
آقاکریم ﷺ بطور نانا جان اپنی شہزادیوں کے بچوں سے بہت محبت فرماتے تھے۔نواسے
تو اپنے نانا جان ﷺ کے لختِ جگر تھے ہی لیکن نواسیاں بھی اپنے نانا جان ﷺ کی محبت
و شفقتیں لینے میں پیچھے نہ تھیں۔
اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ کی چار نواسیاں تھیں:حضرت امامہ،حضرت بی بی رقیہ،حضرت
زینب،حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہن۔سب کی سب اپنے نانا جانﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھیں۔آئیے!پیارے
نانا جان ﷺکی اپنی نواسیوں سے محبت بھرے اندازِ مبارک کی جھلکیاں ملاحظہ کیجئے۔چنانچہ
نواسی اپنے نانا جان ﷺکے مبارک کندھے پر:شہزادیِ رسول
حضرت بی بی زینب رضی اللہ عنہا کی بیٹی کا نام اُ مامہ تھا،حضورﷺکو اپنی سب سے بڑی
نواسی حضرت بی بی اُمامہ رضی اللہ عنہا سے
بڑی محبت تھی۔ آپ ان کو اپنے دوش(یعنی مبارک کندھوں Shoulders)پر بٹھا کر مسجد ِنبوی میں تشریف لے جاتے تھے۔حضرت ابوقتا دہ رضی
اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:اللہ پاک کے محبوب ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ(اپنی نواسی)
اُمامہ بنتِ ابوالعاص رضی اللہ عنہا کو اپنے مبارَک کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے ۔
پھر آپ نماز پڑھانے لگے تو رکوع میں جاتےوقت انہیں اُتار دیتے اور جب
کھڑے ہوتے تو انہیں اُٹھا لیتے۔
(بخاری،4/100،حدیث:5996)
سونے کا خوبصورت ہار:اسی طرح ایک مرتبہ کسی نے حضور اَکرَم ﷺ کو سونے کا ایک بہت
ہی خوبصورت ہار تحفے میں پیش کیاجس کی
خوبصورتی دیکھ کر تمام اَزواجِ مُطَہَّرات
رضی اللہ عنہنَّ حیران رہ گئیں۔حضور ﷺ نے اپنی پاکیزہ بیویوں سے فرمایا کہ میں یہ ہار اس کو دوں گا جو میرے گھر
والوں میں مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے۔تمام اَزواجِ مُطَہَّرات رضی اللہ
عنہنَّ نےیہ خیال کرلیا کہ یقینا ًیہ ہار
اب حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کو عطا فرمائیں گے مگر حضور ﷺ نے حضرت بی بی اُ مامہ رضی اللہ عنہا کو قریب بُلایا
اور اپنی پیاری نواسی کے گلے میں اپنے مبارک ہاتھ سے یہ ہار ڈال دیا۔(زرقانی علی المواہب، 4/321-مسند امام احمد،
9/399، حدیث : 24758)
لاڈلی شہزادی کی لاڈلی بیٹیاں:آقا کریم ﷺ کی
لاڈلی شہزادی خاتونِ جنت فاطمۃ الزاہرا رضی اللہ عنہا کی تین صاحبزادیاں تھیں۔حضرت
زینب ام المصائب رضی اللہ عنہا سب
سے بڑی شہزادی تھیں جنہوں نے واقعۂ کربلا کے بعد بہت مصائب برداشت کیے تھے ۔دوسری
صاحبزادی حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ عنہا تھیں اور سب سے چھوٹی شہزادی حضرت ام
کلثوم رضی اللہ عنہا تھیں۔آقا کریم ﷺ کو
اپنی ان تینوں نواسیوں سے بے حد محبت و الفت تھی۔(شانِ خاتونِ جنت،ص253،252)
نواسی کو انگوٹھی عطا فرمائی:اُمُّ الْمومنین حضرت عائشہ
صِدّیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:نَجّاشی بادشاہ نے سرورِ کائنات ﷺ کی خدمتِ
بابرکت میں کچھ زیورات کی سوغات بھیجی جن میں ایک حبشی نگینے والی انگوٹھی بھی تھی
۔ اللہ پاک کے پیارے نبی، مکّی مَدَنی ﷺ
نے اُس انگوٹھی کو چھڑی یا مبارَک اُنگلی سے مَس کیا (یعنی چُھوا )اور اپنی بڑی
شہزادی زینب رضی اللہ عنہا کی پیاری بیٹی یعنی اپنی نواسی اُمامہ رضی اللہ
عنہا کو بلایااور فرمایا: اے چھوٹی بچَّی ! اسے تم پہن لو ۔(ابوداود،4/125، حدیث:4235 )
یہ سب واقعات ان لوگوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں جو اپنی گھر کی بچیوں،نواسیوں،پوتیوں
سے محبت نہیں کرتے اور ان کے ساتھ شفقت بھرا رویہ اختیار نہیں کرتے ۔ہم سب کو چاہیے
کہ خاتم النبیین ﷺ کی سیرتِ مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے اپنی بیٹیوں،نواسیوں اور پوتیوں
کو شفقتوں اور محبتوں کے مہکتے گلشن میں پروان چڑھائیں۔

اے عاشقانِ صحابہ و اہل ِبیت!اللہ پاک کے پیارے پیارے آخری
نبی، مکی مدنی،محمدِعربیﷺ کے کئی نواسے اور نواسیاں تھیں مگر سب سے زیادہ مشہور
حسنین کریمین رضی اللہ عنہما ہیں۔
حضرت سفیان بن عینیہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس ارشادنیک لوگوں
کے ذکر کے وقت رحمت نازل ہوتی ہے(حلیۃ الاولیاء،7/225،رقم:10450)کو سامنے رکھتے
ہوئے ربِّ کریم کی رحمتوں کے حصول اور اپنی معلومات میں اضافے کیلئے پیارے آقاﷺکی
نواسیوں کا تذکرہ سنتی ہیں۔
سب سے بڑی نواسی:حضرت بی بی زینب رضی اللہ عنہا کی بیٹی کا نام اُ مامہ تھا،حضور ﷺ کو اپنی سب
سے بڑی نواسی حضرت بی بی اُمامہ رضی اللہ عنہا سے بڑی محبت تھی۔آپ ان کو اپنے دوش (یعنی مبارک کندھوں)پر بٹھا کر مسجد
ِنبوی میں تشریف لے جاتے تھے۔روایت میں ہے کہ حضور ﷺ کی خدمتِ سَراپا عَظَمت میں ایک
مرتبہ حَبْشَہ شریف کے بادشاہ نَجاشی رحمۃ ُاللہ علیہ نے بطورِ ہَدیَّہ حُلّہ بھیجا جس کے ساتھ سونے کی ایک انگوٹھی بھی تھی،اُس کا
نگینہ حَبشی تھا۔ اللہ پاک کے پیارے پیارے آخِری نبی ﷺ نے یہ انگوٹھی حضرت بی بی اُمامہ رضی اللہ
عنہا کوعنایت فرمائی۔ (سیرتِ مصطفیٰ ، ص 693)
اسی طرح ایک مرتبہ کسی نے حضور اَکرَم ﷺ کو ایک بہت ہی خوبصورت سونے کا ہار تحفے میں پیش کیاجس کی خوبصورتی دیکھ کر تمام اَزواجِ مُطَہَّرات رضی اللہ عنہنَّ حیران رہ گئیں۔ حضور ﷺ نے اپنی پاکیزہ بیویوں سے فرمایا کہ میں یہ
ہار اس کو دوں گا جو میرے گھر والوں میں مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے۔تمام اَزواجِ
مُطَہَّرات رضی اللہ عنہنَّ نےیہ خیال کرلیا کہ یقینا ًیہ ہار اب حضرت ِبی
بی عائشہ رضی اللہ عنہا کو عطا فرمائیں
گےمگر حضور ﷺ نے حضرت بی بی اُمامہ رضی اللہ عنہا کو قریب بُلایا اور اپنی پیاری
نواسی کے گلے میں اپنے مبارک ہاتھ سے یہ ہار ڈال دیا۔(زرقانی علی
المواہب،4/321۔مسند امام احمد،9/399،حدیث: 24758)
حضرت بی بی فاطمۃُ
الزہرا رضی اللہ عنہا کی بڑی شہزادی حضرت سیِّدَہ بی بی زینب رضی اللہ عنہا کی کنیت اُمُّ الحسن تھی اور واقعہ ٔکربلا کے بعد ان کی کنیت اُمُّ المصائب مشہور ہو گئی تھی۔ (شانِ خاتونِ جنت، ص 261)
انہوں نے بہت مصیبتیں
برداشت کیں، بہت صبر کیا اور مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا،یہ ایسی صابرہ تھیں کہ ان کے اپنے چھوٹے چھوٹے شہزادے محمد اور عَون رضی اللہ عنہما نے بھی کربلا کے میدان میں تلوار پکڑی اور یزیدیوں کے مقابلے میں نکل گئے، آخرِ کار جامِ
شَہادت نوش کرلیا۔ (اسد الغابہ، 7/146)
حضرت خاتونِ جنت ،شہزادیِ کونین بی بی فاطمہ زہرا
رضی اللہ عنہا کی سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت بی بی اُمِّ کلثوم رضی اللہ عنہا اپنی بڑی بہن حضرت بی بی زینب رضی
اللہ عنہا کے مُشابِہ تھیں۔مسلمانوں کے
دوسرے خلیفہ حضرت عُمَر فاروق اعظم رضی اللہ
عنہ نے حضرت بی بی اُمِّ کلثوم رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا۔ آپ نے مولا علی،شیرِ
خدا رضی اللہ عنہ کو نکاح کا پیغام بھیجا اور کہا:اے علی!آپ اپنی شہزادی کا نکاح
مجھ سے کر دیجئےکیونکہ میں نےرسولُ اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کل بروز ِقیامت
ہر نَسَب اورہر رشتہ ختم ہو جائے گا سوائے میرے نسب اور میرے رشتے کے۔(الاستیعاب،4/509-تاریخ ابن عساکر، 19/482-اصابہ،8/464،رقم:12237)

پیارے آقا ﷺ کی نواسیوں کی کل تعداد چار ہے جن کے اسمائے
گرامی یہ ہیں:حضرت امامہ بنتِ ابو العاص،حضرت رقیہ بنتِ علی، حضرت امِّ کلثوم بنتِ
علی اور حضرت زینب بنتِ علی رضی اللہ عنہن۔
حضرت امامہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی
اللہ عنہا کی شہزادی ہیں جبکہ باقی شہزادیاں بی بی فاطمہ خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا
کی اولاد ہیں۔آپ کو ان سب سے بے انتہا محبت تھی۔
حضرت امامہ رضی اللہ عنہا سے حضور ﷺ کو بڑی محبت تھی اور آپ
ان کو اپنے دوش مبارک پر بٹھا کر مسجدِ نبوی میں تشریف لے جاتے تھے ۔
روایت
ہے کہ ایک مرتبہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے حضور ﷺ کی خدمت میں بطور ہدیہ ایک حلہ بھیجا
جس کے ساتھ سونے کی ایک انگوٹھی بھی تھی جس کا نگینہ حبشی تھا،حضور ﷺ نے یہ انگوٹھی
حضرت امامہ رضی اللہ عنہا کو عطا فرمائی ۔ (سیرتِ مصطفیٰ ، ص 693)
اسی طرح
ایک مرتبہ بہت ہی خوبصورت سونے کا ہار کسی نے حضور اقدس ﷺ کو نذر کیا جس کی
خوبصورتی کو دیکھ کر تمام ازواجِ مطہرات حیران رہ گئیں،آپ نے اپنی مقدس بیویوں سے
فرمایا کہ میں یہ ہار اس کو دوں گا جو میرے گھر والوں میں مجھے سب سے ذیادہ محبوب
ہے۔تمام ازواجِ مطہرات نے یہ خیال کرلیا کہ یقیناً یہ ہار حضرت بی بی عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا کو عطا فرمائیں گے مگر حضور ﷺ نے حضرت امامہ رضی اللہ عنہا کو قریب بلایا
اور اپنی پیاری نواسی کے گلے میں اپنے دستِ مبارک سے یہ ہار ڈال دیا۔
(شرح زرقانی،3 /197)
حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ مسجد میں بیٹھے
ہوئے تھے کہ اسی دوران رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ آپ حضرت
امامہ بنتِ ابو العاص رضی اللہ عنہا کو کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے۔سیدہ امامہ رضی
اللہ عنہا کی والدہ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہاہیں۔سیدہ
امامہ رضی اللہ عنہا ابھی چھوٹی بچی تھیں،وہ آپ کے کندھے پر تھیں، جب آپ رکوع کرتے
تو انہیں اٹھا لیتے،اسی طرح کرتے ہوئے آپ نے اپنی نماز ادا کی۔
(بخاری،4/100،حدیث:5996)
بی بی فاطمہ خاتونِ
جنت رضی اللہ عنہا کی تین صاحبزادیوں میں بی بی رقیہ رضی اللہ عنہا تو بچپن میں ہی
وفات پا گئیں تھی،حضرت ام کلثوم بنتِ علی رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عمر فاروق رضی
اللہ عنہ سے ہوا جن کے شکم سے ایک صاحبزادے حضرت زید بن
عمر رضی اللہ عنہما اور ایک صاحبزادی حضرت رقیہ بنتِ عمر رضی اللہ عنہما کی پیدائش
ہوئی اور بی بی فاطمہ خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کی تیسری صاحبزادی حضرت زینب بنتِ
علی رضی اللہ عنہا ان کی شادی حضرت
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔
(مدارج النبوت،2 /460
)
اس سے ثابت ہوا کہ حضور ﷺ اپنی پیاری نواسیوں سے بے پناہ
محبت کرتے تھے۔

زون ہیڈ کوارٹر سبی بلوچستان میں گزشتہ روز میر
محمد ابراہیم بگٹی (زونل کمانڈر بلوچستان کانسٹیبلری) کی جانب سے عید ملن تقریب منعقد ہوئی جن کی دعوت
پر خصوصی طور پر شعبہ رابطہ برائے شخصیات دعوتِ اسلامی کے ذمہ
داران اور زون ہیڈکوارٹر کے تمام اسٹاف و جوانوں نے شرکت کی۔
تقریب کے آغاز میں مبلغِ دعوتِ اسلامی نے تلاوتِ
قراٰن کی اور نعت خواں اسلامی بھائی نے حضور سرورِ کونین حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں نعت شریف کا نذرانہ پیش کیا۔
تلاوت و نعت کے بعد شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے
صوبائی ذمہ دار محمد وقار عطاری نے بیان کیا جس میں انہوں نے شرکا کو نیکی کی دعوت
دیتے ہوئے انہیں دینی کاموں میں حصہ لینے کی ترغیب دلائی۔
آخر میں صوبائی ذمہ دار نے ملک و قوم کی سلامتی،
بلوچستان کے امن و امان اور بالخصوص بلوچستان کانسٹیبلری فورس کے شہداء کے درجات بلندی کے لئےدعا کروائی۔

درست بات کو قبول نہ کرنا اور غلط بات پر ڈٹ جانا
اصرار باطل ہے۔
اصرار باطل کے اسباب: اصرار
باطل کا پہلا سبب تکبر ہے۔ اصرار باطل کا دوسرا سبب بغض وکینہ ہے۔ اصرار باطل کا تیسرا
سبب ذاتی مفادات کی حفاظت ہے۔ اصراد باطل کا چوتھا سبب طلب شہرت و نامور۔ اصرار باطل
کا پانچواں سبب ہاں میں ہاں ملانا اور چاپلوسی کرنے کی عادت ہے۔ اصرار باطل کا چھٹا
سبب اطاعت الٰہی کو ترک کر دینا ہے۔ اصرار باطل کا ساتواں سبب اتباع نفس ہے۔
تکبر: خود کو افضل اور
دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔ جس کے دل میں تکبر ہو اسے متکبر اور مغرور کہتے
ہیں۔
بغض و کینہ: کینہ یہ ہے کہ
انسان اپنے دل میں کسی کو بوجھ جانےاس سے غیر شرعی دشمنی و بغض رکھے نفرت کرے اور یہ
کیفیت ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے۔
چاپلوسی: اپنے سے بلند رتبہ
شخصیت کے سامنے محض مفاد حاصل کرنے کے لیے عاجزی و انکساری کرنا یا اپنے آپ کو نیچا
دکھانا چاپلوسی کہلاتا ہے۔ رسول اللہﷺ نےارشاد فرمایا: جس نے کسی غنی کے لیے عاجزی
اختیار کی اور اپنے آپ کو اس کی تعظیم اور مال و دولت کی لالچ کے لیے بچھا دیا تو ایسے
شخص کی دو تہائی غیرت اور دین کا آدھا حصہ جاتا ہے۔
مفسر شہیر حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تکبر و ہٹ دھرمی ایمان سے روکنے والی آڑ ہے۔ (تفسیر نور العرفان، ص 796) اگر کوئی غلطی ہو جائے تو اس پر اڑ نہیں جانا
چاہیے بلکہ اس غلطی کو درست کرنا چاہیے اور فورا معافی مانگ لینی چاہیے اور ہمیں اپنے
دل میں کسی کے لیے برا گمان نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اچھا گمان رکھنا چاہیے۔ اللہ پاک
ہمیں غیبت چغلی حسد تکبر اور بدگمانی وغیرہ سے محفوظ فرمائے۔ آمین

کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ
ہے۔ کسی مسلمان کا دوسرے مسلمان کو ناحق قتل کرنا حرام ہے اور اللہ پاک کی ناراضگی
کا سبب ہے افسوس کہ آج قتل کرنا بڑا معمولی کام ہو گیا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر
جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تعصب والی لڑائی
عام ہے۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور عسکری ونگ بنے ہے
قتل و غارت گری کرتا ہے۔ اگر مسلمانوں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو
یہ خود کفر ہے۔ اور ایسا شخص ہے ہمیشہ جہنم میں رہے اس کا ارتکاب کیا تب یہ جہنم
میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور لیکن پھر بھی اس
کا ٹھکانہ جہنم ہے ایسا شخص مدت دراز تک جہنم میں رہے گا۔ اللہ پاک قرآن پاک میں
ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا
مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ
وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
کثیر احادیث میں اس کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے، چند ایک
ملاحظہ فرمائیں:
ناحق قتل پر احادیث مبارکہ:
1۔ بڑے کبیرہ گناہوں میں سے کسی جان کو ناحق قتل کرنا ہے۔ (بخاری،
4/358، حدیث: 6871)
2۔کسی مسلمان کو
ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہوگا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد
فرمایا: اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ
سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ (معجم صغیر، 1/ 205)
3۔ جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول
دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے میں: میں نے عرض کی مقتول جہنم میں کیوں
جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لیے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر مصر تھا۔ (بخاری،
1/23، حدیث: 31)
4۔ جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ
قیامت کے دن الله تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں
کے درمیان لکھا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث:
2620)
(5) اللہ تعالیٰ کے
نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا ناپید اور تباہ ہو جانا واقع ہے۔ (ترمذی،
3/98، حدیث: 1400)
( 6) قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ مال و دولت بہنے لگے
فتنے ظاہر ہوں گے لوگوں نے عرض کی یارسول الله! ہرج کیا چیز ہے؟ تو آپ نے تین مرتبہ فرمایا: قتل، قتل، قتل۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار ﷺ نے
ارشاد فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے حقیر جانے
تقویٰ یہاں ہے اور اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ فرمایا۔ انسان کے لیے یہ برائی
کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے، مسلمان پر مسلمان کی ہر چیز حرام ہے، اس
کا خون، اس کا مال اور اس کی آبرو۔ (مسلم، ص 1386، حدیث: 2564)

کسی جان کو ناحق قَتَل کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ
ہے۔ اسلام کی نظر میں انسانی جان کی بہت اہمیَّت ہے۔ ہم اِس کا اندازہ اِس بات سے
لگا سکتے ہیں کہ قرآن کے پارہ 5 سورۃ النساء کی آیت نمبر 93 میں الله تعالیٰ فرماتا
ہے: ترجمہ کنز الایمان: اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ
جہنم ہے۔ اِس سے اُن لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ جو مال و جائیداد (property )کے لئے لالچ
میں آکر نا حق قتل کر دیتے ہیں۔
ناحق قتل کرنے کی مذمت پر پانچ فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ آدمی اپنے دین میں کشادگی و وسعت میں رہتا ہے جب تک وہ
خونِ حرام سے آلودہ نہ ہو۔ (بخاری، 4/356، حدیث: 6862)
2۔ ایک مومن کا قتل کیا جانا الله تعالیٰ کے نزدیک دُنیا کے
تباہ ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے۔ (نسائی، ص 652، حدیث: 3992)
3۔ بڑے گناہوں میں سے الله کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، ناحق
قتل کرنا، اور والدین کی نافرمانی کرنا ہے۔ (بخاری، 4/295، حدیث:6675)
4۔ بے شک الله نے منع فرمادیا (اس کی توبہ قبول کرنے سے) جس
نے کسی مسلمان کو قتل کیا ہو۔ (مسند امام احمد، 6/51، حدیث:17005)
5۔ کسی مسلمان کو قتل کرنے میں اگر زمین و آسمان والے شریک
ہو جائیں۔ تو الله اُن سب کو جہنم میں دھکیل دے۔ (ترمذی، 3/100، حدیث:1403)
قیامت کے دن جس طرح عبادت کے معاملے میں سب سے پہلے نماز کا
حساب و کتاب ہوگا۔ اِسی طرح قیامت کے دن معاملات میں سے سب سے پہلے خونِ ناحق کا
فیصلہ ہوگا۔(مسلم، ص711، حدیث: 4381) اور ناحق قتل کرنے والے کی پیشانی پہ لکھا ہو
گا کہ یہ شخص الله کی رحمت سے مایوس ہے۔ اور دنیا میں بھی اہل و عیال، رشتہ داروں
کے سامنے ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہر مسلمان کو چاہئےکہ آیت مبارکہ اور احادیث پر غور کرے
تاکہ الله کا خوف پیدا ہو اور گناہوں سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کی سوچ نصیب ہو۔
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو ہدایت نصیب
فرمائے، جہنم کے درد ناک عذاب سے محفوظ فرمائے۔ آمین یارب العالمین

کسی مسلمان کی ظلماً جان لینا قتل ناحق کہلاتا ہے قتل کرنا
بہت ہی برا فعل اور کبیرہ گناہ ہے افسوس ہے کہ آج کل قتل کرنا ایک بہت ہی معمولی
کام ہو چکا چھوٹی چھوٹی باتوں پر مار دینا چوری ڈکیتی غنڈہ گردی دہشت گردی وغیرہ
کے ذریعے مسلمان کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا اس سے متعلق قرآن پاک اور احادیث
مبارکہ میں جگہ جگہ مذمت بیان کی گئی ہے چند ملاحظہ فرمائیں، چنانچہ
احادیث مبارکہ:
1۔ ایک حدیث پاک میں پیارے آقا ﷺ کا ارشاد ہوتا ہے: اللہ
تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا ناپید (اور تباہ ) ہو جانا
ہلکا(واقع) ہے۔ (ترمذی، 3/98، حدیث: 1400)
2۔ اگر تمام آسمان اور زمین والے کسی ایک مومن کے قتل میں
شریک ہو جائیں تب بھی یقینا اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں جھونک دے گا۔ (ترمذی، 3/100،
حدیث: 1403)
3۔ جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول
دونوں جہنم میں جائیں گے راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کی کہ مقتول جہنم میں کیوں
جائے گا؟ ارشاد فرمایا اس لیے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر مصر تھا۔ (بخاری، 1/23،
حدیث: 31 )
4۔ جس نے کسی مومن کے قتل میں ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو
قیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان میں لکھا ہوگا
کہ یہ اللہ پاک کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)
5۔ بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو ناحق قتل کرنا
ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث: 6871)
ایک جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ
مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ
غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
ایک اور جگہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ
فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6،
المائدۃ: 32) ترجمہ کنز الایمان: جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے
بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا۔
اللہ تعالی ہمیں اس برے فعل سے بچ کر آپنی اخرت کی تیاری
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
قتل ناحق کی مذمت از ہمشیرہ علی حسنین، فیضان ام
عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

کسی مسلمان کا دوسرے مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا حرام
ہے اس کی وعید قرآن وحدیث سے ثابت ہے جیسے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ
خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا
عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
درج ذیل احادیث مبارکہ میں اس کی مذمت بیان کی گئی ہے:
چنانچہ
1۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ناحق حرام خون
بہانا ہلاک کرنے والے ان امور میں ہے جن سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں۔ (بخاری، 4/357، حدیث:6863)
2۔ کسی مسلمان کو قتل کرنے میں اگر زمین وآسمان والے شریک
ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب جہنم میں دھکیل دے۔ (ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)
3۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کا ختم ہو جانا ایک مسلمان کے
ظلما قتل سے زیادہ سہل ہے۔ (ابن ماجہ، 3/261، حدیث: 2619)
4۔ بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو ناحق قتلِ کرنا
ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث: 6871)
افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہو گیا ہے چھوٹی
چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی ڈکیتی خاندانی لڑائی تعصب
والی لڑائیاں عام ہیں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے گروپ اور جتھے
اور عسکری ونگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل وغار تگری کرنا ہے
مسلمان کو ناحق قتل کرنا کیسا ہے؟ اگر مسلمانوں کے قتل کو
حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے
گا اور قتلِ کو حرام سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور
ایسا شخص مدت دراز تک جہنم میں رہے گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ناحق قتل کرنے سے بچنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین

اسلام میں کسی انسانی جان کی حرمت کا اندازہ یہاں سے لگایا
جا سکتا ہے کہ ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت قتل کے برابر قرار دیا گیا ہے ارشاد
باری تعالی ہے جو کوئی کسی کو قتل کرے جبکہ یہ خطرناک کسی اور جان کا بدلہ لینے کے
لیے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو تو یہ ایسا ہے جیسے اس
نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جو شخص کسی کی جان بچائے تو یہ ایسا ہے جیسے اس
نے تمام انسانوں کے کی جان بچائی
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: مَنْ
قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ
النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ
کنز الایمان: جس
نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں
کو قتل کیا۔
مومن کا قتل پوری دنیا کی تباہی سے بھی ہولناک ہے کسی
مسلمان کا جان بوجھ کر قتل کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ احادیث مبارکہ میں اس کی مذمت کی
گئی ہے۔
احادیث مبارکہ:
1۔ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ
رہیں۔ (بخاری، 1/15، حديث: 10)
2۔ بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ مسلمان کو ناحق قتل
کرنا ہے۔(بخاری، 4/358، حدیث: 6871)
3۔ کسی مسلمان کو
ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہوگا۔
4۔ اگر زمین اور آسمان والے کسی مسلمان کو قتل کرنے پر جمع
ہو جائے تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ (ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)
5۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بے شک
ایک مسلمان کا قتل کیا جانا اللہ کے نزدیک دنیا کے تباہ ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے۔
(ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 78)
6۔ جس نے کسی مسلمان کے قتل پر ایک حرف جتنی مدد کی تو وہ
قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں اس طرح آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان
لکھا ہوگا کہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)
قتل ناحق کی مذمت از ہمشیرہ عبد القدوس، فیضان ام
عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا گناہِ کبیرہ میں سے ایک بڑا
گناہ ہے۔قرآن و حدیث میں اس کی سخت مذمت اور سخت سزائیں بیان کی گئی ہیں۔کسی
مسلمان کو ناحق قتل کرنا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہے۔اور اس کے حکم کی
پامالی اور نافرمانی کا ذریعہ ہے
اپنے ظالمانہ اور ناپاک مقاصد کے حصول کے لیے عام شہریوں
اور پُر اَمن انسانوں کو بے دریغ قتل کرنے والوں کا دین اِسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
وہ دین جو انسانوں جانوروں تک کے حقوق کا خیال رکھتا ہے وہ اَولادِ آدم کے قتل عام
کی اِجازت کیسے دے سکتا ہے!
فرامینِ مصطفیٰ:
(1) بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل
کرنا ہے۔ (بخاری، 4/ 358، حدیث: 6871)
انتقام کی آگ،حسد،تکبر کی بناء پر اپنے مومن مسلمان بھائی
کو ناحق قتل کر دینا اور خود کو آگ کے عذاب کا حق دار ٹھہرا دینا بہت ہی بڑی حماقت
اور بے وقوفی ہے۔
افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی
چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی،
تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے اور
ایک پورا خاندان تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے۔کسی کا باپ، کسی کا بھائی،کسی کا
شوہر صرف عناد کی بنا پر ناحق قتل کر دیئے جاتے ہیں۔
2۔ مومن کو قتل کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام دنیا کے
برباد ہونے سے بڑا ہے۔ (نسائی، 7/82، 83، حدیث: 3988)
3۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں کا خون بہانے، اُنہیں قتل
کرنے اور فتنہ و فساد برپا کرنے کو نہ صرف کفر قرار دیا ہے بلکہ اِسلام سے واپس
کفر کی طرف پلٹ جانا قرار دیا ہے۔ اسے شریعت کی اصطلاح میں ارتداد کہتے ہیں۔ امام
بخاری حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ
نے فرمایا: تم میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کرنے کے سبب کفر کی طرف نہ لوٹ جانا۔ (
صحیح بخاری، 4/435، حدیث: 7080 )
مسلمانوں کو تکلیف دینے والے کے لیے عذابِ جہنم: مسلمانوں کو اذیت میں مبتلا کرنا اور انہیں جبر و تشدد اور
وحشت و بربریت کا شکار کرنا سخت منع ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو
جہنم اور آگ کی درد ناک سزا دینے کا اعلان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ
لَمْ یَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَ لَهُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِؕ(۱۰) (پ 30، البروج: 10) ترجمہ: بے
شک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان
کے لیے عذابِ جہنم ہے اور ان کے لیے (بالخصوص) آگ میں جلنے کا عذاب ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایک دوسرے کے حقوق کا
خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری جان مال عزو و آبرو کی حفاظت فرمائے۔ آمین
قتل ناحق کی مذمت از بنت محمد نواز بھنڈر، فیضان ام
عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

ناحق قتل کے مقابلے میں پوری دنیا کا مٹنا آسان:
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی
کریم ﷺ نے فرمایا: کسی مسلمان کے ناحق قتل ہونے سے پوری دنیا کا تباہ ہوجانا اللہ تعالیٰ
کے ہاں معمولی حیثیت رکھتا ہے۔ (ترمذی، 3/98، حدیث: 1400)
حقوق العباد میں پہلا سوال: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی
کریم ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کےمابین سب سے پہلے خون خرابے قتل و قتال کا
فیصلہ سنایا جائے گا۔ (مسلم، ص711، حدیث: 4381)
ناحق قتل کے سب شرکاء جہنمی: رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: اگر بالفرض تمام آسمان اور زمین
والے کسی ایک مومن کے قتل میں شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں ڈال
دے۔ (ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)
قاتلوں کے سہولت کار: جو شخص کسی مسلمان کے ناحق قتل میں سہولت کار بنا اگرچہ وہ معاونت بالکل
معمولی درجے کی(ایک بات کی حد تک) بھی ہو تو وہ شخص (قیامت والے دن ) اللہ تعالیٰ
سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر ) لکھا ہوا ہوگا کہ یہ
شخص اللہ کی رحمت سے مایوس رہے گا۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)
ناحق قتل کرنا شریعت میں حرام ہے اگر کوئی شخص شرعا ً ناحق
قتل کو حلال سمجھتا ہے تو فقہاء کرام رحمہم اللہ کی تصریحات کے مطابق کافر ہو جاتا
ہے۔
ناحق قتل کی چار سزائیں دائمی جہنم، اللہ کا غضب، اللہ کی
لعنت اور سخت ترین عذاب کی صورت میں قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ ایک ناحق قتل پوری
انسانیت کو قتل کرنے کے برابر گناہ ہے۔ اللہ کےنیک بندوں کی صفت یہ ہے کہ وہ ناحق
قتل نہیں کرتے، اربابِ اقتدار کےلیےقتل کی تین صورتیں جائز ہیں: رجم، قصاص،
ارتداد۔
کسی بھی انسان کو قتل کرنا تو درکنار، ہم کسی بھی حال میں
کسی بھی انسان کے قتل میں کسی بھی نوعیت سے معاون ثابت نہ ہوں تاکہ ہم آخرت میں
دردناک عذاب سے محفوظ رہیں۔ اگر کسی نے کوئی قتل کیا ہے تو حکومت وقت ہی کو اسے
قصاصاً قتل کرنے کا حق حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تمام گناہوں سے محفوظ رہ کر یہ
دنیاوی فانی زندگی گزارنے والا بنائے اور ہمیں دونوں جہاں میں کامیابی عطا
فرمائے۔۔اللہ تعالیٰ ہمارے پورےمعاشرے کوبالخصوص وطن عزیز پاکستان کو دہشت گردی،
قتل وقتال اور فتنہ و فساد جیسی لعنت سے محفوظ فرمائے۔ آمین