پچھلے دنوں دعوتِ اسلامی کے شعبہ رابطہ برائے وکلاءکے زیرِ اہتمام ڈسٹرکٹ بار ملتان میں سنتوں بھرے اجتماع کا انعقاد ہوا جس میں کم وبیش  400 وکلا نےشرکت کی۔

اس موقع پر زون ذمہ دار نے سنتوں بھرابیان کرتے ہوئے دعوتِ اسلامی کی دینی وفلاحی خدمات کوبیان کیاجس پر انہوں نے دعوتِ اسلامی کی کاوشوں کو سراہا۔(رپورٹ: عبد الواحد عطاری شعبہ رابطہ برائے وکلاء،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، فرماتی ہیں :میں نےنبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پورا ہنستے نہ دیکھا، حتی کہ میں آپ کے انتہائی تالو کو دیکھ لیتی، آپ مسکرایا کرتے تھے۔(بخاری شریف، مراۃ المناجیح)

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے بہت تھے، حضرت جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب سے مسلمان ہوا، مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پردہ نہ کیا اور مجھے نہ دیکھا، مگر تبسم فرمایا یعنی جس موقع پر اجازت لے کر حاضر ہونا ہوتا، مجھے بغیر اجازت حاصل کئے حاضری کی اجازت تھی اور آپ مجھے دیکھا کرتے تو تبسم فرماتے۔آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یہ دیکھنااظہارِ خوشی یا اظہارِ کرم کے لئے ہوتا تھا۔

حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔(شمائل ترمذی:218)

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں اس شخص کو بخوبی جانتا ہوں،جو سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گا اور اس شخص کو بھی جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جائے گا۔ قیامت کے دن ایک شخص کو دربارِ الٰہی میں پیش کیا جائے گا کہ اس کے چھوٹے گناہ اس کے سامنے رکھ دو اور اس کے بڑے گناہ اس سے مخفی رکھو۔ پھر کہا جائے گا: فلاں دن تو نے یہ کیا تھا؟فلاں دن تو نے یہ کیا تھا؟ وہ اقرار کرے گا،انکار نہ کر سکے گا اور اپنے بڑے گناہوں پر خوفزدہ ہو گا! پس کہا جائے گا :اسے ہر گناہ کے بدلے میں ایک نیکی دی جائے تو وہ بول اٹھے گا: میرے تو اور بھی بہت گناہ ہیں، جو میں نے یہاں نہیں دیکھے، جناب ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: پس قسم ہے میں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا کہ آپ ہنسے، یہاں تک کہ اگلے دانت نظر آئے۔(شمائل ترمذی، حدیث 221)یعنی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہنسنا، آپ کا مسکرانا تعجب کی وجہ سے تھا، جب اس شخص نے صغائر کو نیکیوں میں تبدیل ہوتے دیکھا تو اس کے اندر نیکیوں کی حرص و طمع پیدا ہوئی تو بول اٹھا: میرے بڑے گناہوں کی وجہ سے بھی مجھے نیکیاں دی جائیں۔تبسم میں ہزار حکمتیں ہیں، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہر ادا میں ربّ کریم کی حکمتیں ہوتی ہیں۔


دعوتِ اسلامی کے شعبہ حج وعمرہ کے زیرِ اہتمام 20اکتوبر2021ءبروزبدھ حج ڈائریکٹر لاہور حاجی کیمپ زاہد محمود کی اہلیہ کےایصالِ ثواب کے لئے سنتوں بھرے اجتماع کاانعقاد ہواجس میں کثیر تعداد میں افسران نے شرکت کی جن میں سیشن جج فیصل آباد تنویر اکبر ، سینئر سول جج احسن محمود، سپریڈنٹ سیشن کوٹ زاہد شفیع اور ایڈیشنل رجسٹرارلاہور ہائی کورٹ شاہد شفیع شامل تھے۔

نگران ِشعبہ قاری محمد شوکت عطاری نے سنتوں بھرا بیان کرتے ہوئے ایصالِ ثواب کےفوائد بیان کئے۔اس دوران نگرانِ شعبہ نے دعوتِ اسلامی کی دینی وفلاحی خدمت کے حوالے سے بریفنگ دی جس پر ڈائریکٹر جج نے پاکستان بھر کے حاجی کیمپس میں شعبہ حج و عمرہ (دعوتِ اسلامی)کی خدمات کو سراہا۔بعدازاں نگرانِ شعبہ نے دعا بھی کروائی۔ (رپورٹ: رکن زون عبدالرزاق عطاری ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محفل اگرچہ سنجیدگی سے بھرپور ہوتی تھی اور اپنے علم کا سمندر لئے ہوتی تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی خوشی طبعی کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مقبول تھے اور ایک بے تکلف دوست کی طرح ان کے ساتھ تعلقات رکھے ہوئے تھے، اسی مناسبت سے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے5 واقعات ملاحظہ کیجئے:

1۔ ترمذی کی روایت ہے:حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں ایک بوڑھی عورت حاضر ہوئی اور عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! میرے لئےدعاکیجئےکہ اللہ پاک مجھے جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے! حضور کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا: بوڑھی عورتیں جنت میں داخل نہ ہوں گی! تو اس بوڑھی عورت نے حضور کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بات سنی تو روتی ہوئی چل دی، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اس بوڑھی عورت کو خبر دو کہ جنت میں بوڑھی ہو کر نہیں جائے گی،بلکہ اللہ پاک نے فرمایا ہے:اِنَّاۤ اَنۡشَاۡنٰہُنَّ اِنۡشَآءً﴿ۙ۳۵﴾فَجَعَلْنٰہُنَّ اَبْکَارًا﴿ۙ۳۶۔ ترجمہ:ہم نے ان عورتوں کو خاص بنایا ہے،ہم نے ان کو ایسا بنایا،جیسی کنواریاں۔(کتاب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹیں، ص80)

2۔9 ہجری میں جب غزوۂ تبوک کے موقع پر حضور کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اپیل کی کہ وہ حسبِ توفیق جنگ میں شمولیت کے لئے مال ومتاع پیش کریں،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تیں سو اونٹ،سو گھوڑے اور سو اوقیہ چاندی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں پیش کئے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے گھر کا آدھا سامان لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے،حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے چالیس ہزار درہم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں پیش کئے اور جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی باری آئی تو آپ نے اپنے گھر کا تمام سامان پیش کر دیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مسکراتے ہوئے پوچھا : ابوبکر! گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گھر والوں کے لئے اللہ اور اس کا رسول ہی کافی ہے۔(کتاب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹیں، ص 68)

3: حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب حضور کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یمن بھیجا تو آپ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک نہایت مشکل مقدمہ آیا، جس میں ایک ایسی عورت پیش ہوئی،جس نے ایک ماہ کے اندر تین مردوں کے ساتھ خلوت کی تھی اور اب اس کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی تھی، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس بچے کی دیت کے تین حصے کئے اور پھر قرعہ ڈالا، وہ قرعہ جس شخص کے نام نکلا، آپ رضی اللہ عنہ نے وہ بچہ اس شخص کے حوالے کر دیا،جبکہ باقی دونوں اشخاص کو دیت کےتین حصّوں کے دو حصّے کر کے دے دیئے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرادیئے۔(کتاب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹیں، ص 77)

4:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس ایک دیہاتی صحابی حضرت زاہر رضی اللہ عنہ جب بھی آتے تو ہدیہ لے کر آتے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی واپسی پر ان کو کچھ نہ کچھ عنایت ضرور کرتے تھے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرمایا کرتے تھے:زاہر رضی اللہ عنہ ہمارا دیہاتی ہے اور ہم اس کے شہری ہیں، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم انہیں بے حد عزیز رکھتے تھے۔حضرت زاہر رضی اللہ عنہ بظاہر خوبصورت نہ تھے۔ایک دن وہ بازار میں اپنا کچھ سامان فروخت کر رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پیچھے سے جا کرانھیں گود میں اُٹھا لیا،وہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو نہ دیکھ سکے اور کہنے لگے:کون ہے؟مجھے چھوڑو! پھر جب انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سینۂ مبارک سے چمٹ گئے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اعلان کرنا شروع کیا کہ کون ہے جو اس غلام کوخریدے گا؟ حضرت زاہر رضی اللہ عنہ نے عرض کی :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !آپ کو میرے بدلے کچھ نہیں ملے گا! حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مسکرا کر فرمایا:اللہ پاک کے نزدیک تیری بڑی قیمت ہے۔(کتاب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹیں، ص85)

5۔حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں غزوۂ تبوک کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ایک چھوٹے سے قبے میں موجود تھے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو سلام کیا اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے میرے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اندر آ جاؤ، میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !سارا ہی اندر آ جاؤں؟آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا: تم سارے ہی اندر آ جاؤ، پس میں اندر چلا گیا۔

حضرت ولید بن عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضرت عوف رضی اللہ عنہ نے اس لئے کہا تھا کہ میں سارا ہی اندر آ جاؤں، کیونکہ قبہ چھوٹا تھا۔(حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹیں، ص 91)


پچھلے دنوں دعوتِ اسلامی کے اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ کے تحت مدنی مرکز فیضانِ مدینہ ملتان میں 12دن کےاشاروں کی زبان کا کورس ہوا۔

اس دوران مبلغِ دعوتِ اسلامی نے شرکائے کورس کو اشاروں کی زبان میں نعت شریف،سنتوں بھرے بیان، ذکرو دعا اور صلوۃ وسلام سمیت دیگر چیزیں سکھائیں۔

اس کے علاوہ شرکا کو دعوتِ اسلامی کے12دینی کاموں میں شمولیت اختیار کرنے کا ذہن دیاگیاجس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں کااظہار بھی کیا۔ (رپورٹ: محمد بدر عطاری اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


رسالہ  عشقِ رسول مع اُمّتی پر حقوقِ مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم، ، مصنف مفتی محمد قاسم،ص29 پر ہے:حضور علیہ السلام تبسم کے وقت اولوں کی طرح دکھائی دیتے اور ان سے نکلنے والے نور سے دیواریں روشن ہوجاتیں اور تبسم فرماتے تو دل کی کلیاں کھل اُٹھتیں، روتے ہوئے ہنس پڑتے اور تسکینِ قلب کا سامان کرتے۔

جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام(حدائق بخشش)

کتاب شمائلِ ترمذی، ،باب ما جاء فی ضحک رسول اللہ،ص نمبر 241۔240 پر حضرت عامر بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میرے والد حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم غزوۂ خندق کے دن ہنسے، حتی کہ آپ کے دندانِ مبارک ظاہر ہو گئے، عمر کہتے ہیں:میں نے پوچھا:کس بات پر ہنسے تھے؟انہوں نے کہا : ایک کافر ڈھال لئے ہوئے تھا اور سعد بڑے تیر انداز تھے،لیکن وہ اپنی ڈھال کو اِدھر اُدھر کر لیتا تھا، جس کی وجہ سے اپنی پیشانی کا بچاؤ کر رہا تھا(گویا مقابلہ میں سعد کاتیر لگنے نہ دیتا تھا، حالانکہ یہ مشہور تیر انداز تھے)، سعد نے ایک مرتبہ تیر نکالا (اور اس کو کمان میں کھینچ کر انتظار میں رہے)جس وقت اس نے ڈھال سے سر اُٹھایا، فوراً ایسا لگایا کہ پیشانی سے چوکا نہیں اور فوراً گرگیا، ٹانگ بھی اُوپر کو اُٹھ گئی، پس حضور اقدس علیہ السلام اس قصے پرہنسے، میں نے پوچھا: کون سی بات پر؟انہوں نے فرمایا: سعد کے اس فعل پر۔

اے کاش!ہم عاشقوں کے خواب میں آ کر ہی پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرا کر اِک نظرِ کرم فرما دیں تو ہماری عید ہو جائے گی۔نبی کریم علیہ السلام کی سنتوں میں سے ایک بہت ہی پیاری سنت مسکرا کر دیکھنا بھی ہے۔

شرح مشکوۃ، ترجمہ اشعۃ اللمعات، جلد 7، ناشر فرید بک سٹال، صفحہ نمبر 185 پر ہے :حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: میں نے نبی کریم علیہ السلام کو کبھی کھل کر پورا ہنستے ہوئے نہ دیکھا، حتی کہ میں آپ کی داڑھیں دیکھ لیتی،آپ تبسم ہی فرمایا کرتے تھے۔(البخاری)


تبسم،  ضحک اور قہقہہ میں فرق

اہلِ لغت کہتے ہیں:تبسم ضحک کی مبادیات میں سے ہے، چہرے کی خوشی سے اگر دانت نظر آئیں اور دُور تک آواز جائے تو قہقہہ ہے، ورنہ ہنسی ہے اور اگر آواز نہ آئے تو پھر یہ تبسم(مسکراہٹ) ہے۔

آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جب مسکراتے، خوش ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا چہرۂ انور روشن نظر آنے لگتا۔

حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ غزوۂ تبوک میں شریک نہ ہوئے تو آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم غزوے سے واپس تشریف لائے، منافقوں نے عدمِ شرکت کے بہانے بنائے، لیکن تین صحابہ کرام علیہم الرضوان نے جن میں حضرت کعب بھی شامل تھے، اپنی کوتاہی کا اعتراف کیا، پچاس راتوں کے مسلسل کرب کے بعد ان کی توبہ کی مقبولیت پر مشتمل آیات نازل ہوئیں، حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو خوشخبری ملی، فوراً حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر خوشی سے مسکرائے، حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جب خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ انور روشن ہو جاتا، گویا کہ آپ کا چہرہ چاند کا ٹکڑا ہے۔

دینِ اسلام ہر معاملے میں اعتدال کی تعلیم دیتا ہے، ہنسی مزاح میں بھی اعتدال ضروری ہے، ہر وقت ہنستے رہنا دل کو مردہ کر دیتا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اِیَّاکَ وَالضَّحَکَ فَاِنَّ کَثْرَۃَ الضَّحَکِ تُمِیْتُ الْقَلْبَ ہنسی سے بچو، کیونکہ ہنسی کی کثرت دل کو مردہ کر دیتی ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:میں نے کبھی بھی رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اس قدر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کا کوّا نظر آتا، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم صرف مسکرایا کرتے تھے۔

حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہمراہ کھانے کی دعوت پر روانہ ہوا، رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم لوگوں سے آگے تھے، آپ نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو لڑکوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا، رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ان کو پکڑنے کا ارادہ فرمایا۔حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ادھر سے ادھر چلے گئے، حضرت یعلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس سے ہنسی مزاح فرمانے لگے، یہاں تک کہ انہیں پکڑ لیا، پھر اپنا ایک ہاتھ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی گُدی کے نیچے اور دوسرا ہاتھ تھوڑی کے نیچے رکھ کر ان کا منہ چوم لیا اور فرمایا:حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اللہ پاک حسین سے محبت کرنے والے سے محبت کرے، حسین نواسوں میں عظیم نواسہ ہے۔

حضرت عبداللہ بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں نے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔

آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایااَلْقَہْقِہَۃُ مِنَ الشَّیْطٰنْ، وَالتَبَسَّمُ مِنَ اللہِ قہقہہ شیطان کی طرف سے ہے اور تبسم اللہ پاک کی طرف سے ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا، آپ موٹے کنارے والی عبرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے، اچانک ایک بدّو آیا اور اس نے آپ کی چادر زور سے کھینچی، میں نے دیکھا: اس کی وجہ سے آپ کی گردن پر نشان پڑ گیا، پھر کہنے لگا:اے محمد!آپ کے پاس جو اللہ پاک کا عطا کردہ مال ہے اس میں مجھے کچھ دینے کا حکم دیں! حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے،آپ ہنسے اور آپ نے اس کو دینے کا حکم فرمایا۔حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم قہقہہ لگا کر نہیں ہنستے تھے، صرف مسکراتے تھے۔

بعض احادیث میں آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہنسنا بھی مروی ہے اور ہنستے وقت آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی داڑھیں ظاہر ہونے کا ذکر ہے۔

باغِ جنت میں محمد مسکراتے جائیں گے پھول رحمت کے جھڑیں گے ہم اٹھاتے جائیں گے


اللہ پاک کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے چند واقعات درج ذیل ہیں:

1۔حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: ایک دن آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے چہرے پر مسرّت و بشاشت ( خوشی) کے آثار تھے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! آج تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے چہرے پر چمک دمک اور خوشی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں؟ تو ارشاد فرمایا : ہاں! ( آج میں کیونکر خوش نہ ہوں گا کہ) میرے ربّ کریم کی طرف سے ایک آنے والا میرے پاس آیا ، اس نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! آپ کا جو امتی آپ پر ایک بار درود بھیجے، اس کے عوض اللہ پاک اس کے لئے دس نیکیاں لکھتا ہے، اس کے دس گناہ معاف فرماتا ہے، اس کے دس درجات بلند فرماتا ہےاور اسی درود پاک کی مثل کو اس شخص پر لوٹاتا ہے (یعنی اللہ پاک خود بھی اس بندے پر درود بھیجتاہے)۔(مسند امام احمد بن حنبل، مسند المدنیین، حدیث ابی طلحہ زید بن سھل... الخ 625/6، الحدیث 16895)

2:امیر المومنین حضرت عثمان ِغنی رضی اللہ عنہ نے ایک بار پانی منگوایا اور وضو کیا، پھر آپ مسکرانے لگے اور ساتھیوں سے فرمایا:کیا تم مجھ سے اس چیز کے بارے میں پوچھو گے نہیں کہ جس نے مجھے مسکرایا؟ انہوں نے عرض کی : اےامیر المؤمنین! آپ کسی چیز کی وجہ سے مسکرائے تھے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:ایک بار حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس جگہ کے قریب ہی وضو فرمایا تھا اور فراغت کے بعد مسکرائے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا تھا :تم مجھ سے پوچھو گے نہیں کہ کس چیز نے مجھے مسکرایا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہمنے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! کس چیز نے آپ کو مسکرایا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: بندہ جب وضو کا پانی منگوائے، پھر اپنا چہرہ دھوئے تو اللہ پاک اس کے چہرے کے گناہ کو مٹا دیتا ہے، پھر اپنی کہنیاں دھوئے تو کہنیوں کے،سرکامسح کرے تو سر کے اور قدموں کو دھوئے تو قدموں کے گناہ مٹا دیتا ہے۔(تو میں نے بھی انہی کی ادا کو ادا کیا ہے)

(مسند امام احمد ، مسند عثمان بن عفان، 13/1،الحدیث415)

3:حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:فرماتی ہیں: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میرے پاس تشریف لائے، میں اپنی گڑیاں گھر کے ایک دریچہ میں رکھ کر اس پر پردہ ڈالے رکھتی تھی، سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ حضرت زید رضی اللہ عنہ بھی تھے، انھوں نے دریچے کے پردےکو اٹھایا اور گڑیاں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دکھائیں،حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یہ سب کیا ہے؟ میں نے عرض کی :میری بیٹیاں (میری گڑیاں) ہیں،ان گڑیوں میں ایک گھوڑا ملا حظہ فرمایا، جس کے دو بازو تھے، فرمایا : کیا گھوڑوں کے بھی بازو ہوتے ہیں؟ میں نے عرض کی: کیا آپ نے نہیں سنا کہ حضرت سلمان علیہ السلام کے گھوڑے تھے اور ان کے بازو تھے، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس پراتنا تبسم فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی داڑھیں ظاہر ہو گئیں۔(مدارج النبوت، قسم 5،باب2،درذکرازواج ِمطہرات ، ج 2،ص471)

4:حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے، جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے، ایک دم ایک بدوی نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پکڑلیا اور اتنے زبردست جھٹکے سے چادر مبارک کو کھینچا کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نرم و نازک گردن پر چادر کی کنار سے خراش آگئی، پھر اس بدوی نے کہا :اللہ پاک کا جو مال آپ کے پاس ہے، آپ کے حکم دیجئے کہ اس میں سے کچھ مل جائے۔حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جب اس بدوی کی طرف توجہ فرمائی تو کمال حلم و عفو سے اس کی طرف دیکھ کر ہنس پڑے اور پھر اس کو کچھ مال عطا فرمانے کا حکم صادر فرمایا۔(صحیح البخاری، کتاب فرض الخمس، باب ما کان النبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم.. الخ الحدیث :3149، ج 2،ص 359)

5: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا چہرہ قرآن کے ورق کی طرح صاف تھا، ہم نے کوئی منظر ایسا نہ دیکھا، جو ہمیں اس رخِ انور کے اس منظر سے زیادہ خوشگوار ہو، جب چہرہ ٔمبارک ہم پر نمودار ہوا۔(صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب اھل العلم والفضل الحق بالامامۃ، الحدیث 681،ج1،ص 243)


دعوت اسلامی کے شعبہ اصلاحِ اعمال (اسلامی بہنیں)کے زیر اہتمام یوکے لندن ریجن میں ذمہ دار اسلامی بہنوں کا بذریعہ انٹرنیٹ مدنی مشورہ ہوا جس میں کابینہ مشاورت کی اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

ریجن ذمہ دار اسلامی بہن نے مدنی مشورے میں شریک اسلامی بہنوں کی کارکردگی کافالواپ کرتے ہوئے تربیت کی اور مدنی مذاکرہ پابندی سے دیکھنے کا ذہن دیا نیز زیادہ سے زیادہ اسلامی بہنوں کو نیک اعمال سے وابستہ کرنے اور شعبے کے دینی کاموں کو مزید بڑھانے کی ترغیب دلائی۔آخر میں ریجن ذمہ دار اسلامی بہن نے مدنی مشورے میں شریک اسلامی بہنوں کی بہترین کارکردگی پر حوصلہ افزائی بھی کی۔ 


حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے بہت تھے، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سب سے زیادہ تبسم فرماتے رہتے، جب تک قرآن نازل نہ ہو رہا ہوتا یا قیامت کا تذکرہ نہ ہوتا یا خطبہ وعظ نہ ہوتا۔

جس کی تسکین سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس تبسم کی عادت پر لاکھوں سلام

آئیے! اب پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے پانچ واقعات ملاحظہ فرمائیے:

1۔حضرت جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب سے میں مسلمان ہوا، مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پردہ نہ کیا، مجھے نہ دیکھا مگر تبسم فرمایا۔(مراۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 281، حدیث 4536)

2۔حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نہ اُٹھتے تھے اپنے مصلے سے، جس میں نماز فجر پڑھتے،حتی کہ سورج طلوع ہو جاتا،پھر جب سورج طلوع ہو جاتا تو اُٹھتے اور لوگ باتیں کرتے تھے تو جاہلیت کے زمانہ کے کاموں کے ذکر میں مشغول ہو جاتے تو ہنستے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے تھے۔(مراۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 282، حدیث 4537)

3۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ایک روز میں رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے سخت حاشیہ والی نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے، ایک بدّو آپ کے پاس آیا، اس نے آپ کی چادر کے ساتھ آپ کو ایسا سخت کھینچا کہ چادر پھٹ گئی، آپ کی گردن مبارک کو جو میں نے دیکھا کہ اس میں چادر کے حاشیہ نے اثر کیا ہوا تھا، پھر اس بدّو نے کہا: اے محمد!آپ کے پاس جو خدا کا مال ہے، اس میں میرے واسطے حکم کیجئے۔ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس کی طرف دیکھا، پھر ہنس کے اس کے لئے بخشش کا حکم دیا۔(سیرت رسول عربی، صفحہ 236)

4۔ ایک دفعہ ایک سائل آپ کی خدمت شریف میں آیا، آپ نے فرمایا:میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے، مگر یہ کہ تو مجھ پر قرض لے، جب ہمارے پاس کچھ آ جائے گا، ہم اسے ادا کردیں گے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! خدا نے آپ کو اس چیز کی تکلیف نہیں دی، جو آپ کی قدرت میں نہیں، آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ بات نا پسند آئی، انصار میں سے ایک شخص بولا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!عطا کیجئے اور عرش کے مالک سے ثقلیل کا خوف نہ کیجئے،یہ سن کر آپ نے تبسم فرمایا۔

(سیرت رسول عربی، صفحہ 263)

5۔ایک دن ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے چہرۂ انور کا رنگ متغیر تھا، صحابہ کرام علیہم الرضوان اسے خلافِ عادت سمجھتے تھے، پس اعرابی نے کچھ پوچھنا چاہا تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اسے منع کردیا اور فرمایا:ہم آپ کا رنگ بدلا ہوا دیکھتے ہیں، اعرابی نے کہا: مجھے پوچھنے دو، اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے، میں آپ کو ہنسائے بغیر نہ چھوڑوں گا، چنانچہ اس نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہمیں خبر ملی ہے کہ مسیح دجّال لوگوں کے لئے ثرید یعنی شوربے میں ملی ہوئی روٹی لائے گا اور لوگ اس وقت وقت بھوک سے مر رہے ہوں گے! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر قربان ہوں، آپ مجھے کیا فرماتے ہیں کہ میں اس ثرید کے کھانے سے رُکا رہوں اور اس سے بچتے ہوئے کمزور ہو کر مر جاؤں یا میں اس ثرید سے کھاؤں، یہاں تک کہ خوب سیر ہو جاؤں تو اللہ پاک پر ایمان لاؤں اور دجال کا انکار کر دوں، صحابہ کرام علیہم الرضوان فرماتے ہیں:یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی داڑھیں مبارک ظاہر ہو گئیں، پھر آپ نے فرمایا:نہیں، بلکہ اللہ پاک جس کے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو بے نیاز کرے گا، تجھے بھی مستغنی کردے گا۔(صحیح بخاری، باب ذکر الدجال، حدیث 7122، صفحہ 594)


دعوت اسلامی کے زیر اہتمام  پچھلے دنوں یوکے لندن ریجن لوٹن لندن کابینہ میں مدنی مشورے کا انعقاد کیا گیا جس میں کابینہ نگران اسلامی بہن نے ڈویژن نگران اسلامی بہنوں کے ساتھ مدنی مشورہ لیا۔

کابینہ نگران اسلامی بہن نے مدنی مشورے میں دینی کاموں کی کارکردگی کا جائزہ لیا اور ربیع الاول کے نکات کے حوالے سے کلام کیا نیز ٹیلی تھون میں بھر پور حصہ لینے کی ترغیب کے ساتھ ساتھ اس کی شرعی احتیاطوں کے لئے ٹیسٹ دینے کابھی ذہن دیا۔


یوں تو ہر بندہ مسکراتے ہوئے اچھا لگتا ہے، مگر جہاں ذکر آجائے اپنے متبسم(مسکرانے والے) آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا تو مسکرانے کو بھی وجد آ جاتا ہے، ہاں یہ تو عشق والوں کی باتیں ہیں کہ جب وہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے تصور میں ڈوبتے ہیں تو وہاں انہیں جانِ کائنات صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا مسکرانا ضرور یاد آتا ہے، اللہ اکبر! اس کی منظر کشی تو ممکن ہی نہیں، مگر ذرا سوچیں کہ اللہ پاک نے جب اپنے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو نہایت حسین و جمیل بنایا تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹ کو کتنا خوبصورت بنایا ہوگا! یہ تو کوئی حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ سے پوچھے کہ جب جانِ جاناں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے تھے، تو کیسے لگتے تھے؟

حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عادتِ کریمہ تھی کہ آپ مسکرایا کرتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے تمام واقعات کا احاطہ(گھیرنا) تو ناممکن ہے، ہاں ! قلوبِ عشاق(عاشقوں کے دلوں) کی راحت کے لئے چند واقعات ذکر کئے جاتے ہیں:

1۔حضور جانِ جاناں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جب مکے سے مدینے ہجرت فرمائی تو مدینے میں آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا محبت بھرا استقبال کیا گیا، اس استقبال میں بنو نجار کی بچیاں بھی تھیں، کہتی تھیں: واہ !کیا ہی خوب ہوا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہمارے پڑوسی ہوگئے، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ان سے پوچھا: اے بچیو! کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟ تو بچیوں نے ایک زبان ہو کر کہا:جی ہاں! جی ہاں! یہ سن کر حضور جانِ جاناں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خوش ہو کر مسکراتے ہوئے فرمایا:میں بھی تم سے پیار کرتا ہوں۔(سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم، صفحہ 177)

ماشاء اللہ!قربان جاواں اپنے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اس مسکرانے پر! کاش! ہم بھی وہاں ہوتیں اور دیکھ لیتیں یا کاش! میری روح نے ہی یہ منظر دیکھا ہوتا۔

2۔جنگِ اُحد کے دوران حضرت بی بی عمارہ رضی اللہ عنہا نے کافر کی ٹانگ پر تلوار کا بھرپور ہاتھ مارا، جس سے وہ گر پڑا اور پھر چل نہ سکا، بلکہ سُرین کے بَل گھسٹتا ہوا بھاگا، یہ منظر دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا: اے اُمّ عمارہ!تو خدا کا شکر ادا کرکہ اس نے تجھ کو اتنی طاقت اور ہمت عطا فرمائی کہ تو نے خدا کی راہ میں جہاد کیا۔(سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم، صفحہ 280)

3۔ حضرت امیہ بن مخشی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،فرماتے ہیں:ایک شخص کھاتا تھا، تو اُس نے بسم اللہ نہ پڑھی، یہاں تک کہ نہ باقی رہا اس کے کھانے سے، مگر ایک لقمہ، پھر جب اسے اپنے منہ کی طرف اٹھایا تو اس کے شروع وآخر بسم اللہ کہا،حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنس پڑے،پھر فرمایا:شیطان اس کے ساتھ کھاتا رہا،پھر جب اس نے اللہ پاک کا نام لیا تو جو کچھ اس کے پیٹ میں تھا،سب قے کردیا۔ (مراۃالمناجیح، جلد 6، صفحہ 34)

صحابہ کرام علیہم الرضوان کتنے چُنے ہوئے لوگ تھے، جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پیاری پیاری اداؤں کو دیکھا، اس وقت پر فدا! جس میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرائے، اس جگہ پر قربان! جہاں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرائے۔