دعوت اسلامی  کے تحت یوکے برمنگھم میں شعبہ دار المدینہ کا مدنی مشورہ ہواجس میں دارالمدینہ یوکے برمنگھم کابینہ کے اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

نگران ریجن برمنگھم یوکے سید فضیل رضا عطاری نے شعبے کے تعلیمی و انتظامی کارکردگی کا جائزہ لیا اور ان میں مزید بہتری لانے کے حوالے سے گفتگو کی۔ 


جشن ولادت مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے موقع پر دعوت اسلامی یوکے کے زیر اہتمام M6موٹروے پر موجود ایک عمارت میں آویزاں اسکرین پر آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادت کے پیغام کو عام کیا جارہا ہے۔

اس موٹروے سے گزرنے والے ہزاروں مسافر یہ پیغام ملاحظہ کرسکیں گے۔


دعوتِ اسلامی کےشعبہ رابطہ بالعلماءکے ذمہ داران نے ڈیرہ غازی خان میں سینئر مدرس جامعہ گلزار ِمدینہ مولانا مفتی محمد آفاق قادری سے ملاقات کی۔

نگرانِ شعبہ رابطہ بالعلماء مولانا افضل عطاری مدنی اور رکنِ ریجن سیّد عمار سلیم عطاری مدنی نے انہیں دعوتِ اسلامی کی دینی وفلاحی سرگرمیوں کے بارے میں بتاتے ہوئے اصلاحِ اعمال کورس کرنےکاذہن دیا جس پر انہوں نےاظہارمسرت کیا۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ بالعلماء، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


پچھلے دنوں دعوتِ اسلامی کےتحت پاکستان سطح کے ذمہ دار شعبہ رابطہ بالعلماء مولانا حافظ محمد افضل عطاری مدنی نے صدرِ تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان جنوبی پنجاب مولانا محمد خان باروی صاحب سے ملاقات کی۔

اس دوران نگرانِ شعبہ نے انہیں دعوتِ اسلامی کے مختلف شعبہ جات کا تعارف پیش کرتے ہوئے دعوتِ اسلامی کی دینی وفلاحی خدمات کے حوالے سے بریفنگ دی جس پر انہوں نے دعوتِ اسلامی کی کاوشوں کوسراہا۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ بالعلماء ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


دعوتِ اسلامی کے شعبہ رابطہ بالعلماءکے ذمہ دار مولانا حافظ محمد افضل عطاری مدنی اور رکن ِریجن نے دیگر ذمہ داراسلامی بھائیوں کے ہمراہ کوٹ مبارک ڈیرہ غازی خان میں قائم عاشقانِ رسول کےمدرسہ وجامعہ محمودیہ سعیدالعلوم میں حاضری دی۔

اس موقع پرذمہ داران نے مہتمم ومنتظم مولانا شریف رضوی صاحب سے ملاقات کی اور انہیں دعوتِ اسلامی کےمختلف شعبہ جات کے حوالےسے بتایا جس پر انہوں نےاپنے مدرسے کےطلبۂ کرام کو اصلاح اعمال کورس کروانے کی نیت کی۔

واضح رہے ربیع الاول کے بعد رکنِ ریجن ذمہ داریہ کورس بذاتِ خود کروائیں گے۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ بالعلماء ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


رابطہ بالعلماءدعوتِ اسلامی کے تحت گزشتہ دنوں تاج الفقہاء محامد العلماء مفتیِ اعظم سندھ حضرت علامہ مفتی احمد میاں برکاتی اور ان کےصاحبزادےجواد رضا برکاتی الشامی نے مدنی مرکزفیضانِ مدینہ حیدرآباد کا دورہ کیا جہاں انہوں نے دعوتِ اسلامی کے شعبے دارالافتاء اہلسنت  اورمکتبۃالمدینہ سمیت دیگر شعبہ جات کا وزٹ کیا۔

اس موقع پر مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی ایازرضا عطاری ،نگرانِ زون سہیل رضا عطاری،حیدرآباد ریجن ذمہ دار شعبہ رابطہ بالعلماء محب عطاری مدنی،حیدرآباد زون ذمہ دار عاشق حسین عطاری،حیدرآبادکابینہ ذمہ دار عتیق الرحمن عطاری مدنی اور نعمان عطاری مدنی بھی موجود تھے۔

رکنِ شوریٰ نے انہیں دعوتِ اسلامی کے مختلف شعبہ جات کاتعارف پیش کرتے ہوئے مکتبۃالمدینہ کےکُتُب ورسائل تحفے میں پیش کی۔ بعدازاں انہوں نےدعوتِ اسلامی کی دینی وفلاحی خدمات کو خوب سراہتے ہوئے اپنی دعاؤں سے نوازا۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ بالعلماء ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی سیرت تکریم انسانیت کا مکمل درس تھی۔ایک دن آپ نے چند لوگوں کو دیکھا جو جذام کے مرض میں مبتلا تھے اور لوگ انہیں دھتکار رہے تھے، آپ انہیں اپنے گھر لے گئے اور ان کا خیال رکھا۔ امام زین العابدین کا آستانہ غریبوں، یتیموں اور بے کسوں کے لئے پناہ گاہ تھا جسے دنیا دھتکارتی اسے امام زین العابدین سینے سے لگا لیتے ۔

آپ رضی اللہ عنہ کا نام و نسب:

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ 12 اماموں میں چوتھے امام ہیں۔ آپ کا اسم گرامی :علی بن حسین رضی اللہ عنہما ہے۔آپ کی کنیت: ابو محمد،ابو الحسن اور ابوبکر ہے۔

حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہما کا لقب سجّاد اور زین العابدین ہے اور آپ نے اسی لقب کے ساتھ شہرت پائی ہے۔آپ کی والدہ ماجدہ طیبہ طاہرہ عابدہ کا اسمِ گرامی شہر بانو ہے۔

ولادتِ باسعادت:

امام عساکر نے یعقوب بن سفیان فسوی سے نقل کیا ہے کہ علی بن حسین 33 ہجری میں پیدا ہوئے، لیکن [سیر اَعلام النبلا، 386/4] میں علامہ موصوف نے یہ لکھا ہے کہ (شاید) ان کی پیدائش38 ہجری میں ہوئی ہے، علامہ ابوالحجاج جمال الدین یوسف مزّی نے بھی [تہذیب الکمال، 402/20] یعقوب بن سفیان سے سن ولادت33 ہجری نقل کیا ہے اور یہی راجح ہے۔

زین العابد ین کہنے کی وجہ تسمیہ:

آپ کی شخصیت اسمِ گرامی کے بجائے لقب کے ساتھ زیادہ معروف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ بہت بڑے عابد و زاہد تھے۔ امام ابنِ کثیر فرماتے ہے کہ کَانَ یُصَلِّی فی کُلِّ یومٍ و لیلۃٍ اَلْفَ رَکْعَۃٍ آپ ایک دن اور رات میں ہزار رکعت نماز(نفل) پڑھا کرتے تھے۔آپ کا یہ معمول آخری وقت تک رہا۔ (تاریخ ابن کثیر ج12،ص482، مطبوعہ دارالھجر)

شواہد النبوۃ میں ہے کہ آپ ”زین العابدین“ سے اس لئے مشہور ہوئے کہ آپ ایک رات نمازِ تہجد میں مشغول تھے کہ شیطان ایک سانپ کی شکل میں نمودار ہواتاکہ اس ڈراؤنی شکل سے آپ کو عبادت سے باز رکھ کر عیش و نشاط میں مشغول کردے آپ نے اس کی طرف توجہ نہ فرمائی یہاں تک کہ سانپ نے آپ کے پاؤں کا انگوٹھا اپنے منہ میں ڈال لیا لیکن آپ پھر بھی اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے۔ سانپ نے آپ کے انگوٹھے کو اس سختی سے کاٹا کہ آپ کو درد ہوا آپ نے پھر بھی سانپ کی طرف توجہ نہ کی۔آپ پر اللہ پاک نے ظاہر فرمادیا تھا کہ وہ شیطان ہے۔آپ نےاُسے بُری طرح زَدُ و کوب کیا اور پھر فرمایا:”اے ذلیل و خوار کمینہ یہاں سے دور ہوجا“۔جب سانپ چلا گیا تو آپ کھڑے ہوئے تاکہ درد میں اِفاقہ ہوجائے۔پھر آپ کو ایک آواز سنائی دی لیکن بولنے والا نظر نہیں آیا،کہنے والے نے کہا:”آپ زین العابدین ہیں، آپ زین العابدین ہیں، آپ زین العابدین ہیں“۔ (شواہد النبوت ص 421)

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ اور واقعہ کربلا:

حافظ ابنِ کثیر لکھتے ہیں کہ ایک آدمی نے امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کو کہا کہ آپ ہر وقت غم ناک ہی رہتے ہیں اور آپ کے آنسو کبھی خشک نہیں ہوتے، امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے اس آدمی کو جواب دیا حضرتِ یعقوب علیہ السلام کے بیٹے حضرت ِ یوسف علیہ السلام گم ہوئے تھے( فوت نہیں ہوئے تھے) حضر تِ یعقوب علیہ السلام کی آنکھیں ان کے غم و فِراق میں رو رو کر سفید ہوگئیں میں نے تو اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے گھر کے 18 افراد دشمن کے ہاتھوں ذبح ہوتے ہوئے دیکھے ہیں میں کیسے غم ناک نہ ہوں اور کیسے نہ روؤں تم دیکھتے نہیں ان کے غم کی وجہ سے میرے دل کے ٹکڑے ہورہے ہیں۔(البدایہ والنہایہ ص 107/ ج 09)

سید علی ہجویری داتا گنج بخش لکھتے ہیں کہ جب میدانِ کربلا میں حسین ابن علی کوفرزندوں سمیت شہید کردیا گیا تو سوائے امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے مستورات کا کوئی پُرسانِ حال نہیں تھا، وہ بھی بیمار تھے حضرت حسین رضی اللہ عنہ ان کو علی اصغر کہا کرتے تھے، جب مستورات کو اونٹوں پر برہنہ (ننگے) سر دمشق میں لے کر آئے تاکہ یزید بن معاویہ کے سامنے پیش کریں تو اسی اثنا میں کسی نے کہا اے علی (زین العابدین) اور اہل بیت تمہاری صبح کیسی ہے، امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہماری صبح ہماری قوم کے ہاتھوں میں ایسی ہے جیسے قومِ موسیٰ کی صبح فرعون اور اس کی قوم کے ہاتھوں تھی، ان کے مردوں کو قتل کیا جاتا تھا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھا جاتا تھا، ہمارے لیے صبح و شام کی تفریق ختم ہوچکی ہے، یہ ہماری مصیبت کی حقیقت ہے۔(کشف المحجوب ص78)

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کا اخلاق:

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے اخلاقِ حسنہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلقِ عظیم کی چمک دمک تھی یہی وجہ تھی کہ دشمن نے بھی امام زین العابدین کے بلند اخلاق کا اعتراف کیا ہے اور امام زین العابدین محاسنِ اخلاق کے تمام زاویوں اور گوشوں کو لپیٹے ہوئے تھے یعنی علم و عفو، رحم و کرم، جودو سخا، مہمان نوازی، عدم تشدد، صبر و قناعت ، نرم گفتاری، غم خواری، تواضع و انکساری کے تمام مراتب پر امام زین العابدین رضی اللہ عنہ فائز تھے چنانچہ سفیان بن عیینہ کا بیان ہے کہ ایک شخص امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ فلاں شخص آپ کی غیبت کررہا ہے، امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے سن کر فرمایا کہ تم میرے ساتھ اس کے پاس چلو وہ بایں وجہ آپ کے ساتھ چلا کہ آپ اس کو ناراض ہوں گے لیکن امام زین العابدین رضی اللہ عنہ جب اس کے پاس پہنچے تو امام نے فرمایا: اے شخص !جو کچھ تم نے میرے متعلق کہا ہے اگر یہ سچ ہے تو خدا تعالیٰ مجھے بخش دے اگر تم نے غلط کہا ہے تو خدا تعالیٰ تجھے بخش دے پھر آ پ واپس تشریف لے آئے، (نورالابصار 245)

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی سخاوت:

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ بہت بڑے فیاض اور سخی تھے چونکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ہیں لہذا آپ سخاوت میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے نمونہ تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوقات سے بڑھ کر زیادہ سخی تھے، دوست پر بھی سخاوت تھی اور دشمن پر بھی چنانچہ صفوان بن امیہ جب مقام جعرانہ میں حاضر دربار ہوا تو آپ صلی ا للہ علیہ وسلم نے اس کو اتنی تعداد میں اونٹوں اور بکریوں کا ریوڑ عطا فرمادیا کہ دو پہاڑیوں کے درمیان کا میدان بھر گیا، صفوان مکہ جا کر بلند آواز سے اپنی قوم(قریش) سے کہنے لگا اے لوگو دامنِ اسلام میں آجاؤ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر زیادہ مال عطا فرماتے ہیں کہ فقیری کا کوئی اندیشہ باقی نہیں رہتا، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سائل کے جواب میں خواہ وہ کتنی ہی بڑی چیز کا سوال کیوں نہ کر ے لَا( نہیں) کا لفظ نہیں فرمایا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت دوست اور دشمن دونوں پر تھی اسی طر ح آپ کے بیٹے امام زین العابدین کی سخاوت بھی دوست اور دشمن دونوں کے لیے تھی جیسے رسول پاک صلی ا للہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کسی سائل کے جواب میں لَا( نہیں) نہیں فرمایا، اسی طرح امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی تمام عمر میں کسی سائل کے جواب میں کلمہ لَا ( نہیں) کا استعمال نہیں فرمایا۔

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے ارشادات:

ویسے تو امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے کئی ارشادات ہیں جن میں سے چند درجِ ذیل ہیں:

*آپ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے اے خدا! میں اس سے تمہاری پناہ مانگتا ہوں کہ لوگوں کی نظر میں میرا ظاہر اچھا ہوجائے او رباطن بگڑ جائے۔

*بعض لوگ خوف کی وجہ سے عبادت کرتے ہیں یہ گویا کہ غلاموں کی عبادت ہے، بعض جنت کی طمع میں عبادت کرتے ہیں یہ گویا کہ سودا گروں کی عبادت ہے کچھ ایسے بھی ہیں جو محض خدا کے لیے عبادت کرتے ہیں یہ آزادوں کی عبادت ہے۔

*مومن وہ ہے جو اپنا علم اپنی عقل میں سمو چکا ہے، سوال کرتا ہے کہ سیکھے، خاموش رہتا ہے تاکہ سوچے سمجھے اور عمل کرے۔

*وہ شخص کیسے تمہارا دوست ہوسکتا ہے جب تم اس کی کوئی چیز استعمال کرلو تو اسے خوشی نہ ہو۔

وفات و مزار:

حضرت سیِّدُنا امام زینُ العابدین علیہ رحمۃ اللہ المُبِین نے14 ربیع الاوّل 94 سن ہجری کو 56سال کی عمرمیں اس دارِ فانی سے کوچ فرمایا، مزار مبارک جنَّۃُ البقیع میں ہے۔(سیر اعلام النبلاء،ج5،ص341 ملتقطاً)

شہادت کے وقت امام زین العابدین58سال کے تھے ۔آپ کے فرزند امام محمدباقرنے آپ کی نمازجنازہ پڑھائی اورآپ مدینہ منورہ میں اپنے عم بزرگوار حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور دادی خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے پہلو میں جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔(البدایہ والنہایہ113/ ج09، نورالابصار249)

از: مولانا زید عطاری مدنی

اسکالر المدینۃ العلمیہ ( اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی )


دنیا میں سب سے پہلے بدفعلی شیطان نے کروائی، وہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں خوبصورت لڑکے کی شکل میں آیا،ان لوگوں کو اپنی جانب مائل کیا کہ گندہ کام کروانے میں کامیاب ہو گیا، لوگ اس بُرے کام کے عادی ہو گئے، اس طرح کے وہ عورتوں کو چھوڑ کر مَردوں سے اپنی خواہش پوری کرنے لگے۔حضرت لوط علیہ السلام نے ان لوگوں کو اس بُرے کام سے منع کرتے ہوئے جو فرمایا وہ قرآنِ کریم میں ہے:ترجمۂ کنزالایمان:کیا وہ بے حیائی کرتے ہو،جو تم سے پہلے جہاں میں کسی نے نہ کی تو تم مَردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو،عورتیں چھوڑ کر، بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے۔(پ8، الاعراف: 80- 81)حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے یہ سن کر ان کا کہنا سننے کی بجائے جو جواب دیا اس کا ذکر قرآنِ کریم میں ہے:ترجمۂ کنزالایمان: اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا، مگر یہی کہنا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو، یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔(پ8، الاعراف: 82)اس سے معلوم ہوا !اغلام بازی یعنی بدفعلی حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی ایجاد ہے،اسے ”لواطت“کہتے ہیں، یہ بھی معلوم ہوا!لڑکوں سے بدفعلی کرنا حرامِ قطعی ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔حدیثِ پاک میں ہے:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تین بار ارشاد فرمایا:اس شخص پر اللہ پاک کی لعنت ہو، جو قومِ لوط والا عمل کرے۔

قومِ لوط پر عذاب

جب قومِ لوط کی سرکشی اور بد فعلی قابلِ ہدایت نہ رہی تو ان پر اللہ پاک کا عذاب آگیا،حضرت جبرائیل علیہ السلام کچھ فرشتوں کے ساتھ خوبصورت لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے، ان مہمانوں کے حسن و جمال اور اپنی قوم کی بد فعلی کے خیال سے حضرت لوط علیہ السلام فکر مند ہوئے، کچھ دیر بعد ان کی قوم کے بد فعلوں نے ان کے گھر کو گھیر لیا اور مہمانوں کے ساتھ بدفعلی کے ارادے سے دیوار پر چڑھنے لگے،حضرت لوط علیہ السلام نے ان کو سمجھایا، مگر وہ باز نہ آئے، آپ علیہ السلام کو دُکھی دیکھ کر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا:آپ فکر نہ کریں، ہم فرشتے ہیں اور ان بدکاروں پر اللہ پاک کا عذاب لے کر اُترے ہیں، آپ اپنے اہل و عیال اور مؤمنین کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے پہلے اس بستی سے نکل جائیں اور کوئی شخص پیچھے مُڑ کر نہ دیکھے،ورنہ وہ بھی عذاب میں گرفتار ہو جائے گا، چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام نے ایسا ہی کیا، پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اُس شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پروں پر اُٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئےاور اُن بستیوں کو زمین پر اُلٹ دیا،پھر ان پر پتھروں کا مینہ برسااور ان کی لاشوں کے پرخچے اُڑ گئے۔ جب یہ شہر اُلٹ پلٹ ہو رہا تھا حضرت لوط علیہ السلام کی ایک بیوی ”واعلہ“ جو منافقہ تھی، قوم کے بدکاروں سے محبت رکھتی تھی، اس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا اور کہا: ہائے رے میری قوم! اس پر اللہ پاک کے عذاب کا پتھر گرا اور وہ بھی ہلاک ہوگئی، بدکار قوم پر برسائے جانے والے ہر پتھر پر اس شخص کا نام لکھا تھا، جواس پتھر سے ہلاک ہوا۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں سب سے ناپسندیدہ گناہ

حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک مرتبہ شیطان سے پوچھا: اللہ پاک کو سب سے بڑھ کر کون سا گناہ ناپسند ہے؟ ابلیس بولا: جب مرد مرد سے بدفعلی کرے اور عورت عورت سے خواہش پوری کرے۔(تفسیرروح البیان، 3/ 197)

اَمرد بھی جہنم کا حق دار!

اَمرد سے دوستیاں کرنے والے شیطان کے وار سے خبردار رہیں، اگر اَمرد رَضامندی سے یا پیسوں یا نوکری وغیرہ کے لالچ میں بدفعلی کروائے گا تو وہ بھی گنہگار اور جہنم کا حق دار ہے۔حضرت وکیع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:جو شخص قومِ لوط کی طرح بد فعلی کرے گا اور توبہ کئے بغیر مرے گا،تو تد فین کے بعد اسے قومِ لوط کے قبرستان میں منتقل کر دیا جائے گا اور اس کا حشر قومِ لوط کے ساتھ ہوگا۔(تاریخ ابنِ عساکر، 45/ 406)

لواطت کاعمل عقلی اور طبّی دونوں اعتبار سے انتہائی خبیث ہے،عقلی اعتبار سے اس طرح کہ یہ عمل فطرت کے خلاف ہے۔ لواطت کرنے والا اپنی فطرت کے خلاف چل رہا ہے اور فطرت کے خلاف چلنا عقلی اعتبار سے انتہائی قبیح ہے۔دوسری خباثت یہ ہے کہ اس کی وجہ سے نسلِ انسانی میں اضافہ رُک جاتا ہے۔تیسری خباثت یہ ہے کہ اس عمل کی وجہ سے انسانیت ختم ہو جاتی ہے۔ چوتھی خباثت یہ ہے کہ لواطت کا عمل ذلت ورُسوائی اور آپس میں عداوت و نفرت پیدا ہونے کا ایک سبب ہے،نیزعقلِ سلیم رکھنے والے کے نزدیک وہ عمل ضرورخبیث ہے جو ذلت و رسوائی اور نفرت پیدا ہونے کا سبب بنے۔یہ بدکاری تمام جُرموں سے بڑا جرم ہے، اس جُرم کی وجہ سے قومِ لوط پر عذاب آیا جو دوسری عذاب پانے والی قوموں پر نہ آیا۔

چھپ کے لوگوں سے کئے جس سے گناہ وہ خبردار ہے کیا ہونا ہے

کام زِنداں کے کئے اور ہمیں شوقِ گلزار ہے کیا ہونا ہے

ارے او مجرم و بے پرواہ! دیکھ سرپہ تلوار ہے کیا ہونا ہے

ان کو رحم آئے تو آئے ورنہ وہ کڑی مار ہے کیا ہونا ہے

(حدائق بخشش)


اللہ پاک نے بنی نوعِ انسان کی ہدایت و راہ نمائی کے لئے بہت سے نبیوں کو مبعوث فرمایا،جنہوں نے اپنی قوموں کو واحد و یکتا اللہ پاک پر ایمان لانے کی دعوت دی،  ان میں سے جن کو اللہ پاک نے توفیق دی، انہوں نے دعوتِ اسلام کو قبول کیا اور جن قوموں نے اللہ پاک پر ایمان لانے سے انکار کیا، وہ عذابِ نار کی مستحق ہوئیں۔انہی میں سے ایک قوم حضرت لوط علیہ السلام کی قوم ہے، آپ نے اپنی قوم کو دینِ حق کی دعوت دی اور فعلِ بد سے روکا،قومِ لوط کی سب سے بڑی خباثت لڑکوں سے بدفعلی کرنا تھا، اسی پر حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا:کیا تم ایسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہوجو سارے جہان میں تم سے پہلے کسی نے نہیں کی، تم عورتوں کو چھوڑ کر شہوت پوری کرنے کے لئے مَردوں کے پاس جاتے ہو۔(تفسیرصراط الجنان، پ8،الاعراف:80)جب حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو اصلاحی وعظ سنایا تو اس پر ان کی قوم نے نہایت بے باکی اور بے حیائی کے ساتھ ان کی نافرمانی کرتے ہوئے جو کہا، اس کو قرآنِ پاک کی زبان میں پڑھئے:ترجمۂ کنزالایمان:اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا، مگر یہی کہنا تھا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو، یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔(پ 8، الاعراف:82)جب حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی نافرمانیاں حد سے بڑھ گئیں اور وہ اپنی بدفعلیوں سے باز نہ آئے تو حضرت لوط علیہ السلام کی غمگین و رنجیدہ ہوگئے تو اللہ پاک کے حکم سے حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کے ساتھ زمین پر تشریف لائے اور حضرت لوط علیہ السلام سے فرمایا:اے اللہ پاک کے نبی!آپ بالکل فکر نہ کریں، ہم لوگ اللہ پاک کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں اور ان بدکاروں پر عذاب لے کر اُترے ہیں،لہٰذا آپ صبح ہونے سے قبل اپنے مؤمنین اور اہل و عیال کو لے کر اس بستی سے دور چلے جائیں اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا۔(عجائب القرآن، ص 111ملخصاً)آپ کے بستی سے جانے کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پانچوں بستیوں کو اپنے پَروں پر اُٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے، کچھ اُوپر جا کر ان بستیوں کو اُلٹ دیا،یہ آبادیاں گر کر چکنا چور ہو گئیں۔پھر پتھروں کی برسات ہوئی جس سے قومِ لوط کے تمام لوگ مر گئے اور ان کی لاشیں ٹوٹ پھوٹ گئیں۔قومِ لوط کی نافرمانیوں کے سبب ان کی بستیاں اُلٹ پَلٹ کر دی گئیں اور مجرموں پر پتھر کی برسات کر کے انہیں نیست و نابود کر دیا گیا۔


اللہ پاک کے محبوب،  دانائے غیوب منزہ عن العیوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ تقرب نشان ہے:بے شک بروزِ قیامت لوگوں میں سے قریب تر وہ ہوگا، جو مجھ پر سب سے زیادہ دُرود بھیجے گا۔

حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں، آپ علیہ السلام ”سدوم“کے نبی تھے اور آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم خلیلُ اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام کے ساتھ ہجرت کر کے ملکِ شام میں آئے تھے اور حضرت ابراہیم خلیلُ اللہ علیہ السلام کی بہت خدمت کی تھی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا سے آپ نبی بنائے گئے۔سبحان اللہ

دنیا میں سب سے پہلے بد فعلی شیطان نے کروائی، وہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں اَمردِحسین یعنی خوبصورت لڑکے کی شکل میں آیا اور ان لوگوں کو بُرائی کی جانب مائل کیا اور گندہ کام کروانے پر مائل ہوگیا۔جب قومِ لوط کی سرکشی اور خصلتِ بد فعلی قابلِ ہدایت نہ رہی تو اللہ پاک کا عذاب آ گیا،چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام چند فرشتوں کے ہمراہ اَمردِ حسین یعنی خوبصورت لڑکوں کی صورت میں مہمان بن کر حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے، ان مہمانوں کے حُسن و جمال اور قوم کی بدکاری کی خصلت کے خیال سے حضرت لوط علیہ السلام نہایت مُسوْس یعنی فکرمند ہوئے، تھوڑی دیر بعد قوم کے بدفعلوں نے حضرت لوط علیہ السلام کے مکانِ عالی شان کا محاصرہ کر لیا اور ان مہمانون کے ساتھ بد فعلی کے بُرے ارادے سے دیوار پر چڑنے لگے، حضرت لوط علیہ السلام نے نہایت دل سوزی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھایا، مگر وہ اپنے بَد اِرادے سے باز نہ آئے، آپ علیہ السلام کو متفکر ورنجیدہ دیکھ کر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا:یا نبیَّ اللہ!آپ غمگین نہ ہوں، ہم فرشتے ہیں اور ان بدکاروں پر اللہ پاک کا عذاب لے کر اُترے ہیں،آپ مؤمنین اور اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے پہلے پہلے اس بستی سے دُور نکل جائیے اور خبردار! کوئی شخص پیچھے مُڑ کر بستی کی طرف نہ دیکھے، ورنہ وہ بھی عذاب میں گرفتار ہو جائے گا۔چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام اپنے گھر والوں اور مؤمنین کو ہمراہ لے کر بستی سے باہر تشریف لے گئے،پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام اس شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پروں پر اُٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے اور کچھ اُوپر جاکر ان بستیوں کو زمین پر اُلٹ دیا،پھران پر اس زور سے پتھروں کا مینہ برسا کہ قومِ لوط کی لاشوں کےبھی پَرخچے اُڑ گئے، عین اس وقت جب کہ یہ شہر اُلٹ پلٹ ہو رہا تھا، حضرت لوط علیہ السلام کی ایک بیوی جس کا نام ”واعلہ“تھا،جو درحقیقت منافقہ تھی اور قوم کے بدکاروں سے محبت رکھتی تھی، اُس نے پیچھے مُڑ کر دیکھ لیا اور اُس کے مُنہ سے نکلا:ہائے رے میری قوم!یہ کہہ کر کھڑی ہو گئی، تو عذابِ الہٰی کا ایک پتھر اسے بھی پڑا اور وہ ہلاک ہوگئی۔بدکار قوم پر برسائے جانے والے ہر پتھر پر اُس شخص کا نام لکھا تھا، جو اس پتھر سے ہلاک ہوا۔

آنکھوں میں سرِ حشر نہ بھر جائے کہیں آگ

آنکھوں پہ میرے بھائی لگا کو قفلِ مدینہ

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:آخری زمانے میں کچھ لوگ لُوطیَّہ کہلائیں گے اور یہ 3 طرح کے ہوں گے:

1۔وہ جو بشہوت صرف اَمر دوں کی صورتیں دیکھیں گے اوران سے بات چیت کریں گے۔

2۔اور جو ان سے ہاتھ ملائیں گے اور گلے بھی ملیں گے۔

3۔جو اُن کے ساتھ بدفعلی کریں گے، ان سبھی پر اللہ پاک کی لعنت ہے، مگر وہ جو توبہ کر لیں گے۔(تو اللہ پاک ان کی توبہ قبول فرمائے گا اور وہ گناہوں سے بچے رہیں گے۔)


حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔حضرت لوط علیہ السلام کو اہلِ سروم کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا تھا اور آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا پر نبی بنائے گے۔(تفسیر صراط الجنان، سورۃالاعراف، آیت 80)

1: بد فعلی

شیطان حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں ایک خوبصورت نوجوان کی شکل میں داخل ہوا اور ان لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے لگا یہاں تک کہ ان کو اپنی طرف مائل کرنے اور گندہ کام کر وانے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ لوگ اس کے عادی ہو گئے اور نوبت یہاں تک آئی کہ وہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کر نے لگے۔( قوم لوط کی تباہ کاریاں،ص2)

2: اپنے نبی کی بے ادبی

حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کے ان لوگوں کو اس عمل سے منع کیا جو سورۂ اعراف کی آیت نمبر 81،80 میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے: ترجمہ ٔکنز الایمان:”کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی تم تو مردوں کے پاس شہوت سے آتے ہو عورتیں چھوڑ کر بلکہ تم حد سے گزر گئے۔“بے حیا قوم نے شرمندہ ہونے کی بجائے جو بے باکانہ جواب دیا اس کا ذکر سورۃ الاعراف،آیت نمبر 82 میں کچھ یوں ہے:ترجمۂ کنزالایمان: اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا مگر یہی کہنا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ تو پاکیزگی چاہیے ہیں۔( قوم لوط کی تباہ کاریاں، ص3،2)اس آیتِ مبارَکہ میں ان لوگوں کی اپنے نبی علیہ السلام کی بے ادبی بیان کی گئی ان پر لازم تھا کہ اپنے نبی علیہ السلام کی اطاعت کرتے اور اس بُرے کام سے باز آ جاتے مگر یہ اطاعت کرنے کی بجائےاپنے نبی علیہ السلام کو بستی سے نکالنے کے در پے ہو گئے۔

3: نبی کے مہمانوں کی بے حرمتی

حضرت جبریل علیہ السلام چند فرشتوں کے ساتھ خوبصورت لڑکوں کی صورت میں حضرت لوط علیہ السلام کے پاس تشریف لائے۔ آپ (یعنی حضرت لوط علیہ السلام) ان مہمانوں کے حسن و جمال اور قوم کی بد کاری کے خیال سے نہایت فکر مند تھے کہ کچھ ہی دیر میں قوم کے بدکاروں نے آپ کے مکانِ عالی شان کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور اس بُرے ارادے سے آپ کے گھر مبارک کی دیوار پرچڑھنے لگے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے نہایت دل سوزی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھایا مگر وہ اپنے اس بُرے ارادے سے باز نہیں آئے۔اس پر آپ علیہ السلام غمگین ہوئے تو حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا: اے اللہ پاک کے نبی! رنجیدہ نہ ہوں! ہم اللہ پاک کے فرشتے ہیں اور ان پر اللہ پاک کا عذاب لے کر آئے ہیں۔ (قوم لوط کی تباہ کاریاں،ص 4)

نا فرمانیوں کا انجام

ان کی نا فرمانیوں کا انجام کچھ اس طرح سے ہوا کہ جب حضرت جبریل علیہ السلام نے حضرت لوط علیہ السلام سے عرض کی:آپ صبح سے پہلے اپنے اہل و عیال اور مومنین کو ساتھ لے کر بستی سے نکل جائیے اور خبر دار! کوئی شخص پیچھے مڑ کر بستی کی طرف نہ دیکھےورنہ وہ بھی عذاب میں مبتلا ہو جائے گا۔ چونکہ حضرت لوط علیہ السلام اپنے اہل وعیال اور مومنین کو ساتھ لے کر بستی سے جا چکے تھے تو اب حضرت جبریل علیہ السلام شہر کی پانچوں بستیوں کو زمین سے لے کر آسمان کی طرف بلند ہوئے اور اوپر (بلندی) پر جا کر ان بستیوں کو زمین پر اُلٹ دیا،پھر قومِ لوط پر پتھروں کی ایسی بارش ہوئی کہ ان کی لاشوں کے بھی پَرَخچے اُڑ گے۔( قوم لوط کی تباہ کاریاں،ص 4)


اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں کئی انبیائے کرام اور ان کی قوموں کا ذکر کیا ہے،  جس میں ہمارے لئے عبرت اور درس بھی ہے، حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں،یہ لوگ حضرت لوط علیہ السلام عراق کے شہر بابل کے رہنے والے تھے، اللہ پاک نے آپ کو نبوت عطا فرما کر سدوم والوں کی ہدایت کے لئے بھیجا،سدوم شہر کی بستیاں نہایت آباد اور سرسبز و شاداب تھیں، جس کی وجہ سے مسافر اکثر اس بستی میں مہمان بن کر آتے تھے، بستی والے مہمانوں کی آمد و رفت سے بڑے تنگ تھے، اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شیطان نے بستی والوں کو گمراہ کیا کہ جو بھی مہمان آئے، اُس کے ساتھ بدفعلی کرو تو سب سے پہلے شیطان خود ایک خوبصورت لڑکا بن کر اس بستی میں آ یا اور خوب بدفعلی کروائی، لوگ اس کے بہت زیادہ عادی بن چکے تھے کہ عورتوں کو چھوڑ کر مَردوں سے شہوت پوری کرنے لگے۔قوم کی ان بُری عادات سے حضرت لوط علیہ السلام نے اس طرح بیان فرمایا، سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 80 اور 81 میں اللہ پاک نے بیان کیا، حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا:ترجمۂ کنزالایمان:”کیا وہ بے حیائی کرتے ہو، جو تم سے پہلے جہاں میں کسی نے نہ کی تو تم مَردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو، عورتیں چھوڑ کر، بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے۔“قوم کی بدفعلی سے حضرت لوط علیہ السلام بہت فکرمند ہوگئے،حضرت لوط علیہ السلام کے پاس وہ فرشتے آئے، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے،پھر یہ فرشتے مہمان بن کر آپ علیہ السلام کے پاس پہنچے، جو حسین لڑکوں کی شکل میں تھے، تھوڑی دیر بعد قوم کے بدفعلوں نے آپ علیہ السلام کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور بدفعلی کرنے کے لئے دیوار پر چڑھنے لگے۔حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ علیہ السلام کو پریشان دیکھ کر فرمایا:اے اللہ پاک کے نبی! آپ بالکل فکر نہ کریں،ہم اللہ پاک کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں،جو ان بدکاروں پر عذاب لے کر اُترے ہیں،لہٰذا آپ مؤمنین اور تمام اہل و عیال کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے پہلے ہی اس بستی سے دور نکل جائیں اور خبردار! کوئی پیچھے مُڑ کر اس بستی کی طرف نہ دیکھے، ورنہ وہ بھی اس عذاب میں گرفتار ہو جائے گا، چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا اور بستی والے عذاب میں مبتلا ہوگئے،اللہ پاک نے ان پر پتھروں کی بارش برسائی، لیکن انہوں نے پھر بھی توبہ نہ کی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بستی کو اپنے پروں پر اُٹھایا اور تھوڑی بلندی پر جا کر بستی کو اُلٹ دیا،جس سے بستی زمین پر بکھر گئی، پھر اتنی تیز پتھروں کی بارش ہوئی کہ بستی کے تمام لوگ مَر گئے اور ان کی لاشیں چور چور ہو گئیں، پتھروں پر مرنے والوں کا نام لکھا گیا تھا، اس طرح یہ قوم سخت عذاب میں مبتلا ہوئی۔اللہ پاک ہمیں پاکیزہ سوچ عطا فرمائے۔آمین