
جس نے بلا اجازتِ شرعی کسی کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام
انسانوں کو قتل کردیا کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے حق، بندوں کے حق اور حدودِ
شریعت سب کو پامال کردیا اور جس نے کسی کی زندگی بچا لی جیسے کسی کو قتل ہونے یا
ڈوبنے یا جلنے یا بھوک سے مرنے وغیرہ اَسبابِ ہلاکت سے بچالیا تو اس نے گویا تمام
انسانوں کو بچا لیا۔
آیت مبارکہ: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ
خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا
عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
احادیث مبارکہ:
(1) کسی مومن کوقتل کرنے میں اگر زمین وآسمان والے شریک ہو
جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں دھکیل دے۔ (ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)
(2) اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کاختم ہو جانا ایک مسلمان کے
ظلماً قتل سے زیاد سہل ہے۔ (ابن ماجہ، 3/ 261، حدیث: 2619)
(3) جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ باہم ٹکراتے ہیں تو
قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں عرض کی گئی یا رسول الله ﷺ ایک تو قاتل ہے لیکن
مقتول کا کیا قصور؟ ارشاد فرمایا: وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنے پر حریص ہوتا ہے۔
(بخاری، 1/23، حدیث: 31)
(4)امید ہے کے ہر گناہ کو الله بخش دے گا مگر وہ شخص جو کفر
کی موت مرا ہو یا کسی شخص نے جان بوجھ کر کسی مسلمان کو ناحق قتل کیا ہو۔ (ابو داود،
4/139، حدیث: 4270)
(5)جس شخص نے آدھے کلمے کے ذریعے بھی کسی مسلمان کے قتل پر
مدد کی وہ الله سے اس حالت میں ملے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا
کہ یہ شخص رحمتِ الٰہی سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)
یہ آیت ِ مبارکہ و احادیث مبارکہ اسلام کی اصل تعلیمات کو
واضح کرتی ہیں کہ اسلام کس قدر امن و سلامتی کا مذہب ہے اور اسلام کی نظر میں
انسانی جان کی کس قدر اہمیت ہے۔ اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو اسلام
کی اصل تعلیمات کو پس پُشت ڈال کر دامنِ اسلام پر قتل و غارت گری کے حامی ہونے کا
بد نما دھبا لگاتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو مسلمان کہلا
کر بے قصور لوگوں کو بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے ذریعے موت کی نیند سلا کر یہ
گمان کرتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کی بہت بڑی خدمت سر انجام دے دی۔
قتل کی جائز صورتیں: قتل کی شدید ممانعت کے ساتھ چند صورتوں کو اس سے جدا رکھا ہے بیان کردہ وہ
صورتیں یہ ہیں:
(1) قاتل کو قصاص میں قتل کرنا جائز ہے۔
(2) زمین میں فساد پھیلانے والے کو قتل کرنا جائز ہے۔
اس کے علاوہ مزید چند صورتوں میں شریعت نے قتل کی اجازت دی
ہے۔ مثلاً
(1)شادی شدہ مرد یا
عورت کو زنا کرنے پر بطورِ حد رجم کرنا، (2) مرتد کو قتل کرنا۔ (3) باغی کو قتل
کرنا۔
الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اس گناہ کبیرہ سے محفوظ رکھے۔
آمین بجاہ خاتم النبین ﷺ

کسی مسلمان کوناحق قتل کرنابہت بڑا گناہ ہے قرآن وحدیث میں
اس گناہ پر بہت سی وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ
خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا
عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے: مَنْ
قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ
النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ
کنز الایمان: جس
نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں
کو قتل کیا۔
احادیث مبارکہ:
1۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اللہ
کے نزدیک ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر ہے۔ (شعب الایمان، 4/344، حدیث:
5341)
2۔ دنیا میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل
نے حسد میں آکر اپنے سگے بھائی حضرت ہابیل کو قتل کیا۔ قتل ناحق ایسا برا فعل ہے
کہ اسکی وجہ سے ابلیس لعین نے قابیل کو اسکے اس فعل پر اسے ایسا دلیر بنا دیا کہ
وہ آگ کی پوجا کرنے لگا کسی کو رب العالمین کا شریک ٹھہرایا۔ قابیل ہی وہ شخص ہے
جس نے سب سے پہلے آگ کی پوجا کی اور اپنے ایمان سے دوچار ہوا۔
حدیث شریف میں ہے کہ روئے زمین پر قیامت تک جو بھی قتل ہوگا
قابیل اس میں حصہ دار ہوگا کیونکہ اسی نے سب سے پہلے قتل کا دستور نکالا۔ (بخاری،
2/413، حدیث:3335)
3۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر
ہے۔ (ترمذی، 3/98، حدیث: 1400)

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب دو مسلمان تلواریں لئے ایک دوسرے
پر حملہ آور ہوں تو قاتل و مقتول دونوں آگ میں ہیں۔ ( راوی فرماتے ہیں) میں نے عرض
کی: یار سول الله! قاتل تو واقعی اس کا حق دار ہے مگر مقتول کا کیا قصور ہے؟ ارشاد
فرمایا: وہ بھی تو اپنے مقابل کو قتل کرنا چاہتا تھا۔(بخاری، 1/23، حدیث: 31)
شرحِ حدیث: قاتل و مقتول کب جہنمی ہونگے؟ اس حوالے سے حضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ
مرقاۃ شرح مشکاۃ میں اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: حرام فعل کا ارادہ کرنا ان
افعال میں سے ہے جن پر مواخذہ ہے۔ اور یہ ( قاتل و مقتول دونوں کے جہنمی ہونے کا
حکم ) اس وقت ہے جب دونوں ہی ایک دوسرے کے قتل کے ارادے سے حملہ آور ہوں۔ اگر ان
میں سے ایک نے دفاع کا ارادہ کیا اور اُس کی طرف سے پہل بھی نہ ہوئی مگر صرف دوسرے
کے مارنے کی وجہ سے اس نے اس کو قتل کر دیا تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہو گا،
کیونکہ اس کو (اپنی جان بچانے کی ) شرعا اجازت دی گئی ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، 7/104)
حضرت ابو یعلی شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ پاک نے ہر چیز کے ساتھ بھلائی کرنا فرض
کیا ہے، لہذا جب تم قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو اور جب تم ذبح کرو تو اچھے
طریقے سے ذبح کرو، تم اپنی چھری کو تیز کرو اور ذبح ہونے والے جانور کو آرام
پہنچاؤ۔ (مسلم، ص 832، حدیث: 5055)
حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے
فرمایا کہ جب کسی قوم میں خیانت ظاہر اور کھلم کھلا ہونے لگتی ہے تو اللہ تعالیٰ
اس قوم کے دل میں اس کے دشمنوں کا خوف اور ڈر ڈال دیتا ہے اور جب کسی قوم میں
زناکاری پھیل جاتی ہے تو اس قوم میں بکثرت موتیں ہونے لگتیں ہیں اور جو قوم ناپ
تول میں کمی کرنے لگتی ہے س قوم کی روزی کاٹ دی جاتی ہے اور جو قوم ناحق فیصلہ
کرنے لگتی ہے اس قوم میں خون ریزی پھیل جاتی ہے اور جو قوم عہد شکنی اور بد عہدی
کرنے لگتی ہے اس قوم پر اس کے دشمن کو غالب و مسلط کر دیا جاتا ہے۔
ایک صحابی نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: یا رسول الله! مجھے
بکری ذبح کرنے پر رحم آتا ہے۔ تو حضور نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر تم اس پر
رحم کرو گے تو اللہ پاک بھی تم پر رحم فرمائے گا۔ (مسند امام احمد، 5/304، حدیث: 15592)
اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں حدیث پاک اور اس کی
شرح میں موجود مشمولات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامين ﷺ

وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا
مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ
وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔ اس آیت میں جان بوجھ کر کسی مسلمان کو قتل کرنے کی اخروی وعید
بیان کی گئی ہے۔ کسی مسلمان کو ناحق جان بوجھ کر قتل کرنا شدید کبیرہ گناہ ہے،
کثیر احادیث میں اس کی وعید بیان کی گئی ہے چند ایک ملاحظہ ہوں:
احادیث مبارکہ:
1۔ جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول
دونوں جہنم میں جائیں گے راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کی مقتول جہنم میں کیوں جائے
گا؟ ارشاد فرمایا: اس لیے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر مصر تھا۔ (بخاری، 1/23،
حدیث: 31)اگر کسی مسلمان کا قتل حلال سمجھ کر کیا یعنی اسکا ارتکاب کیا تو یہ خود
پر کفر ہے ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی
ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے ایسا شخص مدت دراز تک جہنم میں رہے گا۔ (صراط
الجنان، 2 /277)
قتل ناحق سے بچے رہنے کے لئے: غصے پر قابو رکھئے، گھر میں دینی ماحول بنائیے اور شریعت
وسنت کے مطابق زندگی گزارئیے ان شاء اللہ گھریلو ناچاقیوں اور لڑائی جھگڑوں کا
خاتمہ ہوگا، دل سے دنیا کی محبت نکال دیجئے کہ حدیث شریف میں ہے: دنیا کی محبت
تمام گناہوں کی جڑ ہے، تواضع اختیار کیجئے اور تکبر کی آفت سے پیچھا چھڑائیے، انجام
کو پیش نظر رکھئے کہ یہ وقتی اور جذباتی قدم دنیا و آخرت میں کس قدر تباہی وبربادی
کا باعث بنتا ہے مثلا یہ کہ قاتل کو اپنے ملکی قانون کے مطابق طرح طرح کی تکلیف دہ
سزاؤں اور عزیزواقرباء کے سامنے ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے علاوہ
قرآن و حدیث میں اس کے لئے جہنم کے درد ناک عذاب کی وعید بھی آئی ہے۔ (ظاہری
گناہوں کی معلومات، ص79)
اللہ پاک ہم سب کو اس مذموم فعل سے محفوظ فرمائے۔ آمین

اسلام نہ صرف مسلمانوں بلکہ بلا تفریقِ مذہب، رنگ و نسل
اِنسانوں کے قتل کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ اِسلام میں کسی اِنسانی جان کی قدر و
قیمت اور حرمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے بغیر کسی وجہ کے ایک
فرد کے قتل کو پوری اِنسانیت کا خون بہانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے
حرمت و تکریم اِنسانیت کے حوالے سے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا: مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ
فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6،
المائدۃ: 32) ترجمہ کنز الایمان: جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے
بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی
اکرم ﷺ نے کسی بھی شخص کے قتلِ نا حق کو دنیا کے مٹ جانے سے بڑا سانحہ قرار دیا ہے،
چنانچہ ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ کے نزدیک پوری کائنات کا ختم ہو جانا بھی کسی شخص
کے قتلِ ناحق سے ہلکا ہے۔ (ترمذی، 3/98، حدیث: 1400)
مسلمانوں کو قتل کرنے والے کی نفلی اور فرض عبادت بھی ردّ
کر دی جائے گی۔ حضرت عبد اﷲ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے
فرمایا: جس شخص نے کسی مومن کو ظلم سے ناحق قتل کیا تو اﷲ تعالیٰ اس کی کوئی نفلی
اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائے گا۔ (ابو داود، 4/ 139، حدیث: 4270)
انسانی حرمت و تقدس کو پامال کرکے اپنے اَعمال و عبادات کو
ذریعہ نجات سمجھنے والے اِنتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو جان لینا چاہیے کہ روزِ
محشر نہ صرف ان کی عبادات ردّ کر دی جائیں گی بلکہ ان کے لیے عذابِ جہنم کی دردناک
وعید بھی ہے۔

وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا
مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ
وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔ کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ
ہے اور کثیر احادیث میں اس کی مذمت بیان کی گئی ہے چند ملاحظہ فرمائیں:
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو (نا حق) قتل
کرنا ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث: 6871)اس احادیث میں بتایا جا رہا ہے کہ جو بڑے
کبیرہ گناہ ہیں ان میں سے ایک گناہ کسی کو ناحق قتل کرنا ہے۔
2۔ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والے شخص کے بارے میں فرمایا
جاتا ہے کہ ایسا شخص قیامت کے دن بہت خسارے میں ہوگا۔
3۔ اگر زمین وآسمان والے اگر کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو
جائیں تو اللہ تعالی سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ (معجم صغیر، 1/ 205)اس
حدیث میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ جو لوگ مسلمان کے قتل پر جمع ہوں گے تو انہیں اللہ
اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا ذرا سوچیے کہ صرف مسلمان کے قتل پر جمع ہونے والوں
کی یہ سزا بیان کی گئی ہے تو جو کسی مسلمان کا ناحق قتل کرے گا وہ کیسے دنیا اخرت
میں ذلیل و رسوا ہوگا دنیا میں الگ سے شریعت کے مطابق سزادی جائے گی اور اخرت میں
الگ سے عذاب دیا جائے گا۔
4۔ جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ
قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے
درمیان لکھا ہوگا یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)افسوس
کہ آج کل قتل کرنا ہمارے معاشرے میں بہت معمولی کام ہو گیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں
پر جان سے مار دیتے ہیں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے ہمارے معاشرے
کے کچھ لوگوں کا کام ہی قتل و غارت کرنا ہے۔
5۔ مسلمان کو گالی دینا فسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔ (بخاری،
4/11، حدیث: 6044)
مسلمانوں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا یعنی
(کسی مسلمان کو قتل کیا) تو یہ کرنے والا کافر ہو جائے گا کیونکہ قتل و غارت کی
مذمت قران پاک میں بیان کی گئی ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔
اللہ پاک ہمیں قتل و غارت جیسے کبیرہ گناہ سے بچنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ آمین

کسی مسلمان کو بغیر کسی شرعی مجبوری کے ناجائز
ظلماً قتل کرنا، نا حق قتل کرنا ہے۔ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا کفر کے بعد کبیرہ
گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ ہے۔
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی مسلمان مرد کا جو لااِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی گواہی اور میری رسالت کی شہادت دیتا ہو خون صرف تین صورتوں میں سے کسی ایک
صورت میں حلال ہے: 1۔ نفس کے بدلے میں نفس، 2۔ ثیب زانی (شادی شدہ زانی) اور 3۔
اپنے مذہب سے نکل کر جماعت اہلِ اسلام کو چھوڑ دے (مرتد ہو جائے یا باغی ہو جائے)۔
(بخاری، 4/361، حدیث:6878)یہاں قتل سے مراد قتل عمد ہے کیونکہ قصاص صرف قتل عمد
میں ہے قتل خطاء یا قتل شبہ عمد میں قصاص نہیں صرف دیت ہے جیسا کہ گزر چکا۔
2۔ آقا کریم ﷺ نے فرمایا: اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان
کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، 1/
205)
افسوس آج کل قتل کرنابڑا معمولی سا کام ہو گیا ہے چھوٹی
چھوٹی باتوں پر جان سے ماردینا غنڈہ گردی، دہشت گردی وغیرہ کرنا عام ہو گیا ہے
مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے گروپ جتھے اور عسکری ونگ بنے ہوئے
ہیں جن کا کام ہی قتل و غارت گری کرنا ہے۔ (صراط الجنان، 2/276)
خلا صہ کلام: اگر کسی مسلمان کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور
ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور اگر قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا
ارتکاب کیا تو یہ گناہ کبیرہ ہےاور ایسا شخص مدت دراز تک جہنم میں رہے گا۔
رب تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمام امتِ
محمدیہ کو اِس اور تمام کبیرا گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا
مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ
وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بے شک
ایک مومن کا قتل کیا جانا اللہ کے نزدیک دنیا کے تباہ ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے۔
2۔ جب دو مسلمان تلواریں لئے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں تو
قاتل و مقتول دونوں آگ میں ہیں۔ (راوی فرماتے ہیں) میں نے عرض کی: یار سول الله!
قاتل تو واقعی اس کا حق دار ہے مگر مقتول کا کیا قصور ہے؟ ارشاد فرمایا: وہ بھی تو
اپنے مقابل کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ (بخاری، 1/23، حدیث: 31)
ناحق قتل کی مذمت اور حکم: مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا کبیره گناہ ہے ناحق قتل
کرنے والے کو دنیا اور آخرت میں سزا دی جائے گی مسلمانوں کے قتل کو حلال سمجھ کر
قتل کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی
سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز
تک جہنم میں رہے گا۔
مسلمان کو ناحق قتل کرنے والے کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوگی،
مسلمانوں کو قتل کرنے والے کی نفلی اور فرض عبادت بھی ردّ کر دی جائے گی۔(ابو
داود، 4/ 139، حدیث: 4270)
انسانی حرمت و تقدس کو پامال کرکے اپنے اَعمال و عبادات کو
ذریعہ نجات سمجھنے والے اِنتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو جان لینا چاہیے کہ روزِ
محشر نہ صرف ان کی عبادات ردّ کر دی جائیں گی بلکہ ان کے لیے عذابِ جہنم ہے اور ان
کے لیے بالخصوص آگ میں جلنے کے عذاب کی دردناک وعید بھی ہے۔
اللہ پاک ہمیں ایسے گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین۔

دنیا کے پہلے قتل سے لے کر اب تک بے شمار لوگ طبعی موت کے
بجائے قتل ہوکر دنیا سے رخصت ہوچکے مگر تاحال یہ سلسلہ رُکا نہیں بلکہ وقت گزرنے
کے ساتھ ساتھ اس میں تیزی آتی جارہی ہےاورنِت نئے طریقوں سے لوگوں کو قتل کیا
جارہا ہے، جس کا کوئی پیارا قتل ہوتا ہے اس پر جو گزرتی ہے، اسے کن کن مسائل کا
سامنا ہوتا ہے! یہ حقیقتاً وہی سمجھ سکتا ہے۔افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی
کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی،
خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا
جاتا ہےیہ جبکہ قرآن پاک اور حدیث مبارکہ میں شدت کے ساتھ اس کی مذمت آئی ہے، اللہ
پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: مَنْ قَتَلَ
نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ
النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ
کنز الایمان: جس
نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں
کو قتل کیا۔
احادیث مبارکہ میں بھی اس کی وعید بیان ہوئی ہے چند ملاحظہ
فرمائیں:
فرامینِ مصطفیٰ:
(1) بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل
کرنا ہے۔ (بخاری،4/358، حدیث: 6871)
(2) بارگاہِ الٰہی میں مقتول اپنے قاتل کو پکڑے ہوئے حاضر
ہوگا جبکہ اس کی گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا، وہ عرض کرے گا: اے میرے
پروردگار! اس سے پوچھ، اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ پاک قاتل سے دریافت فرمائے
گا: تُونے اسے کیوں قتل کیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے اسے فلاں کی عزّت کے لئے قتل
کیا، اسے کہا جائے گا: عزّت تو اللہ ہی کے لئے ہے۔ (معجم اوسط، 1/224، حدیث:766)
(3)کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے
کا شکار ہو گا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے
قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، 1/
205)
(4) قیامت کے دن سب سے پہلے خون ِناحق کے بارے میں لوگوں کے
درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔ (مسلم، ص711، حدیث: 4381) حکیم الامت مفتی احمد یار خان
رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: خیال رہے کہ عبادات میں پہلے نماز کا حساب ہوگا اور
حقوق العباد میں پہلے قتل و خون کا یا نیکیوں میں پہلے نماز کا حساب ہے اور گناہوں
میں پہلے قتل کا۔ (مراۃ المناجیح،2/306)
(5) ہر گناہ کے بارے میں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ بخش دے گا۔
لیکن جو شرک کی حالت میں مرگیا اور جس نے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردیا اُن
دونوں کو نہیں بخشے گا۔ (ابو داود، 4/139، حدیث: 4270)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کسی مسلمان کو قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے۔
اگر مسلمانوں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا
شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب
کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز تک جہنم میں رہے گا۔
قتل ناحق کی مذمت از ہمشیرہ محمد منیب، فیضان ام
عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا کفر کے بعد کبیرہ گناہوں میں
سے سب سے بڑا گناہ ہے قرآن حدیث میں اس کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ قرآن پاک میں
ارشاد باری ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا
مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ
وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
فرامین مصطفیٰ:
1۔ جس نے اس شخص کو قتل کیا جس نے اسلامی حکومت سے معاہدہ
کر رکھا تھا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھے گا اور بلاشبہ اس کی خوشبو چالیس سال
کی راہ سے پائی جاتی ہوگی۔(بخاری، 2/365، حدیث: 3166)
2۔ بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو ناحق قتل کرنا
ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث: 6871)
3۔ کسی شخص پر کسی بھی شخص کاقتل معاف نہیں بلکہ حضرت
ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: امید ہے کہ اللہ ہر
گناہ معاف فرمائے سوائے اس شخص کے جو حالتِ شرک میں فوت ہو جائے یا اس شخص کے جس
نے کسی کا قتل کیاہو۔ (ابو داود، 4/139، حدیث: 4270)
مزید یہ کہ اللہ کے آخری نبی ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر
فرمایا: میرے بعد ایک دوسرے کے قاتل بن کر کافر نہ ہوجانا۔ ( صحیح بخاری، 4/435،
حدیث: 7080 )
دعا ہے کہ اللہ پاک تمام امت محمدی ﷺ کی جان و مال کی حفاظت
فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

کسی شخص پر کسی بھی شخص کا قتل معاف نہیں بلکہ حضرت
ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: امید ہے کہ الله پاک ہر
گناہ معاف فرما دے سوائے اس شخص کے جو حالت شرک میں فوت ہو جائے یا اس شخص کے جس
نے کسی کا قتل کیا ہو۔ (ابو داود، 4/139، حدیث: 4270)مزید یہ کہ اللہ کے آخری نبی
ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر بھی فرمایا: میرے بعد ایک دوسرے کے قاتل بن کر کافر نہ
ہو جانا۔ ( صحیح بخاری، 4/435، حدیث: 7080 )
قاتل کا کوئی عمل قبول ہو گا؟ قاتل کا کوئی عمل بھی قبول نہیں، حضرت عبادہ بن صامت سے
روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس کسی نے مومن کو قتل کیا اور پھر اس پر خوش ہوا تو
اللہ اس کا کوئی عمل حتیٰ کہ فرض اور نفل بھی قبول نہ فرمائے گا۔ (ابو داود، 4/ 139،
حدیث: 4270)
افسوس ہے کہ آج کل کے زمانے میں ایک دوسرے کا قتل بالکل عام
ہے کہیں جائیداد سے تو کہیں اپنے ذاتی فائدے کے لیے قتل ہو رہے ہیں، کہیں باپ بیٹے
کو قتل کر رہا ہے تو کہیں بیٹا باپ کو قتل کر رہا ہے اور کہیں بھائی بھائی کو قتل
کر رہا ہے جبکہ ہمارے نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے
وہ ایک دوسرے کو قتل نہیں کرتا اور اس سے جھگڑا نہیں کرتا اور اس سے وعدہ خلافی
نہیں کرتا لیکن ہمارے زمانے میں اس کے برعکس ہو رہا ہے۔
نبی ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اس زمین و آسمان کے تمام لوگ بھی
اگر ایک دوسرے قاتل ہوں تو الله ان سب کو جہنم میں ڈال دے۔ (ترمذی، 3/100، حدیث:1403)
نہ صرف کسی مسلمان کو قتل کرنا بلکہ اگر کسی نے قتل کرنے
والے کی ایک ذرہ برابر بھی مدد کی تو روز قیامت لوگ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان
یہ لکھا ہوا دیکھیں گے کہ یہ شحص الله کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262،
حدیث: 2620)
الله پاک ہمیں ایک دوسرے کی جان و مال کی حفاظت کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔

انسانی زندگی کی بہت اہمیت ہے اور کسی انسان کو قتل کرنا
بہت بڑا، برا اور سخت گناہ ہے۔ احادیث میں اس کی بہت وعیدیں بیان ہوئی ہیں۔ زندگی
ہر شخص کا حق ہے اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی سے حق زندگی چھین لے، یہ
پوری انسانیت کی توہین ہے۔
سب سے پہلا قتل: دنیا میں سب سے پہلا قتل حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی
حضرت ہابیل کا کیا۔ رشتے کے تنازع میں ناکامی پر شدید غصے میں آ کر اس نے اپنے
بھائی کا قتل کر ڈالا۔ وہ ملعون ہوا اور حضرت آدم نے اسے اپنی بارگاہ سے نکال دیا
اور وہ عدن (یمن) کی طرف چلا گیا شیطان کے بڑے ورغلانے پر آگ کی پوجا کرنے لگا۔
اور اسکا انجام یہ ہوا کہ یہ اپنے بیٹے کے ہاتھوں کفر و شرک کی حالت میں مارا گیا
اور یہ خود بھی قتل ہوا۔ یوں دنیا میں سب سے پہلا قاتل اور سب سے پہلا آگ کی پوجا
کرنے والا قابیل ہی ہوا۔ قیامت تک جو بھی قتل کرے گا وہ قابیل کے عمل پر عمل کرے
گا اور اس کا گناہ اس قاتل اور قابیل دونوں کو ہوگا۔
تمام
انسانیت کا قتل: جب کوئی شخص کسی انسان کو قتل کرتا ہے تو گویا وہ تمام
انسانیت کا قتل کرتا ہے کیونکہ وہ شریعت کی حد کو پار کر کے انسانوں کے حقوق کو
پامال کرتا ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: مَنْ
قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ
النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ
کنز الایمان: جس
نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں
کو قتل کیا۔
بروز
قیامت قاتل کا سوال: فرمان مصطفیٰﷺ: بارگاہ الٰہی
میں مقتول اپنے قاتل کو پکڑے ہوئے حاضر ہوگا جبکہ اس کی گردن کی رگوں سے خون بہہ
رہا ہوگا، وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! اس سے پوچھ اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ
پاک اس سے دریافت فرمائے گا تو نے اسے کیوں قتل کیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے اسے
فلاں کی عزت کے لیے قتل کیا۔ اس سے کہا جائے گا: عزت تو اللہ ہی کے لیے ہے۔ (معجم
اوسط، 1/224، حديث:766)
مسلمان
کو ناحق قتل کرنے کی مذمت:
مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا ایک بہت بڑا اور بدترین
کبیرہ گناہ ہے۔ اس کی قرآن پاک اور احادیث میں بہت زیادہ وعیدیں بیان ہوئی ہیں۔
چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ
مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ
عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
فرمان مصطفیٰﷺ: قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون
کا فیصلہ کیا جائے گا۔(مسلم، ص711، حدیث: 4381)
پیاری اسلامی بہنو! دیکھا آپ نے قتل کیسا سنگین عمل ہے کہ
بروز قیامت سب سے پہلا فیصلہ اس کا ہوگا کیونکہ یہ حق عبد (یعنی بندوں کا حق) ہے
اور یہ تب تک معاف نہیں ہوتے جب تک انسان اسے معاف نہ کر دے۔اور قتل کیسا بڑا گناہ
ہے کہ انسان کو جہنم تک پہنچا دیتا ہے اور جہنم کیا ہی برا ٹھکانہ ہے!
اللہ ہم سب کو جہنم سے نجات عطا فرمائے! آمین
مسلمان
کے قتل کا حکم: اگر مسلمان کو حلال سمجھ کر قتل کیا تو قتل کرنے والا کافر
ہے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور اگر کوئی حرام سمجھتے ہوئے مسلمان کو قتل کرے
گا تو مدت دراز تک جہنم میں رہے گا۔
قتل کب جائز ہے؟ فرمان مصطفیٰﷺ: مسلمان کی جان لینا تین وجوہات کے علاوہ جائز نہیں:1۔ جان کے
بدلے جان۔ (یعنی اس نے کسی کو قتل کیا اور قصاص کے طور پر اسے قتل کیا جائے) 2۔
شادی شدہ زانی۔ (یعنی شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرنے والا) 3۔ مرتد مسلمانوں کی
جماعت کو چھوڑ کر دین سے نکلنے والا (یعنی مسلمان ہونے کے بعد اسلام سے پھر جانے
والا)۔ (بخاری، 4/361، حدیث:6878)
مسلمان
کا حسن اخلاق: پیاری اسلامی بہنو! الحمد اللہ ہم مسلمان ہیں اور ہمیں
چاہیے کہ ہم اپنے اندر اچھا اخلاق پیدا کریں۔ صبر کو لازم پکریں اور لڑائی جھگڑے
جیسے برے کاموں سے بچیں کیونکہ یہ گناہ بڑھتے بڑھتے قتل جیسے بدترین گناہ تک پہنچ
جاتے ہیں۔
ہمارے پیارے پیارے نبیﷺ بھی ہمیں حسن اخلاق کی تعلیم دیتے
ہیں۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پر نور ﷺ نے ارشاد
فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔
جس طرح ایک بھائی اپنے بھائی کا خیر خواہ ہوتا ہے اسی طرح
ہمیں بھی دوسرے مسلمانوں کا خیر خواہ ہونا چاہیے۔ جس طرح بھائیوں میں محبت ہوتی ہے
اسی طرح اہل ایمان کو بھی آپس میں محبت اور خلوص کا اظہار کرنا چاہیے۔ ایک مسلمان
کے برا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔
مزید نبی پاکﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک مسلمان کی جان، مال،
عزت و آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ لہذا کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کی نہ جان کو
نقصان پہنچائے نہ اسکے مال پر دست درازی کرے اور نہ ہی اپنے مسلمان بھائی کی بے
عزتی کرے۔
اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے! ہمیں گناہوں سے
بچائے! ہمیں جہنم سے نجات عطا فرما کر جنت الفردوس میں پیارے آقاﷺ کے قدموں میں
جگہ عطا فرما دے! میرا، میرے والدین، میرے اساتذہ کرام، میرے مرشد کریم کا سینہ
میٹھا مدینہ بنائے اور تمام امت مسلمہ سے راضی ہو کر سب کی بے حساب بخشش و مغفرت
فرمائے۔ آمين