح ہوگا جو ان کے منہ کو بھون دے گا۔ (پ15،الکھف:29)

(3)چاندی(Silver) : چمکیلی سفید یا سُرمئی رنگت کی حامل ہے۔ چاندی پیسے کے طور پر بھی استعمال کی گئی ہے اور سِکّے، زیورات اور قیمتی و خوبصورت اشیاء بنانے کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے۔ قراٰنِ مجید میں 8 مقامات پر چاندی کا ذکر ملتا ہے۔ وہ یہ ہیں: اٰلِ عمرٰن: 14،التوبۃ: 34، الکھف: 19، الزخرف: 33 اور 34، الدھر: 16،15 اور 21۔ ان میں سے ایک آیت یہ ہے: ﴿عٰلِیَهُمْ ثِیَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَّاِسْتَبْرَقٌ٘-وَّحُلُّوْۤا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍۚ-وَسَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا(۲۱) ترجَمۂ کنزُ العرفان: ان پر باریک اور موٹے ریشم کے سبز کپڑے ہوں گے اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کا رب انہیں پاکیزہ شراب پلائے گا۔(پ29، الدھر: 21)

(4)سونا(Gold): نرم چمکدار اور پیلے رنگ کی دھات ہے جسے کسی بھی شکل میں ڈھالا جاسکتا ہے۔یہ اپنی خصوصیات کی وجہ سے انتہائی مہنگا ہے۔قیمتی دھات ہونے کی وجہ سے صدیوں سے روپے پیسے کے بدل کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس کےسِکّے بنائے جاتے ہیں۔قیمتی و خوبصورت اشیا ءاور زیورات بنانے میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

قراٰنِ مجید میں 9 مقامات پر سونے کا ذکر ملتا ہے اور ایک پوری سورت کا نام سونے پر ہے جسے سورةُ الزُّخرُف کہتے ہیں۔ 9 مقامات یہ ہیں: اٰلِ عمرٰن:14، 91، التوبۃ:34، بنی ٓاسرآءیل: 93، الکھف: 31، الحج: 23،فاطر:33، الزخرف: 53 اور 71۔ ان میں سے ایک آیت یہ ہے: ﴿جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّلُؤْلُؤًاۚ-وَلِبَاسُهُمْ فِیْهَا حَرِیْرٌ(۳۳) ترجَمۂ کنزُالعرفان: (ان کیلئے) بسنے کے باغات ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے، انہیں ان باغوں میں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا۔ (پ22،فاطر:33)