دعوتِ اسلامی کے شعبہ مکتبۃ المدینہ کے تحت گزشتہ دنوں لاہور ریجن  میں بذریعہ اسکائپ مدنی مشورے کاانعقادہوا جس میں لاہور ریجن مکتبۃالمدینہ ذمہ دار اور دفتر ذمہ داراسلامی بہنوں نے شرکت کی ۔

پاکستان ذمہ دار اسلامی بہن نے دفتری کاموں کے حوالے سے تربیتی نکات بتائے اور دفتری نظام کو مضبوط کرنے کےحوالےسےمدنی مشوروں میں شعبہ ذمہ داراسلامی بہنوں کو شرکت کروانے ،ذمہ دار اسلامی بہنوں کا فالو اپ کرنے اور پینڈنگ کاموں کو بروقت اور احسن انداز میں مکمل کرنے کا طریقہ بتایا جس پر ذمہ داراسلامی بہنوں نے اچھی اچھی نیتیں پیش کی ۔


حیدرآباد ریجن لاڑکانہ کابینہ میں اصلاح اعمال اجتماع کا انعقاد 

Wed, 2 Jun , 2021
3 years ago

دعوتِ اسلامی کے شعبہ اصلاح اعمال کے تحت  گزشتہ دنوں حیدرآباد ریجن لاڑکانہ کابینہ میں اصلاح اعمال اجتماع کا انعقاد ہوا جس میں 34اسلامی بہنوں نے شرکت کی ۔

اصلاح اعمال زون سطح کی ذمہ داراسلامی بہن نے نیک اعمال رسالہ کے حوالےسے نکات بتاتے ہوئے اسلامی بہنوں کو رسالہ نیک اعمال کا روزانہ جائزہ کرنے کاذہن دیا اور مدنی مذاکرہ سننے کی ترغیب دلائی جس پر اسلامی بہنوں نےاچھی نیتوں کااظہار کیا۔


دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں   کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن میں ماہانہ دینی حلقہ کا انعقاد ہوا جس میں صاحبزادیِ عطار سلمھاالغفار اور زون نگران سمیت 37 اسلامی بہنوں نے شرکت کی ۔

زون نگران اسلامی بہن نے ’’ذمہ دار کو کیسا ہونا چاہیے ‘‘کے موضوع پر بیان کیا اور صاحبزادئی عطار سلمھاالغفار نے ڈونیشن جمع کر نے پر اسلامی بہنوں میں تحائف بھی تقسیم کئے ۔

اسی طرح کوئٹہ زون اور کراچی زون ساؤتھ 2 میں 29 مقامات پر ماہانہ دینی حلقوں کا انعقاد ہوا جن 849 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔ دینی حلقوں میں مبلغات اسلامی بہنوں نے مختلف موضو عات پر ترغیبی بیانات کئےاور اسلامی بہنوں کو اجتماع میں کیسے لایا جائے اس کےحوالے سے اسلامی بہنوں کو نکات بتائے اوراسلامی بہنوں کو پابندی سے مدنی مذاکرہ سننے ،نیک اعمال کا رسالہ ہر ماہ اپنے ذیلی حلقوں میں جمع کروانے کی ترغیب دلائی ۔


قومِ عاد کی نافرمانیاں

Wed, 2 Jun , 2021
3 years ago

اللہ ربُّ العزت ارشاد  فرماتا ہے:

وَ تِلْكَ عَادٌ ﳜ جَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ عَصَوْا رُسُلَهٗ وَ اتَّبَعُوْۤا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ(۵۹)
وَ اُتْبِعُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةً وَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اَلَاۤ اِنَّ عَادًا كَفَرُوْا رَبَّهُمْؕ-اَلَا بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ هُوْدٍ۠(۶۰)

ترجمۂ کنز الایمان: اور یہ عاد ہیں کہ اپنے رب کی آیتوں سے منکر ہوئے اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر بڑے سرکش ہٹ دھرم کے کہنے پر چلےاور ان کے پیچھے لگی اس دنیا میں لعنت اور قیامت کے دن سن لو بےشک عاد اپنے رب سے منکر ہوئے ارے دور ہوں عاد ہود کی قوم۔

(پ12، ہود، 59-60)

قومِ عاد دو ہیں:

عادِ اولیٰ:حضرت ہود علیہ السلام کی قوم ہے۔

عادِ ثانیہ:حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ہے، اسی کو ثمود کہتے ہیں۔

یہاں عادِ اولیٰ مراد ہے۔

قومِ عاد احقاف میں رہتی تھی، احقاف عمان اور حضرِموت کے درمیان علاقہ یمن میں ایک ریگستان ہے، یہ لوگ بت پرست تھے، مندرجہ بالا آیت میں اِس قوم کی کچھ نافرمانیاں بیان کی گئی ہیں۔(صراط الجنان، ج3، ص 351)

ربّ کی آیتوں کے منکر:

اللہ تعالی نے حضرت ہود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا، آپ علیہ السلام نے انہیں توحید کا حکم دیا، شرک و بت پرستی اور ظلم وجفا کاری سے روکا، لیکن وہ نہ مانے اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو جھٹلانے لگے۔(صراط الجنان، ج3، ص355)

نبی کی نافرمانی اور توہین:

حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا:اے میری قوم!تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا؟ اس پر قوم کے سردار بو لے:"ہم تو تمہیں بے وقوف سمجھتے اور جھوٹا گمان کرتے ہیں اور تمہیں رسالت کے دعویٰ میں سچا ہی نہیں جانتے۔"(صراط الجنان، ج3، ص352)

اپنے ربّ کا انکار:

یہ لوگ بت پرست تھے ، ان کے ایک بت کا نام "صُداء" اور ایک کا" صُمُود"اور ایک کا"ہباء" تھا، اس قوم نے سرکشی کی، حضرت ہود علیہ السلام کی تکذیب کی اور زمین میں فساد پھیلایا اور ستم گاریوں میں زیادتی کی۔(صراط الجنان، ج3، ص356)

غرضیکہ اس قوم نے اپنے نبی علیہ السلام کو اذیت پہنچائی اور اُن کی دعوت کو قبول کرنے کی بجائے ہٹ درمی اور سرکشی میں اندھے ہوگئے، اللہ کریم نے اُن پر عذاب نازل فرمایا، یہ عذاب ایک سیاہ بادل کی صورت میں تھا، لوگ اِس بادل کو دیکھ کر خوش تھے کہ یہ خوب بارش برسائے گا، مگر اس سے ایک ہوا چلی جو اس شدت کی تھی کہ اونٹوں اور آدمیوں کو اُڑا اُڑا کر کہیں سے کہیں لے جاتی تھی، یہ دیکھ کر وہ لوگ گھروں میں داخل ہوئے اور دروازے بند کئے، مگر ہوا کی تیزی سے بچ نہ سکے اور ان کو ہلاک کر دیا، قدرتِ الہی سے سیاہ پردے نمودار ہوئے ، جنہوں نے اُن کی لاشوں کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا۔(صراط الجنان، ج3، ص357)بے شک ایسوں کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے ، اللہ کریم ہمیں ان سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


قوم عاد کی نافرمانیاں

Wed, 2 Jun , 2021
3 years ago

 قوم عاد کا مختصر تعارف

قوم عاد کا تذکرہ قرآن کریم کی متعدد سورتوں میں موجود ہے۔ تفصیلی تذکرہ سورۀ ھود اور سورۀ اعراف میں جبکہ اجمالی تذکرہ سورۀ فجر ، سورۀ قمر اور سورۀ قآف اور دیگر سورتوں میں ھے۔ جہاں جہاں انکا اجمالی تذکرہ آتا ھے وہاں مفسرینِ کرام قوم عاد سے مراد دو طرح کی قومیں لیتے ہیں:

۱. قومِ عادِ اولیٰ

۲. قومِ عادِ ثانیہ

قوم عاد اولیٰ سے مراد حضرت ھود علیہ السلام کی قوم ہے جبکہ عادِ ثانیہ سے مراد حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ھے جو کہ قومِ ثمود کے نام سے مشہور ہے ۔ ان دونوں قوموں کے درمیان ۱۰۰ سال کا تقریباً فاصلہ ہے۔ ہم یہاں قوم عاد اولیٰ جو کہ اللہ کے پیغمبر ھود علیہ السلام کی قوم ہے کے بارے میں جانیں گے۔

قوم عاد کا جدّامجد "عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح" ھے اور یہ قوم اپنے مورِث اعلیٰ کے نام سے مشہور ہیں۔ مقامِ احقاف جو کہ یمن کے شہر عمّان و حضر موت کے درمیان ہے میں آباد تھے یہ لوگ طاقت و قوت میں بہت بڑھے ہوئے تھے اسی بناء پہ سرکش و متکبّر تھے نیز بداعمال و بدکردار تھے۔ ربّ تعالیٰ نے انکی ھدایت کیلئے ھود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا مگر اس قوم نے ان سے بھے سرکشی کی۔ آئیے اس قوم کی بداعمالیوں کا مختصر طور پہ جائزہ لیتے ہیں:

۱۔ قوم عاد نے ربّ تعالیٰ کے ایک ہونے کو جھٹلایا اور آیات الٰہیہ کی تکذیب کی۔

۲۔قومِ عاد نے اپنے نبی ھود علیہ السلام کی تکذیب کی اور ان سے استہزاء کیا۔

۳۔قومِ عاد نے تکبر کیا۔

قوم عاد کا ربّ تعالیٰ اور آیات الٰہیہ کو جھٹلانا :

قوم عاد بتوں کے پجاری تھے ان کے بتوں کے نام یہ ہیں:

1. صداء 2. صمود 3.ھباء

قرآنِ کریم میں ان کی بت پرستی اور اس سے منع کرنے کے باوجود شرك پہ اڑے رہنے کا تذکرہ قرآن کریم میں یوں موجود ھے:

ترجمہ کنزالایمان: اور یاد کرو عاد کے ہم قوم کو جب اس نے سرزمیں احقاف میں انہیں ڈرایا اور بیشک اس سے پہلے ڈر سنانے والے گزر چکےاور اسکے بعد آئے کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو بیشک مجھے تم پہ بڑے دن کے عذاب کا خوف ھے۔ بولے کیا اس لئے آئے ہو کہ ہمیں ہمارے معبودوں سے پھیر دو۔ تو ہم پہ لے آؤ جسکا ہمیں وعدہ دیتے ھو اگر تم سچّے ہو۔(پارہ 26 سورہ احقاف آیت نمبر 21)

قوم عاد جو کہ بتوں کی پجاری اور رب تعالیٰ کو ایک ماننے سے انکاری تھی کو جب ھود علیہ السلام نے تو حید کی دعوت دی تو انہوں نے نہ مانا اور کفر پہ اڑے رہے بلکہ عذاب الٰھی کو بھی ہلکا جانا اور وعیدِ الٰھی کو طلب کر بیٹھے، جو کہ بذات خود بہت عظیم گناہ ہے ۔

قومِ عاد کا ھود علیہ السلام *کو جھٹلانا اور استہزاء

حضرت ھود علیہ السلام کو ربّ تعالیٰ نے قومِ عاد کی اصلاح وتبلیغ کیلئے مبعوث فرمایا اور آپ انکے ہم قوم تھے لیکن جب آپ نے انہیں تبلیغِ دین فرمائی تو معاذ اللہ قومِ عاد آپ علیہ الصلوٰة والسلام کی طرف سفاھت منسوب کرنے لگی۔ جسکا ذکر ربّ تعالی نے قرآنِ مجید پارہ 8 سورۀ اعراف میں یوں فرمایا ہے :

قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ

ترجمۂ کنزالایمان:" اس کی قوم کے سردار بولے بے شک ہم تمہیں بیوقوف سمجھتے ہیں اور بے شک ہم تمہیں جھوٹوں میں گمان کرتے ہیں (پ8،اعراف:66)

قوم عاد نے اپنے نپی کی شان میں گستاخی کی اور معاذالله نبی کی عقل کو کمتر جانتے ہوئے انکی طرف سفاہت کی نسبت کی حالانکہ ایک نبی کی عقل تمام دنیا کے لوگوں سے زیادہ ہے اور اپنے نبی کی تعظیم فرض ہے اور انکی تعظیم و تکریم میں کمی تمام انبیا و مرسلین کی تکذیب و توہین ہے۔ جیسا کہ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

کَذَّبَتْ عَادُ نِ الْمُرْسَلِیْنَ ۝

ترجمۂ کنز الایمان: اور عاد نے جھٹلایا رسولوں کو۔

مفسرین کرام اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

مراد یہ ہے کہ اپنے نبی کا مُکذِّب تمام۔انبیأ و مرسلین علیھم السلام کا مُکذِّب و گستاخ ہے۔

معلوم ہوا انبیاء و مرسلین علیھم السلام کی گستاخی موجبِ غضبِ الٰہی ہے چنانچہ رب تعالی اور اسکی آیتوں کو جھٹلانے اور ھود علیہ السلام کی شان میں گستاخی کے سبب ھود علیہ السلام نے انہیں عذابِ الہٰی کی وعید سنائی اور فرمایا:

قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ رِجْسٌ وَّ غَضَبٍ ؕ اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْ اَسْمَآءٍ سَمَّیْتُمُوْاھَا أَنْتُمْ وَآبَاءُکُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰهُ بِھَامِنْ سُلْطٰنٍ ؕ فَانْتَظِرُوْا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ ۝

ترجمۂ کنز الایمان: کہا ضرور تم پر تمہارے رب کا عذاب اور غضب پڑ گیا کیا مجھ سے خالی ان ناموں میں جھگڑرہے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے اللہ نے ان کی کوئی سند نہ اُتاری تو راستہ دیکھو میں بھی تمہارے ساتھ دیکھتا ہوں۔(پ8،اعراف:71)

قوم عاد نے تکبر کیا :

قوم عاد کو ربّ کریم نے نہایت قوی الجثہ تخلیق فرمایا تھا اور انہیں بہت زیادہ طاقت و قوت عطا فرمائی تھی اور یہ پتھروں سے شہر تعمیر کرتے اور اس میں رہتے۔ اللہ عزوجل ان کے طولِ قامت ہونے کا تذکرہ پارہ30 سورہ فجر میں فرماتا ہے:

اِرَمَ ذَاتِ الْعَمَادِ ۝الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُھَا فِی الْبِلَادِ ۝

ترجمۂ کنز الایمان: وہ ارم حد سے زیادہ طول والے کہ ان جیسا شہروں میں پیدا نہ ہوا۔ (پ30،الفجر: 7،8)

تفسیرجلالین میں ہے :

ان کے قد کی طوالت 400 گز تھی۔اور مفسرین کرام کے ایک قول کے مطابق ان کے تعمیر کردہ شہروں کی تعداد 700 تھی۔

نیز رب تعالی نے انہیں بہتے چشموں اور باغوں سے بھی نوازا تھا جس کا ذکر سورۂ شعراء پارہ 19 میں یوں ہے:

اَمَدَّکُمْ بِاَنْعَامٍ وَّ بَنِیْنَ ۝ وَجَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ ۝

ترجمۂ کنزالایمان:تمہاری مدد کی چوپایوں اوربیٹوں اور باغوں اور چشموں سے۔

(پ19، الشعراء: 133،134)

لیکن اس سب پہ شکرالٰہی کے بجائے یہ تکبر کرتے اور لوگوں کو ستاتے۔

ان کے تکبر اور سرکشی کا تذکرہ اس طرح قرآن مجید کی سورۂ شعرآء کی آیت نمبر 128 تا131 میں اس طرح ہے:

اَتَبْنُوْنَ بِکُلِّ رِیْعٍ اٰیَةً تَعْبَثُوْنَ ۝ وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّکُمْ تَخْلُدُوْنَ ۝ وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ ۝فَاتَّقُواللّٰهَ وَاَطِیْعُوْنِ ۝

ترجمۂ کنز الایمان: کیا ہر بلندی پر ایک نشان بناتے ہو راہ گیروں سے ہنسنے کواور مضبوط محل چنتے ہو اس اُمید پر کہ تم ہمیشہ رہوگے اور جب کسی پر گرفت کرتے ہو تو بڑی بیدردی سے گرفت کرتے ہوتو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔

مفسرین فرماتے ہیں:قوم عاد بلند مقامات پہ عمارتیں وغیرہ بناتے اور وہاں سے راہگیروں کو ستاتے اور اپنے محل پتھروں سے مضبوط بناتے اکثر پہاڑ کی گھاٹیوں میں ایسے گھر بناتے جنکے درمیان پانی کا حوض بھی قائم کرتے اور سمجھتے کہ دنیا ک زندگی ہی سب کچھ ہے اور بہت ظالم تھے کہ کمزوروں پہ ظلم ڈھاتے اور معاملات میں ان پہ گرفت مضبوط رکھتے۔

حضرت ھود علیہ السلام نے کئی سال تک قوم عاد کو تبلیغِ دین فرمائی اور انہیں ان کی بد اعمالیوں سے باز رہتے ہوئے عذابِ الہٰی کی وعید فرماتے رہے لیکن بجائے اس کے کہ یہ قوم دعوت دین قبول کر کے اللہ عزوجل کی توحید کا اقرار کرتی ھود علیہ السلام کی رسالت کو مانتے اور اللہ عزوجل کی نعمتوں کا شکر بجا لاتی وہ اپنے شرك و کفر پہ قائم رہی سوائے چند ایک کہ کوئی ایمان نہیں لایا بلکہ عذاب الہٰی کا مطالبہ کرتے رہے ۔ تووہ عذاب جس کا انہیں وعدہ دیا جارہا تھا اور وہ سرکشی کرتے ہوئے طلب کر رہے تھے کی جھلکیاں کی شروع ہوگئیں۔

عذاب الہٰی کی جھلکیاں :

تین سال تک بالکل بارش نہ ہوئی اور قومِ عاد اناج کے دانے دانے کو ترس گئی اور ہر طرف قحط سالی کا دوردورہ ہو گیا ۔ بجائے اس کے کہ قوم عاد اس سے عبرت حاصل کرتی انہوں نے ایک وفد جو کہ تین افراد پہ مشتمل تھا خانۂ کعبہ کی جانب بھیج دیا کہ اس زمانے کا دستور تھا کہ جب کوئی مصیبت آتی تو خانۂ کعبہ جا کر مصیبت کی ردّ کی دعا کرتے ۔ مکہ مکرمہ میں ان دنوں قوم عمالیق آباد تھی انکا سردار معاویہ بن ابو بکر نامی شخص تھا جسکا ننھیال قوم عاد میں تھے یہ وفد اسی کے ہاں ٹھہرا اور معاویہ بن ابوبکر نے خاطر خواہ مدارت کی یہ لوگ وہاں شراب پیتے اور باندیوں کے ناچ دیکھتے ایک ماہ اسی لہو لعب میں گزار دیا معاویہ بن ابو بکر کو خیال آیا یہ کس مقصد کیلئے یہاں آئے تھے اور اب قوم کو بھولے بیٹھے ہیں خود سے یاد دلاتا ہوں تو یہ ہوگا کہ مہمان نوازی گراں ہے چنانچہ اس نے گانے والی باندی کو ایسے اشعار دئیے جس میں قوم عاد کی مصیبت تذکرہ تھا تو جب باندی نے ان اشعار سے یاد دلایا تو انہیں اپنا مقصدِ آمد یاد آیا اور خانۂ کعبہ کی جانب دعا کیلئے روانہ ہونے لگے تو ان میں ایک صاحب مرثد بن سعد نامی تھے جو ایمان لاچکے تھے اور ایمان خفیہ رکھا تھا بول اٹھے: اللّٰه کی قسم ! تمہاری دعا سے پانی نہ برسے گا مگر یہ کہ تم اپنے نبی کی اطاعت کرو اور اللہ سے توبہ کرو انہوں نے مرثد بن سعد کو وہیں چھوڑا اور خود دعا کیلئے روانہ ہوئے۔

عذابِ الہٰی کا نزول :

ان لوگوں نے خانۂ کعبہ جا کر دعا کی رّب تعالیٰ نے تین بادل بھیجے سرخ،سفید،سیاہ کہ جس کو چاہے اپنی قوم کیلئے پسند کرلو۔ انہوں نے ابرِسیاہ کو پسند کیا کہ خوب پانی برسے گا جب یہ ابر قوم کی طرف بڑھا تو بہت خوش ہوئے کہ خوب پانی ملے گا یہ بادل پچّھم کی طرف سے بڑھا لیکن اس میں سخت آندھی تھی جو کہیں سے کہیں اڑا کے آدمیوں کو لے جاتی تھی یہ دیکھ کے انہوں نے گھروں میں داخل ہوکر دروازے بند کرلئے لیکن وہ ہوا انکےگھروں کو بھی اڑا کے لے گئی یہ ہوا مسلسل سات رات اور آٹھ دن چلتی رہی اور قوم عاد کا ایک ایک شخص فنا ہوگیا حتی کہ کوئی بچہ بھی باقی نہ رہا۔ پھر ربّ تعالیٰ نے پرندوں کے غول بھیجے جنہوں نے انکی لاشوں کو سمندر میں پھینک دیا اور یوں رب تعالی کی نافرمان یہ قوم جس کو اپنے زورِبازو پہ بہت ناز تھا نیست ونابود ہوئی۔

اور حضرت ھود علیہ السلام اپنے ساتھ ان چند لوگوں کو لیکر جو ایمان لے آئے تھے مکۂ مکرمہ میں سکونت پذیر ہوئے اور آخر عمر تک وہیں عبادت میں مصروف رہے۔


قومِ عاد کی نافرمانیاں

Wed, 2 Jun , 2021
3 years ago

جب بھی ارضِ مقدس پر فساد برپا ہوا، اس کی بنیاد  انسان ہی بنا، تخلیقِ آدم سے لے کر آج تک انسانیت مختلف عروج و زوال سے گزری اور تاریخ میں ایسی قومیں بھی گزری ہیں، جو آنے والے انسانوں کے لئے عبرت بنیں اور رہتی دنیا تک بطورِ عبرت یاد کی جانے لگیں، انہی قو موں میں سے ایک قوم"قومِ عاد "بھی تھی۔

قومِ عاد کا تعارف:

قومِ عاد ایک قدیم عربی قوم ہے، یہ قوم حضرت نوح علیہ الصلاۃ والسلام کی چوتھی نسبت سے تھی، یہ قوم "عاد بن عاص" کی اولاد تھے اور انہوں نے اپنے قبیلے کا نام اپنے اجداد کے نام پر رکھا، قومِ عاد دو ہیں، عادِ اولی۔عادِ ثانیہ، عادِ اولی حضرت ہود علیہ السلام کی قوم تھی، اور عادِ ثانیہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم تھی، ان دونوں کے درمیان سو برس کا فاصلہ تھا، قومِ عاد کا ایک اپنا تہذیب و تمدن تھا، وہ ترقی یافتہ اور خوش خال لوگ تھے، قومِ عاد کے لوگوں کے قد کھجور کے درخت کی طرح لمبے اور بھاری تھے۔

قرآن پاک کی سورۃ الفجر کی آیت نمبر 6تا8 میں ان کو یوں بیان کیا گیا ہے،

ترجمہ کنز الایمان: کیا تم نے نہ دیکھا تمہارے رب نے عاد کے ساتھ کیسا کیا وہ ارم حد سے زیادہ طول والے کہ ان جیسا شہروں میں پیدا نہ ہوا“

قوم عاد پر عذاب:

قومِ عاد ایک سرکش اور نافرمان قوم تھی، وہ مختلف عقائد کو ماننے والے تھے، انہوں نے مختلف معبود بنائے ہوئے تھے اور وہ ان کی پوجا کیا کرتے تھے، قرآن مجید میں مختلف مقامات پراس نافرمان قوم کا ذکر آیا ہے، پارہ 8سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 65 میں یوں ذکر کیا گیا ہے،

ترجمۂ کنز الایمان:"اور عاد کی طرف ان کی برادری سے ہود کو بھیجا، کہا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اور اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں۔"

تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کی وضاحت یوں کی گئی ہے کہ اللہ تعالی نے قومِ عاد کی ہدایت کے لئے ان کے ہم قوم حضرت ہود علیہ الصلاۃ والسلام کو ان کی طرف بھیجا اور انہوں نے ان سے فرمایا:اے میری قوم! تم صرف اللہ تعالی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تمہیں اللہ عزوجل کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا۔

اس پر قوم کے کافر سرداروں نے جواب دیا کہ"ہم تمہیں رسالت کے دعوے میں سچا ہی نہیں مانتے، ہم تو تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں، حضرت ہود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:اے میری قوم!بے وقوفی کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں، میں تو ربّ العالمین کا رسول ہوں، میں تو تمہیں اپنے ربّ عزوجل کے پیغامات پہنچاتا ہوں، اس پر ان کی قوم جواب دیتی ہے کہ کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ عزوجل کی عبادت کریں اور جن بتوں کی عبادت ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے، انہیں چھوڑ دیں اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔

حضرت ہود علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:"عذاب نازل ہونے کا وقت مجھے معلوم نہیں کیونکہ اس کا علم تو صرف اللہ تعالی ہی کو ہے۔"پھر اللہ تعالی نے ان کی طرف ایک سیاہ بادل چلایا، جس میں ان پر آنے والا عذاب تھا اور جب انہوں نے اس بادل کو وادیوں کی طرف آتے ہوئے دیکھا تو وہ خوش ہو گئے اور کہنے لگے "تو یہ ہمیں بارش دینے والا بادل ہے"، حضرت ہود علیہ السلام نے ان سے فرمایا" کہ یہ برسنے والا بادل نہیں ہے، بلکہ یہ تو وہ عذاب ہے، جس کی تم جلدی مچا رہے تھے، اس بادل میں ایک آندھی ہے، جس میں دردناک عذاب ہے"، اس آندھی کے عذاب نے اس نافرمان قوم کے مرد وں، عورتوں سب کو ہلاک کر دیا، آندھی نے ان کا نام و نشان مٹا دیا، قومِ عاد نے اپنے پیغمبرِ وقت کے ساتھ بدسلوکی کی تھی اور گستاخی و سرکشی پر اُتر آئی تھی، اس لئے اللہ تعالی نے انہیں دنیا میں عذاب کا مزہ چکھایا اور آخرت کی نعمتوں سے بھی انہیں محروم کردیا اور ہر وہ قوم جو دنیا میں سرکشی کرے گی اس کے لئے دنیا مین لعنت اور بروزِ قیامت نارِ جہنم ہے۔


قومِ عاد کی نافرمانیاں

Wed, 2 Jun , 2021
3 years ago

اللہ پاک نے قرآن کریم میں اُمّتِ محمدی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی عبرت اور نصیحت کے لئے سابقہ اُمّتوں کی نافرمانیوں کو بیان فرمایا ہے، انہیں میں سے ایک قومِ عادبھی ہے۔

قومِ عاد کا تعارف:

حضرت ہود علیہ السلام کی قوم کا نام عاد ہے، یہ ایک قبیلہ ہے اور دراصل یہ ایک شخص کا نام ہے، جس کی اولاد سے یہ قبیلہ ہے۔(مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ:132، ص826)

قومِ عاد کی نافرمانیوں سے متعلق قرآن کریم میں ارشاد ہوا :

وَ تِلْكَ عَادٌ ﳜ جَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ عَصَوْا رُسُلَهٗ وَ اتَّبَعُوْۤا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ(۵۹)

ترجمۂ کنز العرفان:"اور یہ عاد ہیں، جنہوں نے اپنے ربّ کی آیتوں کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر بڑے سرکش ہٹ دھرم کے کہنے پر چلے۔"(پ12، ہود، 59)

اَلَاۤ اِنَّ عَادًا كَفَرُوْا رَبَّهُمْ ؕ۔

ترجمۂ کنزالعرفان:"سن لو! بیشک عاد نے اپنے ربّ کے ساتھ کفر کیا۔(سورہ ہود، آیت60)


فَاَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ قَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةًؕ-اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِیْ خَلَقَهُمْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ؕ-وَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ۔

ترجمۂ کنزالعرفان:"تو وہ جو عاد تھے انہوں نے زمین میں ناحق تکبرکیا اور انہوں نے کہا: ہم سے زیادہ طاقتور کون ہے؟ اور کیا انہوں نے اس بات کو نہ دیکھا کہ وہ اللہ جس نے انہیں پیدا کیا ہے، وہ ان سے زیادہ قوت والا ہے اور وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے۔(پ24،حم السجدہ: 15)

كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ وَ عَادٌۢ بِالْقَارِعَةِ۔

ترجمۂ کنز العرفان:"ثمود اور عاد نے دلوں کو دہلا دینے والی (قیامت) کو جھٹلایا۔"(پ29، الحاقۃ، 4)

سورۃ اعراف آیت 65 تا 71 میں ہے:

ترجمۂ کنزالعرفان:"اور قومِ عاد کی طرف ان کے ہم قوم ہود کو بھیجا، (ہود نے) فرمایا:اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تم ڈرتے نہیں؟اس کی قوم کے کافر سردار بولے، بے شک ہم تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں اور بے شک ہم تمہیں جھوٹوں میں گمان کرتے ہیں، (ہود نے )فرمایا: اے میری قوم! میرے ساتھ بے وقوفی کا کوئی تعلق نہیں، میں تو ربّ العالمین کا رسول ہوں، میں تمہیں اپنے ربّ کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور میں تمہارے لئے قابلِ اعتماد خیرخوا ہ ہوں اور کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمھارے پاس تمھارے ربّ کی طرف سے تمہیں میں سے ایک مرد کے ذریعے نصیحت آئی، تا کہ وہ تمہیں ڈرائے اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قومِ نوح کے بعد جانشین بنایا اور تمہاری جسامت میں قوت اور وسعت زیادہ کی تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ، قوم نے کہا: کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں اور جن چیزوں کی عبادت ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں، اگر تم سچے ہو تو لے آؤ، وہ (عذاب)جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو، فرمایا: بے شک تم پر تمہارے ربّ کا عذاب اورغضب لازم ہوگیا، کیا تم مجھ سے ان ناموں کے بارے میں جھگڑ رہے ہو، جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں، جن کی کوئی دلیل اللہ نے نہیں اُتاری تو تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔

جب قومِ عاد نے کسی طرح حق کو قبول نہ کیا تو ان سے جس عذاب کا وعدہ کیا گیا تھا، وہ آ گیا، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے،

فَلَمَّا رَاَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِیَتِهِمْ ۙ-قَالُوْا هٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ؕ-بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِهٖ ؕ-رِیْحٌ فِیْهَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۙ ۔

ترجمہ کنزالعرفان:"پھر جب انہوں نے اسے(یعنی عذاب کو) بادل کی صورت میں پھیلا ہوا اپنی وادیوں کی طرف آتا ہوا دیکھا تو کہنے لگے:یہ ہمیں بارش دینے والا بادل ہے، ( کہا گیا کہ نہیں) بلکہ یہ تو وہ ہے، جس کی تم نے جلدی مچائی تھی، یہ ایک اندھی ہے، جس میں دردناک عذاب ہے۔"(پ26،الاحقاف:24)

چنانچہ قومِ عاد اس آندھی سے ہلاک کر دئیے گئے، قرآن کریم میں ہے:

وَ اَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَةٍۙ۔

ترجمۂ کنزالعرفان:"اور عاد کے لوگ تو وہ نہایت سخت گرجتی آندھی سے ہلاک کئے گئے۔"(الحاقۃ، آیت:6)

اللہ پاک ہمیں عبرت حاصل کرنے، اپنی نافرمانی سے بچنے، اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


قومِ عاد کی نافرمانیاں

Wed, 2 Jun , 2021
3 years ago

قومِ عاد احقاف میں رہتی تھی،  جو عمان و حضر موت کے درمیان ایک بڑا ریگستان تھا، ان کے مورثِ اعلی کا نام عادبن عوص بن ارم بن سام بن نوح ہے، پوری قوم کے لوگ ان کو مورثِ اعلی "عاد"کے نام سے پکارنے لگے، یہ لوگ بت پرست اور بہت بداعمال و بد کردار تھے، اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا، مگر اس قوم نے اپنے تکبر اور سر کشی کی وجہ سے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلایا اور اپنے کفر پر اڑے رہے، حضرت ہود علیہ السلام بار بار ان سرکشوں کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے، مگر اس شریر قوم نے نہایت بے باکی اور گستاخی کے ساتھ اپنے نبی سے یہ کہہ دیا:

اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَ نَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۚ-فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ۔

ترجمۂ کنزالایمان:"کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے، انہیں چھوڑ دیں تو لاؤ، جس کا ہمیں وعدہ دے رہے ہو اگر سچے ہو۔" ( پ8، الاعراف:70)

آخر عذابِ الہی کی جھلکیاں شروع ہوگئیں، تین سال تک بارش ہی نہیں ہوئی اور ہر طرف قحط و خشک سالی کا دور دورہ ہو گیا، یہاں تک کہ لوگ اناج کے دانے دانے کو ترس گئے۔(اغراض جلالین، ص8)

انہوں نے زمین کو فسق سے بھر دیا تھا اور دنیا کی قوموں کا اپنی جفا کاریوں سے اپنے زورِ قوت کے زعم میں پامال کر ڈالا تھا، اس زمانے کا یہ دستور تھا کہ جب کوئی بلا اور مصیبت آتی تھی تو لوگ مکہ معظمہ جا کر خانہ کعبہ میں دعائیں مانگتے تھے، تو بلائیں ٹل جاتی تھیں، اس لئے ان لوگوں نے ایک وفد مکہ مکرمہ کو روانہ کیا، اس وفد میں نعیم بن ہزّال اور مرثد بن سعد تھے، یہ و ہی صاحب ہیں، جو حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان لائیں اور اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے، حرم شریف میں داخل ہو کر قوم کے لئے پانی برسنے کی دعا کریں، اس وقت مرثد نے اپنے اسلام کا اظہار کر دیا، لوگوں نے مرثد کو چھوڑ دیا اور خود مکۂ مکرمہ جا کر دعا کی، اللہ تعالی نے تین بادل بھیجے، ایک سفید، ایک سرخ اور ایک سیاہ، آسمان سے ندا ہوئی کہ کہا کہ اے قیل!اپنے اور اپنی قوم کے لئے ان میں سے ایک ابر اختیار کر، اس نے سیاہ ابر کو اختیار کیا، بایں خیال سے کہ اس سے پانی برسے گا، مگر اس میں سے ایک ہوا چلی، وہ اس شدّت کی تھی کہ اونٹوں اور آدمیوں کواُڑا کر کہاں سے کہاں لے جاتی تھی، یہ دیکھ کر لوگ گھروں میں داخل ہوئے اور اپنے دروازے بند کرلئے، مگر ہوا کی تیزی سے بچ نہ سکے، اس نے دروازے بھی اُکھیڑ دئیے اور ان لوگوں کو بھی ہلاک کر دیا، قدرتِ الہی سے سیاہ پرندے نمودار ہوئے، جنہوں نے اُن کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا، حضرت ہود مؤمنین کو لے کر جدا ہوگئے تھے ، اس لئے وہ سلامت رہے۔(ترجمۂ کنز العرفان، تفسیر سورۃ الاعراف)


دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں   کراچی کے علاقے لیاری میں 5 مقامات پر ماہانہ دینی حلقوں کا انعقاد ہوا جن میں کابینہ نگران وکابینہ مشاورتوں کی اسلامی بہنوں نے مختلف مقامات پر شرکت کی ۔

ذمہ دار اسلامی بہنوں نے دینی حلقوں میں شریک اسلامی بہنوں کی تربیت کرتے ہوئے انہیں سنتوں بھرے اجتماع کو کیسے کامیاب بنایا جائے اس حوالے سے مدنی پھول دئیےاس کے ساتھ ساتھ کپڑے پاک کرنے کا طریقہ بتایا اور جن ذمہ داراسلامی بہنوں نے ہدف سے زیادہ ڈونیشن جمع کروائے ان کے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں تحائف پیش کئے ۔


 اسلامی بہنوں کے شعبہ اصلاحِ اعمال کے تحت گزشتہ دنوں کراچی کھارادر کابینہ میں اصلاحِ اعمال اجتماع کاانعقاد ہوا جس میں کابینہ مشاورت اصلاح اعمال ذمہ دار اسلامی بہن نے نیک اعمال نمبر 13 پر عمل کا جذبہ اجاگر کرتے ہوئے روزانہ صلوٰۃ التوبہ ادا کرنے، گناہوں پر استغفار کرنے اور جائزہ لینے کا ذہن دیا جس پر اجتماع میں شریک اسلامی بہنوں نے ان مدنی پھولوں پر عمل کرنے کی اچھی اچھی نیتوں کااظہار کیا۔

اسی طرح گزشتہ دنوں کراچی لیاری کابینہ ، صدر کابینہ ، بلدیہ کابینہ، نیو کراچی کابینہ اور ماڑی پور کابینہ میں اصلاح ِاعمال اجتماعات کاانعقاد ہوا جن میں ڈویژن ، علاقہ اور ذیلی سطح کی ذمہ داراسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

کابینہ مشاورت ذمہ داراسلامی بہنوں نے کارکردگی وصول کرنے کا انداز سمجھایااور نئی مدنی مذاکرہ کارکردگی سمجھاتے ہوئے کارکردگی جدول کے حوالے سے اسلامی بہنوں کو نکات بتائے۔


اسلامی بہنوں کے شعبہ روحانی علاج کے تحت  گزشتہ دنوں نیوکراچی، سرجانی اور اورنگی ٹاؤن کے بستوں پر تربیت کاسلسلہ ہواجن میں زون مشاورت ذمہ دار اسلامی بہن نے اسلامی بہنوں کی سابقہ دینی کاموں کی کارکردگی کاجائزہ لیتے ہوئے اسلامی بہنوں کو شعبہ میں بہتری کےحوالے سے نکات فراہم کئے اور آئندہ کے لئےاہداف دیئے۔


قومِ عاد کی نافرمانیاں

Wed, 2 Jun , 2021
3 years ago

وَاِلٰی عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوداً قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُو اللہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ اَفَلَا تَتَّقُوْن۔

ترجمۂ کنز الایمان:" اور عاد کی طرف ان کی برادری سے ہود کوبھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں۔"(پ8، اعراف: 65)

قوم عاد احقاف میں رہتی تھی، احقاف عمان اور حضر موت کے درمیان علاقہ یمن میں ایک ریگستان ہے، قومِ عاد نے زمین کو فسق سے بھر دیا تھا، یہ لوگ بت پرست تھے، ان کے ایک بت کا نام "صُداء" اور ایک کا نام" صمود"اور ایک کا نام"ہباء" تھا۔

اللہ تعالی نے ان میں حضرت ہود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا، آپ نے انہیں توحید کا حکم دیا، شرک، بت پرستی اور ظلم و جفا کاری کی ممانعت کی، لیکن وہ لوگ نہ مانے اور آپ کی تکذیب کرنے لگے اور کہنے لگے ہم سے زیادہ زورآور کون ہے؟

ان میں سے صرف چند آدمی حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان لائے، جو بہت تھوڑے تھے اور وہ بھی مجبوراً اپنا ایمان چھپائے رکھتے تھے، ان مؤمنین میں سے ایک شخص کا نام "مرثد بن سعد" تھا، وہ اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے، جب قوم نے سرکشی کی اور اپنے نبی حضرت ہود علیہ السلام کی تکذیب کی اور زمین میں فساد کیا اور ستم گاریوں میں زیادتی کی اور بڑی بڑی مضبوط عمارتیں بنائیں تو اللہ تعالی نے ان پر بارش روک دی۔

تین سال بارش نہ ہوئی، اب وہ بہت مصیبت میں مبتلا ہوئے اور اس زمانے میں دستور یہ تھا کہ جب کوئی بلایا مصیبت نازل ہوتی تھی تو لوگ بیت الحرام میں حاضر ہو کر اللہ تعالی سے اس مصیبت کو دُور کرنے کی دعا کرتے تھے، اس لئے ان لوگوں نے ایک وفد بیت اللہ کو روانہ کیا، اس وفد میں تین آدمی تھے، جن میں مرثد بن سعد بھی تھے، یہ وہی صاحب ہیں، جو حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان لائے تھے اور اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے۔اس زمانے میں مکہ مکرمہ میں عمالیق کی سکونت تھی اور ان لوگوں کا سردار معاویہ بن بکر تھا، اس شخص کا ننھیال قو مِ عاد میں تھا، اسی علاقہ سے یہ وفد مکہ مکرمہ کے حوالے میں معاویہ بن بکر کے یہاں مقیم ہوا۔اُس نے لوگوں کی بہت عزت کی اور نہایت خاطر و مدارت کی، یہ لوگ وہاں شراب پیتے اور باندیوں کا ناچ دیکھتے تھے، اس طرح انہوں نے عیش و نشاط میں ایک مہینہ بسر کیا۔معاویہ کو خیال آیا کہ یہ لوگ تو را حت میں پڑگئے اور قوم کی مصیبت کو بھول گئے، جو وہاں گرفتارِ بلا ہے، مگر معاویہ بن بکر کو یہ خیال بھی تھا کہ اگر وہ ان لوگوں سے کچھ کہے تو شاید وہ یہ خیال کریں کہ اب اس کو میزبانی گراں گزرنے لگی ہے۔

اس لئے اس نے گانے والی باندی کو ایسے اشعاردئیے، جن میں قومِ عاد کی حاجت کا تذکرہ تھا، جب باندی نے وہ نظم گائی تو ان لوگون کو یاد آیا کہ ہم اس قوم کی مصیبت کی فریاد کرنے کے لئے مکہ مکرمہ میں بھیجے گئے ہیں، اب انہیں خیال ہوا کہ حرم شریف میں داخل ہو کر قوم کے لئے پانی برسنے کی دعا کریں۔اس وقت مرثد بن سعد نے کہا کہ اللہ عزوجل کی قسم! تمہاری دعا سے پانی نہ برسے گا، البتہ اگر تم اپنے نبی کی اطاعت کرو اور اللہ تعالی سے توبہ کرو تو بارش ہو گی، اس وقت مرثد نے اپنے اسلام کا اظہار کر دیا، ان لوگوں نے مرثد کو چھوڑ دیا اور خود مکہ مکرمہ جا کر کر دعا کی، اللہ تعالی نے تین قسم کے بادل بھیجے، ایک سفید، ایک سُرخ اور ایک سیاہ۔اس کے ساتھ آسمان سے ندا ہوئی کہ اے قیل! اپنے لئے اور اپنی قوم کے لئے ان میں سے ایک بادل اختیار کر، اس نے اس خیال سے سیاہ بادل کو اختیار کیا کہ اس سے بہت پانی برسے گا، چنانچہ وہ بادل قومِ عاد کی طرف چلا اور وہ لوگ اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے، مگر اس سے ایک ہوا چلی، جو اس شدت کی تھی کہ اونٹوں اور آدمیوں کو اُڑا اُڑا کر کہیں سے کہیں لے جاتی تھی۔یہ دیکھ کر وہ لوگ گھروں میں داخل ہوئے اور اپنے دروازے بند کر لئے، مگر ہوا کی تیزی سے بچ نہ سکے، اس نے دروازے بھی اُکھیڑ دئیے اور ان لوگوں کو ہلاک بھی کر دیا اور قدرتِ الہی سے سیاہ پردے نمودار ہوئے ، جنہوں نے اُن کی لاشوں کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا، حضرت ہود علیہ السلام مؤمنین کو لے کر جدا ہوگئے تھے، اس لئے وہ سلامت رہے، قوم کے ہلاک ہونے کے بعد وہ ایمانداروں کو لے کر مکہ مکرمہ تشریف لائے اور آخر عمر تک وہیں اللہ کی عبادت کرتے رہے۔(تفسیر صراط الجنان، ص356، 357)