دعوتِ اسلامی کے شعبہ شارٹ کورسز کے زیرِ اہتمام یوکے لندن ریجن میں ذمہ دار اسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ ہوا جس میں ریجن تا ڈویژن سطح ذمہ دار اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

شعبہ شارٹ کورسز کی ریجن ذمہ دار اسلامی بہن نے مدنی مشورے میں شریک اسلامی بہنوں کی کارکردگی کافالواپ کرتے ہوئے تربیت کی اور اسلامی بہنوں کوآئندہ ہونے والے 2کورس”شمائل مصطفی ﷺ“اور”احکام وراثت “ کے نکات سمجھائے نیز ڈویژن سطح پر کروانے کی ترغیب دلائی اجلاس میں شریک اسلامی بہنوں نے ان کورسز کو کروانے کے لیے اپنی اپنی اچھی نیتوں کا اظہار بھی کیا۔


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: فرماتی ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو کبھی بھی کھل کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کا گوشت نظر آئے، بلکہ آپ مسکراتے تھے۔ (بخاری، کتاب لآداب، باب التبسم و الضحک، 125/2،الحدیث 4092)

حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ تبسم(مسکرا نے) والا نہیں دیکھا۔ (شمائل ترمذی، ہنسنے کا بیان، حدیث نمبر 216)

آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اکثر ہنسی تبسم (مسکرانا) ہوتی تھی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دندانِ مبارک اولے کی طرح چمک دار سفید ظاہر ہوتے تھے۔(شمائل ترمذی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی گفتگو کیسی ہوتی، حدیث نمبر 213)

1۔عرش کے مالک سے کمی کا اندیشہ نہ کیجئے

ایک مرتبہ کسی ضرورت مند نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے پاس تو اس وقت کچھ موجود نہیں ہے، تم میرے نام سے خرید لو، جب کچھ آجائے گا تو میں ادا کردوں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! آپ کے پاس جو کچھ تھا، آپ دے چکے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ مقولہ (کہنا)نا گوار گزرا تو ایک انصاری صحابی نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! جس قدر جی چاہے، خرچ کیجئے اور عرش کے مالک سے کمی کا اندیشہ نہ کیجئے، آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو انصاری کا یہ کہنا بہت پسند آیا اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تبسم فرمایا، جس کا اثرچہرۂ انور پر بھی ظاہر ہوتا تھا۔(شمائل ترمذی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اخلاق وعادات، حدیث نمبر 333)

2۔بسم اللہ اولہ و آخرہ پڑھنے کی برکت

ایک شخص بغیر بسم اللہ پڑھے کھانا کھا رہا تھا، جب کھانا کھا چکا اور صرف ایک لقمہ باقی رہ گیا تو اس نے یہ لقمہ اٹھایا اور کہا : بسم اللہ اولہ وآخرہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تبسم کیا اور فرمایا: شیطان اس کے ساتھ کھا رہا تھا، جب اس نے اللہ(پاک)کا نام ذکر کیا تو جو کچھ اس شیطان کے پیٹ میں تھا، اُگل دیا۔(بہار شریعت، ح 16، ص 364)

3۔ اتنا مسکرائے کے مبارک داڑھوں کو دیکھ لیا

حضرت مہیب بن سنان رضی اللہ عنہ کی آنکھ دکھ رہی تھی اور وہ کھجور کھا رہے تھے تو حسن اخلاق کے پیکر صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : تمہاری آنکھ دُکھ رہی ہے اور تم کھجور کھا رہے ہو؟ عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! میں دوسری طرف سے کھا رہا ہوں، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ان کے جواب پر مسکرادیئے، راوی بیان کرتے ہیں:اتنا مسکرائے کہ میں نے آپ کی مبارک داڑھوں کو دیکھ لیا۔(احیاء العلوم، ج 3)

4۔ نماز میں مسکراتے چہرے مبارک کا دیدار

حضرت انس رضی اللہ عنہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بیماری کے دنوں کا واقعہ بیان کرتے ہوئے) فرماتے ہیں:پیر کے روز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرۂ مبارکہ کا پردہ اٹھایا اور صحابہ کرامرضی اللہ عنہم کو صفوں کےاندر نماز میں دیکھ کر مسکرادیئے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ یہ گمان کرتے ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نماز کے لئے تشریف لانا چاہتے ہیں، صف میں پیچھے کی طرف آنے لگے اور خوشی کے مارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہمکی نظریں نماز ہی میں آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے چہرۂ مبارک کی طرف لگ گئیں اور قریب تھا کہ سب حضرات نماز توڑ دیتے، مگر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : نماز مکمل کرو، پھر مکانِ عالی شان میں تشریف لے گئے اور پردہ ڈال دیا۔(فیضان نماز، ص336 بخاری، ج1، ص404، ح 1205)

5۔اللہ پاک کی بندہ نوازی اور شانِ کریمی پر مسکراہٹ

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں یقیناً جانتا ہوں، سب کے بعد جنت میں کون داخل ہو گا اور سب سے آخر میں جہنم سے کون نکلے گا! ایک شخص ایسا ہو گا جسے قیامت کے دن اللہ پاک کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا، اللہ پاک فرشتوں سے فرمائے گا:اس شخص کے صغیرہ گناہ اس پر پیش کئے جائیں اور اس سے کہا جائے گا: تو نے فلاں دن فلاں فلاں کام کیا تھا؟ وہ شخص اقرار کرے گا اور کہے گا: میں اپنے اندر ان کاموں سے انکار کی سکت نہیں پاتا اور وہ ابھی اپنے کبیرہ گناہوں سے ڈر رہا ہو گا کہ ان کا حساب نہ شروع ہو جائے، اس شخص سے کہا جائے گا :جا تجھے ہر گناہ کے بدلے ایک نیکی دی جا تی ہے، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:یہ بیان فرماتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خوشی ہوئی اور چہرۂ اقدس پر سُرور سے تبسم کے آثار نمایاں ہوئے۔(مسلم کتاب الایمان، باب ادنی اہل الجنۃ منزلہ فیھا، ص 119، ح 190)آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کبھی قہقہہ نہیں لگایا، لہٰذا ہمیں بھی کوشش کرنی چاہئے کہ یہ سنت بھی زندہ ہو اور ہم زور زور سے نہ ہنسیں۔فرمانِ مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:قہقہہ شیطان کی طرف سے اور مسکرانا اللہ پاک کی طرف سے ہے۔(المعجم الصغیر، للطبرانی، ج 2، ص104)


دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں یوکے اسکاٹ لینڈ ریجن میں ماہانہ مدنی مشورے کا انعقادہواجس میں کابینہ تا ذیلی سطح تک کی اسلامی بہنوں نے آن لائن اور فیس ٹو فیس شرکت کی۔

ریجن نگران اسلامی بہن نے’’ سستی کے نقصانات ‘‘کے موضوع پر ترغیبی بیان کیااورمدنی مشورے میں شریک اسلامی بہنوں کو مزید اچھے انداز میں 8 دینی کام کرنے کا ذہن دیا نیز دینی کاموں کو مزید بڑھانے اور اس میں بہتری لانے کے حوالے سے نکات فراہم کئے۔ 


دعوتِ اسلامی کےتحت گزشتہ دنوں شعبہ اسلامی بھائیوں کےمدرسۃالمدینہ کے معلمین کا مدنی مشورہ ہوا جس میں نگرانِ کابینہ محمد علی عطاری نے رکن ِزون و ناظمِ اعلیٰ مولانا محمد شعیب رضا عطاری مدنی نے ذمہ داران کی تربیت ورہنمائی کی۔

نگرانِ کابینہ نے دعوتِ اسلامی کے12دینی کاموں کا فالواپ لیتے ہوئے اہم نکات پر گفتگو کی۔اس کے علاوہ ذمہ دار نے چند مدنی پھولوں سے بھی نوازا جن میں سے چند یہ ہے: اپنے آپ میں احساسِ ذمہ داری پیدا کریں ، نگران و ذمہ داران کاآپس میں رابطے میں رہیں، مدرسۃالمدینہ سے فارغ التحصیل حفّاظِ کرام سے رابطہ کر کے ان کو پڑھانے کا ذہن دیں، پولیس ، وکلاء ، تعلیمی اداروں اور سیاست سے متعلقین افراد کو قراٰنِ پاک کی عظمت بتا کر ان کو تعلیم قرآن دیں، ہفتہ وارسنتوں بھرے اجتماع کے اختتام پر اپنے شعبہ اسلامی بھائیوں کے مدرسۃ المدینہ کےبستے(اسٹال) کو مستقل طور پر لگانا اور اس کے علاوہ شعبے و اخلاقیات کے حوالے سے بھی مزید مدنی پھولوں دیئے۔(رپورٹ: حافظ محمد اعظم عطاری کابینہ کارکردگی ذمہ دار شعبہ اسلامی بھائیوں کے مدرسۃ المدینہ ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، فرماتی ہیں :میں نےنبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پورا ہنستے نہ دیکھا، حتی کہ میں آپ کے انتہائی تالو کو دیکھ لیتی، آپ مسکرایا کرتے تھے۔(بخاری شریف، مراۃ المناجیح)

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے بہت تھے، حضرت جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب سے مسلمان ہوا، مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پردہ نہ کیا اور مجھے نہ دیکھا، مگر تبسم فرمایا یعنی جس موقع پر اجازت لے کر حاضر ہونا ہوتا، مجھے بغیر اجازت حاصل کئے حاضری کی اجازت تھی اور آپ مجھے دیکھا کرتے تو تبسم فرماتے۔آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یہ دیکھنااظہارِ خوشی یا اظہارِ کرم کے لئے ہوتا تھا۔

حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔(شمائل ترمذی:218)

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں اس شخص کو بخوبی جانتا ہوں،جو سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گا اور اس شخص کو بھی جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جائے گا۔ قیامت کے دن ایک شخص کو دربارِ الٰہی میں پیش کیا جائے گا کہ اس کے چھوٹے گناہ اس کے سامنے رکھ دو اور اس کے بڑے گناہ اس سے مخفی رکھو۔ پھر کہا جائے گا: فلاں دن تو نے یہ کیا تھا؟فلاں دن تو نے یہ کیا تھا؟ وہ اقرار کرے گا،انکار نہ کر سکے گا اور اپنے بڑے گناہوں پر خوفزدہ ہو گا! پس کہا جائے گا :اسے ہر گناہ کے بدلے میں ایک نیکی دی جائے تو وہ بول اٹھے گا: میرے تو اور بھی بہت گناہ ہیں، جو میں نے یہاں نہیں دیکھے، جناب ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: پس قسم ہے میں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا کہ آپ ہنسے، یہاں تک کہ اگلے دانت نظر آئے۔(شمائل ترمذی، حدیث 221)یعنی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہنسنا، آپ کا مسکرانا تعجب کی وجہ سے تھا، جب اس شخص نے صغائر کو نیکیوں میں تبدیل ہوتے دیکھا تو اس کے اندر نیکیوں کی حرص و طمع پیدا ہوئی تو بول اٹھا: میرے بڑے گناہوں کی وجہ سے بھی مجھے نیکیاں دی جائیں۔تبسم میں ہزار حکمتیں ہیں، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہر ادا میں ربّ کریم کی حکمتیں ہوتی ہیں۔


دعوت اسلامی کے زیراہتمام یوکے برمنگھم ریجن میں گزشتہ ہفتے مختلف مقامات ( East, North, Central Birmingham, Coventry, Peterborough, Nottingham, Leicester, Derby, Burton, Stoke, Black Country, Telford, Walsall, Sandwell Worcester) میں آن لائن اور فیس ٹو فیس سنتوں بھرے اجتماعات منعقد کئے گئے جن میں کم وبیش 1ہزار144 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

مبلغات دعوت اسلامی نے سنتوں بھرے بیانات کئے اور اجتماعات میں شریک اسلامی بہنوں کو دعوت اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ رہنے کا ذہن دیتے ہوئے پابندی کے ساتھ ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات میں شرکت کرنے کی ترغیب دلائی۔


دعوت اسلامی کے شعبہ علاقائی(اسلامی بہنیں ) کے زیر اہتمام یوکے برمنگھم(Birmingham) ریجن میں ماہ ستمبر2021ء میں ہونے والے دینی کاموں کی کارکردگی درج ذیل ہے:

ذیلی حلقوں میں ہونے والی نیکی کی دعوت کی تعداد: 40

اکثر علاقائی دورہ میں شرکت کرنے والی اسلامی بہنوں کی تعداد: 58

ماہ میں 1 یا 2 بار نیکی کی دعوت دینے والی اسلامی بہنوں کی تعداد: 61

انفرادی کوشش سے اپنے محارم کو مدنی قافلوں میں سفر کروانے والی اسلامی بہنوں کی تعداد: 6


ہمارے پیارے آقا،  مکی مدنی مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نہایت ہی عمدہ اوصاف کے مالک تھے، آپ کی عاداتِ کریمہ میں سے ایک بہت ہی پیاری عادت مسکرانا بھی ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خود بھی نہایت کثرت کے ساتھ مسکرایا کرتے اور صحابہ کرام علیہم رضوان کو بھی اس کی تعلیم دیتے تھے، اسی وجہ سے آپ کو متبسم بھی کہا جاتا ہے، یعنی مسکرانے والے۔

حضرت عبداللہ ابنِ حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہ دیکھا۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرانے کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:تمہارا اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرانا صدقہ ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جب مسکراتے تو آپ کا چہرۂ مبارک اس قدر مہکا کرتا کہ صحابہ کرام علیہم رضوان کیسے ہی غمزدہ کیوں نہ ہوں، آپ کو دیکھ کر وہ بھی مسکراتے اور اپنا غم بھول جاتے۔

جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام

اسی اثناء میں چند واقعات ذکر کئے جاتے ہیں:

1۔امت کو بشارت اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹ

ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے ہوئے خوشی خوشی باہر تشریف لائے تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:حضور !آپ کی مسکراہٹ کی وجہ کیا ہے؟فرمایا: ابھی ابھی جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا:(حدیث شریف کا مفہوم ہے)آپ کا جو اُمّتی آپ پر دُرودپاک پڑھتا ہے، اللہ پاک اس پر اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے اور اس کے گناہ معاف فرماتا ہے اسی وجہ سے آپ مسکرا رہے تھے کہ آپ کی اُمّت کو بشارت ملی۔

2۔صحابی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا مزاح

حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنے صحابہ علیہم الرضوان کے ساتھ مزاح بھی فرمایا کرتے تھے، لیکن یاد رہے! مزاح وہ ہے جس سے آپ کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آئے اور دوسرے کے چہرے پر بھی اور کسی کی دل آزاری بھی نہ ہو، چنانچہ بیان کیا جاتا ہے: ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس ایک صحابی آئے اور انہوں نے عرض کی:حضور! مجھے اونٹ چاہئے! آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ہم تو اونٹ کا بچہ دیں گے، کہا:حضور !میں اونٹ کے بچے پر کیسے سواری کروں گا؟ مجھے اونٹ چاہئے! نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ہم توتمہیں اونٹ کا بچہ ہی دیں گے،پھر جب انہوں نے دوبارہ درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ہر اونٹ کسی نہ کسی اونٹ کا بچہ ہی ہوتا ہے! یہ کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی مسکرا دئیے اور وہ صحابی بھی مسکرانے لگے۔

3۔صحابیہ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا مزاح

ایک بار ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئیں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ان صحابیہ نے کچھ بات کی، پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ان سے فرمایا:تمہارے شوہر وہی ہیں نہ، جن کی آنکھوں میں سفیدی ہے؟صحابیہ نے کہا:حضور !میرے شوہر کی آنکھوں میں سفیدی نہیں ہے(سفیدی ایک بیماری بھی ہوتی ہے)، نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرائے اور فرمایا:کون سی آنکھ ہے جس میں سفیدی نہیں؟ آنکھ میں ایک حصّہ تو سفید ہوتا ہی ہے نا۔

4۔اُمّت کو غازیانہ شان میں دیکھ کر مسکرائے

مراۃالمناجیح میں ہے:ایک دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم حضرت اُمِّ حرام بنتِ ملحان رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے، انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو کچھ کھلایا، پھربیٹھ گئیں اور حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا سر ٹٹولے لگیں، حضوراکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سو گئے، پھر ہنستے ہوئے جاگے، حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے عرض کی:حضور! کیا چیز آپ کو ہنساتی ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: میری اُمّت کے کچھ لوگ مجھ پر پیش کئے گئے، اللہ پاک کی راہ میں غازی جو اس سمندر کی فراخی میں سوار ہوں گے، جیسے تختوں پر بادشاہ یا بادشاہ کی طرح تختوں پر ، میں نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !اللہ پاک سے دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان میں شامل فرما دے۔ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی اور پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی دعا کی برکت سے حضرت اُم حرام رضی اللہ عنہااللہ پاک کے پیارے ان غازیوں کی فہرست میں آگئیں۔

5۔اُمّت کے لئے روئے اور اُمّت کے لئے ہی مسکرائے

ایک بارحضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور اکرم، نورِ مجسم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسلم پہلے مسکرائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان!یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !آپ کس بات پر تبصرہ فرما رہے ہیں؟ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میرے دو امتی اللہ پاک کے حضور گر پڑے(قیامت کا منظر ارشاد فرما رہے تھے)یعنی گھٹنوں کے بل گر پڑے ، اللہ پاک کے سامنے، ان میں سے ایک نے دوسرے پر مطالبہ کیا :اے اللہ پاک!اس نے مجھ پر دنیا میں ظلم کیا ہے، میرا حساب اس سے دلوا، تو جو ظالم تھا، اس نے کہا:میرے پاس تو کچھ نہیں! اتنا فرمانا ہی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، پھر اُمّت کے غمخوار آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرمانے لگے:اللہ پاک اس مظلوم سے کہے گا: اس کے پاس تو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں، تو اپنے سر کو اٹھا، وہ اٹھائے گا اپنے سر کو تو سامنے جنت کو دیکھے گا، اللہ پاک اس سے فرمائے گا: توکیا دیکھ رہا ہے جنت میں؟ تو وہ کہے گا:میں دیکھ رہا ہوں کہ چاندی کے شہر ہیں اور اس میں سونے کا محلات ہیں تو اللہ پاک سے وہ عرض کرے گا: یہ کس کے لئے ہیں؟ تواللہ پاک فرمائے گا:اس کے لئے جو اس کی قیمت دے دے۔ تو وہ شخص عرض کرے گا:اس کی قیمت کون دے سکتا ہے؟ تو اللہ پاک فرمائے گا: تو اس کی قیمت دے سکتا ہے!تو وہ مظلوم کہے گا:میں کیسے دے سکتا ہوں؟ تو اللہ پاک فرمائے گا:تو اپنے اس بھائی کو معاف کر دے، یہ اس کی قیمت ہو جائے گی،تو وہ کہے گا:میں اسے معاف کرتا ہوں، تو اللہ پاک فرمائے گا:اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ کر جنت کے اندر داخل ہو جا۔یہ فرما کرآپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرانے لگے۔

یعنی روئے تو وہ بھی اُمّت کے غم میں اور مسکرائے وہ بھی امت کے لئے، ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہم سے کتنی محبت فرماتے تھے، اللہ پاک ہمیں بھی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خاطر اپنی نفسانی خواہشات کو ترک کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اللہ پاک ہمیں بھی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اس پیاری ادا(مسکرانے) کو ادا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے، دوسروں کے ساتھ مسکرا کر خندہ پیشانی کے ساتھ ملنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین یا رب العالمین

یا الہٰی جب بہیں آنکھیں حسابِ جرم میں ان تبسم ریز ہونٹوں کی دعا کا ساتھ ہو


پچھلے دنوں جامعۃالمدینہ دعوتِ اسلامی کے تحت سکرنڈ میں 12دینی کام کورس کااہتمام کیاگیاجس میں رکنِ نواب شاہ زون نے فضول گوئی پر کلام کرتے ہوئے12 دینی کام استقامت کے ساتھ کرنےاور اپنا اخلاقی کردار مزید بہتر بنانے کے لئےذہن سازی کی۔

یہ کورس تین دن پرمشتمل تھا جس میں جامعۃالمدینہ کے طلبۂ کرام واساتذہ ٔکرام سمیت دیگر ذمہ داران نے شرکت کی۔(رپورٹ: اعظم رضا عطاری شعبہ مدنی کورسز نواب شاہ زون ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)



پچھلے دنوں جامعۃالمدینہ دعوتِ اسلامی کے تحت سکرنڈ میں 12دینی کام کورس کااہتمام کیاگیاجس میں رکنِ نواب شاہ زون نے فضول گوئی پر کلام کرتے ہوئے12 دینی کام استقامت کے ساتھ کرنےاور اپنا اخلاقی کردار مزید بہتر بنانے کے لئےذہن سازی کی۔

یہ کورس تین دن پرمشتمل تھا جس میں جامعۃالمدینہ کے طلبۂ کرام واساتذہ ٔکرام سمیت دیگر ذمہ داران نے شرکت کی۔(رپورٹ: اعظم رضا عطاری شعبہ مدنی کورسز نواب شاہ زون ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)



دعوت اسلامی کے زیر اہتمام ماہ  ستمبر 2021ء میں یوکے برمنگھم ریجن کے مختلف علاقوں میں 12 مقامات پر دینی حلقوں کا انعقاد کیا گیا جن میں کم وبیش 301 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

مبلغات دعوت اسلامی نے سنتوں بھرے بیانات کئے اور دینی حلقوں میں شرکت اسلامی بہنوں کو اپنی اصلاح کرنے کے متعلق اہم نکات پیش کئے نیز اسلامی بہنوں کو مدنی مذاکرہ دیکھنے، عملی طور پر دینی کاموں میں حصہ لینے اس کے علاوہ سنتوں بھرے اجتماعات میں پابندی کے ساتھ شرکت کرنے کی ترغیب دلائی۔


جس کے گچھے سے لچھے جھڑیں نور کے                           ان ستاروں کی نزہت پہ لاکھوں سلام

آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نورانی سچے موتیوں کی لڑی جیسے دانت مبارک جن سے نور کی کرنیں چھن چھن کر باہر آتی اور گلیاں بازار روشن ہو جاتے ہیں۔

الحدیث: اذا تکلم رئی کالنور یخرج من بین ثنایاہ (شرح حدائق بخشش، ص 1030)

حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے:آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے رُخسار نرم و نازک تھے اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا منہ فراخ، دانت کشادہ اور روشن تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گفتگو فرماتے تو آپ کے دونوں اگلے دانتوں کے درمیان سے ایک نور نکلتاتھا اور جب کبھی اندھیرے میں آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرا دیتے تو دندان مبارک کی چمک سے روشنی ہو جاتی۔ (سیرت مصطفٰی، ص 575)

بے شک آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جب مسکراتے تو در ودیوار روشن ہو جاتے تھے، اس ضمن میں ایک بہت ہی خوبصورت واقعہ سنتے ہیں:

1۔ نورانی مسکرانا

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:میں سحری کے وقت کچھ سی رہی تھی کہ میرے ہاتھ سے سوئی گر گئی اور چراغ بجھ گیا،اتنے میں حضور کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف لے آئے، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے چہرۂ اقدس کے نور سے سارا کمرہ جگمگا اٹھا اور سوئی مل گئی۔ ( فیضان عائشہ صدیقہ، ص483)

سوزنِ گم شدہ ملتی ہے تبسم سے تیرے شام کو صبح بناتا ہے اجالا تیرا( ذوقِ نعت، ص 17)

آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا مسکراتا چہرہ اتنا روشن تھا کہ کمرے میں اندھیرا ہو گیا ہے اور آپ کی نورانیت سے وہ اندھیرا ایسا دور ہوتا ہے کہ باریک سوئی بھی اس کی روشنی سے مل جاتی ہے۔ سبحان اللہ

2 ۔رحمت ملنے پر مسکرانا

اللہ پاک کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کی طرف سے نعمت و رحمت ملنے پر مسکراتے اور خوش ہوتے تھے، اس ضمن میں ایک واقعہ سماعت کرتے ہیں:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہمارے درمیان موجود تھے، ہم نے دیکھا آپ پر اُونگھ طاری ہوتی ہے(یہ دراصل وحی نازل ہونے کے لمحات تھے) جب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے آنکھ کھولی تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے ہیں،ہم نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !کس چیز نے آپ کے چہرے پر ہنسی بکھیر دی ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا:مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے (سورۂ کوثرکی تلاوت فرمائی) فرمایا: تم جانتے ہو کوثر کیا ہے؟ عرض کی:اللہ پاک اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یہ وہ دریا ہے، جس کا میرے ربّ کریم نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے، اس میں بڑی خیر ہے، یہ وہ حوض ہے کہ قیامت کے دن میری اُمت کے لوگ اس سے پانی پینے آئیں گے۔(صحیح مسلم، ص 103،ح 892)

(مدنی چینل کاسلسلہ: شان ِمحمدی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ،قسط 15)

3۔اللہ پاک کے دشمن کے ڈھیر ہونے پر فرحت و سرور سے ہنسے

حضرت عامر بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میرے والد حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم غزوہ ٔ خندق کے دن ہنسے،حتٰی کہ آپ کے دندانِ مبارک ظاہر ہوگئے،حضرت عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نے پوچھا:کس بات پر ہنسے تھے؟ انہوں نے کہا:ایک کافر ڈھال لئے ہوئے تھا اور حضرت سعد گو بڑے تیر انداز تھے، لیکن وہ اپنی ڈھال کو ادھر اُدھر کر لیتا تھا، جس کی وجہ سے اپنی پیشانی کا بچاؤ کر رہا تھا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ تیر نکالا، جس وقت اس نے ڈھال سے سر اٹھایا، فوراً ایسا تیر مارا کہ پیشانی سے چوکا نہیں اور فوراً گر گیا، ٹانگ بھی اوپر کو اُٹھ گئی، پس حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس قصّہ پر ہنسے، میں نے پوچھا: اس میں کونسی بات پر؟ انہوں نے فرمایا:حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر۔(شرح شمائل ترمذی، ج 2، ص 92)

کائنما اللؤلؤ المکنون فی صدف من سعدتی منطق منہ و مبتسم

ترجمہ:جب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گفتگو فرماتے یا مسکراتے تو گویا آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دہن اور لب دوکانیں ہیں(جن میں دندان یوں پتیاں ہیں) جیسے سیپ میں اچھوتے موتی چھپے ہوں۔

آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نورانی دندانِ مبارک کو سیپ میں چھپے موتی سے تشبیہ دی جا رہی ہے،جس طرح موتی سیپ میں صاف ستھری نکھری نکھری ہوتی،اس طرح آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا کلام آپ کا مسکرانا صاف ستھرا اور ہر نقص سے پاک ہوتا۔

(شان مژدہ شرح قصیدہ بردہ شریف، ص86)

4 ۔تعجب سے مسکرائے

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں اس شخص کو خوب جانتا ہوں جو سب سے اوّل جنت میں داخل ہو گا اور اس سے واقف ہوں جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جائے گا، اس کے لئے حکم ہو گا ،اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کئے جائیں گے اور کبائر کو خفی رکھا جائے گا۔ جب اس پرصغائر پیش کئے جائیں گے تو وہ اقرار کرے گا اور انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی اور وہ اپنے دل میں بہت خوفزدہ ہو گا، ابھی صغائر کا ہی نمبر ہے، کبائر پر دیکھیں کیا گزرے کہ اس دوران حکم ہو گا کہ اس شخص کو ہر ہر گناہ کے بدلے ایک نیکی دے دی جائے تو وہ شخص یہ حکم سنتے ہی خود بولے گا: میرے تو ابھی بہت گناہ باقی ہیں، جو یہاں نظر نہیں آتے، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یہ مقولہ نقل فرما کر ہنسے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دانت مبارک ظاہر ہو گئے۔(شرح شمائل ترمذی، ج 2، ص 77)ہنسی اس بات پر تھی کہ جن گناہوں کے اظہار سے وہ ڈر رہا تھا، ان کے اظہار کا خود طالب بن گیا۔

لباں سرخ آکھاں کہ لعلِ یمن چٹے دند موتی دیا ہن لڑ یاں

میرے محبوب کے لب لعلِ یمن کے مانند ہیں اور سفید دانت ایسے ہیں، جیسا کہ موتی کی لڑیاں ہوں۔(کلام پیر مہر علی)

5 ۔تالیف قلب کے لئے مسکرانا

حضرت سماک بن حرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: کیاآپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مجلس میں شرکت کرتے تھے؟ انہوں نے کہا :ہاں، بہت مرتبہ، آپ جس جگہ صبح کی نماز پڑھتے تھے، طلوعِ آفتاب سے پہلے وہاں سے نہیں اٹھتے تھے، جب آفتاب طلوع ہوتا تو آپ وہاں سے اٹھتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم باتوں میں مشغول ہوتے تھے اور زمانۂ جاہلیت کے کاموں کا تذکرہ کرتے اور ہنستے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی مسکراتے تھے۔(شرح صحیح مسلم، کتاب الفضا ئل، ص 772)

حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم آخرت کی باتوں پر ہنستے تھے اور دنیاوی پر صرف مسکرا دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اُمورِ آخرت کی وجہ سے ہمیشہ غمگین رہتے تھے اور لوگوں کے ساتھ ظاہر طور پر بکثرت تبسم فرماتے کہ ان کی تالیفِ قلب ہوتی ہے۔ (ص773)

جس کی تسکین سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس تبسم کی عادت پر لاکھوں سلام

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گفتگو فرما تے ہوئے مسکرا کر بات کرتے اور آپ کے لبوں پر ہمیشہ مسکراہٹ کا نور برستا رہتا۔ (شرح حدائق بخشش، ص 1030)