
اَلَمْ
یَاْتِهِمْ نَبَاُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ
ثَمُوْدَ وَ قَوْمِ اِبْرٰهِیْمَ وَ اَصْحٰبِ مَدْیَنَ وَ الْمُؤْتَفِكٰتِؕ-اَتَتْهُمْ
رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِۚ-فَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَ لٰكِنْ
كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۷۰)
ترجمۂ کنز الایمان :کیا انہیں اپنے سے اگلوں کی خبر نہ آئی نو ح کی قوم اور عاد
اور ثمود اور ابراہیم کی قوم اور مدین والے اور وہ بستیاں کہ الٹ دی گئیں ان کے
رسول روشن دلیلیں ان کے پاس لائے تھے تو اللہ کی شان نہ تھی کہ ان پر ظلم کرتا
بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظالم تھے.
(پ10، التوبہ: 70)
قرآن پاک میں پچھلی قوموں کے واقعات کا تذکرہ کیا گیا تاکہ ہم
اس سے نصیحت حاصل کریں.
جن قوموں کی نافرمانیوں کی وجہ سےان پر اللہ پاک کا عذاب نازل
ہوا ان میں سے ایک قوم قوم عاد بھی ہے...
قومِ عاد احقاف میں رہتی تھی، احقاف عمان اور حضر موت کے
درمیان علاقہ یمن میں ایک ریگستان ہے۔ قومِ عاد نے زمین کو فِسق سے بھر دیا تھا۔
یہ لوگ بت پرست تھے ان کے ایک بت کا نام’’ صُدَاء‘‘اور ایک کا ’’صُمُوْد‘‘ اور ایک
کا ’’ ہَباء‘‘ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معبوث فرمایا آپ نے اُنہیں توحید کا حکم
دیا ،شرک وبُت پرستی اور ظلم و جفا کاری کی ممانعت کی، لیکن وہ لوگ نہ مانے اورآپ
کی تکذیب کرنے لگے اور کہنے لگے ہم سے زیادہ زور آور کون ہے؟ اُن میں سے صرف چند
آدمی حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام پر ایمان لائے جو بہت
تھوڑے تھے اور وہ بھی مجبوراً اپنا ایمان چھپائے رکھتے تھے۔ اُن مؤمنین میں سے
ایک شخص کا نام مرثدبن سعد تھا، وہ اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے ۔جب قوم نے سرکشی کی
اور اپنے نبی حضرت ہود عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی
اور زمین میں فساد کیا اور ستم گاریوں میں زیادتی کی اور بڑی بڑی مضبوط عمارتیں
بنائیں تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بارش روک دی، تین سال بارش نہ
ہوئی۔
(تفسیر صراط الجنان جلد 3 صفحہ356)
وَ تِلْكَ عَادٌ ﳜجَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ عَصَوْا رُسُلَهٗ وَ
اتَّبَعُوْۤا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ(۵۹)
ترجمۂ کنز الایمان: اور یہ عاد ہیں کہ اپنے رب کی آیتوں سے منکر ہوئے اور اس کے رسولوں کی
نافرمانی کی اور ہر بڑےسرکش ہٹ دھرم کے کہنے پر چلے۔(پ12،ہود:59)
قوم عاد اپنی نافرمانیوں کے باعث لعنت کے حقدار ہوئے جیسا کہ
سورہ ہود آیت 60 ميں ہے...
وَ
اُتْبِعُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةً وَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ؕ-اَلَاۤ
اِنَّ عَادًا كَفَرُوْا رَبَّهُمْ ؕ-اَلَا بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ هُوْدٍ۠
ترجمۂ کنز الایمان:اور
ان کے پیچھے لگی اس دنیا میں لعنت اور قیامت کے دن سن لوبیشک عاد اپنے رب سے منکر
ہوئے ارے دور ہوں عاد ہود کی قوم۔(پ12،ھود،60)
تفسیر صراط الجنان میں ہے
یعنی دنیا اور
آخرت دونوں جگہ لعنت ان کے ساتھ ہے اورلعنت کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور ہر بھلائی سے دوری۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے برے انجام کا اصلی سبب
بیان فرمایا کہ قومِ عاد نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کفر کیا
اس لئے ان کا اتنا برا انجام ہوا، سن لو! حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم عاد کے لئے رحمتِ الٰہی سے دوری
ہے۔
( تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۶۰ ، ۶ / ۳۶۷ )
قوم عاد اپنے نبی کی گستاخ اور اپنے نبی کی تکذیب کرنے والی
تھی انہوں نے اپنے نبی علیہ السلام کی نصیحتوں کو نہ مانا زمین میں فسادکیا اپنی
طاقت کے نشے میں مست رہے اونچی اونچی عمارتیں تعمیر لیں لیکن کوئی طاقت کوئی اونچی
عمارت ان کو اللہ پاک کے عذاب سے نہ بچا سکی..
چند ایک کے سوا اکثریت ایمان نہ لائی چنانچہ ان کو عذاب کے
ذریعے ہلاک کر دیا گیا اور ایمان والوں کو بچا لیا گیا
وَ لَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا هُوْدًا وَّ الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا ۚ-وَ نَجَّیْنٰهُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ
ترجمۂ کنز الایمان:اور جب ہمارا حکم آیا ہم نے ہود اور اس کے ساتھ کے مسلمانوں کو
اپنی رحمت فرما کر بچالیا اور انہیں سخت عذاب سے نجات دی۔(پ12،ہود:58)
تفسیر صراط
الجنان میں اس کے تحت فرمایا گیا کہ جب
حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے نصیحت حاصل نہ کی تو قادر و قدیر اور سچے رب تعالیٰ کی بارگاہ سے
ان کے عذاب کا حکم نافذ ہوگیا، جب ان کی ہلاکت اور ان پر عذاب کا حکم آیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان پر ایمان لانے
والوں کو جن کی تعداد چار ہزار تھی اپنی رحمت کے ساتھ عذاب سے بچا لیا اور قومِ
عاد کو ہوا کے عذاب سے ہلاک کردیا۔ مسلمانوں پر رحمت اس طرح ہے کہ جب عذاب نازل
ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں
کو اس سے محفوظ رکھا اور ارشاد فرمایا کہ جیسے مسلمانوں کو دنیا کے عذاب سے بچایا
ایسے ہی اللہ تعالیٰ انہیں آخرت کے سخت عذاب سے بھی نجات دے گا۔ ( خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۵۸ ، ۲ / ۳۵۸ ، ملخصاً )
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایمان اور نیک اعمال نجات کا ذریعہ اور سبب ہیں
لیکن در حقیقت نجات صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ملتی ہے۔
اللہ پاک ہمیں پچھلی قوموں کے واقعات سے عبرت حاصل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے اور اپنی رحمتوں سے وافر حصہ عطا فرمائے... آمین.

اسلامی بہنوں کے شعبہ مدرسۃالمدینہ بالغات کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں کراچی کے علاقے لیاری کابینہ میں مدنی مشورہ ہو اجس میں شعبہ مدرستہ المدینہ
بالغات کی مدرسات نے شرکت کی۔
کابینہ
مشاورت ذمہ دار اسلامی بہن نے مدرسۃالمدینہ بالغات کے درجوں کو مضبوط کرنے کےحوالےسے
مدنی پھول دئیے اور مدرسات کو مدرسہ کورس کرنے کی ترغیب دلائی جس پر مدرسات نے درجوں کو بہتر کرنے کی نیتوں کااظہار
کیا۔

اللہ عزوجل نے ہر قوم کی ہدایت و
رہنمائی کے لئے نبیوں کو مبعوث فرمایا اور قومِ عاد کی رہنمائی کے لئے حضرت ہود
علیہ السلام بھیجے گئے۔
حضرت ہود علیہ
السلام کا تعلق:
حضرت ہود علیہ السلام عادبن اوس بن سام کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، سب سے پہلے عربی زبان میں کلام کرنے والے بھی
حضرت ہود علیہ السلام ہی تھے۔(قصص الانبیاء)
اللہ عزوجل قرآن مجید، فرقانِ حمید کی سورہ اعراف کی آیت نمبر 65 میں
ارشاد فرماتا ہے:
ترجمۂ کنزالایمان:"اور عاد کی طرف ان کی برادری سے ہود کو بھیجا، کہا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں
ڈر نہیں۔"(پ8، اعراف: 65)
حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم
سے فرمایا:"میں خدا کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ جن کو تم خدا کا شریک بناتے
ہو، میں ان سے بیزار ہوں، جن کی تم خدا کے علاوہ عبادت کرتے ہو، تو تم سب مل کر میرے بارے میں جو تدبیر کرنی چاہو
کر لو، میں خدا پر جو میرا اور تمہارا
پروردگار ہے، بھروسہ رکھتا ہوں۔"
یہ وہی عاد ہے، جنہوں نے خدا کی نشانیوں کا انکار کیا اور ہر
متکبر کی بات مانی، تو اس کے نتیجے میں
دنیا میں اور قیامت کے دن دونوں جگہ وہ ملعون کئے گئے۔
قومِ عاد کا مرنے کے بعد دوبارہ
زندہ ہونے کو جھٹلاتے ہوئے جواب:
قوم عاد نے آخرت کو بعید از قیاس
قرار دیا اور اجسام کے مٹی اور دوبارہ زندہ ہونے کے بارے میں انکار کرتے ہوئے کہا:"
لوگ پیدا ہو رہے ہیں اور مر رہے ہیں، اسی
طرح یہ سلسلہ چل رہا ہے۔" یہ بے دین اور جاہل لوگوں کا عقیدہ رکھتے ہوئے کہا
کہ"انسان ماؤں کے پیٹوں سے پیدا ہو رہے ہیں اور آخرکار زمین انہیں نگل جاتی
ہے اور معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔"
جب کہ اللہ عزوجل قرآن پاک میں
سورہ اعراف کی آیت نمبر 25 میں فرماتا ہے:
ترجمۂ کنزالایمان:"اسی میں جیو گے اور اسی میں مرو گے اور اسی میں سے
اٹھائے جاؤ گے۔"
عذاباتِ الہی:
قومِ عاد کی نافرمانیوں کے سبب
اللہ عزوجل نے اس کو عبرت کا نشان بنانے کے لئے اپنا عذاب نازل فرمایا، جس کا ذکر قرآن مجید کی سورۃ الذٰریات کی آیت
نمبر 41 تا 42 میں یوں فرمایا گیا: ترجمۂ
کنزالایمان:"اور عاد میں(بھی نشانی ہے) جب ہم نے ان پر خشک آندھی
بھیجی، وہ جس چیز پر گزرتی تھی، اسے گلی ہوئی چیز کی طرح کر چھوڑتی۔"
اللہ تعالی نے قومِ عاد کی نافرمانیوں کے سبب شدید
آندھی/ہوا کی صورت میں عذاب نازل فرما کر دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی مقدر کی۔الامان
و الحفیظ ۔ہم اللہ عزوجل سے ایمان و عافیت کا سوال کرتے ہیں۔

اسلامی بہنوں کے شعبہ ڈونیشن
بکس کے تحت گزشتہ دنوں کراچی ریجن ایسٹ 2 زون میں بذریعہ کال مدنی
مشورہ ہواجس میں ایسٹ 2 زون کی زون ،
لیاقت آباد کابینہ و ڈویژن ذمہ دار اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔
ریجن مشاورت ذمہ دار اسلامی بہن نےذمہ داراسلامی بہنوں کو ہر ماہ ماہانہ مدنی مشورہ وقت پر لینے ،کارکردگی جدول دینے ،ماتحت سے وصول کرنے کاذہن دیا ۔
ماہانہ کارکردگی مکمل فارمٹ کے مطابق وقت پر
دینے کی ترغیب دلاتے ہوئےہر ماہ صدقہ بکس
کی رجسٹریشن کرنے کا ہدف دیا اور ڈونیشن
بکس کوڈ وائز معلومات کی اپ ڈیٹ
دینے کے اہداف دیئے۔

قوم عاد مقام احقاف میں رہتی تھی، ان کے مورثِ اعلي کا نام عاد بن عوص ہے، پوری قوم کو لوگ ان کے مورثِ اعلیٰ عاد کے نام
سے پکارنے لگے، یہ لوگ بت پرست ، بد اعمال اور بدکردار تھے، اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود علیہ السلام کو ان
لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا، مگر اس قوم
نے اپنے تکبر اور سرکشی کی وجہ سے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلا دیا، بلکہ اس شریر قوم نے نہایت ہی بے باکی کے ساتھ
اپنے نبی سے کہہ دیا، جیساکہ قرآنِ پاک
میں ارشادِ خداوندی ہے۔
ترجمۂ کنزالایمان:"کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو
پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انھیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دیتے ہو اگر سچے ہو۔"(پ8،
اعراف: 70)
نافرمانی پر سزا:
آخر عذابِ الہی کی جھلکیاں شروع ہوئیں، تین سال تک بارش نہ ہوئی، اس قوم
کے مرثد بن سعد جو مؤمن تھے اور کچھ دوسرے
لوگ کعبہ معظمہ گئے تا کہ وہاں جا کر عرف کے مطابق دعائیں مانگیں، جب انہوں نے
دعائیں مانگنی شروع کی، تو مرثد بن سعد کا
ایمانی جذبہ بیدار ہوگیا اور کہا: اے میری قوم!تم لاکھ دعائیں مانگو، مگر اللہ عزوجل
کی قسم تمہاری دعا سے پانی نہ برسے گا، البتہ اگر تم اپنے نبی کی اطاعت کرو۔
انہوں نے انہیں جھٹلا کر مکہ معظمہ جا کر دعائیں مانگیں، اللہ تعالی نے تین قسم کے بادل بھیجے، ایک سفید، ایک سر خ اور ایک سیاہ، اس کے ساتھ ندا ہوئی کہ ان میں سے ایک بدلی کو
پسند کر لو، ان لوگوں نے کالی بدلی کو پسند کر لیا، چنانچہ وہ ابران کی وادیوں کی طرف چلا، وہ دیکھ کر خوش ہوئے، حضرت ہود علیہ السلام نے پھر سمجھانے کی کوشش کی، مگر قوم نے جھٹلا دیا اور اپنی نافرمانی اور
سرکشی میں بھٹکتے رہے، یہ بادل برابر بڑھتا رہا، حتٰی کہ قومِ عاد کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا، یہ آندھی کی صورت اختیار
کر گیا تھا، جو سات رات اور آٹھ دن تک
مسلسل چلتی رہی، جب آندھی ختم ہوئی تو کالے پرندوں کے غول نے لاشوں کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا، حضرت ہود علیہ السلام نے باقی زندگی مکہ مکرمہ
میں گزاری۔(عجائب القرآن، 105۔103)

اسلامی بہنوں کے شعبہ اصلاح اعمال کے تحت گزشتہ
دنوں کراچی ریجن لیاری کابینہ میں مدنی مشورے کاانعقادہوا جس میں کابینہ، ڈویژن
اور علاقہ سطح کی اصلاح اعمال ذمہ داراسلامی بہنوں نے شرکت کی۔
زون سطح
کی اصلاح اعمال ذمہ دار اسلامی بہن نے
کارکردگی وصول کرنے کا بہترین طریقہ سمجھایا اور کارکردگی کو اچھے انداز میں پر
کرنے، وقت پر دینے کاذہن دیا نیز اچھی کارکردگی والی اسلامی بہنوں کوتحائف
بھی پیش کئے۔

اللہ عزوجل کے نبی حضرت ہود علیہ السلام کے دور کی ایک قوم تھی
جس کا نام قوم عاد تھا جو کہ بت پرست کیا کرتی تھی اللہ عزوجل نے حضرت ہود علیہ
السلام کو ا ن کی ہدایت کے لئے بھیجا مگر اس قوم نے اپنے تکبر اور سرکشی کی وجہ سے
حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلا دیا اور اپنے کفر پر اڑے رہے حضرت ہود علیہ السلام
بار بار ان سرکشوں کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے مگر اس شریر قوم نے نہایت ہی بے
باکی اور گستاخی کے ساتھ اپنے نبی سے یہ کہہ دیا!(کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو
کہ ہم ایک اللہ کو پوجيں اور جو ہمارے باپ
دادا پوجتے تھے انہیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دے رہے ہو اگر سچے ہو
تو)آخر عذابِ الٰہی کی جھلکیاں شروع ہو گئیں 3 سال تک بارش ہی نہیں ہوئی اور ہر طرف قحط و خشک سالی کا دور دورا ہو
گیا یہاں تک کی لوگ اناز کے دانے کو ترس گئے اس زمانے کا یہ دستور تھا کی جب کوئی
بلا اور مصیبت آتی تھی تو مکہ معظّمہ جاکر دعائیں مانگتے تھے تو بلائیں ٹل جاتی
تھی اس جماعت میں مرثد بن سعد نام ایک شخص تھا جو مومن تھا مگر اپنے ایمان کو اس
قوم سے چھپائے ہوئے تھا جب یہ لوگ دعائیں مانگنے کعبہ معظّمہ گئے تو مرثد بن سعد
کا ایمانی جذبہ بیدار ہو گیا اور اس نے تڑپ کر کہا کہ تم لاکھ دعائیں مانگ لو لیکن
اس وقت تک پانی نہیں برسے گا جب تک تم اپنے نبی حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان نہ
لاؤگے لیکن وہ قوم نہ مانی حضرت مرثد بن سعد نے جب اپنا ایمان ظاہر کر دیا تو قوم
عاد نے انہیں مار پیٹ کرکے الگ کر دیا اور دعائیں مانگنے لگے اس وقت اللہ تعالی نے
تین بدلیاں بھیجیں ۔ایک سفید ایک سرخ ایک سیاہ اور آسمان سے ایک اواز آئی کے اے قوم قوم عاد !تم لوگ اپنی قوم کے لئے ان تین
بدلیوں میں سے کوئی ایک بدلی پسند کرلو ان لوگوں نے یہ گمان کرکے کی کالی بدلی
زیادہ بارش کریگی کالی بدلی کو پسند کرلیا چنانچہ وہ ابرسیاہ قوم عاد کی آبادیوں
کی طرف چل دی یہ دیکھ کر قوم عاد کے لوگ بہت خوش ہوئے ۔۔۔حضرت ہود علیہ السلام نے
فرمایا کہ اے میری قوم ! دیکھ لو عذابِ الہٰی ابر کی صورت میں تمہاری طرف بڑھ رہا
ہے لیکن اس قوم نے اپنے نبی کو جھٹلا دیا اور کہا کہ کہاں کا عذاب اور کونسا عذاب ؟یہ
تو بادل ہے جو ہمیں بارش دینے کے لئے آ رہا ہے۔یہ بادل پچّھم کی طرف سے آبادیوں کی
طرف برابربڑھتا رہا اور ایک دم ناگہاں اس
میں سےایک آندھی آئی جو اتنی شدید تھی کی اونٹوں کومع ان کے سواروں کے اڑا کر کہیں
سے کہیں پھینک دیتی تھی پھر اتنی زوردار ہوئی کہ درختوں کو جڑوں سے اکھاڑکرلے گئی
یہ دیکھ کر قوم عاد نے اپنے سنگین محلوں
میں داخل ہو کر دروازہ بند کر لیا مگر آندھی کے جھونکے نہ صرف دروازہ کو اکھاڑ لےگئے
بلکے پوری عمارتوں کو جھنجھوڑ کر ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی سات رات اور آٹھ دن
مسلسل یہ آندھی چلتی رہی یہاں تک کہ قوم عاد کا ایک ایک آدمی مرکر فنا ہو گیا۔اور
اس قوم کا ایک بچہ بھی باقی نہ رہا!
درس ھدایت۔۔۔قرآن کریم کے اس وقعہ سے ہمیں سبق ملتا ہے کی قوم
عادجو بڑی طاقتور اور قد آور قوم تھی اللہ عزوجل کی نافرمانی کے سبب کس طرح برباد
ہوگئی کی ان کی قبروں کا بھی کہیں نشان باقی نہ رہا۔اس لئے جن لوگوں کو اپنی اور
اپنی نسلوں کی خیریت و بقا منظور ہے انہیں لازم ہے کہ اللہ و رسول عزوجل ﷺ کی نا
فرمانیوں اور بد اعمالیوں سے ہمیشہ بچتا رہے!
(عَجَائبُ القُرآن مع غرائب القرآن )

قوم عاداورمورث اعلی
قوم عاد مقام احقاف میں رہتی تھی جو
عمان اور حضرموت کے درميان ایک بڑا ریگستان تھاان کے مورث اعلی کانام عادبن عوض بن
ارم بن سام بن نوح ہےپوری قوم کے لوگ ان کو مورث اعلی عادکے نام سے پکارنے لگے
قوم عاد کے کارنامے
قوم عاد بڑی طاقتور قدآور قوم تھی ان لوگوں کی مالی خوشحالی
نہایت مستحکم تھی کیونکہ ان کے پاس لہلہاتے باغات تھے ان لوگوں نے پہاڑ تراش تراش
کر سردیوں اور گرمیوں کے الگ الگ محلات بنائے ان لوگوں کو اپنے تمول سامان عیش
عشرت پر بڑا ناز تھا
یہ لوگ بت پرست اور بہت بداعمال لوگ تھے اللہﷻنے حضرت ہود علیہ
السلام کو ان لوگوں کی طرف ہدایت کے لئے بھیجا انہوں نے تکبر کی وجہ سے حضرت ہود
علیہ السلام کوجھٹلایا آپ علیہ السلام انہیں عذاب الہی سے ڈراتے مگر شریر قوم نے
بےباکی کے ساتھ یہ کہہ دیا
ترجمۂ کنزالایمان:"کیا تم ہمارے پاس
اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انھیں
چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دیتے ہو
اگر سچے ہو۔"(پ8، اعراف: 70)
عذاب الہی کی جھلکیاں
عذاب الہی کی جھلکیاں شروع
ہوئیں تین سال تک بارش نہیں ہوئی قحط سالی ہوئی لوگ اناج کو ترسے ان کے زمانے کا
دستور تھا جب کوئی مصیبت آتی لوگ مکہ معظمہ جاکر دعا مانگتے ایک جماعت مکہ معظمہ
گئی اس جماعت میں مرثد بن سعد نامی ایک شخص تھا جو مومن تھا مگر ایمان قوم سے
چھپاے ہوے تھا جب جماعت نے کعبہ شریف میں دعا مانگنی شروع کی مرثد کا ایمان جوش
میں آیا اور کہا "اے میری قوم تم لاکھ دعا مانگو مگر خدا کی قسم اس وقت تک
بارش نہیں برسے گی جب تک ہود علیہ السلام
پر ایمان نہیں لاؤ گے یہ سن کر قوم کے
شریروں نے انہیں مار پیٹ کر الگ کردیا
تین بدلیاں
اس وقت اللہﷻ نے تین بدلیاں بھیجیں سفید سرخ اور سیاہ آسمان سے
آواز آئی قوم عاد تین بدلیوں میں سے ایک
پسند کرلو
ان لوگوں نے خوب بارش کی لگن کے لئے سیاہ بدلی کو پسند کر لیا
ابر سیاہ قوم عاد کی وادیوں کی طرف چل پڑا حضرت ہود علیہ اسلام نے فرمایا "اے
میری قوم دیکھ لو عذاب الہی ابر کی صورت میں تمہاری جانب بڑھ رہا ہے
قوم کے سرکشوں نے کہا کونسا عذاب ھٰذَاعَارِض
مُمْطِرُنَا(پ26، احقاف: 24)
یہ تو بادل ہے جو ہمیں بارش دینے آرہا ہے (روح البیان ج 3ص187تا189 پ8 سورۂ
اعراف)
عذاب اللہ
ابر سیاہ سے ایک دم اندھی آئی جو اتنی شدید تھی کے انکے اونٹوں
کو مع سوار کہی سے کہی پھنک دیتی یہ دیکھ
کر قوم عاد کے لوگوں نے اپنے سنگین محلوں کے دروازے بند کر لئے مگر آندھی کے جھوکے
نہ صرف دروازوں کو اکھاڑ کر لے گئے بلکہ پوری عمارت کو جھنجھوڑ کران کی اینٹ سے
اینٹ بجادی سات رات آٹھ دن تک اندھی چلتی
رہی حتی کے قوم عاد کا ایک بچہ باقی نھی رہا
عذابِ الہی کے بعد
پھر قدرت سےکالے رنگ کےپرندوں کا ایک غول نمودار ہوا جنہوں نے
ان کے لاشوں کو اٹھاکر سمندر میں پھنک دیا حضرت ہود علیہ السلام نےاس بستی کو چھوڑ
دیا جب مومنین ایمان لے آئے تو انہیں ساتھ مکۂ مکرمہ لے چلے آئے اور آخر زندگی تک
بیت اللہ میں عبادت کرتے رہے ۔(عجائب القرآن مع غرائب القرآن مطبوعہ مکتبۃ المدینہ
)

قوم ِعاد حضرت ہود علیہ السلام کی
قوم ہے اور یہ یمن میں آباد تھے، اللہ
تعالی نے قومِ عاد کی ہدایت کے لئے حضرت ہود علیہ السلام کو ان کی طرف بھیجا، حضرت
ہود علیہ السلام نے ان سے فرمایا:اے میری قوم!تم اللہ تعالی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، سردار بولے:"ہم تو تمہیں بے وقوف سمجھتے
ہیں اور جھوٹا گمان کرتے ہیں اور تمہیں رسالت کے دعوٰی میں سچا ہی نہیں جانتے
۔" کفار کا حضرت ہود علیہ السلام کی بارگاہ میں یہ گستاخانہ کلام"کہ تمہیں
بے وقوف سمجھتے ہیں، جھوٹا گمان کرتے ہیں"،
انتہا درجہ کی بے ادبی اور کمینگی تھی اور
وہ اس بات کے مستحق تھے کہ انہیں سخت ترین
جواب دیا جاتا، مگر حضرت ہود علیہ السلام
نے اپنے اخلاق و آداب اور شانِ حلم سے جو
جواب دیا، اس میں شانِ مقابلہ ہی نہ پیدا ہونے دی اور اُن کی جہالت سے چشم پوشی
فرمائی، چنانچہ فرمایا:"اے میری قوم!بے
وقوفی کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں، میں
تو ربّ العالمین عزوجل کا رسول ہوں، میں تو
تمہیں اپنے ربّ کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمہارے لئے قابلِ اعتماد خیر خواہ ہوں
اور کیا تمہیں اس بات کا تعجب ہے کہ تمہارے پاس ربّ کی طرف سے تمہیں میں سے ایک
مرد کے ذریعےآتی تا کہ وہ تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈرائیں، اللہ کا یہ احسان یاد کرو
کہ اس نے تمہیں قوم نوح کے بعد ان کا جانشین بنایا اور تمہیں عظیم جسمانی قوت سے
نوازا کہ قد کاٹھ اور قوت دونوں میں
دوسروں سے ممتاز بنا یا، تو اللہ کے
احسانات یاد کرو، اس پر ایمان لاؤ اور
اطاعت و بندگی کا راستہ اختیار کرو۔"
حضرت ہود علیہ السلام چونکہ اسی
قوم کی بستی سے علیحدہ ایک تنہائی کے مقام میں عبادت کیا کرتے تھے، جب آپ کے پاس
وحی آتی تو قوم کے پاس آ کر سنا دیتے، اس
وقت قوم یہ جواب دیتی کہ ہم اللہ کی عبادت کریں؟ اور جن بتوں کی عبادت ہمارے باپ
دادا کیا کرتے تھے، انہیں چھوڑ دیں، اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ، جن کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو، حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا:"بے شک تم
پر تمہارے ربّ کا عذاب اور غضب لازم ہو گیا۔"اللہ تعالیٰ نے قوم کو ہلاک
کردیا۔
ارشاد فرمایا:"کہ ہم نے قوم
کو سمجھانے کے لئے مثالیں بیان فرمائیں، ان پر حجتیں قائم کیں اور ان میں سے کسی کو ڈر
سنائے بغیر ہلاک نہ کیا اور جب انہوں نے انبیائے کرام علیھم السلام کو جھٹلایا، تو ہم نے سب کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔(جلالین، الفرقان، تحت الآیۃ 39، صفحہ 306)

اسلامی بہنوں کے شعبے شارٹ کورسز کے تحت کراچی ایسٹ
زون 2 میں 16 مقامات پر ’’ماہ رمضان بخشش کا سامان‘‘ کورس منعقد ہوا جس میں 214 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔
مبلغات دعوت اسلامی نے کورس میں شریک اسلامی بہنوں کو اعتکاف ، لیلۃالقدر کے نوافل اور رمضان کے آخری عشرے میں عبادات کے بارے میں معلومات دیتے ہوئے عید
گزارنے کا طریقہ اور عید کے دن کے وظائف بتائے، اسکے علاوہ اسلامی بہنوں کو ہفتہ
وار مدنی مذاکرہ سننےاور آیندہ ہونے والے کورسز میں شرکت کرنے کاذہن دیا ۔

قومِ عاد کون تھی
اور کہاں رہتی تھی:
قومِ عاد مقامِ "احقاف" میں رہتی تھی، جو عمان و حضر موت کے درمیان ایک بڑا ریگستان
ہے، ان کے مورثِ اعلی کا نام عادبن عوص بن ارم بن سام بن نوح ہے، پوری قوم کے لوگ ان کو مورثِ اعلی
"عاد"کے نام سے پکارنے لگے، یہ
لوگ بت پرست اور بہت بداعمال و بد کردار تھے، اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان کی ہدایت کے لئے بھیجا، مگر اس قوم نے اپنے تکبر اور سر کشی کی وجہ سے
حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلا دیا اور اپنے کفر پر اڑے رہے، حضرت ہود علیہ السلام
بار بار ان سرکشوں کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے، مگر اس شریر قوم نے نہایت بے باکی اور گستاخی کے ساتھ اپنے نبی سے یہ کہہ
دیا کہ
اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَ
نَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا ۚ-فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ
الصّٰدِقِیْنَ۔
ترجمہ کنزالایمان:"کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو
پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے، انہیں چھوڑ دیں تو لاؤ، جس کا ہمیں وعدہ
دے رہے ہو اگر سچے ہو۔" ( پارہ 8، الاعراف:70)
عذابِ الہی کی جھلکیاں:
آخر عذابِ الہی کی جھلکیاں شروع
ہوگئیں، تین سال تک بارش ہی نہیں ہوئی اور
ہر طرف قحط و خشک سالی کا دور دورہ ہو
گیا، یہاں تک کہ لوگ اناج کے دانے دانے کو
ترس گئے، اس زمانے کا دستور تھا کہ جب
کوئی بلا اور مصیبت آتی تھی تو لوگ مکہ معظمہ جاکر خانہ کعبہ میں دعائیں مانگتے تھے، تو بلائیں ٹل جاتی تھیں۔
چنانچہ ایک جماعت مکۂ معظمہ گئی، اس جماعت میں مرثد بن سعد نامی ایک
شخص بھی تھا، جو مؤمن تھا، مگر اپنے ایمان کو قوم سے چھپائے ہوئے تھا، جب ان لوگوں نے کعبہ معظمہ میں دعا مانگنی شروع کی، تو مرثد بن سعد کا ایمانی جذبہ بیدار ہو گیا اور اس نے تڑپ کر
کہا کہ اے میری قوم! تم لاکھ دعائیں مانگو، مگر خدا کی قسم!اس وقت تک پانی
نہیں بر سے گا، جب تک تم اپنے نبی حضرت
ہود علیہ السلام پر ایمان نہ لاؤ گے، حضرت
مرثد بن سعد نے جب اپنا ایمان ظاہر کردیا تو قومِ عاد کے شریروں نے ان کو مار پیٹ
کر الگ کر دیا اور دعائیں مانگنے
لگے، اس وقت اللہ نے تین بدلیاں بھیجیں، ایک سفید، ایک سرخ اور ایک سیاہ
اور آسمان سے ایک آواز آئی کہ"اے قومِ عاد! تم لوگ اپنی قوم
کے لئے ان تین بدلیوں میں سے کسی ایک بدلی کو پسند کر لو۔"
ان لوگوں نے کالی بدلی کو پسند کر لیا اور یہ لوگ
اس خیال میں مگن تھے کہ کالی بدلی خوب زیادہ بارش دے گی، چنانچہ وہ ابرِ سیاہ قومِ عاد کی آبادیوں کی
طرف چل پڑا، قومِ عاد کے لوگ کالی بدلی کو
دیکھ کر بہت خوش ہوئے، حضرت ہود علیہ
السلام نے فرمایا:" کہ اے میری قوم! دیکھ لو! عذابِ الہی اَبر کی صورت میں
تمہاری طرف بڑھ رہا ہے۔"
مگر قوم کے گستاخوں نے اپنے نبی
کو جھٹلادیا اور کہاکہ کہاں کا عذاب اور کیسا عذاب؟"یہ تو بادل ہے، جو ہمیں بارش دینے کے لئے آ رہا ہے۔"( پ8،
الاعراف:70، روح البیان، ج3، ص187 تا 189)
یہ بادل پچھم کی طرف سےآبادیوں کی
طرف برابر بڑھتا رہا اور ایک دم ناگہاں اس میں سے ایک آندھی آئی، جو اتنی شدید تھی
کہ اونٹوں کو مع سو ار کے اُڑا کر کہیں
سےکہیں پھینک دیتی تھی، پھر اتنی زوردار
ہوگئی کہ درختوں کو جڑوں سے اُکھاڑ کر اُڑا لے جانے لگی، یہ دیکھ کر قومِ عاد کے لوگوں نے اپنے سنگین
محلوں میں داخل ہوکر دروازوں کو بند کر لیا، مگر آندھی کے جھونکے نہ صرف دروازوں کواُکھاڑ کر لے گئے، بلکہ پوری عمارتوں کو جھنجھوڑ کر ان کی اینٹ سے
اینٹ بجا دی، سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل یہ آندھی چلتی رہی، یہاں تک کہ قومِ عاد کا ایک ایک آدمی مر کر فنا ہو گیا اور اس قوم کا ایک بچہ
بھی باقی نہ رہا، جب آندھی ختم ہوئی تو اس
قوم کی لاشیں زمین پر اس طرح پڑی ہوئی
تھیں، جس طرح کھجوروں کے درخت اُ کھڑاکر زمین پر پڑے ہوں، چنانچہ ارشادِ ربّانی ہے،
وَ
اَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَةٍۙ سَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ
سَبْعَ لَیَالٍ وَّ ثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍۙ-حُسُوْمًاۙ-فَتَرَى الْقَوْمَ فِیْهَا
صَرْعٰىۙ-كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَةٍ ۚ فَهَلْ تَرٰى لَهُمْ مِّنْۢ بَاقِیَةٍ۔
ترجمۂ
کنزالایمان:"اور رہے عادوہ ہلاک کئے گئے، نہایت سخت گرجتی آندھی سے وہ ان پر قوت سے لگا دی، سات راتیں اور آٹھ
دن لگاتار تو ان لوگوں کو ان میں دیکھو بچھڑے ہوئے، گویا وہ کھجور کے ڈنڈ(سوکھے تنے)ہیں گرے ہوئے
تو تم ان میں کسی کو بچا ہوا دیکھتے
ہو۔"(پارہ 29، الحاقۃ:6 تا 8)
پھر قدرتِ خداوندی سے کالے رنگ کے
پرندوں کا ایک غول نمودار ہوا، جنہوں نے
ان کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا اور حضرت ہود علیہ السلام نے اس بستی
کو چھوڑ دیا اور چند مؤمنین کو جو ایمان لائے تھے، ساتھ لے کر مکۂ مکرمہ چلے گئے اور آخر زندگی
تک بیت اللہ شریف میں عبادت کرتے رہے۔(تفسیر الصاوی، ج2، ص686، پ8، الاعراف:70)
درسِ ہدایت:
پیاری پیاری اسلامی بہنو!قرآن
کریم کے اس دردناک واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ "قومِ عاد"جو بڑی طاقتور اور قد آور قوم تھی، ان لوگوں کی مالی خوشخالی بھی نہایت مستحکم
تھی، کیونکہ لہلہاتی کھیتیاں اور ہرے بھرے باغات ان کے پاس تھے، پہاڑوں کو تراش تراش کر ان لوگوں نے گرمیوں اور سردیوں کے لئے الگ الگ محلات تعمیر کئے
تھے، ان لوگوں کو اپنی کثرت اور طاقت پر
بڑا اعتماد تھا، اپنے تمدن اور سامانِ عیش وعشرت پر بڑا ناز تھا، مگر کفر اور بداعمالیوں و بدکاریوں کی نحوست نے
ان لوگوں کو قہر ِالہی کے عذاب میں اس طرح گرفتار کر دیا کہ آندھی کے جھونکوں اور
جھٹکوں نے ان کی پوری آبادی کو جھنجھور کر
چکنا چور کر دیا اور اس پوری قوم کے وجود کو صفحہ ہستی سے اس طرح مٹا
دیا کہ ان کی قبروں کا کہیں بھی نشان باقی نہ رہا، تو پھر بھلا ہم لوگوں جیسی کمزور قوموں کا
کیا ٹھکانہ ہے؟ کہ عذابِ الہی کے جھٹکوں
کی تاب لا سکیں، اس لئے جن لوگوں کو اپنی اور اپنی نسلوں کی خیریت و بقا منظور ہے، انہیں لازم ہے کہ اللہ و
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیوں اور بد اعمالیوں سے ہمیشہ بچتے رہیں، اپنی کوشش اور طاقت بھر اعمالِ صالح اور نیکیاں کرتے رہئے، ورنہ قرآن مجید کی آیتیں ہمیں جھنجھوڑ
کر یہ سبق دے رہی ہیں کہ نیکی کی تاثیر
آبادی اور بدی کی تاثیر بربادی۔قرآن مجید میں پڑھ لو کہ
وَالْمُؤتَفِکٰتُ بِالْخَاطِئَۃِ۔یعنی"بہت سی بستیاں اپنی بدکاریوں اور بد
اعمالیوں کی وجہ سے ہلاک و برباد کر دی گئیں۔"(پ29، الحاقۃ:9)
اور دوسری آیت میں یہ بھی پڑھ لو
کہ
وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ
اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ
لٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ۔
ترجمۂ کنزالایمان:"اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور ڈرتے تو ضرور ہم
ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے، مگر انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے کئے پر گرفتار کیا۔"(پ9،
الاعراف:96)اللہ پاک ہمیں نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

اللہ تبارک و تعالی قرآن پاک میں
ارشاد فرماتا ہے:
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی
الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ
الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(۴۱)
ترجمۂ کنزالایمان:"چمکی خرابی خشکی اور تری میں ان برائیوں سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمائیں، تاکہ انہیں ان کے بعض کوتکوں کا مزہ چکھائیں، کہیں وہ باز آئیں۔(پ21، الروم:41)
جب دنیا کے لوگ اللہ پاک کی
نافرمانیوں میں حد سے آگے نکل جاتے ہیں، اللہ پاک کے احکاموں کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں، سود، رشوت، خیانت، بددیانتی، ظلم و ستم، بدفعلی، قتل و غارت ان کی فطرت بن جاتی ہے، اللہ پر ستی کی بجائے شہوت پرستی، عیش پرستی عام ہوجاتی ہے تو اللہ عزوجل ان سے
اپنی رحمت کی بارش کو روک لیتا ہے، جس سے نہریں،
دریا خشک ہو جاتے ہیں، زمین میں سبزہ کا نام ونشان باقی نہیں رہتا، فصلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں، اتنی قحط
سالی ہوتی ہے کہ امیر سے لے کر غریب تک، گدا
سے لے کر بادشاہ تک لوگ متاثر ہوجاتے ہیں اور انسانوں کے علاوہ جانوروں کے لئے
بلائے جان بن جاتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ
ہمارے اعمال خراب ہوتے ہیں، ورنہ اللہ
تبارک و تعالی کے فضل و کرم میں کوئی شک نہیں،
ترجمۂ کنزالایمان:"چمکی خرابی خشکی اور تری میں ان برائیوں سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے
کمائیں، تاکہ انہیں ان کے بعض کوتکوں کا
مزہ چکھائیں، کہیں وہ باز آئیں۔(پ21،
الروم:41)
اس سے ثابت ہوا کہ قحط اور بارش کا رُک جانا، کھیتوں کی خرابی اور ہر شے کی بے برکتی ہماری بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے اور
یہ کوئی نئی بات نہیں، بلکہ ہمیشہ سے اللہ
پاک کی مشیت رہی ہے، قرآن پاک میں اللہ
پاک نے (قومِ عاد) کا واقعہ تفصیلاً بیان فرمایا ہے، اس ظالم بد اعمال قوم پر تین سال تک بارش روک دی گئی۔
قومِ عاد کا تعارف:
قومِ عاد مقامِ "احقاف"
میں رہتی تھی، جو عمان و حضر موت کے
درمیان ایک بڑا ریگستان تھا، ان کے مورثِ
اعلی کا نام(عادبن عوص بن ارم بن سام بن
نوح) ہے، پوری قوم کے لوگ انہیں مورثِ
اعلی "عاد"کے نام سے پکارنے لگے۔
جیساکہ اللہ تبارک وتعالی
کاارشادہے:
ترجمۂ کنزالایمان:" اور یاد کرو عاد کے ہم قوم کو جب
اس نے ان کو سرزمینِ اَحقاف میں ڈرایا۔(پ26،احقاف:
21)
قومِ عاد کی طویل عمریں، بڑے قد اور مضبوط جسم والے تھے۔
اللہ تبارک وتعالی کاارشادہے: "وَّ زَادَكُمْ فِی الْخَلْقِ
بَصْۜطَةً ۚ-
ترجمۂ کنزالایمان:"اور تمہارے بدن کا پھیلاؤ بڑھایا۔"(پ8، اعراف: 69)
قومِ عاد میں لمبے لوگوں کا قد
سوگز اور پست لوگوں کا ساٹھ گز تھا، جسمانی طاقت جس کی بناء پر وہ یہ کہتے تھے۔وَ قَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ؕ
ترجمہ کنزالایمان:"اور بولے ہم سے زیادہ کس کا زور ۔"(پ24، حم
السجدۃ: 15)
ان کا ایک ہی شخص بھاری پتھر پہاڑ
سے اُکھیڑ کر جہاں چاہتا، لے جاتا تھا، (اتنی
طاقت ان کو اللہ پاک نے عطا کی تھی)
جیسا کہ اللہ تبارک و تعالی کا
ارشادِ پاک ہے:
ترجمۂ کنزالایمان:"کیا تم نے نہ دیکھا تمہارے
ربّ نے عاد کے ساتھ کیسا کیا۔"(پ30، الفجر: 6)
وہ عاد ارم حد سے
زیادہ طول والے کے ان جیسا شیروں میں کوئی پیدا ہی نہیں ہوا، ان کا بہت لمبا آدمی 400 گز کا ہوتا تھا، اس کے علاوہ ان کے مکانات اور محلات عالیشان تھے،
جو قیمتی پتھروں اور مصالحوں سے تیار کئے
جاتے تھے ، باغات اور سیرگاہوں سے ملک کا ملک کا آراستہ تھا، غرض یہ کہ ہر قسم کے عیش و آرام کے اسباب اس قوم
کو حاصل تھے، پہاڑوں کو تراش کر ان لوگوں
نے سردیوں اور گرمیوں کے لئے الگ الگ محلات تیار کررکھے تھے، ان کو ہر قسم کی عیش وآرام کے اسباب حاصل تھے، جو ایک ترقی پذیر قوم کو حاصل ہوتے ہیں، اللہ پاک خود ان کے عیش و آرام کی خبر دیتا ہے، اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے:
اَمَدَّكُمْ بِاَنْعَامٍ وَّ بَنِیْنَۚۙ(۱۳۳)وَ جَنّٰتٍ وَّ
عُیُوْنٍۚ(۱۳۴)
ترجمۂ کنزالایمان:" تمہاری مدد کی چوپایوں اور بیٹوںاور باغوں اور چشموں سے۔(پ19، الشعراء: 133-134)
قومِ عاد اپنے آپ کو سُپرپاور قوم
تصور کرتی تھی، یہ قوم ڈیل ڈول، جسمانی
طاقت میں بہت زیادہ تھی، ان کا دعویٰ تھا
کہ دنیا میں ہم سے زیادہ کوئی طاقتور نہیں ہے، آخری اس فراوانی، عیش و سرور نے اس قوم کو شکرگزار رہنے کے بجائے
کُفر میں مبتلا کردیا، چنانچہ وہ کفر اور
بت پرستی کی گندگیوں میں پڑ گئے اور اس
خدا کو بھُلا بیٹھے جس نے محض اپنے فضل و کرم سے اپنے انعامات کی ان پر بارش برسائی تھی، لہٰذا اس ربّ کریم نے اس قوم کی رہبری اور ہدایت
کے لئے حضرت ہود علی نبینا و علیہ الصلاۃ
و السلام کو مبعوث فرمایا، حضرت ہود علی
نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں تبلیغ و ہدایت فرمائی اور اپنی قوم کو مخاطب
ہو کر فرمایا:
قرآن پاک میں ہے،
ترجمۂ کنزالایمان:" اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ۔ (پ12، ھود:50)
تو بد شعار قوم نے بجائے ہدایت پانے کے جواب دیا۔
ترجمۂ کنزالایمان:"اس کی قوم کے سردار بولے بے
شک ہم تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں۔"
(پ8، اعراف: 66)
اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے:
قَالُوْا سَوَآءٌ عَلَیْنَاۤ اَوَ
عَظْتَ اَمْ لَمْ تَكُنْ مِّنَ الْوٰعِظِیْنَۙ(۱۳۶)
ترجمۂ کنز الایمان: بولے ہمیں برابر ہے چاہے تم نصیحت کرو یا ناصحوں میں نہ
ہو ۔(پ19، الشعراء: 136)
اور کہتے: قرآنِ پاک میں ہے، ترجمۂ
کنزالایمان:"تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ
دیتے ہو، اگر سچے ہو۔"(پ8، اعراف: 70)
حضرت ہود علی نبینا و علیہ الصلاۃ
والسلام نے فرمایا:
فَانْتَظِرُوْۤا
اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ(۷۱)۔
ترجمۂ کنزالایمان:" تو راستہ دیکھو میں بھی تمہارے ساتھ دیکھتا ہوں۔(پ8،اعراف:71)
شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا عبد
المصطفی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب عجائب القرآن مع غرائب القرآن میں تحریر
کرتے ہیں:
قومِ عاد کی آندھی:
قومِ عاد (احقاف) میں رہتی
تھی، جو عمان و حضر موت کے درمیان ایک بڑا
ریگستان ہے، ان کے مورثِ اعلی (عادبن عوص
بن ارم بن سام بن نوح )ہے، پوری قوم کے لوگ ان کو مورثِ اعلی (عاد)کے نام
سے پکارنے لگے، یہ لوگ بت پرست اور بہت
بداعمال و بد کردار تھے، اللہ تعالی نے
اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا، مگر اس قوم نے
اپنے تکبر اور سر کشی کی وجہ سے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلا دیا اور اپنے کفر
میں اڑے رہے، حضرت ہود علیہ السلام بار بار ان سرکشوں کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے
رہے، مگر اس شریر قوم نے نہایت بے باکی
اور گستاخی کے ساتھ اپنے نبی سے یہ کہہ دیا کہ اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتا ہے:
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ
قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ
الْكٰذِبِیْنَ
ترجمۂ کنزالایمان:" اس کی قوم کے سردار بولے بے شک ہم
تمہیں بیوقوف سمجھتے ہیں اور بے شک ہم تمہیں جھوٹوں میں گمان کرتے ہیں (پ8،اعراف:66)
قرآن پاک میں ارشاد ہے:
قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاهَةٌ وَّ
لٰكِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ
اَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ۔"
ترجمۂ کنز الایمان: کہا اے میری قوم مجھے بے وقوفی سے کیا علاقہ ، میں تو پروردگار عالم کا رسول ہوں، تمہیں اپنے
ربّ کی رسالتیں پہنچاتا ہوں اور تمہارا مُعَتَمدخیر خواہ ہوں۔ " (پ8، اعراف:
67-68)
(لَیْسَ بِیْ سَفَاهَةٌ۔ میرے ساتھ بے وقوفی کاکوئی تعلق نہیں)
اس کی تفسیر میں شیخ الحدیث
والتفسیر حضرت علامہ مولانا الحاج مفتی ابو الصالح مفتی محمد قاسم القادری مدظلہ
العالی تفسیر صراط الجنان، جلد سوم، صفحہ نمبر 353 میں لکھتے ہیں:" کافروں نے
گستاخی کرکے حضرت ہود علی نبینا و علیہ الصلاۃ و السلام کو معاذاللہ بیوقوف کہا، جس پر آپ علیہ السلام نے بڑے تحمل سے جواب دیا
کہ بیوقوفی کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور اس کی وجہ بالکل واضح ہے کہ انبیاء
کرام علیہم السلام کامل عقل والے ہوتے ہیں اور ہمیشہ ہدایت پر ہوتے ہیں، تمام جہان کی عقل نبی کی عقل کے مقابلے میں ایسی
ہے، جیسے سمندر کا ایک مو تی، کیونکہ نبی تو وحی کے ذریعےاپنے ربّ عزوجل سے علم و عقل حاصل کرتا ہے
اور اس چیز کے برابر کوئی دوسری چیز کا ہونا
محال ہے۔
ترجمۂ کنزالایمان:"کیا تم ہمارے پاس اس لئے
آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انھیں چھوڑ دیں
تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دیتے ہو اگر سچے
ہو۔"(پ8، اعراف: 70)
آخر عذابِ الہی کی جھلکیاں شروع
ہوگئیں، تین سال تک بارش ہی نہیں ہوئی اور ہر طرف قحط و خشک سالی کا دور دورہ ہو گیا، یہاں تک کہ لوگ اناج کے دانے دانے کو ترس
گئے، اس زمانے کا دستور تھا کہ جب کوئی
بلا اور مصیبت آتی تھی تو لوگ مکۂ معظمہ جاکر خانہ کعبہ میں دعائیں مانگتے تھے، تو بلائیں ٹل جاتی تھیں۔
چنانچہ ایک جماعت مکہ معظمہ گئی، اس جماعت میں مرثد بن سعد نامی ایک شخص بھی تھا، جو مؤمن تھا، مگر اپنے ایمان کو قوم سے
چھپائے ہوئے تھا، جب ان لوگوں نے کعبہ
معظمہ میں دعا مانگنی شروع کی، تو مرثد بن سعد کا ایمانی جذبہ بیدار ہو گیا اور اس نے تڑپ کر
کہا کہ اے میری قوم! تم لاکھ دعائیں مانگو، مگر خدا کی قسم!اس وقت تک پانی
نہیں بھر ے گا، جب تک تم اپنے نبی حضرت
ہود علیہ السلام پر ایمان نہ لاؤ گے، حضرت
مرثد بن سعد نے جب اپنا ایمان ظاہر کردیا تو قومِ عاد کے شریروں نے ان کو مار پیٹ
کر الگ کر دیا اور دعائیں مانگنے
لگے، اس وقت اللہ نے تین بادل بھیجے، ایک سفید، ایک سرخ اور ایک سیاہ اور آسمان سے
ایک آواز آئی کہ"اے قومِ عاد! تم لوگ
اپنی قوم کے لئے ان تین بادلوں میں سے کسی ایک بادل کو پسند کر لو۔"
ان لوگوں نے کالی بدلی کو پسند کر لیا اور یہ لوگ
اس خیال میں مگن تھے کہ کالی بدلی خوب زیادہ بارش دے گی، چنانچہ وہ ابرِ سیاہ قومِ عاد کی آبادیوں کی
طرف چل پڑا، قومِ عاد کے لوگ کالی بدلی کو
دیکھ کر بہت خوش ہوئے، حضرت ہود علیہ
السلام نے فرمایا:" کہ اے میری قوم! دیکھ لو! عذابِ الہی اَبر کی صورت میں
تمہاری طرف بڑھ رہا ہے۔"
مگر قوم کے گستاخوں نے اپنے نبی
کو جھٹلایا اور کہاکہ کہاں کا عذاب اور کیسا عذاب؟"یہ تو بادل ہیں، جو ہمیں بارش دینے کے لئے آ رہا ہے۔"یہ
بادل پچھم کی طرف سےآبادیوں کی طرف برابر بڑھتا رہا اور ایک دم ناگہاں اس میں سے ایک
آندھی نکلی، جس سے اونٹ مع سُو ار کو اُڑا کر کہاں سےکہاں پھینک دیتی، پھر اتنی زور سے آئی کہ درختوں کو اُکھاڑ کر لےگئی، یہ دیکھ کر قومِ عاد کے لوگ اپنے محلوں میں
جاکر دروازے بند کر دئیے، مگر آندھی کے
جھونکے نے نہ صرف دروازوں بلکہ پوری عمارتوں کو جھنجھوڑ کر ان کی اینٹ سے
اینٹ بجا دی، سات رات اور آٹھ دن مسلسل یہ
آندھی چلتی رہی، یہاں تک کہ قومِ عاد کا
ایک ایک آدمی فنا ہو گیا اور اس قوم کا
ایک بچہ بھی باقی نہ رہا، جب آندھی ختم
ہوئی تو اس قوم کے لوگوں کی لاشیں زمین پر اس طرح پڑی ہوئی تھیں، جس طرح کھجوروں
کے درخت اُ کھڑکر زمین پر پڑے ہوں، چنانچہ
ارشادِ ربّانی ہے،
وَ اَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ
عَاتِیَةٍۙ سَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّ ثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍۙ-حُسُوْمًاۙ-فَتَرَى
الْقَوْمَ فِیْهَا صَرْعٰىۙ-كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَة ٍ ۚ فَهَلْ تَرٰى لَهُمْ مِّنْۢ بَاقِیَةٍ۔
ترجمۂ کنزالایمان:"اور رہے عادوہ ہلاک کئے گئے، نہایت سخت گرجتی
آندھی سے وہ ان پر قوت سے لگا دی، سات راتیں اور آٹھ دن لگاتار تو ان لوگوں کو ان میں دیکھو بچھڑے ہوئے، گویا وہ کھجور کے ڈنڈ(سوکھے تنے)ہیں گرے ہوئے
تو تم ان میں کسی کو بچا ہوا دیکھتے
ہو۔"(پ29، الحاقۃ: 6-8)
پھر قدرتِ خداوندی سے کالے رنگ کے
پرندوں کا ایک غول نمودار ہوا، جنہوں نے
ان کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا اور حضرت ہود علیہ السلام نے اس بستی
کو چھوڑ دیا اور چند مؤمنین جو ایمان لائے تھے، ساتھ لے کر مکہ مکرمہ چلے گئے اور آخر زندگی تک بیت اللہ شریف میں عبادت
کرتے رہے۔
درسِ ہدایت:
قرآن کریم کے اس دردناک واقعے سے
یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ (قومِ عاد) جو بڑی طاقتور اور قد آور قوم تھی، ان لوگوں کی مالی خوشخالی بھی نہایت مستحکم
تھی، کیونکہ لہلہاتی کھیتیاں اور ہرے بھرے باغات ان کے پاس تھے، پہاڑوں کو تراش تراش کر ان لوگوں نے گرمیوں اور سردیوں کے لئے الگ الگ محلات تعمیر کئے
تھے، ان لوگوں کو اپنی کثرت اور طاقت پر
بڑا اعتماد تھا، اپنے تمدن اور سامانِ عیش وعشرت پر بڑا ناز تھا، مگر کفر اور بداعمالیوں و بدکاریوں کی نحوست نے
ان لوگوں کو قہر ِالہی کے عذاب میں اس طرح گرفتار کر دیا کہ آندھی کے جھونکوں اور
جھٹکوں نے ان کی پوری آبادی کو جھنجھور کر
چکنا چور کر دیا اور اس پوری قوم کے وجود کو صفحہ ہستی سے اس طرح مٹا
دیا کہ ان کی قبروں کا کہیں بھی نشان باقی نہ رہا، تو پھر بھلا ہم لوگوں جیسی کمزور قوموں کا
کیا ٹھکانہ ہے کہ عذابِ الہی کے جھٹکوں کی
تاب لا سکیں، اس لئے جن لوگوں کو اپنی اور
اپنی نسلوں کی خیریت و بقا منظور ہے،
انہیں لازم ہے کہ اللہ عزوجل اور رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیوں اور بد
اعمالیوں سے ہمیشہ بچتے رہیں، اپنی کوشش اور طاقت بھر اعمالِ صالح اور
نیکیاں کرتے رہئے، ورنہ قرآن مجید کی آیتیں ہمیں جھنجھوڑ کر یہ سبق دے رہی ہیں کہ نیکی کی تاثیر آبادی اور بدی کی تاثیر بربادی۔
قرآن مجید میں پڑھ لو کہ
وَالْمُؤتَفِکٰتُ بِالْخَاطِئَۃِ۔یعنی"بہت سی بستیاں اپنی بدکاریوں اور بد
اعمالیوں کی وجہ سے ہلاک و برباد کر دی گئیں۔"(پ29، الحاقۃ: 9)
دوسری آیت میں یہ بھی پڑھ لو کہ
وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ
اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ
لٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ۔
ترجمۂ کنزالایمان:"اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور ڈرتے تو ضرور ہم
ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے، مگر انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے کئے پر گرفتار کیا۔"(پ9،اعراف:96)