دھاتیں:80 سے زیادہ عناصر دھات کی شکل میں پائے جاتے ہیں، زیادہ تر دھاتیں بہت عامل(reactive) ہوتی ہیں اور اس کی وجہ سے بیرونی پرت میں آزاد حالت میں نہیں ملتیں، بلکہ کسی دوسرے عنصر(element) یا عناصر کے ساتھ مرکب(کمپاؤنڈ) حالت میں ملتی ہیں۔ صرف سونا اور پلاٹینم آزاد حالت میں ملتے ہیں اور وہ بھی بہت ہی کم، شاذونادر چاندی، تانبا، پارہ اور بسمتھ بھی آزاد حالت میں مل جاتے ہیں، کیونکہ یہ دھاتیں کیمیائی اعتبار سے بہت کم عامل ہوتی ہیں۔ساری دھاتیں زنگ یا آکسائیڈ کی غیر موجودگی میں چمک دار ہوتی ہیں، ان میں سے بجلی اور حرارت آسانی سے گزر سکتی ہے اور یہ عموماً مضبوط، سخت اور بھاری ہوتی ہیں اور وزن اور ہتھوڑے کی چوٹیں برداشت کر لیتی ہیں، ساری دھاتیں کمرے کے درجہ حرارت پر موجود ہوتی ہیں، سوائے پارہ اور سیزیٹم کے، لوہا، تانبا، نکل اور کرو میٹم دھاتوں کی مثالیں ہیں:قرآن ِکریم میں ہر شے کا ذکر ہوا ہے۔ قرآنِ کریم میں دھاتوں کا ذکر درج ذیل ہے، ان میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے:1۔زخرف :زخرف کا معنی ہے”سونا“، نیز کسی چیز کے حسن کا کمال بھی زخرف کہلاتا ہے، سورۂ زخرف کی آیت نمبر 35 میں کلمہ”وزخرفا“مذکور ہے:وزخرفا وان کل ذلک لما متاع الحیوۃ الدنیا والآخرۃ عند ربک للمتقین۔ترجمہ:اور سونا اور جو کچھ ہے،سب دنیاوی زندگی ہی کا سامان ہے اور آخر تمہارے ربّ کے پاس پرہیزگاروں کے لئے ہے۔آیت نمبر 33 ۔35 کا خلاصہ یہ ہے:اگر اس بات کا لحاظ نہ ہوتا کہ کافروں کے مال و دولت کی کثرت اور عیش و عشرت کی بہتات دیکھ کر سب لوگ کافر ہو جائیں گے تو ہم ضرور کافروں کو اتنا سونا چاندی دے دیتے کہ وہ انہیں پہننے کے علاوہ ان سے اپنے گھروں کی چھتیں اور سیڑھیاں بناتے، جن پر وہ چڑھتے اور وہ اپنے گھروں کے لئے چاندی کے دروازے بناتے اور بیٹھنے کے لئے چاندی کے تخت بناتے اور وہ طرح طرح کی آرائش کرتے۔کیونکہ دنیا اور اس کے سامان کی ہمارے نزدیک کچھ قدر نہیں، یہ بہت جلد زائل ہونے والا ہے اور جو کچھ ہے سب دنیاوی زندگی ہی کا سامان ہے،جس سے انسان بہت ہی تھوڑا عرصہ فائدہ اٹھا سکے گا اور آخرت تمہارے ربّ کے پاس ہے،ان پرہیزگاروں کے لئے، جنہیں دنیا کی چاہت نہیں۔(خازن، الزخرف، تحت الآیۃ33۔35،4/105)2۔حدید:عربی میں لوہے کو حدید کہتے ہیں، اس سورت کی آیت نمبر 25 میں اللہ پاک نے حدید یعنی لوہے کے فوائد بیان فرمائے ہیں: لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۚوَ اَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ۔ترجمہ:اور ہم نے اُتارا،اس میں سخت لڑائی(کا سامان)ہے اور لوگوں کے لئے فائدےہیں۔لوہے کا فائدہ:لوہے کا فائدہ یہ ہے کہ اس میں انتہائی سخت قوت ہے، یہی وجہ ہے کہ اس سے اسلحہ اور جنگی سازوسامان بنائے جاتے ہیں اور اس میں لوگوں کے لئے اور بھی فائدے ہیں کہ لوہا صنعتوں اور دیگر پیشوں میں بہت کام آتا ہے۔3۔المطففین:آیت نمبر 14: کَلَّا بَلْ سکتہ رَانَ عَلیٰ قُلُوبِھِمْ مَّا کَانُوا یَکْسِبُوْنَ۔ ترجمہ: ہرگز نہیں بلکہ ان کے کمائے ہوئے اعمال نے ان کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے۔ہرگز نہیں:یعنی اس سرکش اور گنہگار کا یہ کہنا غلط ہے کہ قرآن تو سابقہ لوگوں کے قصّوں، کہانیوں کی بات ہے، یعنی اس طرح کی باتیں کرکے اس کا اثر اپنے اوپر نہیں ہونے دیتے، تو اصل بات یہ ہے کہ ان کے دل زنگ آلودہ اور سیاہ ہو گئے ہیں، اسی وجہ سے وہ حق کو نہیں پہچان سکتے۔(المطففین، تحت الآیۃ 8،10/367)4۔الفیل:سورۂ فیل کی آیت نمبر 4 میں ہے:تَرْمِیْهِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ۔ترجمہ: جو انہیں کنکر کے پتھروں سے مارتے تھے۔اس واقعہ فیل مراد ہے۔(الفیل، تحت الآیۃ 1۔5،4/407۔410)قرآنِ کریم کا ایک ایک لفظ بہت اہمیت کا حامل ہے، مختلف دھاتوں کا روزمرہ زندگی(انسانی) میں کردار بہت اہم رہا ہے، جیسا کہ لوہا صدیوں سے لے کر آج تک ذریعہ معاش میں اس کا اہم کردار رہا ہے، دھات بھی اللہ پاک کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، جس پرہمیں اللہ پاک کی شکر گزار رہنا چاہئے۔