نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب دو مسلمان تلواریں لئے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں تو قاتل و مقتول دونوں آگ میں ہیں۔ ( راوی فرماتے ہیں) میں نے عرض کی: یار سول الله! قاتل تو واقعی اس کا حق دار ہے مگر مقتول کا کیا قصور ہے؟ ارشاد فرمایا: وہ بھی تو اپنے مقابل کو قتل کرنا چاہتا تھا۔(بخاری، 1/23، حدیث: 31)

شرحِ حدیث: قاتل و مقتول کب جہنمی ہونگے؟ اس حوالے سے حضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مرقاۃ شرح مشکاۃ میں اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: حرام فعل کا ارادہ کرنا ان افعال میں سے ہے جن پر مواخذہ ہے۔ اور یہ ( قاتل و مقتول دونوں کے جہنمی ہونے کا حکم ) اس وقت ہے جب دونوں ہی ایک دوسرے کے قتل کے ارادے سے حملہ آور ہوں۔ اگر ان میں سے ایک نے دفاع کا ارادہ کیا اور اُس کی طرف سے پہل بھی نہ ہوئی مگر صرف دوسرے کے مارنے کی وجہ سے اس نے اس کو قتل کر دیا تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہو گا، کیونکہ اس کو (اپنی جان بچانے کی ) شرعا اجازت دی گئی ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، 7/104)

حضرت ابو یعلی شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ پاک نے ہر چیز کے ساتھ بھلائی کرنا فرض کیا ہے، لہذا جب تم قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو اور جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو، تم اپنی چھری کو تیز کرو اور ذبح ہونے والے جانور کو آرام پہنچاؤ۔ (مسلم، ص 832، حدیث: 5055)

حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ جب کسی قوم میں خیانت ظاہر اور کھلم کھلا ہونے لگتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کے دل میں اس کے دشمنوں کا خوف اور ڈر ڈال دیتا ہے اور جب کسی قوم میں زناکاری پھیل جاتی ہے تو اس قوم میں بکثرت موتیں ہونے لگتیں ہیں اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرنے لگتی ہے س قوم کی روزی کاٹ دی جاتی ہے اور جو قوم ناحق فیصلہ کرنے لگتی ہے اس قوم میں خون ریزی پھیل جاتی ہے اور جو قوم عہد شکنی اور بد عہدی کرنے لگتی ہے اس قوم پر اس کے دشمن کو غالب و مسلط کر دیا جاتا ہے۔

ایک صحابی نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: یا رسول الله! مجھے بکری ذبح کرنے پر رحم آتا ہے۔ تو حضور نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر تم اس پر رحم کرو گے تو اللہ پاک بھی تم پر رحم فرمائے گا۔ (مسند امام احمد، 5/304، حدیث: 15592)

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں حدیث پاک اور اس کی شرح میں موجود مشمولات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامين ﷺ