دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن ابو ماجد حاجی محمدشاہد عطاری مدنی نے20اکتوبر2021ءبروزبدھ دینی کاموں کےسلسلے میں فیصل آباد ریجن کے تین زون (فیصل آباد ،جڑوانوالہ اورجھنگ) کا مدنی مشورہ کیاجن میں اراکینِ زون سمیت دیگر ذمہ داراسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

اس مدنی مشورے میں شعبے کی کارکردگی،تقرری، Softwareاور دیگر دینی کاموں پرکلام کیاگیا،اس کے علاوہ رکنِ شوریٰ نے آئندہ کے اہداف بھی دیئے جس پر ذمہ داراسلامی بھائیوں نے اچھی اچھی نیتوں کااظہارکیا۔(کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری) 

اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں اُمّتِ محمدی  کی عبرت و نصیحت کیلئے سابقہ اُمّتوں کی نافرمانیوں کو بیان فرمایا ہے۔ انہی میں سے ایک حضرت لوط علیہ السلام کی قوم بھی ہے۔حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں، جب آپ کے چچا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شام کی طرف ہجرت کی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سرزمینِ فلسطین میں قیام فرمایا اور حضرت لوط علیہ السلاماُردن میں اُترے۔اللہ پاک نے آپ کو اہلِ سُدوم کی طرف مبعوث کیا،آپ اِن لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دیتے تھے اور فعلِ بدسے روکتے تھے۔قومِ لوط کی سب سے بڑی نافرمانی اور خباثت لواطت یعنی لڑکوں سے بدفعلی کرنا تھا۔اِغلامبازی حضرت لوط علیہ السلامکی قوم کی ایجاد ہے اسی لئے اسے’’ لواطت‘‘ کہتے ہیں۔ یہ حرامِ قطعی ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔احادیثِ مبارکہ اور بزرگانِ دینکے آثار میں لواطت کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تین بار ارشاد فرمایا:’’لَعَنَ اللہُ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ‘‘اس شخص پر اللہ پاک کی لعنتہو جو قومِ لوط والا عمل کرے۔

(سننِ کبری للنسائی،ابواب التعزیرات والشہود، من عمل عمل قوم لوط،4/322، حدیث:7337)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص کو قومِ لوط والا عمل کرتے پاؤ تو کرنے والے اور کروانے والے دونوں کو قتل کردو۔(ابوداود، کتاب الحدود، باب فیمن عمل عمل قوم لوط،4/211،حدیث:4462)

حضرت ابو سعیدصعلوکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:عنقریب اس اُمتمیں ایسی جماعت پیدا ہو گی جن کو لوطی کہا جائے گا اور ا ن کی تین قسمیں ہیں:ایک وہ جو محض دیکھتے ہیں،دوسرے وہ جو ہاتھ ملاتے ہیں اور تیسرے وہ جو اس خبیث عمل کا ارتکاب کرتے ہیں۔

(کتابُ الکبائر، ص-63-64)(تفسیرصراط الجنان،پ8،الاعراف، تحت الآیۃ:80)

حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں پائی جانے والی بعض نافرمانیاں یہ ہیں: راہگیروں کو لوٹتے اور اپنے ساتھیوں کی خیانت کرتے۔
بےحیائی والی گفتگو، قصہ گوئی اور مختلف قسم کے برے کام اور بری باتیں کرتے حتی کہ اپنی مجلسوں میں ذرہ بھر حیا نہ کرتے۔
بعض اوقات ان
کی مجلسوں میں برے کام کیے جاتے مگر وہ ان پر ناپسندیدگی کا اظہار تک نہ کرتے۔کوئی نصیحت ان پر اثر نہ کرتی۔
حتی کہ انہوں نے اپنی طرف بھیجے ہوئے رسول کو اپنی بستی سے باہر نکالنے کا ارادہ کیا اور ان کو کمزور سمجھا اور ان سے مذاق و
ٹھٹھا کیا۔(قصص الانبیاء)ان کی نافرمانیوں کے نتیجے میں الله پاک نے ان پر ایسا عذاب بھیجا جو ان کے وہم و گمان میں نہ تھا اور ان کو بعد میں آنے والوں کیلئے باعثِ عبرتو نصیحت اور مثال بنادیا۔ارشادِ باری ہے:فَاَخَذَتْہُمُ الصَّیۡحَۃُ مُشْرِقِیۡنَ ﴿ۙ۷۳ فَجَعَلْنَا عٰلِیَہَا سَافِلَہَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیۡہِمْ حِجَارَۃً مِّنۡ سِجِّیۡلٍ ﴿ؕ۷۴ترجمۂ کنز العرفان: تو دن نکلتے ہی انہیں زوردار چیخ نے آپکڑا۔ تو ہم نے اس بستی کا اوپر کا حصہ اس کے نیچے کا حصہ کردیا اور ان پر کنکر کے پتھر برسائے۔(پ14،الحجر: 74-73)اللہ پاک ہمیں عبرت حاصل کرنے، اپنی نافرمانی سے بچنے، اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


ان کی نافرمانیوں کا ذکر آیاتِ قرآنی میں موجود ہے:کَذَّبَتْ قَوْمُ لُوۡطِۣ الْمُرْسَلِیۡنَ ﴿۱۶۰﴾ۚۖ اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوۡھُمْ لُوۡطٌ اَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۶۱﴾ۚ اِنِّیۡ لَکُمْ رَسُوۡلٌ اَمِیۡنٌ ﴿۱۶۲﴾ۙ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ﴿۱۶۳﴾ۚ وَمَاۤ اَسْـَٔلُکُمْ عَلَیۡہِ مِنْ اَجْرٍۚ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۴﴾ؕ

تفسیر:ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے اس وقت آپ علیہ السلام کو جھٹلایا۔آپ علیہ السلام نے ان سے فرمایا:اے میری قوم! کیا تم شرک اور دیگر گناہوں پر اللہ پاک کے عذاب سے نہیں ڈرتے؟بے شک میں تمہارے ربّ کریم کی طرف سے تمہارے لئے اس کی وحی اور رِسالت پر امانت دار رسول ہوں تو تم اللہ پاک کے رسول کو جھٹلا کر اپنے اُوپر اللہ پاک کا عذاب نازل ہونے سے ڈرو اور جس سیدھے راستے پر چلنے کی میں تمہیں دعوت دے رہا ہوں، اس میں میری اطاعت کرو۔میں اس تبلیغ و تعلیم پر تم سے کچھ اُجرت اور دنیوی منافع کا مطالبہ نہیں کرتا،میرا اَجر و ثواب تو صرف ربّ کریم کے ذمّۂ کرم پر ہے۔(تفسیرروح البیان،پ19، الشعراء، تحت الآیۃ:6۔160، 164)

166 آیت نمبر: وَ تَذَرُوۡنَ مَا خَلَقَ لَکُمْ رَبُّکُمْ مِنْ اَزْوٰجِکُمۡ ؕ بَلْ اَنۡتُمْ قَوْمٌ عَادُوۡنَ ﴿۱۶۶۔

آیت نمبر 167: قَالُوۡا لَئِنۡ لَّمْ تَنۡتَہِ یٰلُوۡطُ لَتَکُوۡنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِیۡنَ ﴿۱۶۷۔

تفسیر:حضرت لوط علیہ السلام نے قوم سے فرمایا: تمہارے لئے تمہارے ربّ نے جو بیویاں بنائی ہیں، کیا تم ان حلال طیّب عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے بدفعلی جیسی حرام اور خبیث چیز میں مبتلا ہوتےہو؟ بلکہ تم لوگ اس خبیث عمل کی وجہ سے حد سے بڑھنے والے ہو۔(تفسیرمدارک، پ19، الشعراء، تحت الآیۃ: 166، ص829 ملتقظاً)

حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب:

آیتِ قرآنی: آیت نمبر 172:ثُمَّ دَمَّرْنَا الْاٰخَرِیۡنَ ﴿۱۷۲۔

آیت نمبر 173:وَ اَمْطَرْنَا عَلَیۡہِمۡ مَّطَرًا ۚ فَسَآءَ مَطَرُ الْمُنۡذَرِیۡنَ ﴿۱۷۳۔

تفسیر: ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں کو نجات دینے کے بعد دوسروں کو اللہ پاک نے ان کی بستیاں اُلٹ کر ہلاک کر دیا اور ان پر پتھروں یا گندھک اور آگ کی خاص بارش برسائی تو جن لوگوں کو اللہ پاک کے عذاب سے ڈرایا گیا اور وہ ایمان نہ لائے، ان پر کی جانے والی یہ بارش کتنی بُری تھی۔(تفسیرروح البیان،پ19، الشعراء، تحت الآیۃ: 173/172، 6/302 ملتقظاً)

دعا:اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنی نافرمانی والے کاموں سے بچا کر ہم سے سدا کے لئے راضی ہو جا اور ہمیں اپنے عذاب سے محفوظ رکھنا۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


پچھلے دنوں دعوتِ اسلامی کے شعبہ رابطہ بالعلماءکےتحت ذمہ داراسلامی بھائیوں نےسیالکوٹ میں مولانا ڈاکٹر محمد سلیمان مصباحی خادمی صاحب سے ملاقات کی۔

اس دوران اسلام آباد ریجن ذمہ دار محمد ظہیر عباس عطاری مدنی اور رکنِ کابینہ سیالکوٹ کابینہ قاری محمد یعقوب عطاری نے دعوتِ اسلامی کے علمی خدمات کےبارے میں کلام کیاجس پرمصباحی صاحب نے دعوتِ اسلامی کی کاوشوں کوسراہتے ہوئے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ بالعلماء ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت و راہ نمائی کے لیے کئی انبیائے کرام کو مبعوث فرمایا، انہی میں سے حضرت لوط علیہ السلام ہیں۔ آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں،الله پاک نے آپ علیہ السلام کو سدوم اور اس کے قریب موجود دیگر بستیوں کی طرف مبعوث فرمایا۔ یہاں کے باشندے طرح طرح کے گناہوں کی دلدل میں دھنسے ہوئےتھے جو اس وقت کے بدترین گناہ اور قابلِ نفرت افعال تھے، ان کا سب سے بڑا اور قبیح ترین جرم مَردوں کے ساتھ بد فعلی کرنا تھا۔قرآنِ مجید میں حضرت لوط علیہ السلام کا انہیں متنبہ فرمانے اور ان کی نافرمانی کرنے کا بیان مذکور ہے: ترجمہ ٔکنز الایمان:اور لوط کو بھیجا جب اس نے اپنی قوم سے کہا کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی تم تو مَردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو عورتیں چھوڑ کر بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے اور اس قوم کا کچھ جواب نہ تھا مگر یہی کہنا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔(پ8،الاعراف:80 تا 82)

آپ علیہ السلام انہیں قبول ِحق کی دعوت دیتے اور وہ سرکشی کرتے یہاں تک کہ آپ علیہ السلام کو ان کے قبول ِحق کی امید نہ رہی اور ان لوگوں نے عذابِ الٰہی کا مطالبہ کر دیا۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:ترجمۂ کنز الایمان: اور لوط کو نجات دی جب اس نے اپنی قوم سے فرمایا تم بیشک بے حیائی کا کام کرتے ہو کہ تم سے پہلے دنیا بھر میں کسی نے نہ کیا کیا تم مردوں سے بد فعلی کرتے ہو اور راہ مرتے ہو اور اپنی مجلس میں بری بات کرتے ہو تو اس کی قوم کا کچھ جواب نہ ہوا مگر یہ کہ بولے ہم پر الله کا عذاب لاؤ اگر تم سچے ہو۔

(پ20،العنکبوت:28،29)

اس کے بعد اس قوم پر عذاب اس طرح آیا کہ رات کو حضرت لوط علیہ السلام اپنی دو صاحبزادیوں اور دیگر اہلِ ایمان کو لے کر بستی سے نکل گئے۔ پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے قومِ لوط کے شہر جس طبقۂ زمین میں تھے اس کے نیچے اپنا بازو ڈالا اور ان پانچوں شہروں کو جن میں سب سے بڑا سدوم تھا اور ان میں چار لاکھ آدمی بستے تھے، اس ساری بستی کو نہایت اونچا اٹھایا پھر اس بلندی سے اس کو اوندھا کر کے پلٹ دیا، اسی دوران حضرت جبرئیل علیہ السلام نے ایک زوردار چیخ بھی ماری اور جو لوگ اس وقت بستی میں موجود نہ تھے وہ جہاں کہیں سفر میں تھے وہیں انہیں لگاتار پتھر برسا کر ہلاک کر دیا۔بعض مفسرین نے فرمایا:بستیاں الٹنے کے بعد ان ہی پر لگاتار پتھر برسائے گئے۔(تفسیرخازن،ھود،تحت الآیۃ: 82، 365/2، ملتقطا- از سیرت الانبیاء)ارشاد ہوتا ہے:ترجمۂ کنز الایمان:تو دن نکلتے انہیں چنگھاڑ نے آ لیا تو ہم نے اس بستی کا اوپر کا حصہ اس کے نیچے کا حصہ کر دیا اور ان پر کنکر کے پتھر برسائے۔ (پ14،الحجر:73،74) نیز یہ قوم اور کئی قومیں اپنی نافرمانی کی وجہ سے عذاب کا شکار ہوئیں۔اللہ پاک ہمیں اپنے عذاب سے محفوظ فرمائے۔ آمین


اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت کے لئے جتنے نبی مبعوث فرمائے،  ان میں سے ایک حضرت لوط علیہ السلام کی قوم تھی، جس کو قومِ لوط کے نام سے پکارا جاتا ہے، یہ قوم شہر ”سدوم“ میں رہتی تھی جو ”حمص“ کا ایک مشہور شہر ہے۔اس قوم کو شیطان نے بدفعلی پر اُکسایا اور وہ اس کی پیروی کرنے لگے، اُن کو اس کی ایسی عادت پڑی کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرنے لگے۔حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں بہت سمجھایا جس کا ذکر پارہ 8 سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 80 اور 81 میں موجود ہے، مگر اس قوم نے حضرت لوط علیہ السلام کی بات ماننے کے بجائے ان کو اپنی بستی سے نکالنے کا فیصلہ کیا جس کا ذکر پارہ نمبر 8 سورۃُ الاعراف کی آیت نمبر 82 میں موجود ہے۔ان پر اللہ پاک کا عذاب نازل ہوا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کچھ فرشتوں کو ساتھ لے کر بہت حسین لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط علیہ السلام کے گھر تشریف لائے، قوم نے ان کے ساتھ بدفعلی کا ارادہ کیا، اس سے حضرت لوط علیہ السلام بہت پریشان ہوئے، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ان کو سب بتایا کہ ہم اللہ پاک کا عذاب لے کر نازل ہوئے ہیں، انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام کو اپنے رفقا کے ساتھ بستی سے دُور نکل جانے اور پیچھے مُڑ کر نہ دیکھنے کو کہا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت لوط علیہ السلام کے جانے کے بعد شہر کی پانچوں بستیوں کو اوپر اُٹھا کر زمین پر پٹخ دیا اور پھر کنکروں کی بارش ہونے لگی، یوں قومِ لوط تباہ و برباد ہو گئی۔اللہ پاک ہمیں اپنے قہر سے محفوظ فرمائے۔آمین


اللہ پاک کے نبیوں میں سے ایک نبی حضرت لوط علیہ السلام بھی ہیں۔ حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں۔آپ علیہ السلام ”سدوم“ کے نبی تھے اور آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم خلیلُ اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام کے ساتھ ہجرت کرکے ملکِ شام میں آئے تھے،نیز حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا سے آپ نبی بنائے گئے۔(نور العرفان)

حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں بہت سی بُرائیاں پیدا ہو گئی تھیں، وہ باہر سے آنے والے تاجروں اور سوداگروں کو عجیب و غریب طریقوں سے لُوٹ لیا کرتے تھے۔(سیرت الانبیاء قدم بہ قدم، قصص القرآن)

دنیا میں سب سے پہلے بد فعلی شیطان نے کروائی،وہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں اَمردِ حسین یعنی خوبصورت لڑکے کی شکل میں آیا اور ان لوگوں کو اپنی جانب مائل کیا،یہاں تک کہ گندا کام کروانے میں کامیاب ہوگیا،اس کااُن کو ایسا چسکا لگا کہ وہ اس بُرے کام کے عادی ہو گئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرنے لگے۔( مکاشفۃ القلوب، ص 86 ماخوذ اً)حضرت لوط علیہ السلام نے ان لوگوں کو اس فعلِ بد سے منع کرتے ہوئے جو بیان فرمایا، اس کو پارہ8، سورۃُ الاعراف،آیت نمبر 80 اور 81 میں ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے:ترجمہ: کیا وہ بے حیائی کرتے ہو، جو تم سے پہلے جہاں میں کسی نے نہ کی تو تم مَردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو، عورتیں چھوڑ کر، بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے۔

جب قومِ لوط کی سرکشی قابلِ ہدایت نہ رہی تو اللہ پاک کا عذاب آ گیا، چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام چند فرشتوں کے ہمراہ اَمردِ حسین یعنی خوبصورت لڑکوں کی صورت میں مہمان بن کر حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے، ان مہمانوں کے حُسن و جمال اور قوم کی بدکاری کی خصلت کے خیال سے حضرت لوط علیہ السلام فکرمند ہوئے، تھوڑی دیر میں قوم کے بدفعلوں نے حضرت لوط علیہ السلام کے مکان کا محاصرہ کر لیا۔

حضرت لوط علیہ السلام نے نہایت دل سوزی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھایا، مگر وہ اپنے بَد اِرادے سے باز نہ آئے، آپ علیہ السلام کو رنجیدہ دیکھ کر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا:یا نبیَّ اللہ!آپ غمگین نہ ہوں، ہم فرشتے ہیں اور ان پر اللہ پاک کا عذاب لے کر اُترے ہیں۔ چنانچہ

حضرت لوط علیہ السلام اپنے گھر والوں اور مؤمنوں کو ہمراہ لے کر بستی سے باہر تشریف لے گئے،پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام اس شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پروں پر اُٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے اور کچھ اُوپر جاکر ان بستیوں کو زمین پر اُلٹ دیا، پھران پر اس زور سے پتھروں کا مینہ برسا کہ قومِ لوط کی لاشوں کے پَرخچے اُڑ گئے، یوں وہ قوم ہلاک ہوگئی۔بدکار قوم پر برسائے جانے والے ہر پتھر پر اُس شخص کا نام لکھا تھا،جو اس پتھر سے ہلاک ہوا۔( عجائب القرآن، ص 110 تا112، تفسیر صاوی، 2/691 ماخوذ اً)


اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت و راہ نمائی کے لئے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث فرمائے۔ ہر پیغمبر نے اپنی اپنی قوم کو ایک اللہ پاک کی عبادت کرنے اور بت پرستی سے باز رہنے کی تلقین کی۔  جیسے جیسے وقت گزرتا گیا،بت پرستی بڑھتی گئی۔ایک وقت ایسا آیا کہ جب لوگ ہم جنس پرستی جیسے گناہ کے ارتکاب میں دھنستے چلے گئے۔قومِ لوط وہ پہلی قوم تھی جس نے اس فعلِ بد کی شروعات کی جیسا کہ ارشاد ہوا:وَلُوۡطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖۤ اَتَاۡتُوۡنَ الْفٰحِشَۃَ مَا سَبَقَکُمۡ بِہَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿۸۰ترجمہ: اور ہم نے لوط ( علیہ السلام ) کو بھیجا جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم ایسا فحش کام کرتے ہو جس کو تم سے پہلے کسی نے دنیا جہان والوں میں سے نہیں کیا۔ (7.80) اس قوم کی طرف اللہ پاک نے حضرت لوط علیہ السلام کو تبلیغ کے لئے بھیجا۔ جس کا ذکر قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے۔حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام عراق میں پیدا ہوئے۔ ہجرت کے بعد اللہ پاک نے حضرت لوط علیہ السلام کو اُردن کے شہر سدوم میں پیغمبر بنا کر بھیجا۔ آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں کو لَا اِلٰہ اِلَّااللہ کی دعوت دی۔

اللہ پاک نے ان پر عذاب نازل کرنے کے لئے فرشتے بھیجے جو انسان کا روپ دھار کر آئے۔ حضرت لوط علیہ السلام کی ایک بیٹی نے ان خوبصورت نوجوانوں کو دیکھا تو فوراً اپنے والد کو آگاہ کیا۔ حضرت لوط علیہ السلام انہیں اپنے گھر لے آئے۔آپ اپنی قوم کی ہم جنس پرستی کی عادت کی وجہ سے بہت گھبرا گئے کہ کہیں ان کی قوم ان خوبصورت نوجوانوں کو اپنی ہوس کا نشانہ نہ بنالے۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشاد ہوا:وَ لَمَّا جَآءَتۡ رُسُلُنَا لُوۡطًا سِیۡٓءَ بِہِمۡ وَ ضَاقَ بِہِمۡ ذَرۡعًا وَّ قَالَ ہٰذَا یَوۡمٌ عَصِیۡبٌ۔ترجمہ: جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے لوط کے پاس پہنچے تو وہ ان کی وجہ سے بہت غمگین ہوگئے اور دل ہی دل میں کڑھنے لگے اور کہنے لگے: آج کا دن بڑی مصیبت کا دن ہے۔(11.77) حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی بھی ان لوگوں کا ساتھ دیتی تھی،لہٰذا اس نے فوراً قوم کے لوگوں کو ان خوبصورت نوجوانوں کی خبر دی۔وہ لوگ فوراً حضرت لوط علیہ السلام کے دروازے پر آ گئے جیسا کہ ارشاد ہوا:اِنَّکُمۡ لَتَاۡتُوۡنَ الرِّجَالَ شَہۡوَۃً مِّنۡ دُوۡنِ النِّسَآءِ ؕ بَلۡ اَنۡتُمۡ قَوۡمٌ مُّسۡرِفُوۡنَ ترجمہ: تم مَردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو عورتوں کو چھوڑ کر بلکہ تم تو حد ہی سے گزر گئے ہو۔(7.81)آپ علیہ السلام نے انہیں اس بد فعلی سے باز رہنے کو کہا اور فرمایا:عورتوں سے جائز طریقے سے اپنی نفسی خواہش پوری کرو لیکن وہ لوگ باز نہ آئے جیسا کہ ارشاد ہوا: قَالُوۡا لَقَدۡ عَلِمۡتَ مَا لَنَا فِیۡ بَنٰتِکَ مِنۡ حَقٍّ ۚ وَ اِنَّکَ لَتَعۡلَمُ مَا نُرِیۡدُ ترجمہ: انہوں نے جواب دیا کہ تو بخوبی جانتا ہے کہ ہمیں تو تیری بیٹیوں پر کوئی حق نہیں ہے اور تو ہماری اصلی چاہت سے بخوبی واقف ہے۔ (11.79) تب ان خوبصورت نوجوانوں نے بتایا:ہم فرشتے ہیں اور ان پر عذاب نازل کرنے آئے ہیں۔ فرشتوں نے حضرت لوط علیہ السلام کو راتوں رات اپنی بیٹیوں کے ہمراہ اس علاقے سے نکل جانے کو کہا۔ حضرت لوط علیہ السلام کے نکلتے ہی فرشتوں نے اس علاقے کو اٹھا کر زمین پر اوندھا پٹخ دیا جیسا کہ ارشاد ہوا:فَلَمَّا جَآءَ اَمۡرُنَا جَعَلۡنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَ اَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہَا حِجَارَۃً مِّنۡ سِجِّیۡلٍ۬ ۙ مَّنۡضُوۡدٍ۔ ترجمہ: پھر جب ہمارا حکم آپہنچا ہم نے اس بستی کو زیرو زبر کر دیا اوپر کا حصہ نیچے کردیا اور ان پر کنکریلے پتھر برسائے جو تہ بہ تہ تھے۔ (11.82) ان کے کچھ نشانات لوگوں کے لئے باعثِ عبرت ہیں۔اللہ پاک ہمارے گناہ معاف فرمائے اور ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں کو اس بد فعلی سے محفوظ فرمائے۔ آمین


حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں، آپ سدوم کے نبی تھے،آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ہجرت کرکے ملکِ شام میں آئے تھے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا سے نبی بنائے گئے۔(نورالعرفان، ص255- قوم لوط کی تباہ کاریاں، ص 1 تا 2)اللہ پاک نے ان کو اہلِ سدوم کی طرف مبعوث فرمایا، آپ ان لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دیتے اور فعلِ بد سے روکتے، قومِ لوط بیانِ عافیت نشان کو سُن کر نہیں مانے،سر تسلیمِ خم کرنے کے بجائے بے باکانہ نافرمانیاں کرتے رہے۔ان کی سب سے بڑی خباثت لواطت(یعنی لڑکوں سے بدفعلی) کرنا تھی، اسی پر حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا:ترجمۂ کنزالایمان:کیا تم ایسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو، وہ جو تم سے پہلے جہاں میں کسی نے نہ کی۔(پ8،الاعراف:80) آپ نے ان کو بے حیائی کی باتوں سے منع فرمایا تو ایک نے بھی آپ کی بات نہ مانی اور اس ممنوع کام کو ترک نہ کیا،اسی لئے اللہ پاک نے انہیں وہ سزا دی کہ وہ ہمیشہ کے لئے عبرت کا مرقع بن کر رہ گئے۔قومِ لوط کی صرف یہی ایک نافرمانی نہیں تھی، بلکہ وہ کئی طرح کی نافرمانیوں میں گرفتار تھے، ان کا کام راستوں میں ڈاکے ڈال کر راستے کا سارا مال لوٹ لینا تھا، اس طرح یہ لوگوں کی اذیت کا سبب بنتے اور اس طرح لوگوں کو اذیت پہنچانا بھی خدا کی نافرمانی ہے۔اسی طرح قومِ لوط کی ایک نافرمانی اپنے دوستوں سے خیانت کرنا بھی تھی،وہ اپنے دوستوں کی امانتوں کا خیال نہیں رکھتے تھے، بلکہ اس میں خیانت کے مرتکب ہوتے تھے، اسی پر بس نہیں تھا، بلکہ وہ عام اجتماع کے مقامات پر طرح طرح کی فحش باتیں اور فحش حرکات کرتے،بلکہ بعض اوقات مجلس میں بھی بدفعلی کا ارتکاب کرتے اور بالکل حیا نہ کرتے،ان میں بےحیائی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، ان پر نہ کسی نصیحت کا اثر ہوتا تھا، نہ کسی کے سمجھانے سے باز آتے تھے،انہیں نہ موجودہ گناہوں سے شرم تھی،نہ سابقہ گناہوں پر ندامت اور نہ ہی مستقبل میں اصلاح کی نیت، اسی لئے اللہ پاک نے انہیں سخت سزا دی، انہوں نے اپنے نبی سے یہاں تک کہہ دیا کہ(قصص الانبیاء،ص 225)ترجمۂ کنزالایمان:اگر تم سچے ہو تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ۔ (العنکبوت:29/29) چنانچہ ان پر عذابِ الٰہی نازل ہو گیا، اللہ پاک نے ان کی بستیوں کو اس طرح اُلٹ کر دیا کہ ان کا اوپر والا حصّہ نیچے ہو گیا، پھر مسلسل پتھروں کی بارش سے انہیں نظروں سے اوجھل کر دیا۔(قصص الانبیاء، ص 232)اللہ پاک ہم سب کو اپنی نافرمانی والے کاموں سے محفوظ فرمائے۔آمین


حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں، جب آپ کے چچا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سرزمینِ فلسطین میں قیام فرمایا اور حضرت لوط علیہ السلام اُردن میں اُترے تواللہ پاک نے آپ کو اہلِ سدوم کی طرف مبعوث فرمایا۔آپ علیہ السلام ان لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دیتے تھے اور فعلِ بد سے روکتے تھے۔قومِ لوط کی سب سے بڑی خباثت”لواطت“یعنی لڑکوں سے بدفعلی کرنا تھا، اس پر حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا:ترجمۂ کنز الایمان:کیا تم ایسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو،جو سارے جہاں میں تم سے پہلے کسی نے نہیں کی، تم عورتوں کو چھوڑ کر شہوت پوری کرنے کے لئے مَردوں کے پاس جاتے ہو،یقیناً تم حد سے گزر چکے ہو۔ (تفسیر صراط الجنان، پ 8،الاعراف، الآیۃ: 80- 81 ماخوذ اً)

قومِ لوط اس خبیث جُرم کا شکار اس طرح ہوئی کہ ابلیسِ لعین حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں اَمردِ حسین یعنی خوبصورت لڑکے کی شکل میں آیا اور ان لوگوں کو اپنی جانب مائل کیا،یہاں تک کہ گندہ کام کروانے میں کامیاب ہوگیا،اس کااُن کو ایسا چسکا لگا کہ وہ اس بُرے کام کے عادی ہو گئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ عورتوں کو چھوڑ کر مَردوں سے اپنی خواہش پوری کرنے لگے۔

(مکاشفۃ القلوب، ص 76 ماخوذ اً)

حضرت لوط علیہ السلام نے ان لوگوں کو سمجھایا اور منع کیا،لیکن آپ کی بد بخت قوم نے دنیا و آخرت کی بھلائی پر مشتمل بیانِ عافیت نشان کو سُن کر بجائے سر تسلیمِ خم کرنے کے جو بے حیائی کے ساتھ جواب دیا، اس کے بارے میں قرآنِ پاک میں مذکور ہے:

ترجمۂ کنز الایمان: اور اس قوم کا کچھ جواب نہ تھا، مگر یہی کہنا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔

(تفسیر صراط الجنان، پ 8،الاعراف،الآیۃ: 82 ماخوذ اً)

جب قومِ لوط کی سرکشی اور خصلتِ بدفعلی قابلِ ہدایت نہ رہی تو اللہ پاک کا عذاب آ گیا، چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام چند ملائکہ کے ہمراہ اَمردِ حسین کی صورت میں مہمان بن کر حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے، ان مہمانوں کے حُسن و جمال اور قوم کی بدکاری کی خصلت کے خیال سے حضرت لوط علیہ السلام نہایت فکرمند ہوئے،تھوڑی دیر بعد قوم کے بد فعلوں نے حضرت لوط علیہ السلام کے مکانِ عالیشان کا محاصرہ کر لیا اور ان مہمانوں کے ساتھ بدفعلی کے بُرے ارادے سے دیوار پر چڑھنے لگے، حضرت لوط علیہ السلام نے نہایت دل سوزی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھایا، مگر وہ اپنے بَد اِرادے سے باز نہ آئے، آپ علیہ السلام کو متفکرو رنجیدہ دیکھ کر حضرت جبرائیل علیہ السلام نےکہا:یا نبیَّ اللہ!آپ غمزدہ نہ ہوں، ہم فرشتے ہیں اور ان بدکاروں پر اللہ پاک کا عذاب لے کر اُترے ہیں، آپ مؤمنین اور اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے پہلے پہلے اس بستی سے دُور نکل جائیے اور خبردار! کوئی شخص پیچھے مُڑ کر نہ دیکھے، ورنہ وہ بھی اس عذاب میں گرفتار ہو جائے گا۔چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام اپنے گھر والوں اور مؤمنین کو ہمراہ لے کر بستی سے باہر تشریف لے گئے، پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام اس شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پَروں پر اُٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے اور کچھ اُوپر جاکر ان بستیوں کو زمین پر اُلٹ دیا، پھران پر اس زور سے پتھروں کا مینہ برسا کہ قومِ لوط کی لاشوں کےبھی پَرخچے اُڑ گئے، عین اس وقت جب کہ یہ شہر اُلٹ پلٹ ہو رہا تھا، حضرت لوط علیہ السلام کی ایک بیوی جس کا نام ”واعلہ“تھا، جو درحقیقت منافقہ تھی اور قوم کے بدکاروں سے محبت رکھتی تھی، اُس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا اور اُس کے مُنہ سے نکلا:ہائے رے میری قوم!یہ کہہ کر کھڑی ہو گئی، پھر عذابِ الٰہی کا ایک پتھر اس کے اوپر بھی گر پڑا اور وہ ہلاک ہوگئی، ارشادِ باری ہے:ترجمۂ کنز الایمان:”تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی، مگر اس کی عورت، وہ رہ جانے والوں میں ہوئی اور ہم نے ان پر ایک مینہ برسایا تو دیکھو کیسا انجام ہوا مجرموں کا۔“بدکار قوم پر برسائے جانے والے ہر پتھر پر اُس شخص کا نام لکھا تھا، جو اس پتھر سے ہلاک ہوا۔(عجائب القرآن، ص110 تا 112، تفسیر صاوی،2/691 ماخوذ اً)

مذکورہ آیات و واقعات سے معلوم ہوا !اغلام بازی یعنی لواطت قومِ لوط کی ایجاد ہے،یہ بھی معلوم ہوا!لڑکوں سے بد فعلی حرامِ قطعی ہے، اس کا منکر کافر ہے،نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی احادیث اور بزرگانِ دین کے آثار میں لواطت کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے تم پر قومِ لوط والے عمل کا سب سے زیادہ خوف ہے۔( ابنِ ماجہ، کتاب الحدود، باب من عمل عمل قومِ لوط،3/230، حدیث: 2563 ماخوذ اً)حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:لَعَنَ اللہُ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ یعنی اس شخص پر اللہ پاک کی لعنت ہو جو قومِ لوط والا عمل کرے۔(سنن کبری للنسائی، ابواب التغیرات والشہود، حدیث: 7337) معلوم ہوا! عورتوں کا عورتوں سے بدفعلی کرنا اور مَردوں کا مَردوں سے خاص انداز سے ملنا یعنی بد فعلی کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا عمل ہے،نیز جو قومِ لوط کا سا عمل کرے اسے حدیثِ مبارَکہ میں ملعون کہا گیا ہے۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان تمام گھناؤنے جُرموں سے بچنے اور خوفِ خدا کو دل میں بسائے رکھنے کی توفیق عنایت فرمائے۔آمین(تفسیر صراط الجنان،پ8، الاعراف، الآیۃ:80 تا81)


دُرود پاک کی فضیلت

فرمانِ صدیقِّ اکبر ہے:نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر دُرودِ پاک پڑھنا گناہوں کو اس قدر جلد مٹاتا ہے کہ پانی بھی آگ کو اتنی جلدی نہیں بجھاتا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر سلام بھیجنا گردنیں(یعنی غلام) آزاد کرنے سے افضل ہے۔(تاریخِ بغداد، 7/ 172)

ارشادِ باری ہے:ترجمہ:کیا مخلوق میں مَردوں سے بدفعلی کرتے ہو اور چھوڑتے ہو وہ جو تمہارے لئے تمہارے ربّ نےجو روئیں بنائیں، بلکہ تم لوگ حد سے بڑھنے والے ہو۔ (پ19، الشعراء:125- 126)

قومِ لوط کے افعال:

سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:1۔شطرنج کھیلنا، 2۔گدھوں کی دوڑ کا مقابلہ کرانا، 3۔ کتوں میں لڑائی کروانا، 4۔مینڈھوں کی آپس میں ٹکر مروانا، 5۔مرغ بازی کرنا، 6۔تہبند کے بغیر حمام میں جانا، 7۔ناپ تول میں کمی کرنا۔یہ سب قومِ لوط کے افعال ہیں، ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جو اچھے کام کرے، 8۔اور ان کا سب سے بڑا گناہ عورت کا عورت سے اور مرد کا مرد سے لواطت(یعنی بدفعلی) کرنا تھا۔جب انہوں نے حیا کی چادر سَروں سے اُتار پھینکی اور اللہ پاک کی نافرمانیوں پر دلیرہو گئے تو اللہ پاک نے لوگوں کو سَروں کے بل اوندھا گرا دیا، ان کے شہروں کو الٹ دیا اور آسمان سے پتھروں کی بارش برسا کر انہیں عذاب دیا۔

سات قسم کے لوگوں پر لعنت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:سات قسم کے لوگوں پر اللہ پاک لعنت فرماتا ہے اور قیامت کے دن ان کی طرف نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا،نیز ان سے کہا جائے گا: جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ تم بھی اس میں داخل ہو جاؤ۔

سات افراد

1۔قومِ لوط کاسا عمل کرنے والا اور 2۔کروانے والا، 3۔ماں اور اس کی بیٹی کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنے والا، 4۔اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنے والا،5۔عورت کے پچھلے مقام میں وطی کرنے والا،6۔مشت زنی کرنے والا، مگر یہ کہ وہ توبہ کرلے،7۔اپنے پڑوسی کو ایذا دینے والا۔

شیطان کا پسندیدہ عمل

حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام نے شیطان ملعون سے پوچھا:تجھے کونسا عمل(یعنی گناہ) زیادہ پسند ہے؟ ابلیس لعین نے کہا: مجھے لواطت سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں اور چونکہ اللہ پاک کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ عمل یہ ہے کہ مرد کے اوپر مرد اور عورت کے اوپر عورت آئے(یعنی بدفعلی کرے) اس لئے مجھے اس سے زیادہ محبوب کوئی عمل نہیں۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا:تو ہلاک ہو جائے، ایسا کیوں ہے؟ اس نے کہا:اس لئے کہ جس کو اس کی عادت پڑ جاتی ہے، ایک گھڑی صبر نہیں آتا، اس لئے اس پر اللہ پاک کا شدید غضب ہوتا ہے اور جس پر اللہ پاک کا شدید غضب ہو جائے، وہ اسے توبہ سے روک دیتا ہے۔

لواطت کی دنیاوی سزا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو قومِ لوط کا سا عمل کرے(یعنی مرد سے بدفعلی) تو کرنے والے اور کروانے والے دونوں کو قتل کر دو۔(نیکیوں کی جزائیں اور گناہوں کی سزائیں)

لواطت کی مذمت میں تین فرامینِ مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم :

1۔بدفعلی کرنے اور کروانے والے دونوں کو قتل کر دو۔

2۔جو قومِ لوط کا سا عمل کرے، اس پر اللہ پاک کی لعنت ہے۔

3۔عورتوں کا آپس میں شرمگاہیں ملانا، ان کا باہمی زنا ہے۔(76 کبیرہ گناہ)

افسوس!آج یہ بُرائیاں ہمارے معاشرے میں بھی پائی جاتی ہیں،خدارا! اللہ پاک کے عذاب سے خود کو ڈرائیے اور برائیوں سے بچئے، ورنہ یاد رکھیے!اللہ پاک کا عذاب بڑا سخت ہے۔

کر لے توبہ ربّ کی رحمت ہے بڑی قبر میں ورنہ سزا ہو گی کڑی


دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام عبدالحمید جوکھیو گوٹھ نزد لکی سیمنٹ DHAسٹی سپر ہائی میں جشنِ عیدِ میلادالنبیﷺکےسلسلے میں اجتماعِ میلاد کاانعقاد کیاگیاجس میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی محمدامین عطاری کی آمد کا سلسلہ ہوا۔

رکنِ شوریٰ نے اس موقع پر سنتوں بھرا بیان کرتےہوئے کراچی ریجن اطراف گوٹھوں اور لکی سیمنٹ ملز سے آنے والے عاشقان رسول کو یکم نومبر2021ء  7دن رہائشی فیضان نماز کورس کرنے اور21نومبر2021ءکوایک ماہ ،12دن مدنی قافلے میں سفر کرنے کی ترغیب دلائی نیز اپنے بچوں کو رہائشی مدرسۃ المدینہ صحرائے مدینہ میں داخلہ کروانے کا ذہن دیا جس پر وہاں موجوداسلامی بھائیوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔بعدازاں شعبہ اوراد عطاریہ کے ذمہ داران نے اسلامی بھائیوں کواستخارہ و تعویذات عطاریہ بھی پیش کئے۔(کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)