محمد ہارون عطاری (درجۂ سادسہ
جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو جس طرح اللہ تعالی نے بندوں کے حقوق بیان کیے ہیں اسی طرح حرم مدینہ
کے بھی حقوق بیان کیے ہیں جیسے مدینے میں رہنے والوں پر ظلم نہ کرنا اور مدینے کے
درخت نہ کاٹنا اور بھی بہت سے حقوق بیان کیے ہیں جیسے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ
والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو اہل مدینہ کو ڈرائے گا اللہ اسے خوف میں ڈالے
گا(بہار شریعت جزء ب ص1219) تو آئیے مدینے کے اور حقوق سنتے ہیں !
(1)حرم
مدینہ کی تعظیم کرنا: جب حرم مدینہ
اؤ تو بہتر یہ ہے کہ پیادہ ہو لو روتے سر جھکاتے انکھیں نیچی کیے اور درود شریف کی
کثرت کرو اور ہو سکے تو ننگے پاؤں ہو۔ (بہار شریعت حصہ ششم ص 1222)
(2)
حرم مدینہ میں خون خرابہ نہ کرنا: مدینہ
منورہ کے وہ حدود جسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم مدینہ قرار دیا جس کی
حرمت و احترام واجب ہے اس کی حرمت کا لحاظ رکھتے ہوئے حضرت علی نے کوفہ کو اپنا
دارالخلافہ بنایا اور حضرت حسنین کریمین چلے گئے تاکہ ہماری وجہ سے حرم مدینہ میں
خون خرابہ نہ ہو ۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد 4ص356)
(3)
حرم مدینہ کے درخت نہ کاٹنا: حضرت
سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں مدینے
کے دو کناروں کے درمیان یہاں سے کانٹے کاٹنا حرام کرتا ہوں ۔ (مرآۃالمناجیح جلد
4ص245)
(4)
مدینے میں بدعت ایجاد نہ کرنا: حضرت
علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
مدینہ منورہ عیر سے ثور تک کے درمیان حرم ہے تو جو اس میں کوئی بدعت ایجاد کرے یا
بدعتی کو پناہ دے تو اس پر اللہ کی اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ (مرآۃ
المناجیح جلد4 ص243)
(5)
مدینے کی سختی اور بھوک پر صبر کرنا: حضرت
سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
جو شخص مدینے کی سختی اور بھوک پر صبر کرے گا تو قیامت کے دن میں اس کا شفیع یا
گواہ ہوں گا ۔ (مرآۃ المناجیح جلد4 ص245)
اللہ تعالی ہمیں
حرم مدینہ کے حقوق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے (امین بجاہ النبی الامین صلی
اللہ علیہ وسلم)
وارث علی عطّاری (درجۂ رابعہ
جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
مدینہ پاک ایک
افضل ترین جگہ ہے اور اس کی بہت زیادہ عزت و تکریم کی جاتی ہے اس جگہ کی عزت و تکریم
کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے اور اس جگہ کے بھی کچھ حقوق رکھے گئے ہیں جن کو ادا
کرنا بہت ضروری ہے ائیے ان میں سے چند حقوق ذکر کرتے ہیں۔
خون نہ بہانا :نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا
ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم بنایا اسی لیے احرام بنایا اور میں مدینہ کو
حرم بناتا ہوں اس کے گوشوں کے درمیان کو کہ اس میں خون نہ بہایا جائے نہ اس میں
جنگ کے لیے ہتھیار اٹھایا جاےنہ بجز چارے کی یہاں کا درخت کاٹا جائے ۔(حدیث مسلم
24 10 کتاب میرا ت المناجیح صفحہ 247 )
مدینہ والوں سے فریب نہ کرنا :میٹھے میٹھے اقا صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم
نے ارشاد فرمایا کوئی شخص مدینہ والوں سے فریب نہ کرے گا مگر وہ ایسے گھل جائے گا
جیسے پانی نمک میں گل جاتا ہے( بخاری مسلم 24 21 کتاب مرات المنا جی صفحہ نمبر 255
)
درختوں
کو نہ کاٹنا :حضرت صالح علیہ
السلام سے روایت ہے کہ حضرت سعد علیہ السلام نے مدینہ کے غلاموں کو مدینہ منورہ کے
درخت کاٹتے دیکھا تو اپ نے ان سب کا سامان چھین لیا اور ان کی ملاؤں سے فرمایا کہ
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اپ مدینہ منورہ کے کسی
درخت کاٹنے سے منع فرماتے تھے اور حضور نے فرمایا جو ان میں سے کچھ بھی کاٹے تو
پکڑنے والے کے لیے ہے اس کا سامان۔( حدیث ابو داؤد 24 24 کتاب میرعت المناجیہ جلد
نمبر چار صفحہ نمبر 257 )
تکلیف
پر صبر کرنا: نبی پاک صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا جو قصد میری زیارت کرے وہ قیامت کے دن میرے امان میں ہوگا اور جو
مدینہ منورہ میں رہے اور یہاں کی تکالیف پر صبر کرے میں قیامت کے دن اس کا شفیع
اور گواہ ہوں گا اور جو دونوں حرم سے کسی حرم میں جائے وہ قیامت کے دن امن والوں
سے ہوگا ۔(کتاب مرات المناجیح جلد نمبر چار صفحہ نمبر 261 )
آ صف علی (درجۂ رابعہ جامعۃ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
فریب
نہ کرنا(1)حضرت سعد رضی اللہ عنہ
سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخصں اہل مدینہ کے ساتھ فریب
کرے گا ایسا گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں کھلتا ہے۔(صحیح البخاری کتاب فضائل
المدینہ الحدیث 1877)
(جو مدینے میں رہنے والوں کو ڈرائے) (2) ابن حبان اپنی
صحیح میں جابر رضی اللہ عنہ سے راوی کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 1
جو اہل مدینہ کو ڈرائے گا اللہ عزوجل اُسے خوف میں ڈالے گا ۔(الإحسان بترتيب صحيح
ابن حبان کتاب الحج باب فضل المدینے حدیث 3730 میں 20)
(مدینہ لوگوں کے لیے بہتر ہے )(3)۔حضور صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا مدینہ لوگوں کے لیے بہتر ہے اگر جانتے ، مدینہ کو جو شخص بطور
اعراض چھوڑے گا ۔ اللہ تعالٰی اس کے بدلے میں اُسے لائے گا جو اس سے بہتر ہوگا ۔
اور مدینہ کی تکلیف و مشقت پر جو ثابت قدم رہے گا روز قیامت میں اس کا شفیع یا شہید
ہوں گا ۔(صحیح مسلم کتاب الحج .باب في فضل المدينة)
(مدینے کے لیے دعا)(4) حضرت ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف
لائے تو یہ دعا فرمائی کہ یا الله ہمارے لیے مدینہ منورہ کو ایسا محبوب فرما دے جس
طرح تو نے مکہ مکرمہ کو ہمارے لئے محبوب فرمایا تھا ۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ محبوب
فرمادے۔( بخاری شریف اور مسلم شریف)
(آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ سے محبت) ۔(5) حضرت انس
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر سے واپس
مدینہ منورہ تشریف لاتے اور دور سے مدینہ منورہ کی دیواروں کو دیکھتے تو محبت کی
وجہ سے اپنی سواری کو تیز کرتے تاکہ جلد مدینہ طیبہ میں داخل ہوں۔(بخاری شریف اور
مسلم شریف - )
ضیاء المصطفی (درجۂ ثالثہ جامعۃ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
اللہ تعالٰی
نے ہمارےلیے بہت سے مقدس مقامات بنائے اور ہمیں عطاء کئے ہیں اسی طرح ایک مقدس
مقام مدینہ طیبہ بھی ہے اللہ تعالی نے ہمیں ان کا ادب و احترام سکھایا اور آج ہم
حرم مدینہ کے کچھ حقوق کے بارے میں جانے گے
(1)درخت
نہ کاٹنا: حضرت سعد سے روایت ہے وہ
فراتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے میں مدینہ کے دو کناروں
کے درمیان یہاں سے کانٹے کاٹنا یا شکار قتل کرنا حرام کرتا ہوں۔ (مراة المناجمع
جلد 4 ص 245)
(2)برے
لوگوں کو نکالنا:حضرت ابوہریرہ
فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نے کہ قیامت قائم نہ ہوگی حتی
کہ مدینہ منورہ برے لوگوں کو یوں نکال دے جسے بھٹی لوہے کا میل نکال دیتی ہے۔(مراۃ
المناجیح جلد 4 ص (253)
(3)فریب
نہ کرنا :حضرت سعد فرماتے ہیں کہ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص مدینہ والوں سے قریب نہ کرے گا
مگر وہ ایسے گھل جائے گا جسے پانی میں نمک کھل جاتا ہے۔ (مرأة المناجیح جلد 4 ص
255)
(4)
مدینے کو یثرب نہ کہنا: مدینے کے
سلطان تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو مدینے کو یثرب کہے اس پر توبہ
واجب ہے مدینہ طیبہ ہے مدینہ طیبہ۔
جنید یونس
(درجۂ سابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
یوں تو مدینہ
منورہ کو تمام شہروں پر بے شمار خوبیوں کی وجہ سے فضیلت و برتری حاصل ہے، مگر اس کی
عزت و عظمت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ مدینۃ الرسول ہے، ہجرت گاہِ کو نین ہے اور اسے
رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمسے نسبت حاصل ہے اور اسی مقدس شہر میں حضور
آرام فرما ہیں۔
(1)مدینے
سےمَحَبَّت کا انداز: مالکیوں کےعظیم
پیشوا حضرت سَیِّدُناامام مالِک رَحْمَۃُ اللہ ِ عَلَیْہ زبردست عاشقِ رسول اور مدیْنۂ
مُنَوَّرہ کابہت زیادہ ادب(Respect)کرنےوالےتھے۔آپ رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ مدینےمیں
رہنے کے باوجود قضائے حاجت کے لیے حرمِ مدینہ سے باہر تشریف لے جققاتے اور حرم شریف
کی حُدود سے باہر جاکر اپنی طبعی حاجت(مثلاًاِستنجاوغیرہ)سے فارغ ہوتے۔(بستان
المحدثین ، ص۱۹ )
(2) شفا:۔خاکِ مدینہ میں شفا ہے۔ (جذب القلوب،ص22)
(3) ۔مجھےایک
ایسی بستی کی طرف ہجرت کا حکم ہوا، جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی(سب پر غالب آئے
گی) لوگ اس یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے، یہ بستی لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے
گی، جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔ (صحیح بخاری، ج1/617، حدیث1871)
(4)۔حضرت
ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا : ایمان سمٹ کر مدینہ طیبه میں اس طرح داخل ہو جائے گا جس طرح سانپ اپنے بل
میں داخل ہوتا ہے۔(ابن ماجہ السنن، کتاب المناسک، باب فضل المدينة، 3 : 524، رقم :
3111)
(5)۔حضرت ابن
عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
: جو شخص تم میں سے مدینہ میں مرنے کی طاقت رکھتا ہو وہ ایسا کرے کیونکہ جو مدینہ
میں مرے گا میں اللہ کے سامنے اس کی شہادت دوں گا۔
(ابن ماجه،
السنن، کتاب المناسک، باب فضل المدينة، 3 : 524، رقم : 3112)
محمد روحان
طاہر (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
اللہ تعالٰی
نے ہمارے ہے بہت سے مقدس مقامات بنائے اور ہمیں عطاء کئے ہیں اسی طرح ایک مقدس
مقام مدینہ طیبہ بھی ہمیں ان کا ادب و احترام سکھایا اور آج ہم حرم مدینہ کے کچھ
حقوق کے بارے میں جانے گے۔ فریب نہ کرنا:
حضرت سعد رضی
اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص مدینہ
والوں سے قریب نہ کرے گا مگر وہ ایسے گھل جائے گا جیسے پانی میں نمک کھل جاتا
ہے۔(مراة المناجح جلد 4 ص 255)
درخت
نہ کاٹنا:حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مقام وج کا شکار
اور وہاں کےدرخت کاٹنا حرام ہے۔(مراۃ المناجج جلد 4 ص 258)
برے
لوگوں کو نکالنا :حضرت ابو ہریرہ
رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت
قائم نہ ہوگی حتی کہ مدینہ منورہ برے لوگوں کو یوں نکال دے جیسے بھٹی لوہے کا میل
نکال دیتی ہے.(مراۃ المناجیح جلد 4 ص253)
مدینے
کو یسرب نہ کہنا:رسول اکرم صلی
اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو مدینے کو يسرب کہتا ہے اس پر توبہ واجب
ہو جاتی ہے مدینہ طابہ ہے مدینہ طابہ ہے۔(مسند امام احمد جلد 6 ص 409)
محمد مجاہد
رضا قادری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
علمائے اہل
سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مدینہ منورہ کے حدود کا ادب و احترام کرنا مکہ معظمہ
کی حدود کی طرح ہے جس مسلمان کو مدینہ پاک میں رہنا نصیب ہو جائے تو یہ اس کی خوش
نصیبی ہے کہ وہ اسے تمام ملکوں سے بہتر جانے مدینہ پاک ہمیں ہمیشہ آباد رہے گا کبھی
بھی ویران نہیں ہوگا اگر کوئی قوم یا جماعت اسے چھوڑ بھی جائے تو کوئی دوسری قوم
آکر اسے آباد کرے گی اللہ پاک ہمیں مدینہ پاک سے سچی محبت عطا فرمائے ۔
1.مدینہ
پاک سے محبت کرنا:-حضرت سہل ابن
سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ
"احد وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں"-(مراۃ
المناجیح جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 256)
2.مدینہ
پاک میں شکار نہ کرنا:- حضرت سعد
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
"میں مدینہ کے دونوں کناروں کے درمیان کانٹے کاٹنا اور قتل کرنا حرام کرتا
ہوں"( مراۃ المناجیح جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 245)
3۔مدینہ
پاک کو یثرب نہ کہنا:-نبی کریم رؤف
الرحیم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا "جو بندہ مدینہ پاک کو یثرب کہے
اس پر توبہ واجب ہے مدینہ طیبہ ہے مدینہ طیبہ ہے"(مسند امام احمد جلد نمبر 6
صفحہ نمبر 409)
4۔مدینہ
پاک میں صبر کرنا:- حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا کہ "میرا جو امتی مدینہ پاک کی سختیوں اور تکالیف پر صبر کرے گا میں قیامت
کے دن اس کی شفاعت کروں گا"(مراۃ المناجیح جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 246)
5۔فریب
نہ کرنا:-حضرت سعد رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "جو شخص
مدینہ والوں سے فریب کرے گا وہ ایسے گھل جائے گا جیسے پانی میں نمک گھل جاتا
ہے".(مراۃ المناجیح جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 255)
اللہ تبارک و
تعالی سے دعا ہے کہ کہ اللہ تبارک و تعالی ہمیں حرم مدینہ اور حرم مکہ کے حقوق صحیح
معنوں میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبی الامین صلی اللہ
تعالی علیہ وآلہ وسلم۔
تمام علماء کا
اس پر اتفاق ہے کہ مدینہ منورہ ادب و احترام مکہ معظمہ کی حدود کی طرح ہے بلکہ اس
سے بھی زیادہ ہے کہ حرمہ مدینہ کی عظمت بلند و بالا ہے اسی لیے اس کے حقوق بھی ہیں۔
ہمیں اس کے حقوق کو ادا کرنا ضروری ہے۔ آئے حرمہ مدینہ کے حقوق ملاحظہ کیجئے۔
1) (مدینہ بہتر ہے.) مدینہ بہترین جگہ ہے۔ صحیح حدیث میں ہے ۔ چنانچہ حضور
اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ، المَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ
كَانُوا يَعْلَمُونَ ترجمہ : مدینہ
اُن کے لیے بہتر ہے اگر وہ جانیں۔ ) بخاری ج 618 حدیث (1870)
2)۔
(مدینہ میں دجال داخل نہ ہوگا ۔) سرکار
والا تبار ، ہم بے کسوں کے مدد گار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
: على
اَنْقَابِ الْمَدِينَةِ مَلَائِكَةٌ لاَ يَدْخُلُهَا اللاعونُ وَلَا الله جَالُ - ترجمہ : مدینے میں داخل ہونے کے تمام راستوں
پر فرشتے ہیں۔ اس میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوں گے۔ ( بخاری ج ا ص 619 حدیث نمبر
1880)
3)۔
(مدینہ کو یثرب کہنا گناہ ہے) میٹھے
میٹھے اسلامی بھائیو اسے مدینہ منورہ کو یثرب کہنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ مدینہ طیبہ
کو مشرب کہنا نا جائز و ممنوع و گناہ ہے۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا: جو مدینہ کو یثرب کہے اُس پر تو یہ واجب (فتاوی رضویہ ج 21 م (116)
4)۔
( مدینہ لوگوں کو پاک وصاف کرے گا۔) رسول
نذیر سراج منیر، محبوب رب قدیر صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : مجھے ایک
بستی کی طرف ہجرت کا حکم ہوا جو تمام بیتیوں کو کھا جائے گی ( سب پر غالب آئے گی،
لوگ اسے ہرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے، (یہ بستی) لوگوں کو اس طرح پاک وصاف کرے گی
جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔" (صحیح بخاری حدیث 1871 ، ج 1 ، ص (617)
5)۔
(مدینہ میں شکار نہ کرنا :)مدینہ
منورہ میں شکار کرنا حرام ہے. چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
: کہ میں مدینے کے دو کناروں کے درمیان یہاں سے کانٹے کاٹنا یا ۔ یہاں کا شکار قتل
کرناحرام کرتا ہوں ۔(مراۃ المناجح
شرح مشکوۃ
المصابیح ج 4 ص 245 ، حدیث نمبر (2607)
احمد
افتخار عطاری (درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
میٹھے میٹھے
اسلامی بھائیو اللہ پاک نے مدینہ منورہ کو کس قدر مقام و مرتبہ عطا کیا ہے اس کا
اندازہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے فرامین سے لگایا جا سکتا ہے جتنے مدینہ
منورہ کے فضائل ہیں اتنے ہی مدینہ منورہ میں رہنے کے آداب بھی ہیں آئیے میں آپ کے
سامنے چند احادیث مبارکہ پیش کرتا ہوں
مدینہ
منورہ کی تکالیف پر صبر کرنا:(1)
روایت ہے اولاد خطاب کے ایک مرد سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے راوی حضور
صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو قصدًا میری زیارت کرے وہ قیامت کے دن میری امان
میں ہوگا اور جو مدینہ منورہ میں رہے اور یہاں کی تکالیف پر صبر کرے میں قیامت کے
دن اس کا شفیع اور گواہ ہوں گا اور جو دونوں حرم سے کسی حرم میں مر جائے وہ قیامت
کے دن امن والوں سے ہوگا کتاب۔:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4 , حدیث
نمبر:2755
مدینہ
والوں سے فریب نہ کرنا: (4) روایت
ہے حضرت سعد سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی شخص مدینہ
والوں سے فریب نہ کرے گا مگر وہ ایسے گھل جائے گا جیسے پانی میں نمک گھل جاتا ہے۔ کتاب:مرآۃ
المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4 , حدیث نمبر:2743
مدینہ
منورہ کے کانٹے کاٹنا : (5)روایت
ہے حضرت سعد سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ میں مدینہ
کے دو کناروں کے درمیان یہاں سے کانٹے کاٹنا یا یہاں کا شکار قتل کرنا حرام کرتا
ہوں فرمایا مدینہ مسلمانوں کے لیے بہتر ہے اگر وہ جانتے ہوتے ایسا کوئی نہیں جو مدینہ
سے رغبتی کرتے ہوئے اسے چھوڑے مگر اللّٰه اس مدینہ میں اس کو اچھا رہنے والا بسائے
گا اور کوئی شخص مدینہ کی سختی اور بھوک پر صبر نہ کرے گا مگر میں قیامت کے دن اس
کا شفیع یا گواہ ہوں گا۔ کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4 , حدیث
نمبر:2729
کلیم اللہ
چشتی عطّاری (درجۂ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ فاروقِ اعظم سادھوکی لاہور ،
پاکستان)
جس طرح مدینہ
منورہ کا مقام و مرتبہ بہت بلند و بالا ہے اسی طرح حرمِ مدینہ کے بہت فضائل ہیں
حرم مدینہ بھی شہر مدینہ کے اندر ہی ہے یہ وہ جگہ ہے جس کو نبیِّ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حرم یعنی حرمت و عزت والی جگہ قرار دیا ہے۔ بخاری شریف میں
ہے : مدینۂ منورہ عیر پہاڑ سے ثور پہاڑ تک حرم ہے۔ (بخاری، 4/323، حدیث:6755) اس
کے حقوق کی پاسداری و نگہبانی کے لئے بہت محتاط رہنا پڑے گا وگرنہ چھوٹی سی غفلت
کے سبب بہت بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آئیے حرمِ مدینہ کے حقوق میں سے
چند کا مطالعہ کیجئے:
(1)
درخت کاٹنے کی ممانعت: حرم مدینہ
کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اس حدود میں موجود درختوں وغیرہ کو نہ کاٹا جائے
کیونکہ یہ بھی حرم ہے جس طرح کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : مدینہ
یہاں سے وہاں تک حرم ہے لہٰذا اس کے درخت نہ کاٹے جائیں۔
(2)صبر کرنا:مدینۂ منورہ جس طرح اتنی برکتوں رحمتوں والا مقدس شہر
ہے اس میں انسان قلبی سکون و اطمینان محسوس کرتا ہے وہیں اگر کوئی آزمائش و
پریشانی نیکیوں میں اضافہ کرنے کے لئے تشریف لے آئے تو اس پر صبر کرنے والے کے لئے
بہت بڑی بشارت ہے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جو کوئی میرا
امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں
گا۔(مسلم، ص548، حدیث: 3339)
شہِ کونین نے جب صدقہ بانٹا
زمانے بھر کو دم میں کر دیا خوش
(3)
عیب جوئی نہ کرنا: مدینۂ منورہ کی
ہر چیز نفیس و عمدہ و اعلیٰ ہے اس میں کسی عیب و نقص کا شبہ تک نہیں، اگر بالفرض
طبعی طور پر کوئی چیز پسند نہ آئے تو اس میں عیب جوئی کی بجائے اپنی آنکھوں کا
دھوکا وعقل کی کمی سمجھے وگرنہ اس کی بڑی سخت سزا ہے۔ حضرت امام مالک رضی اللہُ
عنہ نے مدینۂ پاک کی مبارک مٹی کو خراب کہنے والے کے لئے 30 کوڑےلگانے اور قید
میں ڈالے جانے کا فتویٰ دیا۔ (الشفاء، 2/57)
جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سید عالم
اُس خاک پہ قرباں دلِ شیدا ہے ہمارا
(4)
تکلیف نہ پہنچانا: حرمِ مدینہ کے
حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ وہاں کے رہنے والوں سے پیار و محبت و حسن اخلاق سے پیش
آیا جائے، ان کو تکلیف پہنچانا تو دور کی بات صرف تکلیف پہنچانے کا ارادہ کرنے
والے کے لئے حضور علیہ السّلام نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اسے اس طرح پگھلا دے گا
جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ (مسلم، ص551، حدیث: 3359)
(5) یثرب کہنے کی ممانعت:مدینۂ منورہ کو یثرب کہنا جائز نہیں کیونکہ یہ لفظ اس
شہرِ مقدس کے شایانِ شان نہیں جس طرح کے حضور علیہ السّلام نے فرمایا: جس نے مدینہ
کو یثرب کہا اسے چاہئے کہ وہ اللہ پاک کی بارگاہ میں استغفار کرے کیونکہ مدینہ طابہ
ہے،طابہ ہے۔(مسند احمد،30/483، حدیث: 18519-بخاری،1/616، حدیث: 1867)
اس کے علاوہ بھی حرمِ مدینہ کے بہت سارے حقوق و
آداب ہیں مثلاً وہاں فضولیات ولغویات سے بچنا،آواز کو پست رکھنا، ہمیشہ زبان کو
درود پاک سے تر رکھنا، وہاں زیادہ عرصہ قیام نہ کرنا وغیرہ۔ اسی طرح جب حرم مدینہ
آئے تو ہو سکے تو پیدل،روتے ہوئے، سر جھکائے،نیچی نظریں کئے چلئے۔
حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا
ارے سر کا موقع ہے او جانے والے
اللہ پاک ہم
سب کو بار بار حاضری ِمدینہ کی سعادت عطا فرمائے اور حرمِ مدینہ کے تقدس وحقوق کی پاسداری
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
سلمان عطاری
(درجۂ سابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
اللہ تعالیٰ
نے قرآنِ مجید میں بھی چغل خور کی مذمت بیان فرمائی ہے اور احادیث میں بھی اس کی
مذمت بیان کی گئی ہے اور اس کے بارے میں وعیدیں بھی بیان کی گئی ہیں چنانچہ چغلی کی
مذمت کے بارے میں احادیث نبوی ملاحظہ کیجیے تاکہ اس سے عبرت حاصل کرتے ہوئے اس سے
بچا جا سکے :-
(1)
اللہ پاک کے بدترین بندے کون ہیں :-وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ
يَزِيدَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خِيَارُ عِبَادِ
اللَّهِ الَّذِينَ إِذَا رُؤُوا ذُكِرَ اللهُ. وَشِرَارُ عِبَادِ اللَّهِ
الْمَشَّاؤُونَ بِالنَّمِيمَةِ وَالْمُفَرِّقُونَ بَيْنَ الْأَحِيَّةِ الْبَاغُونَ
الْبُرَاءَ الْعَنَتَ :-(کتاب :
مرآۃ المناجیح جلد(6) حدیث نمبر(4871) :-
حضرت عبد
الرحمان ابن غنم اور اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا کہ اللہ کے بہترین بندے وہ ہیں کہ جب دیکھے جائیں تو اللہ یاد آجائے ۔ اور
اللہ کے بدترین بندے وہ ہیں جو چغلی سے چلیں، دوستوں کے درمیان جدائی ڈالنے والے
سے اور پاک لوگوں میں عیب ڈھونڈنے والے :-
(2)
جنّت میں چغل خور نہیں جائے گا :-وَعَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَتَاتٌ( کتاب : مرآۃ المناجیح جلد (6) حدیث نمبر
(4823) :-حضرت حذیفہ (رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جنت میں چغل خور نہ جائے گا :-
(3)
چغل خور عذاب میں مبتلا :-عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى
اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْرَيْنِ فَقَالَ : إِنَّهُمَا لَيُعَذِّبَانِ
وَمَا يُعَذِّبَانِ فِي كَبِيرٍ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنَ
الْبَوْلِ وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ ثُمَّ أَخَذَ
جَرِيدَةً رَطَبَةً فَشَقَهَا بِنِصْفَيْنِ ثُمَّ غَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ
وَاحِدَةً قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ صَنَعْتَ هُذَا فَقَالَ : لَعَلَّهُ
أَن يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبِسَا ( مشكاة المصابيح ، كتاب الطهارة، باب آداب الخلائ
الحديث(338) جلد(1) ص (81) :-
حضرت ابن عباس
رَضِيَ الله تَعَالَى عَنْهُما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضور نبی صَلَّى
اللَّه تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو ارشاد فرمایا
کہ یقینا یہ دونوں عذاب میں مبتلا ہیں اور کسی ایسے گناہ میں عذاب نہیں دیا جا رہا
ہے جس سے بچنا بہت زیادہ دشوار ہو۔ ان میں سے ایک تو پیشاب کے وقت پر دہ نہیں کرتا
تھا اور دوسرا چغل خوری کرتا تھا۔ پھر آپ نے کھجور کی ایک ہری ٹہنی لی اور اس کو چیر
کر دو ٹکڑے کئے پھر ہر قبر میں ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول
الله ! عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّى اللَّه تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم آپ نے ایسا
کیوں کیا ؟ تو حضور صلی الله تعالى عليه واله وسلم نے فرمایا: اس لئے کہ جب تک یہ
ٹہنیاں خشک نہ ہوں گی ان دونوں کے عذاب میں تخفیف ہو جائے گی۔
(4)
اللہ پاک چغل خور کو قیامت کے دن کتے کی شکل میں جمع فرمائے گا :- حضرت علاء بن حارث رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت
ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد
فرمایا: منہ پر بُرا بھلا کہنے والوں ، پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنے والوں ، چغلی
کھانے والوں اور بے عیب لوگوں میں عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ (قیامت کے
دن کتوں کی شکل میں جمع فرمائے گا۔ ( التوبیخ والتنبیہ لابی الشيخ الاصبہانی، باب
البهتان و ماجاء فیہ ص (237) الحدیث: (215) :-
(5)
چغل خور کی سزا:- رسولِ اکرم صلی
اللہ تَعَالٰی عَلَيْهِ وَآلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: چار آدمی ایسے ہیں کہ
وہ جہنمیوں کی تکلیف میں اضافے کا سبب بنیں گے اور وہ کھولتے پانی اور آگ کے درمیان
دوڑتے ہوئے ہلاکت و تباہی مانگتے ہوں گے۔ اُن میں سے ایک پر انگاروں کا صندوق لٹک
رہا ہو گا، دوسرا اپنی آنتیں کھینچ رہا ہو گا، تیسرے کے منہ سے پیپ اور خون بہہ
رہے ہوں گے اور چوتھا اپنا گوشت کھا رہا ہو گا۔ گوشت کھانے والے کے بارے میں جہنمی
ایک دوسرے سے کہیں گے :
حافظ مبین
ضمیر رضوی عطّاری (درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
میرے پیارے
اور محترم اسلامی بھائیوں جو موضوع اب لکھنے لگا ہو یہ بڑا اہم ہے اور وہ موضوع
چغلی کی مذمّت احادیث کی روشنی میں ہیں میرے پیارے اور محترم اسلامی بھائیوں چغل
خوری کا معنی ہے لگائی بجھائی کرنا ، خرابی ڈالنے کی نیت سے ایک کی بات دوسرے تک
پہنچانا اور دوسرے کی بات پہلے تک پہنچانا اور باہمی اختلافات پیدا کرنا - امیر
دعوت اسلامی مولانا الیاس قادری صاحب جو نعرہ لگاتے ہیں کہ چغل خور ، محبتوں کے
چور وہ بلکل درست کہتے ہیں ، واقعی یہ محبتوں کے چور ہے ، معاشرے میں افتراق اور
انتشار پیدا کرتے ہیں ، بدامنی پھیلاتے ہیں - رشتے داروں کو رشتے داروں سے لڑاتے
ہے اور دوستوں میں نفرتیں پیدا کرتے ہیں - چغل خوری گناہ کبیرہ ہے اور کافرانہ فعل
ہے - قرآن پاک میں ہے کہ چغل خوری کافروں کی صفت ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ ترجمہ:
بہت طعنہ دینے والا اور چغلی میں بہت دوڑ دھوپ کرنے والا ،
لیکن ہمارا جو
موضوع ہے وہ احادیث کی روشنی میں ہیں تو آئیے اس کے بارے میں چند احادیث پیش کرتا
ہوں
حدیث نمبر 1:
(لا یبلغنی احد من اصحابی عن احد شیئا ، فانی احب ان اخراج الیکم وانا سلیم الصدر
،) ترجمہ: کوئی شخص میرے صحابہ کے بارے میں مجھے کوئی بات نہ پہنچائے ، میں چاہتا
ہوں کہ تمہارے پاس صاف سینے کے ساتھ آیا کروں - ( ابو داؤد: کتاب الادب: باب نمبر
28 : حدیث نمبر 4860 اور یہ حدیث 365 درس حدیث کے صفحہ نمبر 768 پر موجود ہے اور
اس کتاب کے مصنف کا نام علامہ محمد دین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ ہے اور مطبوعہ فیض
رضا پبلی کیشینز ہے)
حدیث نمبر 1 کی وضاحت:یعنی دوسروں کی چغل خوری میرے
سامنے نہ کیا کرو ، تاکہ میرے دل میں کیسی کے خلاف کدورت پیدا نہ ہو - انسان کو جب
کسی کے بارے میں غلط بات پہنچتی ہے تو وہ اس سے متاثر ہونے بغیر نہیں رہ سکتا - وہ
اس کا اظہار کرے یا نہ کرے دل میں اس کا اثر ضرور ہوتا ہے - اس لے بلاوجہ کسی کے
بارے میں غلط بات دوسرے کے سامنے نہیں کرنی چاہئے -
حدیث نمبر 2:
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کے بہترین بندے وہ
ہے کہ جب ان کو دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ یاد آ جائے اور اللہ تعالیٰ کے بد ترین
بندے چغلی کھانے کے لیے ، ادھر اُدھر پھرنے والے ، دوستوں کے درمیان جدائی ڈالنے
والے اور بے عیب لوگوں کی خامیاں نکالنے والے ہیں )( مسند احمد: مسند الشامیین:
مسند عبد الرحمن بن غنم الاشعری: حدیث نمبر 17998 اور یہ حدیث 365 درس حدیث کے
صفحہ نمبر 768 پر موجود ہے اور کتاب کے مصنف کا نام علامہ محمد دین سیالوی ہے اور
مطبوعہ فیض رضا پبلی کیشینز ہے)
حدیث نمبر 3: نبی
کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ( لا یدخل الجنہ نمام) ترجمہ: ( چغل
خور جنت میں داخل نہیں ہو گا) ( مسلم: کتاب الایمان: باب نمبر 45 : حدیث نمبر 105
ہے اور یہ حدیث 365 درس حدیث کے صفحہ نمبر 768 پر موجود ہے اور اس کتاب کے مصنف کا
نام علامہ محمد دین سیالوی ہے اور مطبوعہ فیض رضا پبلی کیشینز ہے)
حدیث نمبر 4: حضرت
حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
فرماتے ہوئے سنا کہ چغل خور جنت میں نہیں جائے گا- (صحیح البخاری ،، کتاب الادب ،
باب ما یکرہ من النمیمتہ، الحدیث: 6056 ، جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 115 اور یہ حدیث
انوار الحدیث کے صفحہ نمبر 390, پر موجود ہے اور کتاب کے مصنف کا نام علامہ مفتی
جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ ہے اور مطبوعہ مدینہ العلمیہ کا ہے )
Dawateislami