کُرّہ
ٔزمین پر پائے جانے والے ربّ کریم کے بے شمار احسانات میں سے ایک مختلف قسم کی
دھات بھی ہیں، دھاتوں میں سونا، چاندی،تانبا، سیسہ، پیتل وغیرہ شامل ہیں، زیورات
برتن، ہزار قسم کی سجاوٹ کی اشیاء،بجلی کے تار، الیکٹرانک کی اشیا وغیرہ سب ان
دھاتوں ہی کی مصنوعات ہیں، کچھ خوش نصیب دھات ایسے بھی ہیں، جن کا ذکر ربِّ کریم
نے قرآنِ کریم میں فرمایا۔ سونا:قرآن ِکریم میں اس کے لئے”ذھب“کا لفظ استعمال کیا گیا ہے،
اس کے علاوہ قرآنِ کریم کی ایک سورت کا نام زخرف ہے، جس کا معنی بھی سونا ہے،
چنانچہ سورۂ زخرف، آیت 43 میں نعمتوں کے ذکر میں سونے کا تذکرہ فرمایا: ان پر
سونے کی تھالیوں اور باموں کے دور ہوں گے۔ چاندی:قرآنِ کریم میں چاندی کا ذکر موجود ہے، اس کے لئے”فضۃ“کا لفظ استعمال
کیا گیا ہے، قیامت کا منظر بیان کرتے ہوئے چاندی کا ذکر ہے، سورۃ المعارج آیت 8
میں ارشاد ہے: جس دن آسمان پگھلی ہوئی چاندی جیسا ہو جائے گا۔تانبا: تانبے کا ذکر
قرآن ِکریم میں موجود ہے:ترجمہ:اور ہم نے اس کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہا
دیا۔(سورۃ
سبا، آیت 12)لوہا:حضرت
داؤد علیہ
السلام
کے لئے لوہا نرم کیا گیا، جس کے ذریعے وہ زرہیں بنا کر بیچتے تھے، اس کا ذکر بھی
قرآن ِکریم میں سورۂ سبا میں موجود ہے، اس کے ساتھ مروی ہے : لوہا آسمان سے زمین
کی طرف اتارا گیا۔سیسہ:سورۃ الصف میں مجاہدین کی صف کی تعریف کرتے ہوئے ربّ کریم
فرماتا ہے: بے شک اللہ ان لوگوں سے محبت فرماتا ہے، جو اس کی راہ میں اس طرح صف
باندھ کر لڑتے ہیں، گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔یعنی ان میں ایک سے دوسرا
ملا ہوا، ہر ایک اپنی اپنی جگہ جما ہوا،اور دشمن کے مقابلے میں سب ایک چیز کی طرح
ہیں۔(صراط
الجنان، جلد 10)اگر
کوئی خوف رکھنے والا ہو تو وہ ان دھاتوں کو دیکھ کر کبھی خدا کی عظمت کا اعتراف
کرے، کبھی فکرِآخرت اسے گھیر لے، کبھی قیامت کا دہشت ناک منظر اس کی آنکھوں کے
سامنے ہو، تو کبھی جنت میں پیش کئے جانے والے سونے اور چاندی کے برتنوں کی یاد میں
کھو جائے۔اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں اپنا خوف عطا فرمائے۔آمین