قتلِ ناحق کتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی وجہ سے حضرتِ آدم کا بیٹا اپنے باپ کے دربار سے نکلا اورکفر و شرک میں مبتلا ہو کر مرا۔ اور قیامت تک ہونے والے ہر قتلِ ناحق کا بدلہ آپنے سر لے کر جہنم کا مستحق بنا کہ جو شخص کوئی بُرا طریقہ ایجاد کرے تو قیامت تک جتنے لوگ اس برے طریقے پر عمل کریں گے سب کے گناہ میں وہ جس نے ایجاد کیا حصہ دار ہو گا۔ بلاشبہ دین سلام امن اور سلامتی کا دین ہے یہ وہ دین ہے جس میں راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے پر بھی ثواب ملتا ہے۔ اور اسلام امن پسند دین ہے اس میں انسانی جان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر ہے۔ (ترمذی، 3/98، حدیث: 1400)

افسوس بعض لوگ یعنی دہشت گرد تو بے قصور بچوں اور لوگوں کو سکول مساجد میں بم دھماکوں کے ذریعے موت کی نیند سُلا دیتے ہیں، ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔( مسلم، ص 60، حدیث:260)

شریعت میں قتلِ عمد یعنی اسلحہ کے ساتھ جان بوجھ کر قتل کرنے کی سزا دُنیا میں فقط قصِاص یعنی قتل کا بدلہ قتل ہے، مقرر بھی یہی ہے ہاں اگر اولیائے مقتول معاف کردیں یا قاتل سے مال لے کر صلح کر لیں تو یہ بھی ہوسکتا ہے۔ (ظاہر گناہوں کی معلومات، ص 78) خیال رہے کہ ظلماً قتل کرنا ، قتل کرانا یا مدد دینا یا قاتل کی حمایت کرنے والے سب ہی سزا کے مستحق ہیں۔

اللہ پاک قرآن مجیدمیں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

مسلمان آدمی کیسا ہی گنہگار ہو مگر وہ رحمت الہی کی وسعت میں رہتا ہے مگر ظالم قاتل اللہ کی رحمت کا مستحق نہیں رہتا۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، حضور پُر نور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس میں حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)

افسوس ! فی زمانہ ایک گھر سے لے کر عالمی سطح تک اس معاملے میں مسلمانوں کا حال ایسا ہی نظر آ رہا ہے کہ مسلمان اپنے گھر میں بھی بے روزگاری مہنگائی سے تنگ ہوکر مایوسی میں اہل خانہ کو قتل کرنے کے گناہ میں ملوث ہوتے ہیں جبکہ خالق نے رزق دینے کا وعدہ کر رکھا ہے اپنے ہی بہن بھائیوں کے ساتھ جائیداد کی بِنا پر اُن کو قتل کر دیا جاتا ہے آہ صرف یہ دُنیا کی محبت کا نتیجہ ہے، حدیث شریف میں ہے کہ دُنیا کی محبت ہر گناہ کی جڑ ہے، اس کے علاوہ سیاسی معاملات کہ ایک فریق اپنے قائد کی حمایت میں دوسرے گروپ کے ممبر کو قتل کر دیتا ہے۔ شاید ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ بروزِ قیامت معلامات میں پہلے قتلِ ناحق کی متعلق سوال ہوگا تب قاتل کا جواب ہوگا کہ میں نے فُلاں قتل اپنے لیڈر کی ملکیت کی بنا پر کیا میں فلاں کو سپورٹ کرتا اور اُس کا ماتحت تھا اس نے مجھ سے قتل کروایا اسے بھی پکڑ۔ اس سے موجوہ حکومتوں کو سبق لینا چاہیے کہ اُن کی بدانتظامی کی وجہ سے قتل کی جرات روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ نیز اس پیش کردہ روایت پر غور کرنا چاہیے۔

قتل ناحق کا ایک سبب آدمی کا تکبر اور انا بھی ہے کہ بعض اوقات اپنے حق میں معولی سی بے ادبی کرنے والے کو قتل کر دیتا ہے۔ ایک ہی مقصد میں اگر کوئی آگے بڑھنے کی کوشش کرے تو شدید حسد تکبر اور غصے کی وجہ سے قتل کرنے تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ فلاں مجھ سے زیادہ قابل کیسے ہے اُس کی تو اتنی اوقات نہیں کہ مجھ سے پہلے یہ کام کرے وغیرہا۔

قتل ناحق کی مذمت میں 5 مدنی پھول:

(1) ناحق قتل کرنے والے پر اس کا دِین تنگ ہوجاتا ہےاور وہ اپنے اس گناہ کے سبب تنگی میں رہتا ہے۔

(2)ناحق قتل کرنے والا اعمال صالحہ کی توفیق سے محروم ہو جاتا ہے۔

(3)جب بندہ ناحق قتل، شراب وغیرہ گناہوں میں پڑتا ہے تو شیطان اس کے ہاتھ پاؤں بن جاتا ہے اور پھر اسے ہر شر کی طرف لے جاتا ہے اور ہر بھلائی سے پھیر دیتا ہے۔

(4)مؤمن جب تک ناحق قتل نہیں کرتا اسے نیک اعمال میں جلدی کرنے کی توفیق ملتی رہتی ہے۔ لیکن جیسے ہی وہ ناحق قتل میں مبتلا ہوتا ہےتو وہ اس توفیق سے محروم کردیا جاتاہے۔

(5) ناحق قتل کرنے والا کبیرہ گناہ کرنے والا اور رحمت الہی سے محروم ہے۔ لہذا اس گناہ سے بچنے کے لیے خوف خدا پیدا کیجیے۔ انجام یاد رکھیے کہ وقتی جذبات میں یا منصوبہ بندی کے ذریعے ہی یہ قتل کرنا دُنیا اور آخرت میں تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ قاتل کو ملکی قانون کی سزا تو ملے گی ساتھ میں خاندان والوں کو ذلت کا سامنا بھی ہوگا۔ اور دل میں مسلمانوں کے احترام کا ہونا لازمی ہے۔ بے شک ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کی جان کو جلنے ڈوبنے یا قتل سے بچنا پوری انسانيت کو بچنا ہے۔ اس کے لیے علم دین بہترین ذریعہ ہے جس کے سیکھنے سے گناہوں سے بچنے میں بہت مدد ملے گی ان شاء اللہ خوفِ خدا جیسی دولت اور بہت کچھ حاصل ہوگا۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کسی بھی مؤمن کے قتل ناحق جیسے کبیرہ گناہ سے محفوظ فرمائے، ہمیں مسلمانوں کی عزت جان ومال کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے حقیر جانے پهر آپ نے اپنے سینہ مبارک کی طرف تین بار اشارہ فرما کر فرمایا تقوی یہاں پر ہے! انسان کے لیے یہ برائی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے مسلمان پر مسلمان کی ہر چیز حرام ہے۔ اس کا خون اس کا مال، اس کی آبرو۔ (مسلم، ص 1386، حدیث: 2564)

پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر کسی ایک مسلمان کے قتل میں تمام آسمان یا زمین والے بھی شریک ہو جائیں تو اللہ پاک ان سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا۔(ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)

دنیا و آخرت میں قاتل کو سخت ترین سزائیں دی جائیں گی ان میں سے چند یہ ہیں: دائمی جہنم، اللہ پاک کا غضب، اللہ پاک کی رحمت سے دوری اور عام جہنمیوں کی نسبت زیادہ سخت عذاب۔

انسانی جان کی بے حد قدر و قیمت ہے سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے۔ کیا معلوم شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگائے اور وہ ہتھیار چل پڑے اور قتلِ ناحق کے نتیجے میں یہ شخص جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔ (بخاری، 4/434، حدیث: 7072)

حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواڑوں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لیے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر مصر تها۔ (بخاری، 1/23، حدیث: 31)


انسانی ذہن میں سب سے پہلے یہ سوال اٹھتاہے کہ انسان کسی دوسرے انسان کو قتل کیوں کرتا ہے؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ یہ اللہ کی نافرمانی ہے؟ کیا اسے علم نہیں کہ ابھی ایک عدالت ہے جہاں اسے اپنے کئے کا جواب دینا ہے؟ کیا اسے موت یاد نہیں؟ اسے یہ فکر کیوں نہیں کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کو راضی بھی کرنا ہے؟

اسبابِ قتل: قتل کے اسباب میں سب سے بڑا اور بنیادی سبب علمِ دین کی کمی ہے ہم نے اپنے دین کی تعلیمات کو سمجھا ہی نہیں اس کے علاوہ حسد، تکبر، بغض و کینہ، خاندانی دشمنی نفسانی خواہشات کی پیروی وغیرہ یہ باطنی بیماریاں شامل ہیں۔ انسان جب آخرت بھول بیٹھتا ہے تو اس کی ناکامی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ امام اہل سنت اعلی حضرت اپنے نعتیہ دیوان حدائق بخشش میں غافل انسان کو کچھ یوں جھنجھوڑ رہے ہیں:

ارے یہ بھیڑیوں کا بن ہےاور شام آگئی سر پر کہاں سویا مسافر ہائے کتنا لا ابالی ہے

سب سے پہلا قاتل کون؟ دنیا کا سب سے پہلا قاتل قابیل ہے جس نےرشتے کے تنازعے میں اپنے بھائی حضرت ہابیل رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا۔ ظلماً خون بہاتے ہی قابیل کا چہرہ سیاہ اور بَدصورت ہوگیا۔ حضرتِ آدم علیہ السَّلام نے شدید غَضَب کے عالَم میں (اپنے بیٹے) قابیل کو اپنی بارگاہ سے نکال دیا اور وہ عَدَن (یمن) کی طرف چلا گیا، وہاں شیطان کے ورغلانے پر آگ کی پُوجا کرنے لگا۔

عبرتناک انجام: قابیل جب بوڑھا ہوگیا تو اس کے نابینا بیٹے نے پتّھر مار کر اسے قتل کردیا، یوں یہ کفر و شرک کی حالت میں مارا گیا۔

اللہ پاک قتل ناحق کی مذمت میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

مسلمان کو قتل کرنا کیسا؟ اگر مسلمانوں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا اور پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ کبیرہ گناہ ہے اور ایسا شخص مدت دراز تک جہنم میں رہے گا۔

قاتل اور مقتول جہنم میں: حضور جان عالمﷺ نےارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے راوی فرماتے ہیں: میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر مصر تھا۔ (بخاری1/23، حدیث: 31)

افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہو گیا ہے چھوٹی چھوٹی بات پر جان سے مار دینا، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائیاں عام ہیں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے گروپ اور جتھے اور عسکری ونگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل کرنا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے سرور عالمﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے حقیر جانے۔ تقوی یہاں ہے اور اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ فرمایا انسان کیلئے یہ برائی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے مسلمان پر مسلمان کی ہر چیز حرام ہے اس کا خون،اس کا مال، اس کی آبرو۔ (مسلم، ص1386، حدیث:2564)

تمام انسانیت کا قتل: جس نے بلا اجازت شرعی کسی کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا کیونکہ اس نے الله کے حق اور بندوں کے حق اور حدودِ شریعت سب کو پامال کر دیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ کنز الایمان: جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا۔

خود کشی/قتل کا عذاب: حضور جان عالمﷺکا فرمان عبرت نشان ہے: اور سب گناہوں سے بڑا گناہ کسی کو ناحق قتل کرنا ہے جس نے چھری سے خود کشی کی ملائکہ جہنم کی وادیوں میں اس کو ہمیشہ ہمیشہ وہ چھری گھونپتے رہیں گے وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور شفاعت سے مایوس رہے گا اور اگر اس نے بلند جگہ سے اپنے آپ کو گرا کر خود کشی کی ہو گی تو فرشتے بھی ہمیشہ ہمیشہ اس کو جہنم کی وادیوں میں بلند چوٹی سے گراتے رہیں گے اور قتل کرنے والے کو آگ کے کنوؤں میں قید کیا جائے گا اور اگر رسی سے لٹک کر خود کشی کی ہو گی تو ہمیشہ کیلئے الله کی رحمت سے مایوس آگ کی شاخوں میں لٹکا رہے گا اگر کوئی جان کسی کو ناحق قتل کرے تو یہ کھلی گمراہی ہے فرشتے اس کو آگ کی چھریوں سے ذبح کرتے رہیں گے جب بھی وہ اس کو ذبح کریں گے تو اس کے حلق سے تار کول سے بھی زیادہ سیاہ خون بہے گا اور پھر ذبح کیا جائے گا یہ سزا اس کو ہمیشہ ہمیشہ دی جائے گی اور قاتلوں کو آگ کے کنوؤں میں قید کیا جائے گا اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ ( نیکیوں کی جزائیں گناہوں کی سزائیں، ص80)

کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید بدترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں اس کی بہت مذمّت بیان کی گئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضور جان عالم ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔(بخاری، 4/11، حدیث: 6044)

مقتول اپنے قاتل کو گریبان سے پکڑے گا: فرمانِ مصطفےٰ ﷺ: بارگاہِ الٰہی میں مقتول اپنے قاتل کو پکڑے ہوئے حاضر ہوگا جبکہ اس کی گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا، وہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! اس سے پوچھ، اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ پاک قاتل سے دریافت فرمائے گا: تُونے اسے کیوں قتل کیا؟وہ عرض کرے گا: میں نے اسے فلاں کی عزّت کے لئے قتل کیا، اسے کہا جائے گا: عزّت تو اللہ ہی کے لئے ہے۔ (معجم اوسط، 1/224، حدیث:766)

مولائے کریم قاتلوں کوشریعت کے تقاضو ں کے مطابق سچّی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں اس گُناہ کے اِرتکاب سے بچائے اور ہمارے معاشرے سے قتل وغارت کے ناسُور کو دُور فرمائے۔


دنیا کے پہلے قتل سے لے کر اب تک بے شمار لوگ طبعی موت کے بجائے قتل ہو کر دنیا سے رخصت ہو چکے مگر سلسلہ رکا نہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتا ہے چلا گیا۔ مسلمانوں کا ایک دوسرے کو قتل کرنا خود کو قتل کرنا ہے کیونکہ احادیث میں مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند فرمایا گیا ہے، جیسا کہ نبی اکرم نور مجسم شاہ بنی آدم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم مسلمان کو دیکھو گے کہ وہ ایک دوسرے پر رحم کرنے، دوستی رکھنے، اور شفقت کا مظاہرہ کرنے میں ایک جسم کی مانند ہوں گے چنانچہ جسم کے جب کسی بھی حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم جاگنے اور بخار میں اس کا شریک ہو جاتا ہے۔ (بخاری، 4/103، حدیث: 6011) جب مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں تو ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو قتل کرنا ایسا ہی ہے جیسے اس نے خود کو قتل کیا۔

فرمانِ مصطفی ﷺ ہے: سب گناہوں سے بڑا گناہ کسی کو ناحق قتل کرنا ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث: 6871)

حیرت کی بات یہ ہے کہ اسلام وہ امن پسند اور صلح پسند دین ہے جس نے جہاد کے وقت بھی دشمنوں کی املاک کو نقصان پہنچانے، لوٹ مار کرنے اور آتش زنی سے منع فرمایا اور اسے جاہلیت کی برائی سے تعبیر کیا ہے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب شام و عراق کی طرف اسلامی لشکر روانہ فرمائے تو انہیں یہ ہدایات دیں کہ بستیوں کو ویران نہ کرنا، فصلوں کو خراب نہ کرنا کھیتیوں کو نہ جلانا۔ گویا کہ اسلام ہر انسان کی جان و مال کی حفاظت عزت و ناموس کی حفاظت، شخصی آزادی کا تحفظ، عقیدے اور مسلک کی حفاظت، حق ملکیت کا تحفظ اور قانون کے سامنے تمام انسانوں کو مساوات فراہم کرتا ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کی ہر چیز مسلمان پر حرام ہے، اس کا خون اور اس کا مال بھی اور اس کی آبرو بھی۔

جرائم قتل و غارت گری اور دہشت گردی میں اضافہ کیوں؟ یہ سوال آتا ہے کہ جب ہم ایسے عظیم مذہب کے ماننے والے ہیں جو شروع سے لے کر آخر تک امن و سکون کا درس دیتا ہے تو پھر اس کے ماننے والوں کے درمیان یہ خون ریزی کیوں؟ ایک دوسرے کی جان و مال، عزت وآبرو کیوں محفوظ نہیں اس کی درج زیل وجوہات ہیں:

سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ آج سوئے قسمت ہم نے صحیح معنوں میں اسلامی تعلیمات سے آگاہی حاصل نہیں کی۔ ہم جاہلیت سے دوچار ہیں۔ جاہلیت ایک رویے کا نام ہے جو غرور، تکبر فخر اور خود کو برتر سمجھنے سے عبارت ہے۔ جاہلیت میں شرافت سے کم زوری اور بزدلی سمجھا جاتا ہے۔ قتل و غارت گری پر فخر کیا جاتا ہے ہمارے پیارے آقا کریم ﷺ نے فرمایا: مسلمان کی جان لینا سوائے تین وجوہات کے حلال نہیں: جان کے بدلے جان ( یعنی اس نے ناحق کسی کا قتل کیا ہو اور قصاص کے بدلے اس کی جان لی جائے )۔ شادی شدہ زانی۔ جماعت ( کی متفق علیہ راہ) کو چھوڑ کر دین سے نکلنے والا ( یعنی مرتد ہو جائے )۔ (بخاری، 4/361، حدیث:6878)

ناحق قتل ،گویا کہ ساری انسانیت کا قتل: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

قرآن و حدیث میں نا حق قتل کرنے کی بے شمار وعیدیں بیان کی گئی ہیں اور نا حق قتل کو کبیرہ گناہ بتایا ہے۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا۔ (مسلم، ص711، حدیث: 4381)

2۔ اگر کسی ایک مسلمان کے قتل میں تمام آسمان و زمین والے بھی شریک ہو جائیں (یا اس قتل پر راضی ہوں) تو اللہ پاک ان سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا۔(ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)

دنیا اور آخرت میں قاتل کو سخت ترین سزائیں دی جائیں گی، قاتل کے لئے چار سزائیں ہیں: دائمی جہنم، اللہ کا غضب، اللہ کی لعنت ( رحمت سے دوری) اور سخت ترین عذاب ( عام جہنمیوں کی نسبت زیادہ سخت عذاب)۔

انسانی جان کی بے حد قدر و قیمت ہے نبی پاک ﷺ نے کسی کی طرف سے اسلحہ سے محض اشارہ کرنے سے بھی منع فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شحض اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، کیا پتہ شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگائے اور (ہتھیار چل پڑے اور قتل نا حق کے نتیجے میں) یہ شحض جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔ (بخاری، 4/434، حدیث: 7072)

ہمارا دین اسلام اس قدر ہمیں احترامِ مسلم سکھاتا ہے کہ کسی مسلمان کی طرف بغیر شرعی اجازت کے تیز نظر دیکھنے سے بھی منع فرماتا ہے تو پھر نا حق قتل کرنا تو بہت جرات کی بات ہے۔

قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ناحق قتل و غارت گری عام ہو جائے گی نہ قتل کرنے والے کو معلوم ہو گا کہ میں کیوں قتل کر رہا ہوں اور نہ ہی مقتول کو معلوم ہوگا کہ میں کیوں قتل کیا جا رہا ہوں

اللہ کریم ہمارے حالوں پر اپنی رحمت کی نظر فرمائے اور ہماری جان مال عزت و آبرو کی حفاظت فرمائے اسلام کا بول بالا فرمائے شریروں کے شر سے ہمیں محفوظ فرمائے اور جو مسلمان اس غلیظ گناہ میں ملوث ہیں انہیں عقل سلیم عطا فرما کر ہداہت کی اعلی راہوں پر گامزن ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبی ﷺ


کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ قتل ناحق بھی ہے، اس کی مذمت قرآن و احادیث میں وارد ہوئی ہے، ہمارا رب کریم اپنے کلام قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

قتل ناحق کی مذمت میں احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں:

قتل ناحق کبیرہ گناہ ہے: حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔ ( مسلم، ص 60، حدیث:260)

ہلاکت کی چیزوں میں سے ایک قتل ناحق بھی ہے، جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے: سات ہلاکت کی چیزوں سے بچو۔ لوگوں نے پوچھا: حضور وہ کیا ہیں؟ فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک، جادو اور ناحق اس جان کو ہلاک کرنا جو اللہ نے حرام کی اور سود خوری، یتیم کا مال کھانا، جہاد کے دن پیٹھ دکھادینا، پاکدامن مؤمنہ بے خبر بیبیوں کو بہتان لگانا۔ (بخاری، 2/242، حدیث: 2766)

قتل ناحق پر مدد کرنا کیسا؟ جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی کی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔(ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)

قیامت میں خسارا پانے والا: اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھا منہ جہنم میں ڈال دے۔ (معجم صغیر، 1/ 205)

ناپسندیدہ لوگ: الله کی بارگاہ میں تین شخص ناپسند ترین ہیں: حرم میں بے دینی کرنے والا، اسلام میں جاہلیت کے طریقے کا متلاشی، مسلمان کے خون ناحق کا جویاں تاکہ اس کی خونریزی کرے۔ (مراۃ المناجیح، 1/146)


کسی مسلمان(ضروریات دین میں سے کسی کا انکار نا کرتا ہو اور کفریات سے بچتا ہو) کو بلا کسی اجازت شرعی قتل کرنا قتل ناحق کہلاتا ہے۔ قتل ناحق کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ایک نہایت ہی مذموم گناہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ: قیامت کے دن سب سے پہلے لوگوں کے درمیان خون بہانے کے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔ (مسلم، ص711، حدیث: 4381) مفتی احمد یار خان نعمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: خیال رہے کہ عبادات میں میں پہلے نماز کا حساب ہو گا اور حقوق العباد میں قتل و خون کا یا نیکیوں میں پہلے نماز کا اور گناہوں میں پہلے قتل کا۔(مراٰۃ المناجیح، 2/306)

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ قتل ناحق کے بارے میں سب سے پہلے سُوال ہو گا۔ قتل ناحق کی مذمت پر چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے:

1۔ قتل صرف تین صورتوں میں جائز ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی مسلمان مرد کا جو لااِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی گواہی اور میری رسالت کی شہادت دیتا ہو خون صرف تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں حلال ہے: 1۔ نفس کے بدلے میں نفس، 2۔ ثیب زانی (شادی شدہ زانی) اور 3۔ اپنے مذہب سے نکل کر جماعت اہلِ اسلام کو چھوڑ دے (مرتد ہو جائے یا باغی ہو جائے)۔ (بخاری، 4/361، حدیث:6878)

2۔ مسلمان اپنے دین کے سبب کشادگی میں رہتا ہے جب تک کوئی حرام خون نہ کر لے۔ (بخاری، 4/356، حدیث: 6862

3۔ جنت کی خوشبو نہیں سونگے گا: جس نے کسی معاہد (ذمی) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھے گا اور بےشک جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک پہنچتی ہے۔ (بخاری، 2/365، حدیث: 3166)

4۔ بے شک دنیا کا زوال اللہ پر آسان ہے ایک مرد مسلم کے قتل سے۔ (ترمذی، 3/98، حدیث: 1400)


قتل ناحق سے مراد کسی کو ظلما ناحق قتل کرنا ہے، افسوس آج کل کے معاشرے میں کسی کو بےجا قتل کرنا بالکل معمولی سی بات سمجھا جاتا ہے، کبھی غیرت کے نام پر قتل، کبھی کسی پرانی دشمنی کے سبب قتل، کبھی جائیداد وغیرہ پر ناجائز قبضہ کرنے کے لیے کسی کو جان سے مار دیا جاتا ہے، ایسی بہت سی مثالیں آج کے دور میں ملتی ہیں اور لوگ انتہائی بےخوفی کے ساتھ انجام کی پروا کیے بغیر یہ حرام فعل سرانجام دے رہے ہیں جبکہ نص قطعی سے اس کی مذمت میں واضح دلائل موجود ہیں جن میں سے چند ایک پیش خدمت ہیں:

ارشاد ربانی ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

ایک اور جگہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ کنز الایمان: جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا۔

ان آیات مبارکہ سے کسی مسلمان کو بلا وجہ شرعی قتل کرنے کی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی اس سلسلے میں فرامین عبرت نشان موجود ہیں، چنانچہ

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ کسی مومن کوقتل کرنے میں اگر زمین وآسمان والے شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں دھکیل دے۔ (ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)

2۔ ایک اور روایت میں ہے: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث: 6871)

ان احادیث کریمہ میں بھی قتل ناحق کی شدید مذمت بیان کی جا رہی ہے اللہ تبارک و تعالیٰ جل شانہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے بچائے اور شرعی مسائل سیکھ کر ان پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنے اور انہیں دوسروں تک پہنچانے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


قتل ناحق کا حکم قصاص یعنی خون کا بدلہ خون اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

قتل ناحق کی مذمت احادیث کی روشنی میں: کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور اس کی مذمت احادیث میں بیان کی گئی ہے جن میں سے چار احادیث ملاحظہ ہوں:

(1)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو ناحق قتل کرنا ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث: 6871)

(2) ارشاد فرمایا: دو مسلمان آپس میں تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ فرمایا: اس لیے کہ وہ اپنے ساتھی کے ساتھ لڑنے میں مصر تھا۔ (بخاری، 1/23، حدیث: 31)

(3) جس نے کسی مسلمان کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا کہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)

(4) اگر آسمان وزمین والےکسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ پاک ان سب کو اوندھےمنہ جہنم میں ڈال دے۔ (معجم صغیر، 1/ 205)


کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے، اس پر قرآن و حدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ پاک کی بارگاہ میں اس حال میں پیش ہوگا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا کہ یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)

2۔ ہلاکت کا بھنور جس میں گرنے کے بعد پھر نکلنے کی امید نہیں وہ ایسا ناحق خون کرنا ہے جس کو اللہ پاک نے حرام کردیا ہے۔ (بخاری، 4/357، حدیث:6863)

جہاں مسلمان کو ناحق کرنے میں اللہ کے حقوق کی پامالی اور اس کی نافرمانی ہے وہاں ایک مسلمان کو قتل کرنا اس کو تکلیف دینا اور اس کے لواحقین کو تکلیف پہنچانا بھی گناہ ہے جس کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور حقوق العباد کا معاملہ حقوق اللہ سے زیادہ سخت ہے کہ اللہ رب العزت تب تک اس بندے کو معاف نہیں کرتا جب تک بندہ اس کو معاف نہ کردے۔

مسلمان کے قتل کو حلال سمجھنے کا حکم: اگر مسلمانوں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور اگر قتل کو حرام سمجھ کر ارتکاب کیا تو یہ کبیرہ گناہ ہے اور ایسا شخص مدت دراز تک جہنم میں رہے گا۔

مسلمانوں کا باہمی تعلق کیسا ہونا چاہیے؟ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ پاؤں اور زبان سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں۔ (بخاری، 1/15، حدیث: 10)

آ خر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں مسلمان ہونے کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے ہاتھ پاؤں، زبان اور دیگر اعضا سے لوگوں کو محفوظ فرمائے اور ہمیں احترامِ مسلم کا جذبہ عطا فرمائے۔ آمین


قراٰن و حدیث کی تعلیمات کےمطابق معاشرے کی اصلاح کرنے والی عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام عالمی مدنی مرکز  فیضانِ مدینہ کراچی میں قائم مرکزی جامعۃ المدینہ (فیضانِ مدینہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک ایجوکیشن) میں تخصص فی الحدیث کے طلبۂ کرام کے درمیان ”آداب ترجمہ اور فن تحریر“ کے موضوع پر 4 دن کی ورکشاپ منعقد کی گئی۔

معلومات کے مطابق دعوتِ اسلامی کے شعبہ المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) کے رکن مجلس مولانا آصف اقبال عطاری مدنی نے ورکشاپ میں بیان کرتے ہوئے ”آداب ترجمہ اور فن تحریر“ کے متعلق طلبۂ کرام کی تربیت و رہنمائی کی۔

ورکشاپ کے آخری دن سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا جس میں طلبۂ کرام نے آدابِ ترجمہ اور تحریر کے متعلق مختلف سوالات کئے جس کے انہیں تسلی بخش جوابات دیئے گئے۔

واضح رہے اس ورکشاپ میں کراچی کے علاوہ تخصص فی الحدیث ہند اور لاہور کے طلبۂ کرام بھی آن لائن شریک ہوئے۔ اس وقت تخصص فی الحدیث کی مجموعی تعداد تقریباً 70 ہے۔


مدینہ یہ وہ بابرکت شہرہےجہاں آقائےدوجہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مکہ سے ہجرت کرنے کے بعد قیام فرمایا اور یہ وہی شہر جسے رب العالمین نے اپنے محبوب کے لئے پسند فرمایا مدینہ منورہ نہایت افضل شہر ہے کیونکہ وہاں روضہ رسول ہے مدینہ منورہ کی خاک ، خاکِ شفاء ہے اور مدینہ منورہ کا وہ مقام جہاں حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا جسم اطہر تشریف فرما ہے وہ ہر مقام سے افضل ہے یہاں تک کہ خانہ کعبہ، عرش و کرسی و جنت سے بھی افضل ہےاس عظمت والے شہر کی احترام و تعظیم ہر مسلمان پر لازم ہے اور مدینہ کا وہ حصہ جسے آقائے دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حرم قرار دیا لہذا اسکے کچھ حقوق ہیں جن پر عمل پیرا ہونا ہر اہل ایمان پر واجب ہے ۔قرآن کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتاہے:وَ اِذْ قَالَتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْهُمْ یٰۤاَهْلَ یَثْرِبَ ترجمہ کنزالعرفان:اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا اے مدینہ والو! (پارہ 21,سورۃ الاحزاب,آیت 13)

اس آیت میں’’یثرب‘‘کا لفظ ذکر ہوا،اسکےبارےمیں اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں’’قرآنِ عظیم میں کہ لفظ’’یثرب‘‘ آیا وہ اللہ نےمنافقین کا قول نقل فرمایا ہے.یثرب کا لفظ فساد وملامت سے خبر دیتاہے وہ ناپاک اسی طرف اشارہ کرکے یثرب کہتے، اللہ عذوجل نے ان پر رد کے لئے مدینہ طیبہ کا نام طابہ رکھا، حضورِ اقدس،سرورِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : ’’یَقُولُونَ یَثْرِبَ وَہِیَ الْمَدِینَۃُ‘‘ وہ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ تو مدینہ ہے۔(بخاری،کتاب فضائل المدینۃ، باب فضل المدینۃ۔۔۔الخ،1/ 417،الحدیث:1871، مسلم،کتاب الحج، باب المدینۃ تنفی شرارہا، ص717، الحدیث: 488(1382)

اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا:اِنَّ اللہ تَعَالٰی سَمَّی الْمَدِیْنَۃَ طَابَۃَ ‘‘ بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مدینہ کا نام طابہ رکھا۔

روایت ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سوائے قرآن کے اور اس کے جو اس کتاب میں ہے کچھ اور نہ لکھا فرمایا کہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں مدینہ منورہ عیر سے ثور تک کے درمیان حرم ہے تو جو اس میں کوئی بدعت ایجاد کرے یا کسی بدعتی کو پناہ دے تو اس پر الله کی اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے اس کے نہ فرائض قبول ہوں نہ نفل مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے کہ ان کا ادنی آدمی بھی کوشش کرسکتا ہے جوکسی مسلمان کی عہد شکنی کرے اس پر اللہ ،فرشتوں اور سارے انسانوں کی لعنت ہے نہ اس کے فرض قبول نہ نفل جو اپنے کو اپنے دوستوں کی بغیر اجازت کسی قوم سے عقد دوستی باندھے اس پر اللّٰه کی فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے نہ اس کے فرض قبول ہوں نہ نفل۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4,ص225 ,حدیث نمبر:2728 )

حضرت انس رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے احد چمکا تو فرمایا یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں یقینًا ابراہیم علیہ السلام نے مکہ معظمہ کو حرم بنایا اور میں مدینہ کے گوشوں کے درمیان کو حرم بناتا ہوں.

یعنی ابراہیم علیہ السلام نے حدود مکہ معظمہ کو اپنی دعا سے حرم بنایا یا اس کی حرمت کو ظاہر فرمایا ورنہ وہ حرم تو خدا تعالٰی کے حکم سے ہے اور پہلے سے ہی ہے اور میں حدود مدینہ کو اپنے اختیار خداداد سے حرم بناتا ہوں اس سے پہلے مدینہ حرم نہ تھا نہ اس کی حرمت قرآن پاک میں مذکور ہے۔مدینہ کو حرم بنانے کے معنے وہ ہی ہیں جو پہلے عرض کیے گئے کہ اس مقدس مقام کی تعظیم و توقیر واجب ہے،اسے اجاڑنے ویران کرنے کی کوشش کرنا حرام ہے،یہاں شکار وغیرہ مکروہ ہے۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4,ص, 237حدیث نمبر:2745 )

صحیح ہے میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے ایک ایسی بستی کی طرف ہجرت کا حکم ہوا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی سب پر غالب ائے گی لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے لوگوں کو اس طرح پاک اور صاف کرے گی جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔

(1)حرم مدینہ والوں کو نا ڈرانہ:ابن حبان اپنی صحیح میں جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی، کہ رسول اللہ صل اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جواہلِ مدینہ کو ڈرائے گا ، اللہ (عز وجل) اُسے خوف میں ڈالے گا ۔(بہار شریعت ،ج1،ص، 1219، مکتبۃ المدینہ )

(2)حرم مدینہ والوں کو ایذا نا دینا۔طبرانی کبیر میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے راوی، کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جواہل مدینہ کو ایذا دے گا، اللہ (عز وجل) اُسے ایذا دے گا اور اس پر اللہ (عزوجل) اور فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت اور اس کا نہ فرض قبول کیا جائے ، نہ نفل مجمع الزوائد، كتاب الحج، باب فيمن اخاف اهل المدينة ... إلخ، الحديث : 5762 ، ج 3،ص 659 .)

(3) اہل مدینہ سے فریب نہ کرنا.صحیح بخاری اور مسلم نے سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ فرماتے ہیں جو شخص اہل مدینہ کے ساتھ فریب کرے گا ایسا گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے ۔(صحیح بخاری کتاب فضائل المدینہ باب اثم من کاد اہل المدینۃ الحدیث 1877،ج1ص618)

(4) مدینہ والوں پر ظلم نہ کرنا۔طبرانی عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یا اللہ عزوجل جو اہل مدینہ پر ظلم کرے اور انہیں ڈرائے تو اسے خوف میں مبتلا کر اور اس پر اللہ عزوجل اور فرشتےوں اور تمام ادمیوں کی لعنت اور اس کا نہ فرض قبول کیا جائے نہ نفل۔(المعجم الاوسط ،لطبرانی، الحدیث 3589 ص379)

(5) مدینے کو یثرب نہ کہنا۔رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں جو مدینہ کو یثرب کہے وہ اللہ تعالی سے بخشش طلب کرے یہ طابہ ہے یہ طابہ ہے ۔(مسند امام احمد جلد 6ص409 حدیث 18544)