دین اسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے جہاں بہت سی چیزیں  اہمیت کی حامل ہیں وہیں مبلغِ اسلام کا وعظ و نصیحت کرنا بھی کافی اہمیت رکھتا ہے۔

حضور کریم ﷺ کے بعد صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، اولیائے کاملین اور علمائے کرام جو گزر چکے ہیں اور جوآج تک حیات ہیں، انہوں نے لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنا نہ چھوڑا،مسلسل اس کے لئے مجالس کا قیام کرتے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھر میں اسلام کی شاخیں پھیلنے لگی، کفار مجالس میں شریک ہوکر مسلمان ہونے لگے، لوگ تائب ہوکر نیکی کی راہ پر گامزن ہونے لگے، ان ہی مجالس سے ایسے ایسے علماء پیدا ہوئے جو دنیا بھر میں جاکر دین اسلام کی روشنی سے لوگوں کو منور کرنے لگے۔

وعظ و نصیحت کی مجلس قائم کرنے میں ایک بہت بڑا نام امام ُالاولیاء، شہنشاہِ بغداد، قطبُ الاقطاب، پیرانِ پیر، روشن ضمیر، آلِ رسول، سیّدُنا حضرت شیخ عبدُ القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی ذات پاک بھی ہے۔

اہم بات

لیکن حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کے اندازِ بیان اور وعظ و نصیحت کے بارے میں گفتگو کرنے سے قبل یہ بات واضح کرتا چلوں کہ ہم جب بھی جملہ اولیائےکرام بشمول حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کاتذکرہ کرتے ہیں تو عموماً ہمارے زیرِ نظر اُن کی کرامات ہوتی ہیں اور ہم اِن کرامات سے ہی کسی ولی کے مقام و مرتبہ کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اس ضمن میں صحیح اور درست اسلوب یہ ہے کہ ہم صرف اولیائےکاملین کی کرامات تک ہی اپنی نظر کو محدود نہ رکھیں بلکہ اُن کی حیات کے دیگر پہلوؤں کا بھی مطالعہ کریں کہ انہوں نے علمی، فکری، معاشرتی، سیاسی اور عوام الناس کی خیرو بھلائی کے لئے کیا کردار ادا کیا ہے۔

حضور غوث اعظم کی شخصیت مبارکہ ہمہ جہتی اوصاف کی حامل ہے۔ ان جہات میں سے کرامات صرف ایک جہت ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حضور غوثِ پاک کی تعلیمات کی طرف بھی متوجہ ہوں۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیئےکہ جن کے ہم نام لیوا ہیں اور پوری دنیا جنہیں غوث الاعظم دستگیر اور پیرانِ پیر کے نام سے یاد کرتی ہے، ان کی تعلیمات کیا ہیں ،ان کے ہاں تصوف، روحانیت اور ولایت کیا ہے۔

غوث پاک کی وعظ و نصیحت

حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ دیگر مصروفیات کے ساتھ تبلیغ ِعلمِ دین کے لئے روزانہ مجلس کا قیام کرتے تھے جس کا آغاز حضرت ابو سعید مخزومی رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسے سے ہوا جو محلّہ باب الازج میں واقع تھا۔ جب آپ کی محفل کی شہرت بڑھنے لگی اور بغداد کے علاوہ قرب و جوار سے لوگ جوق درجوق آنے لگے تو بہت سے مکانوں کو شامل کرکے مدرسے کی توسیع کردی گئی۔لوگوں کا ہجوم بڑھنے کی وجہ سے بالآخر آپ کا منبر عید گاہ میں نصب کردیا گیا۔ حاضرین مجلس کی تعداد بسا اوقات 70 ہزار سے تجاوز کرجاتی تھی۔

اس مجلس میں آپ رضی اللہ عنہ نہایت فصاحت و بلاغت سے وعظ و نصیحت فرماتے تھے۔آپ کا وعظ حکمت و دانش کے سمندر کی مانند ہوتا اور اس میں آپ رضی اللہ عنہ کی روحانیت کا دخل بھی ہوتا تھا جس کی تاثیر سے لوگوں پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی، بعض لوگ جوشِ الہٰی میں آکر اپنے کپڑے پھاڑلیتے، بعض بے ہوش ہوجاتےاور بعض کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرجاتی تھی۔(حیات المعظم فی مناقب سیدنا غوث الاعظم ، ص65،66)

آپ کی مجلس کی یہ خاصیت تھی کہ آپ کے وعظ و نصیحت میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہود و نصاریٰ، رافضین اور دیگر بدمذہب بھی شریک ہوکر اپنے سابقہ عقائد و مذہب سے تائب ہوکر اسلام قبول کرتے تھے۔

اس حوالے سے شیخ عمر کمیاتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: غوث پاک رضی اللہ عنہ کی مجالس اس امر سے خالی نہیں ہوتی تھیں کہ یہود و نصاریٰ ایمان قبول کرتے تھے۔ چور، ڈاکو، راہزن اور شریر لوگ تائب ہوتے تھے اور رافضی وغیرہ اپنے عقائد سے رجوع کیا کرتے تھے۔ (بہجۃ الاسرار، ص312)

غوث پاک کے وعظ و نصیحت میں سینکڑوں علما کی شرکت

آپ رضی اللہ عنہ کے وعظ و نصیحت کا یہ عالم ہوتا کہ ہر مجلس میں 400 علماء قلم و دوات لے کر بیٹھتے اور جو کچھ سنتے اس کو لکھتے رہتے ، آپ کی مجلس کی یہ کرامات تھی کہ دور و نزدیک کے شرکاء آپ کی آواز کو یکساں سنتے تھے۔(حیات المعظم فی مناقب سیدنا غوث الاعظم ، ص65)

غوث پاک کی مجلس میں جنات کا ہجوم

اس کے علاوہ آپ کے وعظ و نصیحت میں انسانوں سے زیادہ جنات شریک ہوا کرتے تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے ایک ہم عصر شیخ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے جنات کی حاضری کے لئے وظیفہ پڑھا لیکن خلاف معمول کوئی جن حاضر نہ ہوا۔ بہت دیر بعد چند جن حاضر ہوئے میں نے تاخیر کا سبب پوچھا تو کہنے لگے کہ ہم حضرت شیخ عبدُالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی مجلس میں حاضر تھے ،برائے مہربانی جب حضرت شیخ وعظ فرما رہے ہوں تو ہمیں نہ بلایا کریں۔ میں نے دریافت کیا کہ کیا تم بھی ان کی مجلس میں حاضر ہوتے ہو؟ کہنے لگے کہ آدمیوں کے اجتماع سے کہیں زیادہ ہم جنات کا اجتماع ہوتا ہے اور ہم میں سے اکثر قبائل حضرت شیخ کے دست مبارک پر اسلام لے آئے اور اللہ کی طرف راغب ہوگئے۔(حیات المعظم فی مناقب سیدنا غوث الاعظم ، ص67)

انبیائے کرام بھی حضور غوث پاک کی مجلس کو براہ راست فیض پہچاتے تھے

حضرت ابو سعید قیلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: میں نے کئی مرتبہ سرورِ کائنات، فخر موجودات حضرت محمد مصطفٰے ﷺ اور دیگر انبیاء علیہم السلام کو آپ کی مجلس میں رونق افروز دیکھااور فرشتے آپ کی مجلس میں گروہ در گروہ حاضر ہوتے تھے۔ اسی طرح رجال الغیب اور جنات کے گروہ کے گروہ آپ کی مجلس میں حاضر ہوتے اور حاضری میں ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرتے تھے۔ (حیات المعظم فی مناقب سیدنا غوث الاعظم ، ص67)

سرکار غوث اعظم رضی اللہ عنہ اپنے وعظ و نصیحت میں مختلف علوم و فنون پر کلام کرتے تھے جن میں تصوف، معرفت، فقہ، تفاسیرسمیت دیگر فنون شامل تھے۔

ایک آیت کی چالیس تفاسیر بیان فرمادیں

ایک مرتبہ غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَم کسی آیت کی تفسیر بیان فرمارہے تھے،امام ابوالفرج عبدالرحمٰن ابن جوزی علیہ رحمۃ اللہ القَوی بھی اِس درس میں شریک تھے۔حضورِ غوثِ پاک نے چالیس تفاسیربیان فرمائیں جس میں سےگیارہ تفاسیر امام ابنِ جوزی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے علم میں تھیں جب کہ29 تفاسیر پر آپ رحمۃ اللہ علیہ نےتعجّب اور لاعلمی کا اظہار کیا پھرجب غوثِ پاک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاكہ اب ہم قال سے حال کی طرف چلتے ہیں،تو لوگ بہت زیادہ مُضْطَرِب ہو گئے۔ (قلائد الجواھر، ص 38)

مجلس کے دوران مختلف موضوعات پر کلام

شیخ عالم زاہد ابو الحسن سعد الخیر بن محمد بن سہل بن سعد انصاری اندلسی فرماتے ہیں: میں شیخ عبدُالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں 529ہجری میں حاضر ہوا۔ میں سب لوگوں سے آخر میں تھا ۔ آپ زہد کے بارے میں وعظ فرمارہے تھے۔ میں نے دل میں کہا میرا مرض یہ ہے کہ آپ معرفت پر کلام کریں تب آپ نے زہد سے کلام قطع کیا اور معرفت میں کلام کرنا شروع کردیا ،میں نے آج تک ایسا بیان نہیں سنا تھا پھر میں نے دل میں کہا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ شوق پر کلام کریں تب معرفت سے کلام موقوف کیا اور شوق پر کلام شروع کردیا، میں نے اس سے پہلے کبھی ایسا کلام نہیں سنا تھا پھر میں نے دل میں کہا کہ آپ غیب و حضور پر کلام کریں تب آپ نے فنا و بقاء سے قطع کلام کرکے غیب و حضور میں کلام شروع کیا ،ایسا کلام میں نے آج تک نہیں سنا تھا کہ بے مثل کلام تھا پھر فرمایا ابو الحسن! تیرے لئے یہی کافی ہے۔ تب میں بے اختیار ہوا اور میں نے اپنے کپڑے پھاڑ دیئے۔(بہجۃ الاسرار، ص306)

یہاں یہ بات بھی ضمناً عرض کرتا چلوں کہ جہاں سرکار غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ مجلس میں وعظ و نصیحت فرماتے ہیں وہیں دن کا ایک بڑا حصہ درس و تدریس کی مصروفیت میں گزرتا تھا جس میں ہزاروں طلبہ علم ِدین سے فیض یاب ہوتے تھے۔

غوث پاک کی علم وفنون پر مہارت

وعظ و نصیحت کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ اپنے مدرسے میں فقہ، حدیث، تفسیر، نحو جیسے 13 مضامین (Subjects) کا تدریس بھی فرماتے تھے جبکہ بعدِ نمازِ ظہر قراءت ِقراٰن جیسا اہم مضمون پڑھاتےتھے۔ (قلائد الجواھر، ص 38)

آپ رحمۃ اللہ علیہ سے اکتساب فیض کرنے والے طلبہ کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ہےجن میں فقہاکی بہت بڑی تعدادشامل ہے۔(مراۃ الجنان،ج3،ص267)

صحبتِ غوثِ اعظم کی برکت

حضرت سیّدنا عبدُاللہ خشّاب علیہ رحمۃ اللہ الوَہَّاب علمِ نحوپڑھ رہے تھے، درسِ غوثِ اعظم کا شہرہ بھی سُن رکھا تھا،ایک روز آپ غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَم کےدرس میں شریک ہوئےجب آپ کو نحوی نکات نہ ملےتو دل میں وقت ضائع ہونے کا خیال گزرا اسی وقت غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَمآپ کی جانب متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا:”ہماری صحبت اختیار کرلو ہم تمہیں(علمِ نحو کے مشہور امام) سِیْبَوَیہ (کامثل) بنادیں گے۔“یہ سُن کرحضرت عبدُ اللہ خشّاب نحوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی نے درِغوثِ اعظم پر مستقل ڈیرے ڈال دیئےجس کا نتیجہ یہ ظاہر ہواکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو نحوکے ساتھ ساتھ علومِ نقلیہ و عقلیہ پرمہارت حاصل ہوئی۔ (قلائدالجواھر، ص32،تاریخ الاسلام للذھبی،ج 39،ص267)

سلطان صلاح الدین ایوبی کی فتوحات کا راز

بہت عجیب تر بات جس کا نہایت قلیل لوگوں کو علم ہوگا اور کثیر لوگوں کے علم میں شاید پہلی بار آئے کہ سُلطان صلاحُ الدِّین ایُّوبی نے جب القدس فتح کیا تو جس لشکر (Army) کے ذریعے بیت المقدس فتح کیا، اس میں شامل لوگوں کی بھاری اکثریت حضور غوث الاعظم کے تلامذہ کی تھی ،گویا آپ کے مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ صرف مجتہد ہی نہیں تھے بلکہ عظیم مجاہد بھی تھے۔

سُلطان صلاحُ الدِّین ایُّوبی کی آدھی سے زائد فوج حضور غوث الاعظم کے عظیم مدرسے کے طلبہ اور کچھ فیصد لوگ فوج میں وہ تھے جو امام غزالی کے مدرسہ نظامیہ کے فارغ التحصیل طلبہ تھے۔ سُلطان صلاحُ الدِّین ایُّوبی کے چیف ایڈوائزر امام ابن قدامہ المقدسی الحنبلی حضور سیّدُنا غوث الاعظم کے شاگرد اور خلیفہ تھے۔ آپ براہِ راست حضورغوثِ پاک کے شاگرد، مرید اور خلیفہ ہیں۔ گویا تاریخ کا یہ سنہرا باب جو سُلطان صلاحُ الدِّین ایُّوبی نے رقم کیا وہ سیّدُنا غوث الاعظم کا فیض تھا۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ (شاگرد) بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے مثلاً سلطان نورُالدّین زنگی رحمۃ اللہ علیہنےتلمیذِ غوثِ اعظم حضرت حامد بن محمودحرانی رحمۃ اللہ علیہ کوحَرّان میں قضا(Justice)اورتدریس (Teaching)کا منصب سونپا۔تلمیذِ غوثِ اعظم حضرت زینُ الدّین علی بن ابراہیم دمشقیرحمۃ اللہ علیہسُلْطان صلاحُ الدّین ایُّوبیرحمۃ اللہ علیہ کےمُشیررہے۔(الشیخ عبد القادر الجیلانی (الام الزہد القدوۃ)- دار القلم، دمشق، شام، ص287) حضور غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَم کے طریقۂ تدریس اور اندازِ تربیت سے طلبہ میں دعوتِ دین کاجذبہ پیدا ہوا۔ اسی جذبے کانتیجہ تھاکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد مخلوقِ خدا کو راہِ راست پر لانے،تزکیۂ نفس فرمانےاور جہالت کی تاریکی مٹانے کے لئے عالَم میں پھیل گئے۔فیضانِ غوثِ اعظم کودنیا بھر میں عام کرنے میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ وخلفا نے بھرپور کردار ادا کیا۔


20 نومبر کو دنیا بھر میں Children’s Day منایا جاتا ہے ،اس دن کا مقصد بچوں کی تعلیم و تربیت ، صحت و تفریح اور ذہنی نشوونما کے حوالے سے والدین یا سرپرستوں کو آگاہ کیا جائے تاکہ دنیا بھر کے بچے مستقبل میں معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔ اس بات میں کسی کو ذرہ برابر بھی شک وشبہ نہیں کہ بچے ہی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ بچے بڑے ہوکر ملک وملت کی ترقی کا سبب بنتے ہیں۔کسی بھی قوم اور وطن کی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس قوم کے بچے اچھی تعلیم و تربیت ، بہترین اورعمدہ اخلاق والے نہ ہوں۔

رنگ ونسل اور ملک وقوم کے فرق کے بغیر دعوتِ اسلامی کی خدمات دنیا کے سامنے ہیں ۔دعوت اسلامی بچوں کے لئے کیا کررہی ہے ،آئیے! اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔

مدرسۃ المدینہ (Boys And Girls)

والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے بچے قرآن کی تعلیم ایک اچھے ادارے سے حاصل کریں ، جس کا نظم و ضبط بہترین اور ماحول بچوں کے لئے خوشگوار ہو۔ انہیں ترجیحات کو دیکھتے ہوئے دعوت اسلامی نے مدرسۃ المدینہ قائم کیا ۔دعوت اسلامی کے مدارس میں ماحول انتہائی خوشگوار ہوتاہے۔یہاں بچوں کو نہایت پیارو محبت سے پڑھایا جاتا ہے ۔

اب تک تقریباً 3 لاکھ 65 ہزار بچے حفظ اور ناظرہ کى تعلىم حاصل کرچکے ہیں۔ دعوت اسلامی نیشنل اور انٹرنیشنل سطح پرمزید 2600مدارس بنانے کا ٹارگیٹ رکھتی ہے۔

دارالمدینہ)School)

جیسے جیسے زمانہ بدلتا ہے ویسے ہی اس کے تقاضے بھی بدلتے ہیں ، آج کے دور میں ان اداروں کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے جہاں دینی و عصری تعلیم کا بہترین انتظام ہو ، تاکہ بچوں کے لئے ایک ہی جگہ سے دینی و دنیاوی تعلیم کا حصول ممکن ہو ۔ اسی بنا پر دعوت اسلامی نے دارالمدینہ انٹرنیشنل اسلامک اسکولنگ سسٹم قائم کیا ، یہاں  شریعہ کمپلائنٹ اکیڈمک ایجوکیشن دی جاتى ہے۔

”دارُالمدینہ“ میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے اہل، تجربہ کار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹیچرز کا انتخاب کیا جاتا ہے، وقتاً فوقتاً ٹیچرز کی ٹریننگ بھی کی جاتی ہے تاکہ اُنہیں جدید تعلیمی تکنیک سے آگاہی فراہم کی جاسکے۔ اس وقت ملک و بیرونِ ملک، ہند، برطانیہ(UK)اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ (USA) وغیرہ میں ”دارُالمدینہ“ کے  82 کیمپس(Campus) قائم ہوچکے ہیں،جن میں پڑھنے والے بچوں اوربچیوں کی تعداد تقریبا ً24 ہزار سے زائد ہے۔

کِڈز مدنی چینل)Kid’s Madani Channel)

آج کا دور میڈیا کا دور ہے ، بچوں کی تعلیم و تربیت میں میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے ، کیونکہ بچے کھیل کود اور کارٹونز کی طرف زیادہ Attract ہوتے ہیں ، بچوں کے اخلاق کو بہتر بنانے اور کھیل ہی کھیل میں انہیں علم دین سکھانے کے لئے دعوت اسلامی نے کڈز مدنی چینل قائم کیا ، جس میں بچوں کے لئے کارٹونز، ا سٹوریز اور تفریح سے بھرپور معلوماتی پروگرامز پیش کئے جاتے ہیں ۔”کڈز مدنی چینل“ کے پروگرامز صرف اردو زبان میں ہی نہیں بلکہ دیگر کئی زبانوں میں بھی نشر کئے جاتے ہیں ۔

ریہبلٹیشن سینٹر)Rehabilitation Center)

معذور بچے بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں ، ان کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینا بھی معاشرے کی ذمہ داری ہے، اس ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے دعوت اسلامی کے شعبہ فیضان گلوبل ریلیف فاؤنڈیشن (FGRFنے ریہبلٹیشن سینٹر“ قائم کیا ہے۔

مدنی ہوم)Orphanage(

دعوتِ اسلامی نے یتیم بچوں کی کفالت اور ان کی تعلیم و تربیت کے لئے ”مدنی ہوم “کے نام سے یتیم خانے(Orphanage(کے قیام کا اعلان بھی کیا ہے ، جس کے تحت کراچی میں پہلا ”مدنی ہوم “(یتیم خانہ)قائم کیا جائے گا، جہاں ان بچوں کی شاندار انداز میں تربیت کی جائے گی ۔

”مدنی ہوم“ میں بچوں کودینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ کیا جائے گا ،انہیں عالم دین بنایا جائے گا اور وہ ہنر سکھائے جائیں گے جو انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد گار ثابت ہوں۔

فیضان آن لائن اکیڈمی (Faizan Online Academy(

فیضان آن لائن اکیڈمی کے ذریعے دنیا بھر میں کہیں بھی گھر بیٹھے بچوں اور بڑوں کو اسلامک کورسز کروائے جاتے ہیں۔اللہ پاک کے کرم سےاب تک ملک و بیرون ملک میں فیضان آن لائن اکیڈمی کی 40 سے زائد برانچز قائم ہوچکی ہیں۔جن میں 2500 سے زائد ٹیچرز اور مینجمنٹ اسٹاف کے ذریعے 20ہزار اسٹوڈنٹ کو اردو اور انگلش زبان میں مختلف کورسز کروائے جاتے ہیں۔یہ ڈپارٹ 24گھنٹے قرآنِ پاک کی تعلیم سمیت 30کورسز کروانے میں مصرف ہے۔جن میں عالم کورس،فرض علوم کورس اورنیومسلم کورس شامل ہیں۔

بچوں کی دنیا (Children’s Literature Department(

اچھا لٹریچر بچوں کی اخلاقی اور معاشرتی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے ، اس خلا کو پُر کرنے کے لئے دعوت اسلامی نے ایک خصوصی شعبہ بچوں کی دنیا قائم کیا ہے ، جس کا مقصد بچوں کے لئے ایک مستند اور صحت مند مواد فراہم کرنا ہے ، بچوں کی تعلیم و تربیت،اخلاقیات ومعاشرت اورذہنی نشوونما میں اضافے کے لئے ایکٹیویٹز پر مشتمل 90سے زیادہ مضامین” ماہنامہ فیضان مدینہ میں آچکے ہیں، اس کے علا وہ الگ سے بھی یہ شعبہ بچوں کے لئے دلچسپ اور سبق آموز کہانیاں لکھ رہا ہے ۔جیسے:

(1)رہنمائی کرنے والا بھیڑیا(2)لالچی کبوتر(3)چالاک خرگوش(4)بے وقوف کی دوستی۔

Coming Soon

1۔پیارے نبیوں کی زندگی سیریز۔2۔بچوں کے لئے قرآنی واقعہ سیریز۔3۔بچوں کی 40دعائیں )تصویروں کے ساتھ(۔

4۔بچوں کی نماز) تصویروں کے ساتھ(۔

مذکورہ اقدامات کو دیکھ کر اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ دعوت اسلامی بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت کے لئے کوشاں ہے ۔ آپ بھی دعوت اسلامی کے اس قافلے میں شامل ہو جائیے اور دنیا میں قرآن و سنت کی تعلیم عام کرنے میں دعوت اسلامی کا ساتھ دیجئے ۔

اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں

اے دعوت اسلامی تیری دھوم مچی ہو


اسلام نے فرض روزوں کے علاوہ مختلف ایام کے نفلی روزوں کی بھی ترغیب دی ہے۔

کیونکہ روزہ تزکیہ نفس کا بہترین ذریعہ ہے یہی وجہ ہے کہ انبیا ،اولیا، صُلحا کی زندگیوں کا معمول تھا کہ وہ فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزوں کا بھی بطور خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے ۔

نفلی روزوں کی فضیلت احادیث کی روشنی میں:

1. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا مِنْ عَبْدٍ يَصُوْمُ يَوْمًا فِي سَبِيْلِ اﷲِ، إِلَّا بَاعَدَ ﷲُ بِذٰلِکَ الْيَوْمِ، وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِيْنَ خَرِيْفًا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بھی ایک دن اللہ پاک کی رضا کے لئے روزہ رکھے تو اللہ پاک اس ایک دن کے بدلے اس کے چہرے کو آگ سے ستر سال کی مسافت تک دور کر دیتا ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔

( أخرجہ البخاري في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب فضل الصوم في سبيل اﷲ، الرقم 2840 دارلکتب علمیہ, 2ومسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب فضل الصيام في سبيل اﷲ . الرقم2711 دارلکتب علمیہ(

2. عَنْ عَبْدِ ﷲِ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمُ الْبَاءَ ةَ فَلْيَتَزَوَّجْ. فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ. وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ.مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.

حضرت عبد ﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں فرمایا: اے نوجوانو! تم میں سے جو عورتوں کے حقوق ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہو تو وہ ضرور نکاح کرے، کیونکہ یہ نگاہ کو جھکاتا اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے، اور جو نکاح کی طاقت نہ رکھے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ روزے رکھے، بے شک یہ روزہ اس کے لئے ڈھال ہے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔

) أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب النکاح، باب من لم يستطع الباء ة فليصم، الرقم: 1905 دارلکتب علمیہ ومسلم في الصحيح، کتاب النکاح، باب استحباب النکاح لمن تاقت نفسه إليه ووجده مٶنة۔الرقم 3398 دارالکتب علمیہ(

3. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، قَالَ: مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيْلِ اﷲِ، جَعَلَ اﷲُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ خَنْدَقًا کَمَا بَيْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ

حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کی راہ میں ایک دن روزہ رکھے تو اللہ پاک اس کے اور جہنم کے درمیان زمین وآسمان کے درمیان فاصلے جتنی خندق بنا دیتا ہے۔

( أخرجه الترمذي في السنن، کتاب فضائل الجهاد، باب ما جاء في فضل الصوم في سبيل اﷲ، الرقم: 1624 دارالکتب علمیہ(

4. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَنْ صَامَ يَوْمًا اِبْتِغَاءَ وَجْهِ اﷲِ بَعَّدَهُ اﷲُ مِنْ جَهَنَّمَ کَبُعْدِ غُرَابٍ طَارَ وَهُوَ فَرْخٌ، حَتّٰی مَاتَ هَرِمًا.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ پاک کی رضا کے لئے ایک دن روزہ رکھے تو اللہ پاک اسے جہنم سے اس قدر دور کر دیتا ہے، جیسے کوئی کوّا جب اُڑا تو بچہ تھا اور وہ مسلسل اُڑتا رہا یہاں تک کہ بڑھاپے کے عالم میں اُسے موت آ گئی۔( أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 526، الرقم: 10820(

سال بھر میں رکھے جانے والے چند روزرے:

چونکہ اسلامی ماہ کا پہلا مہینہ محرم ہے لہذا محرم کے نفلی روزوں کے فضائل احادیث کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَفْضَلُ الصِّيَامِ، بَعْدَ رَمَضَانَ، شَهْرُ اللهِ الْمُحَرَّمُ، وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ، بَعْدَ الْفَرِيضَةِ، صَلَاةُ اللَّيْلِ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ۔ کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : رمضا ن کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے ۔ (صحیح مسلم الرقم 2755 دارالکتب العلمیہ)

بالخصوص یوم عاشورا (یعنی دس محرم ) کا روزہ رکھنا چاہیے کہ اس دن کا روزہ رکھنے سے گزشتہ ایک سال کے گناہوں کی معافی ہے ۔

صِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ،مجھے اللہ پر گمان ہے کہ عاشورا کا روزہ ایک سال قبل کے گناہ مٹا دیتا ہے ۔

(صحیح مسلم دارلکتب العلمیہ الرقم۔ 2746)

‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ مَنْ صَامَ يَوْمَ عَرَفَةَ غُفِرَ لَهُ سَنَةٌ أَمَامَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَسَنَةٌ بَعْدَهُ قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس نے عرفہ کے دن روزہ رکھا تو اس کے ایک سال کے اگلے اور ایک سال کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں۔

(سنن ابن ماجہ دارالکتب العلمیہ ،رقم: 1731)

بہتر یہ ہے کہ عاشورا ء کے روزے کے ساتھ 9نو محرم کا روزہ یا 11گیارہ محرم کا روزہ رکھنا چاہیے۔حدیث میں ہے:صُوْمُوْا یَوْمَ عَاشُوْرَائَ وَخَالِفُوْا فِیْہِ الْیَہُوْدَ وَصُوْمُوْا قَبْلَہُ یَوْمًا اَوْ بَعْدَہُ یَوْمًا۔رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یومِ عاشوراء کو روزہ رکھا کرو، البتہ اس کے معاملے میں یہودیوں کی مخالفت کیا کرو اور وہ اس طرح کہ اس سے ایک دن پہلے کا روزہ رکھ لیا کرو یا اس سے ایک دن بعد ۔(مسند احمد بن حنبل دارالکتب العلمیہ الرقم 3929)

ہر ماہ تین روزے رکھنا یہ بھی سنت ہے امیر اہلسنت فیضان رمضان میں فرماتے ہیں۔ہر مَدَنی ماہ (یعنی سن ہجری کے مہینے) میں کم ازکم تین3 روزے ہر اسلامی بھائی اور اسلامی بہن کو رکھ ہی لینے چاہئیں ۔ اس کے بے شمار دُنیوی اور اُخروِی فوائدہیں ۔ بہتر یہ ہے کہ یہ روزے ’’ ایامِ بِیْض ‘‘ یعنی چاند کی 13، 14 اور 15 تاریخ کو رکھے جا ئیں ۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: أَوْصَانِي خَلِيْلِي صلی الله عليه وآله وسلم بِثَلاَثٍ: صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَامٍ مِنْ کُلِّ شَهْرٍ، وَرَکْعَتَيِ الضُّحٰی، وَأَنْ أُوْتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میرے خلیل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے تین چیزوں کی وصیت فرمائی: ہر مہینے میں تین روزے رکھنا، چاشت کی دو رکعتیں ادا کرنا اور سونے سے پہلے وتر پڑھ لینا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔(أخرجه البخاری في الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام أيام البيض ثلاث عشرة وأربع عشرة وخمس عشرة، 2 / 699، الرقم:1880، ومسلم في الصحيح، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب استحباب صلاة الضحی وأن أقلها رکعتان وأکملها ثمان رکعات وأوسطها أربع رکعات أوست والحث علی المحافظة عليها، 1 / 499، الرقم:721)

صَوْمُ ثَلَاثَةٍ مِنْ کُلِّ شَهْرٍ، وَرَمَضَانَ إِلَی رَمَضَانَ صَوْمُ الدَّهْرِ۔ ’’ہر ماہ تین دن کے روزے رکھنا اور ایک رمضان کے بعد دوسرے رمضان کے روزے رکھنا یہ تمام عمر کے روزوں کے مترادف ہے۔‘‘( مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب استحباب صيام ثلاثة أيام من کل شهر، 2 : 819، رقم : 11062)

عَنْ حَفْصَةَ قَالَتْ أَرْبَعٌ لَمْ يَكُنْ يَدَعُهُنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صِيَامَ عَاشُورَاءَ وَالْعَشْرَ وَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْغَدَاةِ۔

(سنن نسائی ارقم 2418 دارالکتب العلمیہ)

اُمّ المؤمنین حضرت سیدتنا حفصہ رضی اللہ عنہا سے رِوایت ہے، اللہ پاک کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم چار چیزیں نہیں چھوڑتے تھے، عاشور۱ کا روزہ اور عشرئہ ذُوالْحِجَّہ کے روزے اور ہر مہینے میں تین3 دن کے روزے اورفجر(کے فرض ) سے پہلے دو2 رَکْعَتَیں (یعنی دوسُنَّتیں ) ۔ حدیثِ پاک کے اس حصے عشرۂ ذُوالْحِجَّہ کے روزے سے مراد ذُوالْحِجَّہ کے ابتدائیی نو9 دنوں کے روزے ہیں ، ورنہ 10 ذُوالْحِجَّہ کو روزہ رکھنا حرام ہے۔ (ماخوذ ازمراٰۃ المناجیح ،3 /195)

عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ صِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ صِيَامُ الدَّهْرِ وَأَيَّامُ الْبِيضِ صَبِيحَةَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ وَخَمْسَ عَشْرَةَ

(سنن نسائی الرقم دارلکتب العلمیہ 2422)

حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ ہر مہینے تین روزے رکھنا ( ثواب کے لحاظ سے ) زمانے بھر کے روزوں کے برابر ہے ۔ اور ایام بیض ( چمکتی راتوں والے دن ) 13 ، 14 اور 15 ہیں ۔‘عشرہ ذوالحجہ کے ابتد۱ئی نو دنوں میں روزہ رکھنا یہ بھی مستحب اور نہایت اجروثواب کا کام ہے۔

أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيهَا مِنْ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ، ‏‏‏‏‏‏يَعْدِلُ صِيَامُ كُلِّ يَوْمٍ مِنْهَا بِصِيَامِ سَنَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقِيَامُ كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْهَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ . (جامع ترمذی الرقم دارلکتب العلمیہ 758)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ذی الحجہ کے ( ابتدائی ) دس دنوں سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں جس کی عبادت اللہ کو زیادہ محبوب ہو، ان ایام میں سے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور ان کی ہر رات کا قیام لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے“۔

شوال کے چھ روزے رکھنا مستحب ہے،احادیثِ مبارکہ میں اس کی فضیلت وارد ہوئی ہے: عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ فَذَلِكَ صِيَامُ الدَّهْرِ

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ ( نفلی ) روزے رکھے تو یہی صوم الدھر ہے“۔(جامع ترمذی الرقم : 759 دارالکتب العلمیہ)


ماہنامہ فیضان مدینہ کے قارئین! فرض روزوں کے علاوہ نفل روزوں کی بھی عادت بنانی چاہیئے کہ اس میں بے شمار دینی اور دنیاوی فوائد ہیں اور ثواب تو اتنا ہے کہ مت پوچھئے! آدمی کا جی چاہے کے بس روزے رکھتے ہی چلے جائیں۔ دینی فوائد میں ایمان کی حفاظت، جہنم سے نجات اور جنت کا حصول شامل ہے اور جہاں تک دنیاوی فوائد کا تعلق ہے تو دن کے اندر کھانے پینے میں صرف ہونے والے وقت اور اخراجات کی بچت، پیٹ کی اصلاح اور بہت سارے امراض سے حفاظت کا سامان ہے اور تمام فوائد کی اصل یہ ہے کہ روزے دار سے اللہ پاک راضی ہوتا ہے۔

چنانچہ اللہ پاک پارہ 22 سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 35 میں فرماتا ہے: وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِۙ-اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا(۳۵)

ترجمہ کنزالایمان: اور روزے والے اورروزے والیاں اور اپنی پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ رکھنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ان سب کے لئے اللہ نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔

وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ( اور روزے والے اور روزے والیاں) کی تفسیر میں حضرت علامہ ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نسفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں اس میں فرض اور نفل دونوں قسم کے روزے داخل ہیں۔ منقول ہے: جس نے ہر مہینے ایام بیض (یعنی چاند کی 13، 14، 15 تاریخ) کے تین روزے رکھے وہ روزے رکھنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ (تفسیرِ مدارک 2/345)

نفلی روزوں کے فضائل پر چند فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ ہو:۔

(1) جس نے ایک نفل روزہ رکھا اس کیلئے جنت میں ایک درخت لگا دیا جائے گا جس کا پھل انار سے چھوٹا اور سیب سے بڑا ہوگا، وہ شہد جیسا میٹھا اور خوش ذائقہ ہوگا اللہ پاک روزہ دار کو اس درخت کا پھل کھلائے گا۔ (معجم کبیر 18/366، حديث :935)

(2)صُوْمُوْا تَصِحُّوْا یعنی(روزہ رکھو تندرست ہو جاؤ گے) ۔

(معجم اوسط 6/142، حديث :8312)

(3) اگر کسی نے ایک دن نفل روزہ رکھا اور زمین بھر سونا اسے دیا جائے جب بھی اِس کا ثواب پورا نہ ہوگا، اس کا ثواب تو قیامت ہی کے دن ملے گا۔ ( ابو يعلى 5/353، حديث :6104)

(4) جس نے ایک دن کا روزہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے رکھا، اللہ اسے جہنم سے اتنا دور کردے گا جتنا کہ ایک کَوّا جو اپنے بچپن سے اڑنا شروع کرے یہاں تک کہ بوڑھا ہو کر مر جائے۔ (ابو یعلیٰ 1/383، حديث :917)

(5) جو روزے کی حالت میں مرا اللہ پاک قیامت تک کے لئے اس کے حساب میں روزے لکھ دے گا۔( الفردوس بماثور الخطاب 3/504، حديث :5557)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں فرائض عبادات کے ساتھ ساتھ نفلی عبادات کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


اللہ پاک پارہ 22سورۃ الاحزاب کی ایت نمبر35میں ارشادفرماتاہے:ترجمہ کنز الایمان:اورروزےوالےاورروزےوالیاں اوراپنی پارسائی نگاہ رکھنےوالےاور نگاہ رکھنےوالیاں اوراللہ کوبہت یادکرنےوالےاوریادکرنےوالیاں ان سب کیلئے اللہ نےبخشش اور بڑاثواب تیارکررکھاہے۔

حضرت قیس بن زیدجہنی رضی اللہ عنہ سےروایت ہے اللہ پاک کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا:جس نےایک نفلی روزہ رکھااللہ پاک اس کیلئےجنت میں ایک درخت لگائےگاجس کاپھل انارسےچھوٹااورسیب سےبڑاہوگاوہ شہدجیسامیٹھااورخوش ذائقہ ہوگا اللہ پاک بروزِ قیامت اسےدوزخ سےچالیس سال دورفرمائےگا۔(طبرانی کبیر جلد18)

اللہ پاک کےآخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمان ہے: جس نے رضائے الہی عزوجل کے لئے ایک دن کا نفل روزہ رکھا تو الله عزوجل اسکے اور دوزخ کے درمیان ایک تیز رفتار سوار کی پچاس سالہ مسافت ( یعنی فاصلے) تک دور فرما دے گا ۔ ( کنز العمال ج حديث :24149 )

اللہ کےآخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمان ہے:اگرکسی نےایک دن نفل روزہ رکھا اورزمین بھرسونااسےدیاجائےجب بھی اس کاثواب پورا نہ ہوگااسکا ثواب توقیامت ہی کےدن ملےگا۔(ابویعلٰی جلد5)

ام المؤمنین حضرت سیدتناعائشہ صدیقہ طیبہ وطاہرہ سےروایت ہے اللہ کےآخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا: جو روزے کی حالت میں مرا ، اللہ پاک قیامت تک کےلئے اس کے حساب میں روزے لکھ دیگا ۔ (الفردوس بمأثور الخطاب 3/504،حدیث :5557)

حضرت عبداللہ بن رباح انصاری رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ قیامت میں دسترخوان بچھائےجائیں گے سب سےپہلےروزےدار ان پرسےکھائیں گے۔(مصنف ابن ابی شیبہ جلد2)

حضرت ابوامامہ فرماتےہیں: میں نےعرض کی یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھےکوئی عمل بتایئے۔ حضورنے ارشاد فرمایا: روزےرکھاکروکیونکہ اس جیسا عمل کوئی نہیں۔میں نےپھرعرض کی مجھےکوئی عمل بتایئے فرمایا :روزےرکھاکروکیونکہ اس جیساکوئی عمل نہیں۔میں پھرعرض کی مجھےکوئی عمل بتایئے فرمایا:روزےرکھاکرو کیونکہ اس کاکوئی مثل نہیں۔(نسائی جلد4)

حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نےفرمایا:"روزہ دارکاہربال اس کےلئےتسبیح کرتاہے ،بروزِقیامت عرش کےنیچےروزےداروں کےلئےموتیوں اورجواہر سےجڑاہوا سونے کاایسا دسترخوان بچھایاجائےگا جواحاطہ دنیاکےبرابرہوگا اس پرقسم قسم کےجنتی کھانے،مشروب اور پھل فروٹ ہوں گے وہ کھائیں گے پیئں گےاورعیش وعشرت میں ہوں گےحالانکہ لوگ سخت حساب میں ہوں گے۔(الفردوس بماثورالخطاب جلد5)

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا جس نےمحض اللہ کی رضاکیلئےکلمہ پرہوگا۔اورجس نے کسی دن اللہ کی رضاکیلئےروزہ رکھاتواس کا خاتمہ بھی اسی پرہوگا اوروہ داخلِ جنت ہوگا۔اور جس نےاللہ کی رضاکیلئے صدقہ کیااس کا خاتمہ بھی اسی پرہوگااور وہ داخلِ جنت ہوگا۔(مسندامام احمدجلد9)

حضرت انس رضی اللہ عنہ نےفرمایاکہ قیامت کےدن روزےدارقبروں سےنکلیں گےتووہ روزےکی بوسے پہچانےجائیں گے اورپانی کےکوزےجن پرمشک سےمہرہوگی انہیں کہاجائےگاکھاؤکل تم بھوکےتھے۔پیوکل تم پیاسےتھے۔آرام کروکل تم تھکےہوئےتھے۔پس وہ کھائیں گےاورآرام کریں گےحالانکہ لوگ حساب کی مشقت اورپیاس میں مبتلاہوں گے۔(کنزالعمال جلد8)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا:جہادکیاکروخودکفیل ہوجاؤگے،روزےرکھوتندرست ہوجاؤگےاورسفرکیاکروغنی ہوجاؤگے۔(المعجم الاوسط جلد2)


روزہ  بہت عظیم عبادت ہے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں روزے کا بڑا تذکرہ ملتا ہے اور بطور خاص نفلی روزے رکھنا۔ فرائض کی بات کرے تو وہ مسلمانوں پر بالعموم روزہ فرض ہی ہے۔ رمضان کے روزے وہ الگ معاملہ ہےفریضہ ہے لیکن اس کے علاوہ نفلی روزوں کی بہت ترغیب ارشاد فرمائی گئی ہے۔

محشر میں روزے داروں کے مزے: قیامت کے  دن جب روزے دار قبروں سے نکلیں گے تو وہ روزے کی بو سے پہچانے جا ئیں گے، ان کے  لئے دسترخوان لگایا جا ئے گا اور انہیں کہا جا ئے گا:  ’’  کھاؤ !کل تم بھوکے  تھے،  پیو ! کل تم پیاسے تھے،  آرام کرو!کل تم تھکے  ہوئے تھے۔ ‘‘  پس وہ کھائیں گے پئیں گے اور آرام کریں گے حالانکہ لوگ حساب کی مَشَقَّت اور پیاس میں  مُبتَلاہوں گے۔(جَمْعُ الْجَوامِع 1/334،حدیث:2462)

شیطان کی پریشانی: ایک بزرگ نے مسجد کے دروازے پر شیطان کو حیران و پریشان کھڑے ہوئے دیکھ کر پوچھا کیا بات ہے؟ شیطان نے کہا: اندر دیکھئے! انہوں نے اندر دیکھا تو ایک شخص نماز پڑھ رہا تھااور ایک آدمی مسجد کے دروازے کے پاس سو رہا تھا۔ شیطان نے بتایا کہ وہ جو اندر نماز پڑھ رہا ہے اس کے دل میں وسوسہ ڈالنے کے لئے میں اندر جانا چاہتا ہوں لیکن جو دروازے کے قریب سو رہا ہے،یہ روزہ دار ہے، یہ سویا ہوا روزے دار جب سانس باہر نکالتا ہے تو اس کی وہ سانس میرے لئے شعلہ بن کر مجھے اندر جانے سے روک دیتی ہے۔

( نیک بننے اور بنانے کا طریقے)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! شیطان کے وار سے بچنے کیلئے روزہ ایک زبردست ڈھال ہےروزہ دار اگرچہ سو رہا تھا مگر اس کی سانس شیطان کے لئے گویا تلوار ہے ۔معلوم ہوا روزہ دار سے شیطان بڑا گھبراتا ہے، شیطان چونکہ ماہ رمضان المبارک میں قید کر لیا جاتا ہے۔ اس لئے وہ جہاں بھی اور جب بھی روزہ دار کو دیکھتا ہے پریشان ہو جاتا ہے۔

جنت کا انوکھا درخت : جس نے ایک نفلی روزہ رکھا اللہ پاک اس کے لئے جنت میں ایک درخت لگائے گا جس کا پھل انار سے چھوٹا اور سیب سے بڑا ہوگا۔ وہ (موم سے الگ نہ کئے ہوئے) شہد جیسا میٹھا اور (موم سے الگ کئے ہوئے خالص شہد کی طرح) خوش ذائقہ ہوگا۔ اللہ پاک بروز قیامت روزہ دار کو اس درخت کا پھل کھلائے گا۔(طبرانی کبیر 18/366، حدیث :935)

چالیس سال کا فاصلہ دوزخ سے دوری : جس نے ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے ایک نفْل روزہ رکھااللہ پاک اسے دوزخ سے چالیس سال (کی مسافت کے  برابر) دُور فرمادے گا۔(جَمعُ الجَوامع 7/190،حدیث:22251)

چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

اللہ پاک پارہ 22 سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 35 میں ارشاد فرماتا ہے :

وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِۙ-اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا(۳۵)

ترجمہ کنزالایمان: اور روزے والے اورروزے والیاں اور اپنی پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ رکھنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ان سب کے لئے اللہ نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔

وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ( اور روزے والے اور روزے والیاں) کی تفسیر میں حضرت علامہ ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نسفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں اس میں فرض اور نفل دونوں قسم کے روزے داخل ہیں۔ منقول ہے: جس نے ہر مہینے ایام بیض (یعنی چاند کی 13، 14، 15 تاریخ) کے تین روزے رکھے وہ روزے رکھنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ (تفسیرِ مدارک 2/345)


 روزہ بہت عمدہ عبادت ہے اور اللہ پاک نے ہم پررمضان کے روزے فرض کئے۔ آج دور حاضر میں سائنس جو کہ اپنے عروج پر ہے وہ بھی روزے کے فوائد بیان کرتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف فرض بلکہ نفلی روزوں کی ترغیب دلائی۔

ارشاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم: اگر کسی نے ایک دن نفل روزہ رکھا اور زمین بھر اسے سونا دیا جائے جب بھی اس کا ثواب پورا نہ ملے گا ،اس کا ثواب تو قیامت ہی کے دن ملے گا۔

رمضان اور عیدین کے علاوہ تمام دنوں کے روزے نفل روزے ہیں مگر چند دن کے روزے ایسے ہیں جن کے فضائل احادیث مبارکہ میں مذکور ہیں۔

(1)محرم کے روزے :ارشاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم :رمضان کے بعد افضل روزہ محرم کا روزہ ہے۔

(2) عاشورا کے روزے: ارشاد خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم: مجھے اللہ پر گمان ہے کہ عاشورا کا روزہ ایک سال قبل کے گناہ مٹا دیتا ہے۔

(3)عرفہ کا روزہ: ارشاد محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم : مجھے اللہ پر گمان ہے کہ عرفہ کا روزہ ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہ مٹا دیتا ہے۔

(4)شش عید کا روزہ :ارشاد حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے: جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر ان کے بعد چھ دن شوال میں رکھے تو ایسا ہے جیسے دہر کا روزہ رکھا۔

(5)شعبان کے روزے :حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے میں نے نہ دیکھا۔

(6)پندرویں شعبان کا روزہ :ارشاد رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ''جب شعبان کی پندرھویں رات آجائے تو اُس رات کو قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو کہ اللہ پاک غروبِ آفتاب سے آسمان دنیا پر خاص تجلّی فرماتا ہے اور فرماتا ہے: کہ ہے کوئی بخشش چاہنے والا کہ اسے بخش دوں، ہے کوئی روزی طلب کرنے والا کہ اُسے روزی دُوں، ہے کوئی مبتلا کہ اُسے عافیت دُوں، ہے کوئی ایسا، ہے کوئی ایسا اور یہ اس وقت تک فرماتا ہے کہ فجر طلوع ہو جائے۔''

(7)ایام بیض کے روزے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ہر مہینے میں تین دن کے روزے ایسے ہیں جیسے دہر ( ہمیشہ )کا روزہ ۔

(8)جمعرات اور پیر کے روزے :حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کو خیال کر کے روزہ رکھتے تھے۔

نوٹ:مذکورہ تمام احادیث بہار شریعت جلد اول حصہ 5 ،صفحہ نمبر 962 تا 1013 سے ماخوذ ہیں۔

اللہ پاک ہمیں نفلی روزوں کی قدر کرنے اور ان روزوں کو رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


اسلام وہ  خوبصورت اور مبارک دین ہے جس میں اس کے چاہنے والوں کے لئے آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔ ایک طرف عبادات بجا لانے میں آسانی کو پیش نظر رکھا گیا ہے اور دوسری طرف احترام مسلم کی خاطر غیبت ،چغلی ،حسد اور بدگمانی جیسے باطنی امراض کو حرام قرار دیا گیا ،اور ایک طرف کو فرائض کی ادائیگی پر عذاب سے نجات کی بشارت ہے۔ تو دوسری طرف نوافل کے ذریعے جنت میں بلندی درجات کی خوشخبریاں ہیں۔ جب اسلام میں اس طرح کے آسانیوں کو دیکھتے ہیں تو اس کے مذہب حق ہونے میں کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہتا۔ اس مختصر تحریر میں نفل روزوں کے بارے میں بیان کیا جائے گا۔

نفل کا اصطلاحی معنی ہے ایسا فعل عبادت جو نہ فرض ہو نہ واجب اور نہ ہی سنت ہو۔

( نور الایضاح مع مراقی الفلاح ،ص 255)

شریعت اسلامیہ نے اپنے پیروکاروں کو جو جہاں فرائض و واجبات و سنن کو بجا لانے کا حکم دیا وہیں نوافل کی بھی ترغیب دی ہے۔ اس میں بے شمار دینی و دنیاوی فوائد کو پوشیدہ رکھا ہے۔ دینی فوائد میں ایمان کی حفاظت جہنم سے نجات اور جنت کا حصول شامل ہے جبکہ نفل روزوں سے حاصل ہونے والے دنیاوی فوائد میں کھانے ،پینے میں خرچ ہونے والے اخراجات کی بچت ،پیٹ کی اصلاح اور بہت سارے خرچ سے حفاظت کا سامان شامل ہے اور تمام فوائد کی اصل کہ روزہ دار سے اللہ پاک راضی ہوتا ہے۔( فیضان رمضان مخلصا ص: 325، مکتبۃ المدینہ)

یہی وجہ ہے کہ قرآن و احادیث مبارکہ میں نفلی روزوں کے بہت فضائل اپنی برکتیں لٹا رہے ہیں۔

قرآن کریم میں روزے داروں کے لئے بشارت:

ارشاد رب العباد ہے ترجمہ کنز الایمان: اور روزے والے اور روزے والیاں اور اپنی پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ رکھنے والیاں اور الله کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ان سب کیلئے الله نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے ۔(پ 22، الاحزاب :35)

اس آیت کے اس حصے وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ( اور روزے والے اور روزے والیاں) کی تفسیر میں حضرت علامہ ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نسفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: اس میں فرض اور نفل دونوں قسم کے روزے داخل ہیں۔ منقول ہے: جس نے ہر مہینے ایام بیض (یعنی چاند کی 13، 14، 15 تاریخ) کے تین روزے رکھے وہ روزے رکھنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

(تفسیرِ مدارک 2/345)

ایک اور مقام پر رب کریم کا ارشاد ہے: كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا هَنِیْٓــٴًـۢا بِمَاۤ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَةِ(۲۴)(پ 29،الحاقہ :24)

ترجمہ کنز الایمان: کھاؤ اور پیؤ رچتا ہوا صلہ اس کا جو تم نے گزرے دنوں میں آ گے بھیجا۔

اس آیت کے اس حصے گزرے ہوئے دنوں کے تحت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رقمطراز ہیں یعنی دنیا کے دنوں میں سے گزشتہ دنوں میں ان دنوں میں جو کھانے اور پینے سے خالی تھے اور وہ رمضان المبارک اور دوسرے مسنون روزوں کے ایام جسے ایام بیض، عرفہ ،عاشورہ کے دن ،پیر ،جمعرات کا دن اور شب برات وغیرہ ۔(فیضان رمضان ص: 326 مکتبۃ المدینہ )

نفل روزوں کے فضائل احادیث مبارکہ کی روشنی میں :

احادیث مبارکہ میں کثرت سے نفلی روزوں کے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند فرامین پیش خدمت ہیں:۔

1) جس نے ایک نفلی روزہ رکھا اللہ پاک اس کے لئے جنت میں ایک درخت لگائے گا جس کا پھل انار سے چھوٹا اور سیب سے بڑا ہوگا۔ وہ (موم سے الگ نہ کئے ہوئے) شہد جیسا میٹھا اور (موم سے الگ کئے ہوئے خالص شہد کی طرح) خوش ذائقہ ہوگا۔ اللہ پاک بروز قیامت روزہ دار کو اس درخت کا پھل کھلائے گا۔(طبرانی کبیر 18/366، حدیث :935)

2) جس نے ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے ایک نفْل روزہ رکھااللہ پاک اسے دوزخ سے چالیس سال (کی مسافت کے  برابر) دُور فرمادے گا۔

(جَمعُ الجَوامع 7/190،حدیث:22251)

3) جو روزے کی حالت میں مرا ، اللہ پاک قیامت تک کےلئے اس کے حساب میں روزے لکھ دے گا ۔ (الفردوس بمأثور الخطاب 3/504،حدیث :5557)

4) رمضان کے بعد افضل روزہ محرم کا روزہ ہے اور ہر فرض کے بعد افضل نماز صلاۃ الیل ہے۔( صحیح مسلم،حدیث:1163)

5)سیدنا عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں: میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دن کے روزے کو اور دن پر فضیلت دے کر جستجو ( رغبت )فرماتےنہیں دیکھا مگر یہ کہ عاشورے کا دن اور رمضان کا مہینہ۔(بخاری حدیث:2006)

6) رجب کے پہلے دن کا روزہ تین سال کا کفارہ ہے، دوسرا دن کا روزہ دو سال کا، تیسرے دن کا ایک سال کا کفارہ ہے پھر ہر دن کا روزہ ایک ماہ کا کفارہ ہے۔(الجامع الصغیر،حدیث:5051)

7) جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر ان کے بعد چھ دن شوال میں رکھے تو ایسا ہے جیسے دہر کا روزہ رکھا۔( صحیح مسلم،حدیث:1164)

ہمیں بھی اللہ کریم کی رضا کی خاطر جتنی طاقت و ہمت ہو، نفلی روزے رکھ کر اپنی آخرت کا سامان کرنا چاہیے۔ اللہ کریم عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


پچھلےدنوں عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں شعبہ رابطہ برائے تاجران کے ریجن ذمہ دار حمزہ علی عطاری نے دینی کاموں کےسلسلے میں   شعبہ مدنی قافلہ کے ریجن ذمہ دار محمد ساجد عطاری سے مشاورت کی۔

اس دوران انہوں نے ایک ماہ کے مدنی قافلے میں سفر کرنے والے اسلامی بھائیوں اور امیر قافلہ سے ملاقات کرتےہوئےاپنے شعبہ رابطہ برائے تاجران کےدینی کاموں کےحوالے سے اہم نکات پرتفصیلی گفتگو کی۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائے تاجران ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


اللہ پاک فرماتا ہے:ترجمہ کنزالایمان : اور روزے والے اور روزے والیاں اور اپنی پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ رکھنے والیاں اور الله کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ان سب کیلئے الله نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے ۔(پ 22، الاحزاب :35)

اس کے تحت حضرت علامہ مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی فرماتے ہیں: لفظ صوم یہ فرض اور نفل دونوں کو شامل ہے۔( خزائن العرفان)

ہمیں فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزوں کی بھی عادت بنانی چاہئے کہ اس میں بے شمار دینی اور دنیاوی فوائد ہیں اور ثواب تو اتنا ہے کہ جی چاہتا ہے کہ بس روزے رکھتے ہی چلے جائیں۔

نفلی روزوں کے چند فضائل احادیث مبارکہ سے بیان کیے جاتے ہیں:

1)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے رضائے الہی عزوجل کے لئے ایک دن کا نفل روزہ رکھا تو الله پاک اس کے اور دوزخ کے درمیان ایک تیز رفتار سوار کی پچاس سالہ مسافت ( یعنی فاصلے) تک دور فرما دے گا ۔ ( کنز العمال ج حديث :24149 )

2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے ایک نفلی روزہ رکھا اللہ پاک اس کے لئے جنت میں ایک درخت لگائے گا جس کا پھل انار سے چھوٹا اور سیب سے بڑا ہوگا۔ وہ (موم سے الگ نہ کئے ہوئے) شہد جیسا میٹھا اور (موم سے الگ کئے ہوئے خالص شہد کی طرح) خوش ذائقہ ہوگا۔ اللہ پاک بروز قیامت روزہ دار کو اس درخت کا پھل کھلائے گا۔

(طبرانی کبیر 18/366، حدیث :935)

3)سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو روزے کی حالت میں مرا اللہ پاک قیامت تک کے لئے اس کے حساب میں روزے لکھ دے گا۔

( الفردوس بماثور الخطاب 3/504، حديث :5557)

سبحان اللہ خوش نصیب ہیں وہ مسلمان جسے روزے کی حالت میں مرے بلکہ کبھی بھی نیک کام کے دوران موت آنا نہایت ہی اچھی علامت ہے مثلاً دوران نماز موت کاآنا ۔

اللہ پاک ہمیں فرض روزوں کے ساتھ ساتھ نفل روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزوں کی عادت بنانی چاہئے کہ اس کے بے شمار دینی و دنیاوی فوائد ہیں۔ چنانچہ :

روزے رکھو تندرست ہو جاؤ گے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا:جہادکیاکروخودکفیل ہوجاؤگے،روزےرکھوتندرست ہوجاؤگےاورسفرکیاکروغنی (مالدار) ہوجاؤگے۔

(المعجم الأوسط للطبرانی، 6/146،حدیث:8312)

ہر عمل مقبول :حضرت سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ سلطان مکہ مکرمہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :روزہ دار کا سونا عبادت ہے اور اس کی خاموشی تسبیح کرنا اس کی دعا قبول اور اس کا عمل مقبول ہے۔

( شعب الایمان 3/410،حدیث:3938)

دوزخ سے پچاس سال مسافت دوری: اللہ پاک کے پیارے نبی مکی مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عافیت نشان ہے: جس نے رضائے الہی کے لئے ایک دن کا نفل روزہ رکھا تو الله پاک اس کے اور دوزخ کے درمیان ایک تیز رفتار سوار کی پچاس سالہ مسافت ( یعنی فاصلے) تک دور فرما دے گا ۔ ( کنز العمال ج حديث :24149 )

جنت کا انوکھا درخت: حضرت سیدنا قیس بن زید جُہَنِّی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان جنت نشان ہے: جس نے ایک نفلی روزہ رکھا اللہ پاک اس کے لئے جنت میں ایک درخت لگائے گا جس کا پھل انار سے چھوٹا اور سیب سے بڑا ہوگا۔ وہ (موم سے الگ نہ کئے ہوئے) شہد جیسا میٹھا اور (موم سے الگ کئے ہوئے خالص شہد کی طرح) خوش ذائقہ ہوگا۔ اللہ پاک بروز قیامت روزہ دار کو اس درخت کا پھل کھلائے گا۔

(طبرانی کبیر 18/366، حدیث :935)

60 سال کا فاصلہ دوزخ سے دوری :حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس نے ثواب کی امید رکھتے ہوئے ایک نفل روزہ رکھا اللہ پاک اسے دوزخ سے چالیس سال (کی مسافت کے برابر) دور فرما دے گا۔( جمع الجوامع 7/19،حدیث:22251)

زمین بھر سونے سے بھی زیادہ ثواب: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اگر کسی نے ایک دن نفل روزہ رکھا اور زمین بھر سونا اسے دیا جائے جب بھی اس کا ثواب پورا نہ ہوگا اس کا ثواب تو قیامت کے دن ہی ملے گا ۔(ابو یعلٰی 5/353،حدیث:6104)

جہنم سے بہت زیادہ دوری : فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: جس نے الله پاک کی راہ میں ایک دن کا فرض روزہ رکھا ، الله پاک اسے جہنم سے اتنا دور کر دے گا جتنا ساتوں زمینوں اور آسانوں کے مابین ( یعنی درمیان )فاصلہ ہے ۔ اور جس نے ایک دن کا نفل روزہ رکھا الله پاک اسے جہنم سے اتنا دور کر دے گا جتنا زمین و آسمان کا درمیانی فاصلہ ہے۔

( مجمع الزوائد 3/445، حديث :5177 )

جہنم سے دوری کا سبب: حضور اکرم نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے ایک دن کا روزہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے رکھا، اللہ اسے جہنم سے اتنا دور کردے گا جتنا کہ ایک کَوّا جو اپنے بچپن سے اڑنا شروع کرے یہاں تک کہ بوڑھا ہو کر مر جائے۔

(ابو یعلیٰ 1/383، حديث :917)

روزے جیسا کوئی عمل نہیں :حضرت سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے عرض کی :"یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ایسا عمل بتائیے جس کے سبب جنت میں داخل ہو جاؤں فرمایا: روزے کو خود پر لازم کر لو کیونکہ اس کی مثل کوئی عمل نہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے گھر دن کے وقت مہمان کی آمد کے علاوہ کبھی دھواں نہ دیکھا گیا۔( یعنی آپ دن کو کھانا کھاتے ہی نہ تھے)۔

(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان 5/179،حدیث:3416)

روزے میں مرنے کی فضیلت :اللہ کے محبوب دانا غیوب منزہ عن العیوب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو روزے کی حالت میں مرا اللہ پاک قیامت تک کے لئے اس کے حساب میں روزے لکھ دے گا۔(ا لفردوس بماثور الخطاب 3/504، حديث :5557)

قیامت کے دن روزے داروں کے مزے :حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :قیامت کے دن روزے داروں کے لئے ایک سونے کا دسترخوان رکھا جائے گا حالانکہ لوگ حساب کتاب کے منتظر ہو نگے۔( کنز العمال 8/21،حدیث:2464)


تطوع طوع سے بنا معنی رغبت و خوشی ۔

نفلی عبادت کو تطوع اس لئے کہا جاتا ہے کہ بندہ وہ کام اپنی خوشی سے کرے۔ اللہ پاک نے اس پر فرض نہ کیا۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِۙ-اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا(۳۵)(پ 22، الاحزاب :35)

ترجمہ کنزالایمان : اور روزے والے اور روزے والیاں اور اپنی پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ رکھنے والیاں اور الله کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ان سب کیلئے الله نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے ۔

صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں: صوم یہ فرض و نفل دونوں کو شامل ہے ۔(خزائن العرفان)

جنت کا انوکھا درخت : حضرت سیدنا قیس بن زید جُہَنِّی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایک نفلی روزہ رکھا اللہ پاک اس کے لئے جنت میں ایک درخت لگائے گا جس کا پھل انار سے چھوٹا اور سیب سے بڑا ہوگا۔ وہ (موم سے الگ نہ کیے ہوئے) شہد جیسا میٹھا اور (موم سے الگ کئے ہوئے خالص شہد کی طرح) خوش ذائقہ ہوگا۔ اللہ پاک بروز قیامت روزہ دار کو اس درخت کا پھل کھلائے گا۔

(طبرانی کبیر 18/366، حدیث :935)

دوزخ سے پچاس سال مسافت دوری :اللہ پاک کے پیارے نبی مکی مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عافیت نشان ہے: جس نے رضائے الہی عزوجل کے لئے ایک دن کا نفل روزہ رکھا تو الله پاک اس کے اور دوزخ کے درمیان ایک تیز رفتار سوار کی پچاس سالہ مسافت ( یعنی فاصلے) تک دور فرما دے گا ۔ ( کنز العمال ج حديث :24149 )

سفر کرو مالدار ہو جاؤ گے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نےفرمایا: جہادکیا کروخود کفیل ہوجاؤ گے ، روزے رکھوتندرست ہوجاؤ گے اور سفر کیا کروغنی ہوجاؤ گے۔'' (مجمع الزاوئد، کتا ب الصیام ، 3/416،حدیث: 507)

روزہ کی حالت میں مرنے کی فضیلت: ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ منورہ سلطان مکہ مکرمہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو روزے کی حالت میں مرا اللہ پاک قیامت تک کے لئے اس کے حساب میں روزے لکھ دے گا۔( فردوس الاخبار للدیلمی 2/274، حديث :5967)

دعا: اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں نفلی روزے رکھ کر ان فضیلتوں کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا ایمان پر خاتمہ نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم