دعوت اسلامی کے زیر اہتمام  پچھلے دنوں یوکے لندن ریجن ویسٹ لندن کابینہ میں مدنی مشورے کا انعقاد کیا گیا جس میں کابینہ نگران اسلامی بہن نے ڈویژن نگران اسلامی بہنوں کے ساتھ مدنی مشورہ لیا۔

کابینہ نگران اسلامی بہن نے مدنی مشورے میں دینی کاموں کی کارکردگی کا جائزہ لیا اور ربیع الاول کے نکات کے حوالے سے کلام کیا نیز ٹیلی تھون میں بھر پور حصہ لینے کی ترغیب کے ساتھ ساتھ اس کی شرعی احتیاطوں کے لئے ٹیسٹ دینے کابھی ذہن دیا۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے 5 واقعات

مسکرانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بہت ہی پیاری سنتِ مبارکہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے متعدد واقعات مروی ہیں۔ ان میں سے پانچ ملاحظہ فرمائیں۔

١۔ اسلام کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے ایک بار ایک مقام پر پہنچ کر پانی منگوایا اور وضو کیا پھر یکایک مسکرانے اور رفقاء سے فرمانے لگے:جانتے ہو میں کیوں مسکرایا؟پھر اس سوال کا خود ہی جواب دیتے ہوئے فرمایا:ایک بار سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اسی جگہ پر وضو فرمایا تھا اور بعد فراغت مسکرائے تھے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان سے فرمایا تھا:جانتے ہو میں کیوں مسکرایا؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:واللہ و رسولہ اعلم یعنی اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ارشاد فرمایا:جب آدمی وضو کرتا ہے تو ہاتھ دھونے سے ہاتھوں کے اور چہرہ دھونے سے چہرے کے اور سر کا مسح کرنے سے سر کے اور پاؤں دھونے سے پاؤں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔( ملخصا مسند امام احمد، ج ١، ص ١٣٠، رقم الحدیث ۴١۵، دار الفکر بیروت نماز کے احکام ص ١)

وضو کرکے خنداں ہوئے شاہِ عثماں کہا، کیوں تبسم بھلا کر رہا ہوں؟

جوابِ سوالِ مخالف دیا پھر کسی کی ادا کو ادا کر رہا ہوں

٢۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔ میں اپنی گڑیاں گھر کے ایک دریچے میں رکھ کر اس پر پردہ ڈالے رکھتی تھی۔ سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ حضرت زید رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ انہوں نے دریچہ کے پردے کو اٹھایا اور گڑیاں حضورصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دکھائیں۔ حضورصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:یہ سب کیا ہیں؟میں نے عرض کی: میری بیٹیاں ( یعنی گڑیاں) ہیں۔ان گڑیوں میں ایک گھوڑا ملاحظہ فرمایا جس کے دو بازو تھے۔ استفسار فرمایا: کیا گھوڑوں کے بھی بازو ہوتے ہیں؟میں نے عرض کی:کیا آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے تھے اور ان کے بازو تھے۔حضور اکرمصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس پر اتنا تبسم فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک داڑھیں ظاہر ہوگئیں۔( فیضان عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، ص ٢٦١_٢٦٢)

جس تبسم نے گلستاں پہ گرائی بجلی پھر دکھادے وہ ادائے گل خنداں ہم کو

٣۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم موٹے اور کھردرے کناروں والی نجرانی چادر اوڑھے کہیں تشریف لے جارہے تھے۔ میں بھی آپ کے ہمراہ تھا۔ اچانک ایک اعرابی (دیہاتی) نے چادر مبارک کو پکڑ کر جھٹکے سے کھینچا کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک گردن پر خراش آگئی اور کہنے لگا:اللہ پاک کا جو مال آپ کے پاس ہے اس میں سے مجھے بھی کچھ دینے کا حکم دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوکر مسکرادئیے اور اسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔( صحیح بخاری، ج ٢، ص ٣۵٩، حدیث ٣١۴٩)

جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام

۴۔ حضرت صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ کی آنکھ دکھ رہی تھی اور وہ کھجور کھارہے تھے۔ سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہاری آنکھ دکھ رہی ہے اور تم کھجور کھارہے ہو؟عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! میں دوسری طرف سے کھارہا ہوں۔یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ان کے جواب پر مسکرادئیے۔( سنن ابن ماجہ، کتاب الطب، باب الحمیة، ٩١/۴، حدیث ٣۴۴٣احیاء العلوم ج ٣ ص ۴٨٢)

لو وہ آئے مسکراتے ہم اسیروں کی طرف خرمنِ عصیاں پہ اب بجلی گراتے جائیں گے

۵۔ جب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا شاندار استقبال کیا۔ مدینہ کی ننھی ننھی بچیاں جوشِ مسرت میں جھوم جھوم کر اور دف بجا بجا کر یہ گیت گاتی تھیں:

نحن جوار من بنی النجار یا حبذا محمد من جار

ہم خاندانِ بنو النجار کی بچیاں ہیں۔واہ کیا ہی خوب ہوا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہمارے پڑوسی ہوگئے۔

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ان بچیوں کے جوشِ مسرت اور ان کی والہانہ محبت سے متاثر ہوکر پوچھا:اے بچیو! کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟بچیوں نے یک زبان ہوکر کہا:جی ہاں! جی ہاں!یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خوش ہوکر مسکراتے ہوئے فرمایا:میں بھی تم سے پیار کرتا ہوں۔ (زرقانی علی المواہب، ج ١، ص ٣۵٩_٣٦٠)( سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم، ص ١٧٦_١٧٧)

اب مسکراتے آئیے سوئے گناہگار آقا اندھیری قبر میں عطار آگیا

اللہ کریم پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹ کے صدقے ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائیاں نصیب فرمائے۔ (آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم )

باغ ِجنت میں محمد مسکراتے جائیں گے پھول رحمت کے جھڑیں گے ہم اٹھاتے جائیں گے

ان شاء اللہ الکریم


دعوت اسلامی کے زیراہتمام یوکے اسکاٹ لینڈ ریجن گلاسگو اور ایڈنبرگ ( Glasgow and Edinburgh )میں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات کا انعقاد کیا گیا جن میں94 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

مبلغات دعوت اسلامی نے ”اپنی اصلاح کیسے کی جائے“ کے موضوعات پر بیانات کئے اور اجتماعات میں شریک اسلامی بہنوں کوعلمِ دین سیکھنے کےلئے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں باقاعدگی سے شرکت کرنے کا ذہن دیا۔


دعوت اسلامی کے شعبہ علاقائی دورہ(اسلامی بہنیں) کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں اسکاٹ لینڈ ریجن میں ذمہ دار اسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ ہوا جس میں ڈویژن علاقائی دورہ ذمہ دار اورمحفل نعت ذمہ داراسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

مدنی مشورے میں شریک اسلامی بہنوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا اور ان کی تربیت کی گئی نیز علاقائی دورہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ہر ہفتے علاقائی دورہ میں شرکت کرنے کی ترغیب دلائی گئی جبکہ دینی حلقے کو مضبوط بنانے کے لئے مدنی پھول بھی پیش کئے گئے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانےکے 5 واقعات

حضورنبیّ اکرم،شفیع اُمَم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سب سے زیادہ تَبَسُّم فرمانے والے،صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے سامنے بہت مسکرانے والے، ان کی باتوں پر خوش ہونے والے اور ان کے ساتھ مل جل کر رہنے والے تھے۔ بسا اوقات اس قدر ہنستے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک داڑھیں ظاہر ہو جاتیں جبکہ آپ کے اصحاب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعظیم اور پیروی کی خاطرآپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے صرف مسکرایا کرتے تھے۔ جب پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تبسم فرماتے تو آپ کے سامنے کے مبارک دانتوں سے نور نکلتا دکھائی دیتا تھا ۔حضرتِ ابوہرىرہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فرماتے ہىں : جب نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلممسکراتے تو دَرودىوار روشن ہو جاىا کرتے ۔

(انداز گفتگو کیسا ہو ؟ ص14)

جس کی تسکین سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام

ہمارے پیارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے بہت سارے واقعات ہیں۔ آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت و عشق میں مزید اضافے کے لیے آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے چند واقعات ملاحظہ ہوں :

1. اللہ پاک کے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمنے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے ارشادفرمایا:’’اے حسان! کیا تم نے بھی میرے صدیق کے بارے میں کچھ مدح سرائی کی ہے؟‘‘عرض کی:’’جی ہاں۔یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!‘‘فرمایا:’’مجھے سناؤ۔‘‘حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے شانِ صدیقِ اکبر میں ایک رباعی عرض کی:خَاتَمُ الْمُرْسَلیْنصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور اتنا مسکرائے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمکی مبارک داڑھیں نظرآنے لگیں، پھر ارشاد فرمایا: ’’اے حسان! تونے سچ کہا۔ابوبکر(رضی اللہ عنہ ) ایسے ہی ہیں۔‘‘ (فیضان صدیق اکبر، ص 667)

2. حضرت صُہَیْب رضی اللہ عنہ آنکھ میں تکلیف کےباوجود کھجور کھارہے تھے، انہیں دیکھ کر ارشاد فرمایا:تم کھجورکھارہے ہو حالانکہ تمہاری آنکھ میں تکلیف ہے۔ عرض کی:(جس آنکھ میں تکلیف ہےاس جانب سےنہیں) دوسری جانب سے کھا رہا ہوں۔ یہ سن کر سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمنے تبسم فرمایا۔ (احیا العلوم مترجم جلد ۴ ص ۸۴۶)

3. حضرتِ اُمیہ بن مَخْشِی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ایک شخص بِغیر بِسْمِ اللہ پڑھے کھانا کھارہا تھا، جب کھا چُکا، صِرف ایک ہی لُقمہ باقی رہ گیا ، وہ لُقمہ اُٹھایا اور اُس نے یہ کہا: بِسْمِ اللہِ اَوَّلَہٗ وَاٰخِرَہٗ۔ تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرانے لگے اور ارشاد فرمایا: شیطان اِس کے ساتھ کھانا کھا رہا تھاجب اِس نے اللہ پاک کا نام ذِکْر کیا تَو جو کچھ اُس کے پیٹ میں تھا اُگَل دیا۔ ( فیضان سنت باب آداب طعام ص 212 )

4. اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا سَحَرکے وقت گھر میں کچھ سی رہی تھیں کہ اچانک سوئی ہاتھ سے گر گئی اور ساتھ ہی چراغ بھی بجھ گیا ، اتنے میں حضورنورِ کائنات صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گھر میں داخل ہوئے اور آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرائے ۔آپ کے دندانِ اقدس کے نور کی(فتاوی رضویہ جلد ۱۴ کتاب السیر ص ۱۳۵ ) روشنی سے سارا گھرروشن و منوّر ہوگیا اور گُمشدہ سوئی مل گئی ۔ اُمُّ المؤمنین نے عرض کی : آپ کا چہرہ کس قدر نورانی ہے ۔ ارشاد فرمایا : اُس کے لئے ہلاکت ہے جو روزِ قیامت مجھے نہ دیکھ سکے ۔عرض کی : آپ کو کون نہیں دیکھ سکے گا؟ فرمایا:بخیل۔عرض کی: بخیل کون ہے؟ارشاد فرمایا:وہ شخص جو میرا نام سن کرمجھ پر دُرود نہ پڑھے۔

(دلچسپ معلومات ( حصہ 2 ) ص 256 )

5. حضرتِ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم بارگاہِ رسالت میں حاضر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلممسکرا دیئے،ہم نے عرض کی:یارسولَ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! مسکرانے کا کیا سبب ہے؟ ارشاد فرمایا:مجھے مومن پر تعجب ہے کہ وہ بیمار ہونے پر غمگین ہوتا ہے! اگر وہ جان لے کہ بیماری میں کیا ہےتو اللہ پاک سےملاقات کرنے تک بیمار رہنا پسند کرے۔ (اللہ والوں کی باتیں جلد ۰۴ ص ۳۳۴ )

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تسلِّی سے غمزدہ روتے ہوئے ہنسنے لگتے اور اپنے غموں کو بھول جاتے تھے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اس پیاری سی عادت کو اپنائیے اور اپنے اندر مسکرانے کی عادت پیدا کیجیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہمہ وقت مسکرانے کی عادت وخصلت پر لاکھوں سلام نازل ہوں ۔

یاالٰہی جب بَہیں آنکھیں حساب جُرم میں ان تبسم رَیز ہونٹوں کی دعا کا ساتھ ہو


رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے پانچ واقعات

مسکرانا یہ ایک بہت اچھی عادت ہے اور دوسروں کو اپنی طرف جلد راغب کرنے اور اپنی طرف مائل کرنے کا بہت اہم ذریعہ ہے چونکہ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اللہ پاک نے تمام روئے زمین کے مسلمانوں کی راہ نمائی اور ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا تھا اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذاتِ کریمہ میں دیگر اچھی عادتوں کے ساتھ ساتھ ایک عادت مسکرانے کی بھی موجود تھی۔ حضرت عبد الحارث بن جزء فرماتے ہیں: میں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے بڑھ کر تبسم فرمانے والا کوئی نہیں دیکھا۔

(شمائل ترمذی باب ماجاء فی ضحک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‏صفحہ 16 مکتبہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز )

آئیے! ذیل میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے واقعات میں سے چند واقعات ملاحظہ کیجئے:

1)حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھر درے تھے۔ایک دم ایک بدوی نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پکڑ لیا اور اتنے زبردست جھٹکے سے چادر مبارک کو کھینچا کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نرم و نازک گردن پر چادر کی کنار سے خراش آگئی ۔پھر اس بدوی نے کہا :اللہ پاک کا جو مال آپ کے پاس ہیں آپ حکم دیجئے کہ اس میں سے مجھے کچھ مل جائے۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جب اس بدوی کی طرف توجہ فرمائی تو کمالِ حلم و عفو سے اس کی طرف دیکھ کر ہنس پڑے اور پھر اس کو کچھ مال عطا فرمانے کا حکم صادر فرمایا۔

(سیرت مصطفی ص 603 بخاری جلد 01 ، ص 446 باب ما کان یعطی النبی المولفتہ)

دوسری داڈھ سے کھا رہا ہوں

2)ایک مرتبہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کی آنکھ دکھ رہی تھی اور وہ کھجور کھا رہے تھے۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :تمہاری آنکھ دکھ رہی ہے اور تم کھجور کھا رہے ہو ؟ عرض کی: میں دوسری طرف سے کھا رہا ہوں! یہ سن کر جان ِعالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرادیئے۔(ماہنامہ فیضان مدینہ جلد 3 جون 2019 ص 44 / ابن ماجہ 91/4 ، حدیث 3443 )

3)حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے آدمی کو بھی جانتا ہوں اور اسے بھی جو جہنم سے سب سے آخر میں نکلے گا! قیامت کے دن ایک آدمی (اللہ پاک کے دربار میں) لایا جائے گا، حکم ہوگا: اس کے سامنے اس کے صغیرہ گناہ پیش کرو اور کبیرہ گناہ چھپائے جائیں۔ پھر اس سے کہا جائے گا:کیا تو نے فلاں دن ایسا ایسا عمل کیا تھا ؟ وہ بغیر کسی انکار کے اقرار کرے گا اور کبیرہ گناہوں (پر مواخذے) سے ڈر رہا ہوگا۔ پھر حکم ہوگا: اسے ہر بُرائی کے بدلے ایک نیکی دو ! وہ کہے گا: میرے کچھ اور گناہ بھی ہیں جنہیں میں یہاں نہیں دیکھ رہا۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس بات سے ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے دانت مبارک ظاہر ہوگئے ۔

(شمائل ترمذی باب : ما جاء فی ضحک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ 16 مکتبہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز(

4)اُمُّ المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں:میں ایک دفعہ مدینے کے تاجدار، دو عالم کے مالک و مختار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے لیے خزیرہ پکا کر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس لائی (وہاں حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بھی موجود تھیں) میں نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے کہا: اسے کھاؤ!انہوں نے انکار کیا تو میں نے دوبارہ کہا: اسے کھاؤ ورنہ میں اسے تمہارے چہرے پر مل دوں گی !انہوں نے پھر انکار کیا تو میں نے اپنا ہاتھ خزیرہ میں ڈالا اور اسے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے چہرے پر مل دیا۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرانے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے دستِ اقدس سے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے لیے خزیرہ ڈال کر ان سے فرمایا: تم بھی اسے عائشہ(رضی اللہ عنہا) کے منہ پر مل دو اور پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرانے لگے۔(فیضان امہات المومنین ص 62 مسند ابی یعلی الموصلی تتمتہ مسند عائشہ4/4 الحدیث 4476 ملتقطا(

5)حضرت عامر بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خندق کی جنگ کے دن دیکھا کہ آپ اتنے (ہنسے) کہ آپ کے سامنے کے دانت مبارک ظاہر ہو گئے۔ حضرت عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا:اس ہنسی کی کیا وجہ تھی؟انہوں نے فرمایا:ایک آدمی(کافر) کے پاس ڈھال تھی اور وہ ڈھال کو ادھر ادھر کر کے اپنا چہرہ چھپاتا تھا (چونکہ) حضرت سعد رضی اللہ عنہ تیر انداز تھے (اس لئے) آپ نےایک تیر نکالا اور جو نہی اس نے سر اٹھایا اسے دے مارا (تیر) اس کی پیشانی پر لگا ، وہ الٹا گیا اور اس کی ٹانگ اٹھ گئی (اس واقعہ پر) حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کے سامنے والے دانت مبارک نظر آنے لگے، میں نے (عامر بن سعد) نے پوچھا: کس بات سے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنسے؟ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس آدمی کے فعل سے۔)شمائل ترمذی باب ما جاء فی ضحک الرسول اللہ علیہ وسلم صفحہ 16 مکتبہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز (


دعوت اسلامی کے زیرِاہتمام لسبیلہ کے ساحلی علاقے ڈام بندر میں جشن ِعید ِمیلادالنبیﷺکے سلسلے میں سمندر میں کشتیوں پر جلوس ِمیلاد کااہتمام کیاگیا ۔

جلوس ِمیلادکے شرکانے کشتیوں میں سوار ہو کر کھلے سمندر میں نبی ِرحمت حضرت محمد ﷺ کی ولادت کا جشن منایا جس کے سبب بحر بولان میں مرحبا یا مصطفیٰﷺکی صدائیں گونج اٹھی ۔

جلوسِ میلاد کاافتتاح تلاوتِ کلامِ پاک سے قاری لعل بخش نے کیا جبکہ دعوتِ اسلامی کے ذمہ داران جن میں مولاناتحسین عطاری، لیاقت عطاری ،اکرم عطاری اورحبیب اللہ گلفام عطاری نے جلوسِ میلاد میں سنتوں بھرابیان کیا۔

مزید ذمہ داران نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ اللہ پاک نے اپنے پیارے اور آخری نبی ﷺ کو وہ حسن وجمال عطا فرمایا کہ جس کی مثال نہیں ملتی اور مثال ملے بھی کیسے کیونکہ اللہ پاک نے آپ جیسا حسین وجمیل کسی کو بنایا ہی نہیں ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: آپﷺکاحسن وجمال ایسا تھا کہ کوئی کہتا کہ رخِ روشن سے نور کی کرنیں نکلتی تھی، تو کوئی کہتا کہ چاند سے زیاد ہ حسین وجمیل ہیں ، کوئی کہتا کہ آپ ﷺ سے بڑھ کوئی خوبصورت دنیا میں آیا ہی نہیں ۔

پیارے آقا ﷺ جیسا حسین وجمیل کسی آنکھ نے دیکھا ہی نہیں،آپ جیسا کوئی خوبصورت پیدا ہوا ہی نہیں ،ساری کائنات کی بادشاہت کا تاج آپ ﷺ کے سر پر ہے ،آپ ﷺ ساری کائنات کے بادشاہ ہیں ۔

آپ ﷺ کے دو وزیر آسمانوں میں حضرت جبریل اور حضرت میکائل علیہ السلام اورزمین کے دو وزیر حضرت سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیّدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہیں ۔

اس جلوسِ میلاد میں مولانا جاوید عطاری،مولانا عمران عطاری ،مولاناکریم عطاری مدنی ،مولانا اکرم عطاری مدنی، مولانا مختیار طارقی کریم، احمد قاسم عطاری، مجید خاصخیلی سمیت دعوت اسلامی کے ذمہ دار صحافی جہانزیب عطاری ، صحافی محمد حنیف چنہ ،عبدالغنی سومرو عبدالمجید خاصخیلی ، عبدالرشید ہاشمانی بلوچ اختر علی سومرو اور کثیر تعداد میں عاشقان رسول نے شرکت کی۔ (رپورٹ: جہاں زیب عطاری میڈیا ڈیپارٹمنٹ لسبیلہ کابینہ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


  فقہاء کے ہاں صرف دانت کھل جانا، آواز پیدا نہ ہونا تبسم یعنی مسکرانا ہے، تھوڑی آواز بھی پیدا ہونا، جو خود سنی جائے، دوسرا نہ سُنے ضحک ہے، زیادہ آواز پیدا ہو کہ دوسرا بھی سنے اور منہ کھل کھل جائے قہقہہ یعنی ٹھٹھا ہے۔(مراٰۃ، جلد6، باب الضحک، ص320، نعیمی کتب خانہ گجرات)

یاد رہے!حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے تھے ، قہقہہ مار کر کبھی نہ ہنسے کہ ہنسنا قلب میں غفلت پیدا کرتا ہے، تبسّم خوش اخلاقی ہے، اس سے سامنے والے کو خوشی ہوتی ہے، جہاں کہیں روایت میں ہنسنا لکھا ہے، اس سے مراد قہقہہ نہیں ہے۔

(مراٰۃ، جلد6، باب الضحک، ص320، نعیمی کتب خانہ گجرات)

ایک مرتبہ جب لوگوں نے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں بارش رُک جانے کی شکایت کی، تو میٹھے مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے منبر بچھانے کا حکم دیا، جو عید گاہ میں بچھا دیا گیا اور مقررہ دن وہاں تشریف لے جاکر بارش کے لئے دعا فرمائی اور ہاتھوں ہاتھ اس دعا کی قبولیت ظاہر ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسجد تک نہ آنے پائے تھے کہ سیلاب بہہ گئے۔

جب میٹھے مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے لوگوں کو پناہ کی طرف دوڑتے دیکھا تو ہنسے، حتی کہ دندانِ مبارک ظاہر ہوگئے، یہ تبسّم خوشی اور تعجب کے طور پر تھا کہ ابھی تو یہ لوگ بارش مانگ رہے تھے، جب آئی تو بھاگ رہے ہیں۔(مراٰۃ، جلد2، باب الاستسقاء، ص397۔398، نعیمی کتب خانہ گجرات)

غیب کی خبریں دینے والے پیارے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے آخری جنتی کے بارے میں خبر دی، جس پر قیامت کے دن اس کے چھوٹے گناہ پیش کرکے پوچھا جائے گا:تو نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں گناہ کئے؟ وہ انکار کی طاقت نہ رکھے گا اور ڈر رہا ہوگا کہ بڑے گناہ تو ابھی باقی ہیں، کہیں وہ بھی پیش نہ کر دئیے جائیں، کہا جائے گا:تیرے لئے ہر گناہ کے بدلے ایک نیکی ہے، تو وہ کہے گا: میں نے اور بڑے کام کئے تھے، جنہیں یہاں نہیں دیکھ رہا ہوں، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نےدیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنس پڑے، حتی کہ داڑھیں چمک گئیں۔حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس کی حالت کی تبدیلی پر تبسم فرمایا کہ ابھی تو گناہِ کبیرہ سے ڈر رہا تھا، اب خود مانگ رہا ہے۔(مراٰۃ، جلد7، باب الحوض والشفاعۃ، ص331۔332، ایضاً)

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے سواری پر سوار ہونے کے بعد اللہ پاک کی حمد و ثنا بیان کی اور اللہ پاک کی بارگاہ میں کچھ یوں عرض کی: میں نے یقیناً اپنی جان پر ظلم کیا تو مجھے بخش دے اور تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخش سکتا، پھر آپ ہنسے، وجہ پوچھنے پر فرمایا: تمہارا ربّ اپنے بندے سے خوش ہوتا ہے، جب وہ کہتا ہے: خدایا! میرے گناہ بخش دے، ربّ کریم فرماتا ہے: میرا بندہ جانتا ہے کہ میرے سوا کوئی گناہ نہیں بخشتا۔مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:گناہ تو خدا ہی بخشتا ہے،اس کے محبوب بندے شفاعت کرتے ہیں، مگر براہِ راست گناہ نہیں بخشتے۔(مراٰۃ، جلد4، باب خاص وقتوں کی دعا، ص41)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے عرفہ کی شام اپنی اُمّت کے لئے دعائے مغفرت کی، پھر مزدلفہ میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے صبح دعا کی، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنسے/ مسکرائے، خدمتِ عالی میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے عرض کی:ہمارے ماں باپ فدا! اس گھڑی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنسانہ کرتے تھے، اللہ پاک حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خوش و خرم رکھے۔ کیا چیز آپ کو ہنسا رہی ہے؟فرمایا:جب اللہ پاک کے دشمن ابلیس نے دیکھا کہ اللہ پاک نے میری دعا قبول کرلی اور میری اُمّت کو بخش دیا تو مٹی اٹھا کر اپنے سر پر ڈالنے لگا اور ہائے وائے پکارنے لگا، ہم نے جو اس کی گھبراہٹ دیکھی تو ہمیں ہنسی آگئی۔(مراٰۃ، جلد 4، صفحہ 321)

غزوۂ تبوک یا حنین سے واپسی پر جب حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے، ہوا چلی، جس سے طاق میں رکھی ہوئیں کھیل کی گڑیوں سے پردہ ہٹ گیا، ان گڑیوں کے درمیان ایک گھوڑا تھا، جن کے کپڑے کے دو پر تھے، سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے گھوڑے کے پروں کے متعلق پوچھا:یہ کیا ہے؟ تو بولیں:کیا آپ نے نہ سنا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے کے پر تھے؟ فرماتی ہیں:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنسے، حتٰی کہ میں نے آپ کی داڑھیں دیکھ لیں۔(مراٰۃ، جلد5، ص113، نعیمی کتب خانہ گجرات)

جس کی تسکین سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس تبسم کی عادت پر لاکھوں سلام


دعوتِ اسلامی کے شعبہ  شب و روز کے زیر اہتمام یوکے ریجن میں ذمہ دار اسلامی بہنوں کا بذریعہ انٹرنیٹ مدنی مشورہ ہوا جس میں شعبہ شب و روز کی لندن زون، برمنگھم زون، اور مانچسٹر زون مشاورت کی اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

یوکے ریجن کی ذمہ دار اسلامی بہن نے’’ سستی کے نقصانات‘‘ کے موضوع پرترغیبی بیان کیا اور مدنی مشورے میں شریک اسلامی بہنوں کی کارکردگی کافالواپ کرتے ہوئے تربیت کی نیز شب و روز کے کام کو مزید اچھے انداز میں کرنے کا ذہن دیا ۔


جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں                     اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام

اللہ پاک کے آخری نبی، مکی مدنی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نور بلکہ قاسمِ نور(یعنی نور بانٹنے والے) ہیں۔شفا شریف میں ہے:جب نور والے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے تھے تو در و دیوار روشن ہو جاتے۔(شمائل ترمذی، شفاء الباب الثانی)

حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گفتگو فرماتے تھے تو آپ کے دونوں اگلے دانتوں کے درمیان سے ایک نور نکلتا تھا اور جب کبھی اندھیرے میں مسکرا دیتے تو دندانِ مبارک کی چمک سے روشنی ہو جاتی تھی۔(سیرت مصطفی، صفحہ575، شمائل ترمذی)

ام المؤمنین صحابیہ بنتِ صحابی حضرت بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں: میں سحری کے وقت گھر میں کپڑے سی رہی تھی کہ اچانک سوئی ہاتھ سے گر گئی اور ساتھ ہی چراغ بھی بجھ گیا، اتنے میں نور والے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گھر میں داخل ہوئے اور سارا گھر نور والے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے چہرہ ٔانور کے نور سے روشن ہو گیا اور گمی ہوئی سوئی مل گئی۔

سوزنِ گمشدہ ملتی ہے تبسم سے تیرے شام کو صبح بناتا ہے اُجالا تیرا(ذوقِ نعت)

(شان ِمصطفے پر 12بیانات، ص97)

صحابہ کرام علیہم الرضوان فرماتے ہیں:آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم (موقع کی مناسبت سے) سب سے زیادہ مسکرانے والے تھے۔

حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔

عَنْ عَبْدَاللہ بِنْ الْحَارِثْ قَالَ مَا کَانَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اِلَّا تَبَسُّمَاحضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہنسنا صرف تبسم ہوتا تھا یعنی آپ غالب اوقات تبسم فرماتے اور مسکراتے۔

تبسم کے معنی ہیں:مُنہ کھل جاتا ہے، مگر آواز نہیں آتی۔(شانِ مصطفے پر 12بیانات، شمائل ترمذی)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں :میں نے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو کبھی پورا کھل کر ہنستا ہوا نہ دیکھا، حتی کہ میں آپ کے کوّے دیکھ لیتی۔وَاِنَّمَا کَانَ یَتَبَسَّمُ آپ تبسم بھی کرتے تھے۔

وضاحت:حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے قہقہہ لگانا، ٹھٹھا مارنا کبھی ثابت نہیں، بہت ہنسنا دل کو غا فل کر دیتا ہے جب کہ مسکرانے سے اپنا دل تازہ اور مخاطب کا دل خوش ہوتا ہے اور موہ لیتا ہے۔(مراۃالمناجیح، جلد نمبر 8، صفحہ نمبر 74، 81)

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں اُس شخص کو خوب جانتا ہوں، جو سب سے اوّل جنت میں داخل ہو گا اور اس سے بھی واقف ہوں، جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جائے گا، قیامت کے دن ایک آدمی دربارِ الہٰی میں حاضر کیا جائے گا، اس کے لئے یہ حکم ہوگا کہ اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ اس پر پیش کئے جائیں اور بڑے بڑے گناہ مخفی رکھے جائیں، جب اس پر چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کئے جائیں گے کہ تو نے فلاں دن، فلاں گناہ کئے ہیں، تو وہ اقرار کرے گا، اس لئے کہ انکار کی کوئی گنجائش نہ ہوگی اور اپنے دل میں نہایت خوفزدہ ہو گا( کہ ابھی تو صغائر ہی کا نمبر ہے، کبائر کا دیکھیں کہ کیا گزرے) کہ اس دوران میں یہ حکم ہو گا کہ اس شخص کو ہر ہر گناہ کے بدلے ایک نیکی دی جائے تو وہ شخص یہ حکم سنتے ہی بول اٹھے گا: میرے تو ابھی بہت سے گناہ باقی ہیں، جو یہاں نظر نہیں آتے! حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس کا مقولہ فرماکر ہنسے، یہاں تک کہ آپ کے دانت مبارک ظاہر ہو گئے۔ہنسی اس بات پر تھی کہ جن گناہوں کے اظہار سے وہ ڈر رہا تھا، ان کے اظہار کا خود طالب ہو گیا۔

منزل کڑی ہے شانِ تبسّم کرم کرے تاروں کی چھاؤں نور کے تڑکے سفر کریں

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں اس شخص کو جانتا ہوں جو سب سے آخر میں آگ سے نکلے گا، وہ ایک ایسا آدمی ہو گا، جو زمین پر گھسٹتا ہوا دوزخ سے نکلے گا، اس کو حکم ہوگا : جا! جنت میں داخل ہو جا! وہ جا کر دیکھے گا کہ لوگوں نے تمام جگہوں پر قبضہ کر رکھا ہے، سب جگہیں پُر ہو چکی ہیں، لوٹ کر بارگاہِ الہٰی میں اس کی اطلاع کرے گا، وہاں ارشاد ہوگا: کیا دنیاوی منازل کی حالت بھی یاد ہے؟ وہ عرض کرے گا :ربّ العزت خوب یاد ہے! اس پر ارشاد ہو گا: کچھ تمنائیں کرو، وہ اپنی تمنائیں بیان کرے گا۔ وہاں سے ارشاد ہوگا: تم کو تمہاری تمنائیں اور خواہشات بھی دیں اورتمام دنیا سے دس گنا زائد عطا کیا، وہ عرض کرے گا:اےاللہ پاک! تو بادشاہوں کا بادشاہ ہو کر مجھ سے تمسخر کرتا ہے(کہ وہاں ذرا سی بھی جگہ نہیں ہو تو تمام دنیا سے دس گنا زیادہ مجھے عطا کر رہا ہے)۔حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :میں نےنبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ اس شخص کا یہ مقولہ نقل فرما رہے تھے تو آپ کو ہنسی آگئی، یہاں تک کہ آپ کے دندانِ مبارک بھی ظاہر ہو گئے۔

واقعہ:حضرت ابنِ ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس(ان کے زمانہ خلافت میں)ایک مرتبہ(گھوڑا وغیرہ) کوئی سواری لائی گئی، آپ نے رکاب میں پاؤں رکھتے ہوئے بسم اللہ کہا اور سوار ہوئے تو الحمدللّٰہ کہا، پھر یہ دعا پڑھی:سُبْحٰنَ الَّذِیۡ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیۡنَ ﴿ۙ۱۳﴾ وَ اِنَّاۤ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنۡقَلِبُوۡنَ ﴿۱۴۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے الحمدللہ تین مرتبہ کہا، پھر اللّٰہُ اکبر تین مرتبہ کہا، پھر سبحنک انی ظلمت نفسی فاغفر لی فانہ لا یغفرالذنوب الا انت کہا، اس دعا کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت ابنِ ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بھی اسی طرح دعائیں پڑھی تھیں اور اس کے بعد نبی رحمت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بھی تبسم فرمایا تھا، میں نے بھی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے تبسم کی وجہ پوچھی تھی، جیساکہ تم نے مجھ سے پوچھی تو حضور انور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا:اللہ پاک بندے کے اس کے کہنے پر کہ میرے گناہ تیرے سوا کوئی معاف کر نہیں کر سکتا، خوش ہو کر فرماتا ہے:میرا بندہ یہ جانتا ہے کہ میرے سوا کوئی شخص گناہ معاف نہیں کر سکتا۔

جس تبسّم نے گلستاں پہ گرائی بجلی پھر دکھادے وہ ادائے گلِ خنداں ہم کو

حضرت عامر بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میرے والد حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم غزوۂ خندق کے دن ہنسے،حتی کہ آپ کے دندانِ مبارک ظاہر ہوگئے،حضرت عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نے پوچھا:کس بات پر ہنسے تھے؟ انہوں نے کہا:ایک کافر ڈھال لئے ہوئے تھا اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ گو بڑے تیر انداز تھے،لیکن وہ اپنی ڈھال کو ادھر اُدھر کر لیتا تھا،جس کی وجہ سے اپنی پیشانی کا بچاؤ کر رہا تھا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ تیر نکالا، جس وقت اس نے ڈھال سے سر اٹھایا، فوراً ایسا تیر مارا کہ پیشانی سے چوکا نہیں اور فوراً گر گیا، ٹانگ بھی اوپر کو اُٹھ گئی، پس حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس قصّہ پر ہنسے، میں نے پوچھا: اس میں کونسی بات پر؟ انہوں نے فرمایا:حضرت سعد کے اس فعل پر۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم حضرت سعد رضی اللہ عنہکی تیراندازی اور کافر کے ماہرانہ کرتب کے باوجود ہدف کا نشانہ بننے پر فرحت و سرور سے ہنسے کہ اللہ پاک کا دشمن ڈھیر ہو گیا۔(باب ماجاء فی ضحک رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ، شمائل ترمذی)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھے ایک دن کسی کام کے لئے بھیجا، میں نے کہا:اللہ پاک کی قسم! میں نہ جاؤں گا اور میرے دل میں یہ تھا کہ اس کام کے لئے جاؤں گا، جس کا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حکم دیا، چنانچہ میں روانہ ہو گیا، حتی کہ میں کچھ بچوں کے پاس سے گزرا، جو بازار میں کھیل رہے تھے، اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے میرے پیچھے سے میری گردن پکڑی، فرماتے ہیں :میں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف دیکھا، آپ ہنس رہے تھے، فرمایا: اے انس! کیا تم وہاں جا رہے ہو،جہاں جانے کا میں نے تم کو حکم دیا تھا،میں نے عرض کی: ہاں! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میں جا رہا ہوں۔(مراۃ المنا جیح، ج8، ص67)

لو وہ آئے مسکراتے ہم اسیروں کی طرف خرمنِ عصیاں پر اب بجلی گراتے جائیں گے

معلوم ہوا!نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہنسنا تبسم کی صورت میں ہوتا تھا اور آپ کی یہ عادت و خصلتِ مبارکہ اس بات کی مقتضی ہے کہ ہم سے جتنا ہو سکے، اس عادت میں آپ کی متابعت کی کوشش کریں ۔


دعوت اسلامی کے زیر اہتمام یوکے لندن ریجن کے مختلف علاقوں (سلاؤ، واکنگ، ریڈنگ، ٹوٹنگ،ہنسلو، ولزڈن گرین ، سڈبری ، ہیرو، آئلسبری ، لوٹن ، چشم، واٹفورڈ، ہائی وکمب،ملٹن نیز) میں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات کا انعقاد کیا گیا جن میں کم وبیش 390اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

مبلغات دعوت اسلامی نےمختلف موضوعات پر بیانات کئے اور اجتماعات میں شریک اسلامی بہنوں کوقراٰنی آیات کی روشنی میں کرامت کا مفہوم بیان کیا نیز علم دین سیکھنے کےلئے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں باقاعدگی سے شرکت کرنے کا ذہن دیا۔


ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خوبصورت چہرے والے، مسکراتی شخصیت ہیں، ہمارے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہمیشہ خندہ پیشانی اور بشاشت سے متصف رہے، مسکرانا پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنتِ مبارکہ ہے اور سنت میں عظمت ہے، تبسم خوش اخلاقی ہے، اس سے سامنے والے کو خوشی ہوتی ہے۔

اعلیٰ حضرت ،امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام

واقعات:

حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: میں جب سے مسلمان ہوا، مجھ سے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پردہ نہ کیا اور مجھے نہ دیکھا، مگر تبسم فرمایا۔ وضاحت:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یہ تبسم اظہارِ خوشی یا اظہارِ کرم کے لئے ہوتا تھا۔(مراۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 281)

حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ کسی کو مسکرانے والا نہ پایا۔(شرح خرپوتی، صفحہ 104)

تبسم میں ہزار ہا حکمتیں ہیں، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہر ادا میں ربّ کریم کی حکمتیں ہوتی ہیں۔

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نہ اٹھتے تھے اپنے اس مصلے سے جس میں فجر کی نماز پڑھتے، حتی کہ سورج طلوع ہو جاتا، پھر جب سورج طلوع ہو جاتا تو اٹھتے اور لوگ باتیں کرتے تھے تو جاہلیت کے زمانہ کے کاموں کے ذکر میں مشغول ہو جاتے تو ہنستے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے تھے۔(مشکوٰۃ شریف مترجم، جلد دوم، صفحہ 492)