دھات:وہ معدنی جوہر جس میں پگھلنے کی صلاحیت ہوتی ہے، اسے دھات کہتے ہیں،  جیسے سونا، چاندی، دھات کو پتھروں، چٹانوں اور زمین کی تہہ سے نکالا جاتا ہے، فطری طور پر دھاتیں ٹھوس حالت میں پائی جاتی ہیں۔ قرآن اور دھات:قرآن ِکریم میں اَز ابتداء تا اِنتہا ہر چیز کا بیان ہے، بعض کا صراحتاً اور بعض کا اجمالاً، بعض کا ظاہراً بیان ہے اور کچھ کا پوشیدہ طور پر، ربّ کریم فرماتا ہے:مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ۔ترجمۂ کنز العر فان:ہم نے اس کتاب میں کسی شے کی کمی نہیں چھوڑی۔(پ7،انعام:38)ایک جگہ ارشاد فرمایا:وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ۔ترجمۂ کنزالعرفان: اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے۔ (پارہ 14، سورہ نحل:89)شَیْءٍ ہر موجود کو کہتے ہیں، اس میں جملہ موجودات داخل ہیں۔ حضرت ابوبکر مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:عالم میں کوئی چیز ایسی نہیں، جو کتاب اللہ میں مذکور نہ ہو۔ (الاتقان فی علوم القرآن،ج2،ص477) قرآنِ کریم میں ظاہراً تقریباً چار دھاتوں کا ذکر موجود ہے، نمبر1:لوہا، نمبر 2: سونا، نمبر 3:چاندی، نمبر4: تانبا۔ لوہا:یہ سیاہی مائل سخت دھات ہے، جو مقناطیسی عناصر میں سے ہے، اس کا ایٹمی نمبر 26 ہے، یہ تقریباً تین ہزار تین سو سال پہلے دریافت ہوا، یہ سستی ترین دھات ہے، جو زمین میں عام پائی جاتی ہے اور صنعتی میدان میں اس کا استعمال کثیر ہے، قرآنِ کریم کی ایک سورت کا نام حدید یعنی لوہا ہے، ربّ کریم نے اس کے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْهِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ۔ترجمہ ٔکنزالعرفان:ہم نے لوہا اتارا،اس میں سخت لڑائی (کا سامان) ہے اور لوگوں کے لئے فائدے ہیں۔(پارہ 27، سورہ حدید، آیت 25) مفسرین فرماتے ہیں: اتارنے سے مراد پیدا کرنا ہے۔ نبی پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے چار بابرکت چیزیں آسمان سے زمین کی طرف اتاریں، لوہا، آگ ،پانی، نمک۔ (مسند الفردوس، باب الالف،1/175، حدیث656)رب کریم نے حضرت داؤد علیہ السلام کے معجزے کا ذکر کرتے ہو ئے فرمایا:وَ اَلَنَّا لَهُ الْحَدِیْدَ ۙ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور ہم نے اس کے لئے لوہا نرم کیا۔ (پ22،سبا:10) لوہا حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھ میں گندھے ہوئے آٹے کی طرح نرم ہو جاتا تھا۔سونا:یہ نرم چمکدار اور پیلے رنگ کی دھات ہے، یہ تقریباً آٹھ ہزار سال پہلے دریافت ہوا، اس کا ایٹمی نمبر 79ہے، یہ مہنگی ترین دھات ہے، اسی سے زیورات اور سکے بنائے جاتے ہیں، سونے کے سکے کو دینار کہتے ہیں، اللہ پاک نے سورۂ الِ عمران آیت نمبر 75 میں دینار کا ذکر فرمایا ہے، نیز سونا جنتیوں کا زیور ہے، اللہ پاک فرماتا ہے:یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ۔ترجمۂ کنزالعرفان:انہیں ان باغوں میں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ (پ15،الکہف:31)چاندی:یہ چمکیلی سفید یاسر مئی رنگت والی دھات ہے، یہ تقریباً چھ ہزار سال پہلے دریافت ہوئی، اس کا ایٹمی نمبر 47 ہے، اس سے بھی زیورات اور سکے بنائے جاتے ہیں، چاندی کے سکے کو درہم کہتے ہیں، اللہ پاک نے سورہ ٔیوسف آیت نمبر 20 میں درہم کا ذکر فرمایا ہے، نیز جنت میں چاندی کے برتن ہوں گے، ربّ کریم فرماتا ہے:وَ یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِاٰنِیَةٍ مِّنْ فِضَّةٍ وَّ اَكْوَابٍ كَانَتْ قَؔوَارِیْرَاۡ ۙ۔ترجمۂ کنزالعرفان:اور ان پر چاندی کے برتنوں اور گلاسوں کا دور ہوں گے۔(پ29، الدھر:15) اور جنتیوں کو چاندی کا زیور پہنایا جائے گا، ارشاد باری ہے:وَّ حُلُّوْۤا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ ۚ۔ترجمۂ کنزالعرفان:اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے۔(پ29، الدھر: 21)شرعی مسئلہ:سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا پینا ناجائز ہے، عورت کے لئے سونے چاندی کے زیورات پہننا جائز ہے اور مرد کے لئے فقط چاندی کی ساڑھے چار ماشے سے کم وزن اور ایک نگینے والی فقط ایک انگوٹھی پہننا جائز ہے، اس کے علاوہ ہر دھات کا بنا ہوا زیور پہننا نا نا جائز ہے۔تانبا:یہ نرم روشن اور سرخ رنگت والی دھات ہے، یہ تقریباً چھ ہزار دو سو سال پہلے دریافت ہوا، اس کا ایٹمی نمبر 29 ہے، اس سے تاریں، سکے اور سجاوٹی اشیاء بنائی جاتی ہیں، میٹالرجیکل صنعت میں یہ سب سے اہم دھات ہے، ربّ کریم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے تانبے کے چشمے کو ظاہر فرمایا، اللہ پاک فرماتا ہے:وَ اَسَلْنَا لَهٗ عَیْنَ الْقِطْرِ ؕترجمۂ کنزالایمان:ہم نے اس کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہا دیا۔ (22،سبا:12)مفسرین فرماتے ہیں:یہ چشمہ تین دن تک سر زمین ِیمن میں پانی کی طرح جاری رہا۔(تفسیرمدارک،ص958)اللہ پاک ہمیں فہمِ قرآن عطا فرمائے۔آمین