اسلام میں میاں بیوی کے تعلق کو محبت، رحمت اور باہمی تعاون پر مبنی بنایا گیا ہے۔لیکن افسوس موجودہ دور کی مسلمان عورتوں نے شادی کا مقصد شوہروں سے مختلف قسم کی فرمائشوں اور دنیا کے نا معقول تقاضوں کی تکمیل کا ذریعہ سمجھا ہے جن کے پورا نہ ہونے کی بناء پر گھر میدان جنگ بن جاتے ہیں یا پھر بات علیحدگی تک پہنچ جاتی ہے، گھر کے سکون کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق کا اور دلجوئی کا خیال رکھا جائے شوہر کو راضی رکھنے کے لیے درج ذیل اسلامی اصولوں کو اپنانا مفید ہو سکتا ہے:

1۔ اطاعت اور حسن سلوک: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (ابن ماجہ، 2/411، حدیث: 1853) یعنی شوہر کا حق بیوی پر بہت زیادہ ہے، لہٰذا بیوی کو چاہیے کہ وہ اس کی جائز باتوں میں اطاعت کرے اور نرمی و محبت سے پیش آئے۔بلکہ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ شوہر اگر بیکار اور مشکل ترین کام بھی کہے تو بیوی انکار نہ کرے خواہ وہ کام ہو یا نہ ہو۔

2۔ مسکراہٹ اور خوش اخلاقی: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مسکرانا بھی صدقہ ہے۔ (ترمذی، 3/384، حدیث: 1963) شوہر کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا، مسکرا کر بات کرنا اور نرمی اختیار کرنا شوہر کو خوش رکھنے کا ایک اہم ذریعہ اور بنیادی زریعہ ہے ہر وقت مالی تنگی یا غصہ کا اظہار کرنا یا طعنہ زنی کرنا دلوں میں نفرت کا سبب بنتا ہے۔

3۔ شوہر کی عزت اور قدردانی: بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کی عزت کرے، اس کی محنت کو سراہے اور اس کے سامنے نرمی اور محبت کا برتاؤ کرے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو عورت اس حال میں فوت ہو جائے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو، وہ جنت میں داخل ہوگی۔(ابن ماجہ، 2/412، حدیث: 1854)

ایک اور حدیث کے مطابق ایسی عورت جس کا شوہر ناراض ہو اسکی نہ نماز قبول ہوگی نہ کوئی نیکی۔ (شعب الایمان، 6/417، حدیث: 8727)

خدائے پاک نے جسے زندگی بھر کا ساتھی اور معاون بنایا ہو دنیاوی اعتبار سے جس کے بغیر گزارہ ممکن نہ ہو اسے کیسے ناراض رکھا جاسکتا ہے اس لیے اگر وہ کسی وجہ سے ناراض ہو جائے تو یو ں ہی ناراض نہ رہنے دیا جائے بلکہ خوش کرنے کی کوشش کی جائے اس لیے شریعت نے تا کید کی ہے کہ جب تک شوہر راضی نہ ہو ایسی عورت کی نہ نماز قبول ہوگی نہ کوئی نیکی۔

4۔ شوہر کے آرام اور ضروریات کا خیال رکھنا: بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کی ضروریات کا خیال رکھے، اس کے آرام، کھانے پینے اور پسند و ناپسند کا خیال رکھے تاکہ وہ گھر میں سکون محسوس کرے۔

5۔ شوہر کے رشتہ داروں اور دوستوں سے حسن سلوک: اچھے اخلاق سے شوہر کے والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ پیش آنا بھی شوہر کو خوش کرنے کا ذریعہ ہے۔ اگر ساس سسر کی خدمت کر ےگی تو ایک طر ف شوہر راضی رہے گا اور دوسری طرف گھر یلو سکون بھی میسر آئے گا اور سسرالی رشتے داروں اور اپنے والدین کی آمد پر یکساں خوشی اور کھانے کے اہتما م سے بھی شوہر راضی رہے گا۔

6۔ شوہر کی غیر موجودگی میں اس کی عزت اور مال کی حفاظت: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران ہے اور اس سے اس بارے میں سوال کیا جائے گا۔ (بخاری، 3/457، حدیث: 5188)

بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کی غیر موجودگی میں اس کی عزت اور امانت کی حفاظت کرے۔

7۔ دینی ماحول قائم کرنا: شوہر کے ساتھ مل کر دین پر عمل کرنا، نماز، تلاوت اور ذکر و اذکار میں دلچسپی لینا اولاد کی اچھی تربیت کرنا گھر میں سکون اور برکت کا سبب بنتا ہے۔

8۔ اختلافات میں صبر اور حکمت سے کام لینا: اختلافات زندگی کا حصہ ہیں، لیکن ان میں صبر، حکمت اور نرمی سے کام لینا گھر کی خوشحالی کے لیے ضروری ہے۔ ایک ساتھ رہتے ہوئے کچھ نہ کچھ اختلاف اور تلخ کلامی ممکن ہے لیکن اسکو انا کا مسئلہ نہ بنا لیا جائے اس سے اچھا خاصا گھر اور نعمتوں اور راحتوں کا اسباب کے باوجود گھر جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے۔

9۔ شوہر کے جذبات اور مزاج کو سمجھنا: ہر انسان کا ایک خاص مزاج ہوتا ہے، بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کی طبیعت اور موڈ کو سمجھے اور اس کے مطابق رویہ اختیار کرے۔ جب وہ تھکا ہوا ہو تو اسے آرام کا موقع دے، جب پریشان ہو تو تسلی دے، اور جب خوش ہو تو اس کے ساتھ خوشی میں شریک ہو۔جب پریشان ہو تو دلجوئی کرے اسکو مشکل وقت میں اکیلا نہ چھوڑ دے بلکہ ساتھ کھڑی رہے۔

10۔ شکایتوں سے گریز اور صبر کا مظاہرہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ ایسے مرد کو پسند کرتا ہے جو اپنی بیوی سے محبت کرے اور ایسی عورت کو پسند کرتا ہے جو اپنے شوہر کی عزت کرے۔

بیوی کو چاہیے کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر شکایت نہ کرے بلکہ صبر و برداشت سے کام لے۔ ناشکری نہ کرے کبھی مالی تنگی کا سامنا کرنا پڑ بھی جائے تو صبر اور شکر سے کام لے نشیب و فراز زندگی کا لازمی جزو ہیں۔

لہذا خواتین کو چاہیے کے گھر کو جنت بنانا ہے یا گھر کا سکون مقصود ہے تو گھر کے حاکم یعنی شوہر کو ہر صورت خوش و راضی رکھے اللہ پاک سے دعا ہے کہ تمام شادی شدہ خواتین کو اپنے شوہروں کو خوش رکھنے کی توفیق دے تاکہ احکامِ خدا وندی پر عمل پیرا ہو کے جنت کی مستحق ٹھہریں۔ آمین


شادی کے بعد جو سب سے اہم رشتہ ہوتا ہے وہ شوہر اور بیوی کا ہوتا ہے اور بیوی وہ اچھی ہوتی جو اپنی زندگی اللہ اور اسکے حبیب ﷺ کی فرمانبرداری اور شوہر کی اطاعت میں گزارے۔

میاں بیوی ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو بنایا تو جنت میں ہر نعمت ہونے کے باوجود اکیلے تھے پھر اللہ نے ان کی تنہائی کو ختم کرنے کے لیے اماں حوا کو پیدا کیا شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کے سکون کے لیے پیدا کیا۔ عورتیں (بیویاں) شوہروں کی تسکین کا باعث ہوتی ہیں اور بیوی کا فرض ہے کہ اپنے شوہر کی رضا اسکو راضی رکھنے والے کام کرکے خوش رکھیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شوہر کو خوش کیسے رکھیں؟ شادی ایسے خوبصورت رشتے کا نام ہے جس میں میاں اور بیوی دونوں کی ہم آہنگی ضروری ہے دونوں کو ایک دوسرے کی خوشی کا مختلف طریقوں سے خیال رکھنا چاہیے بیوی اپنے شوہر کو درج ذیل طریقوں سے خوش رکھ سکتی ہے:

اچھے کھانے پکائیں: عورت شوہر کے لیے اچھے اچھے کھانے پکائے جو چیز اس کو پسند ہے اس کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے وہ چیز بنائے احسن انداز سے کھانا پیش کرے تاکہ اس کے شوہر کے دل میں خوشی داخل ہو شوہر کھانے میں اگر عیب نکال دے تو اسے اپنی اصلاح سمجھتے ہوئے قبول کرے اس بات پر اس سے لڑائی جھگڑا نہ کرے۔

گھر کو صاف ستھرا رکھئے: شوہر کو خوش کرنے کے لیے صاف ستھرا اور پرسکون گھر بھی نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جب شوہر گھر آئے تو ہر چیز نظم و ضبط سے ہو بعض لوگ نفیس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں اگر گھر بکھرا ہو تو ان کی طبیعت میں چڑچڑا پن آجاتا ہے۔

عورت کا بنی سنوری نظر آنا : عورت کا بن سنور کر صاف ستھرا ہو کر تیار رہنا شوہر کو خوش کرنےکا ایک بہت بڑا سبب ہے۔ شوہر کی غیر موجودگی میں نا سہی لیکن اسکی موجودگی میں میں بن سنور کر رہے جس سے اسکے شوہر کے دل میں خوشی داخل ہو اور جب وہ گھر آئے تو مسکرا کر سلام کرے ہر بات کا جواب مسکرا کر خوش ہو کر دے ۔

غیر ضروری سوالات اور لڑائی جھگڑے سے گریز: بیوی کو شوہر سے غیر ضروری سوالات سے بچنا چاہیے عورت کے غیر ضروری سوالات سے مرد میں غصہ چڑ چڑا پن آجاتا ہے جس سے گھر کا ماحول بھی خراب ہوتا ہے اور لڑائی جھگڑے تک نوبت آجاتی ہے جو عورتیں بےجا سوالات اور لڑائی جھگڑے سے بچتی ہیں وہ اپنے شوہروں کے دل میں مقام بنا لیتی ہیں اور ان کے شوہر ان سے راضی ہوتے ہیں۔

عورت اور بھی انداز و اطوار اپنا کر شوہر کو راضی رکھ سکتی ہے کہ جب اسکا شوہر اسکو دیکھے تو وہ اسے خوش کر دے۔ اس سے بےجا خواہشات نہ کرے، رزق حلال کی ترغیب دے، قناعت کرنے والی ہو، شوہر کی تسکین کا باعث بنے کہ ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عورت کجاوے پر بیٹھی ہو مرد اسی سواری پر اس سے نزدیکی کرنا چاہے تو انکار نہ کرے یہ شوہر کا حق ہےعورت پر۔ شوہر کے گھر والوں کی عزت کرے اس کے والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے تو اس کا شوہر بھی اس کے حسن سلوک سے پیش آئے گا اور اس کے گھر والوں کی عزت کرے گا اس طرح ازدواجی زندگی خوشحال رہے گی اور میاں بیوی میں ہم آہنگی برقرار رہے گی اور ایک دوسرے سے خوش رہیں گے۔

اللہ سے دعا ہے کہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں انہیں خوش رکھیں ایک دوسرے کی رضا والے کام کریں کہ اللہ بھی ان سے خوش اور راضی رہے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


ازدواجی زندگی میں خوشی اور سکون صرف ایک خواب نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے صحیح طرز عمل، قربانی اور محبت کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نکاح کو ایک مقدس بندھن بنایا ہے، جس میں میاں بیوی دونوں کے حقوق اور ذمہ داریاں متعین کی گئی ہیں۔ ایک خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے بیوی کا کردار بہت اہم ہے، کیونکہ اس کی محبت، اطاعت، نرمی اور سمجھداری گھر کو جنت بنا سکتی ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو عورت اپنے شوہر کی اطاعت کرے، پانچ وقت کی نماز ادا کرے، اپنی عزت کی حفاظت کرے اور رمضان کے روزے رکھے، وہ جنت میں داخل ہوگی۔(حلیۃ الاولیاء، 6/336، حدیث: 8830)

آئیے دیکھتے ہیں کہ ایک عورت کن طریقوں سے اپنے شوہر کی رضامندی حاصل کر سکتی ہے اور ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنا سکتی ہے۔

1۔ عزت و احترام ہر مرد کی بنیادی ضرورت ہے، ہر شوہر کی فطرت مختلف ہوتی ہے، لیکن عزت و احترام ایسی چیز ہے جو ہر مرد کو پسند ہوتی ہے۔ شوہر کو کسی کے سامنے کمتر محسوس نہ ہونے دیں ،چاہے وہ آپ کی فیملی ہو یا آپ کی سہیلیاں اس کے فیصلوں اور خیالات کو اہمیت دیں ، اگر اختلاف ہو تو نرمی سے بات کریں۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (ابن ماجہ، 2/411، حدیث: 1853) حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ ازدواجی زندگی میں شوہر کا مقام کتنا اہم ہے۔

2۔ نرمی اور حسن اخلاق محبت بڑھانے کا ذریعہ ہے، شوہر کے ساتھ نرمی برتیں، تلخ لہجے اور بے جا شکایتوں سے اجتناب کریں۔کبھی کبھی ہنسی مذاق کریں، تاکہ تعلق میں خوشگواری رہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ نرمی فرمانے والا ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی پر وہ کچھ عطا فرماتا ہے جو سختی پر عطا نہیں فرماتا،بلکہ نرمی کے سوا کسی بھی شے پر عطا نہیں فرماتا۔ (مسلم، ص 1072، حدیث: 6601)

3۔ شوہر کی ضروریات اور مزاج کو سمجھنا شوہرکی پسند و ناپسند کا خیال رکھیں، خاص طور پر کھانے اور لباس کے معاملے میں اس کے کام کے بوجھ کو سمجھیں اور جب وہ تھکا ہوا ہو تو سکون مہیا کریں،اگر کبھی کوئی بات ناپسندیدہ ہو تو فورا ناراض ہونے کی بجائے حکمت سے کام لیں۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگرکوئی شخص اپنی حاجت کے لئے اپنی بیوی کو بلائے تو وہ آجائےاگرچہ وہ تنور پر روٹیاں کیوں نہ پکا رہی ہو۔ (ترمذی،2/386،حدیث:1163)

4۔ شکر گزاری رشتے کو مضبوط بنانے کا اصول شوہر کی چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی شکر ادا کریں، اس سے محبت میں اضافہ ہوگا۔ ایک مرتبہ سرکاردوعالم ﷺ عورتوں کے پاس سے گزرےتو فرمایا:احسان کرنےوالوں کی ناشکری سے بچنا،عورتوں نے عرض کی کہ احسان کرنے والوں کی ناشکری سے کیا مراد ہے؟فرمایا:ممکن تھاکہ تم میں سے کوئی عورت طویل عرصے تک بغیر شوہر کےاپنے والدین کے پاس بیٹھی رہتی اور بوڑھی ہو جاتی لیکن اللہ پاک نے اسے شوہر عطا فرمایااوراس کے سبب مال اور اولاد کی نعمت سے نوازا اس کے باوجود جب وہ غصے میں آتی ہے تو کہتی ہے:میں نے اس سے کبھی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔ (مسند امام احمد،10/433، حدیث:27632)

بعض اوقات عورتیں اپنی زندگی کا موازنہ دوسروں سے کرتی ہیں اور پھر اپنے شوہر سے شکوہ کرنے لگتی ہیں، یہ رویہ رشتے کو کمزور کر سکتا ہے۔

5۔شوہر کی غیر موجودگی میں اس کی عزت اورمال کی حفاظت ایک نیک بیوی وہ ہوتی ہے جو شوہر کی غیر موجودگی میں اس کے مال اور عزت کی حفاظت کرے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: دنیا متاع (کچھ وقت کے لئے فائدہ اٹھانے کی چیز )ہے،اور دنیا کی بہترین متاع نیک بیوی ہے۔ (ابن ماجہ، 2/412، حدیث: 1855)

6۔ شوہر کے اہل خانہ سے اچھے تعلقات شوہر کے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک رکھیں، کیونکہ اکثر گھریلو مسائل کی جڑ یہی ہوتی ہے۔اگر کبھی کوئی اختلاف ہو تو صبر اور حکمت سے کام لیں۔

7۔ دین داری اور دعا کا اہتمام بیوی اگر دین دار ہوگی تو وہ شوہر کو بھی نیکی کی طرف راغب کرے گی اور گھر میں خیر و برکت ہوگی۔شوہر کے لئے دعا کریں کہ اللہ اس کے رزق اور صحت میں برکت دے۔

ازدواجی زندگی کا حسن اسی میں ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق کو پہچانیں اور نبھائیں۔ اگر بیوی نرمی، محبت، عزت اور صبر سے کام لے تو نہ صرف شوہر خوش ہوگا، بلکہ گھر جنت کا گہوارا بن جائے گا۔

اللہ تعالیٰ ہر شادی شدہ جوڑے کو محبت اور سکون عطا فرمائے۔ آمین


1۔ بیوی کو چاہئے کہ وہ شوہر کے حقوق ادا کرنے میں کوئی کمی نہ آنے دے، چنانچہ معلّم انسانیت ﷺ نے فرمایاکہ جب شوہر بیوی کو اپنی حاجت کے لئے بلائے تو وہ فوراً اس کے پاس آجائے اگرچہ تنّور پر ہو۔ (ترمذی،2/386، حدیث: 1163)

2۔ شوہر کام کاج سے گھر واپس آئے توگندے کپڑے، الجھے بال اور میلے چہرے کے ساتھ اس کا استقبال اچھا تأثر نہیں چھوڑتا بلکہ شوہر کیلئے بناؤ سنگار بھی اچھی اور نیک بیوی کی خصوصیات میں شمار ہوتا ہے اوراپنے شوہر کے لئےبناؤ سنگار کرنا اس کے حق میں نفل نماز سے افضل ہے۔ چنانچہ فتاویٰ رضویہ میں ہے: عورت کا اپنے شوہر کےلئے گہنا (زیور)پہننا، بناؤ سنگارکرنا باعث اجر عظیم اور اس کے حق میں نماز نفل سے افضل ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 22/126)

3۔ بیوی کو چاہئے کہ شوہر کی حیثیت سے بڑھ کر فرمائش نہ کرے، اس کی خوشیوں میں شریک ہو، پریشانی میں اس کی ڈھارس بندھائے،اس کی طرف سے تکلیف پہنچنے کی صورت میں صبر کرے اور خاموش رہے، بات بات پر منہ نہ پھلائے، برتن نہ پچھاڑے، شوہر کا غصّہ بچوں پر نہ اتارے کہ اس سے حالات مزید بگڑیں گے، اسے دوسروں سے حقیر ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے ،اس پر اپنے احسانات نہ جتائے،کھانے پینے ،صفائی ستھرائی اور لباس وغیرہ میں اس کی پسند کو اہمیت دے ،الغرض اسے راضی رکھنے کی کوشش کرے، فرمان مصطفےٰ ﷺ ہے: جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1164)

ہرجائز کام میں شوہر کی اطاعت کرنا: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضور ﷺ نے فرمایا:عورت جب پانچوں نمازیں پڑہے اور ماہ رمضان کے روزے رکھے اور اپنی عفّت کی محافظت کرے اور شوہر کی اطاعت کرے تو جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو۔ (حلیۃ الاولیاء، 6/336، حدیث: 8830)

شوہر جسے ناپسند کرتا ہواسے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینا : شوہر کا بیوی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے گھر میں اسے داخل نہ ہونے دے جسے اس کا شوہر ناپسند کرتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: کسی بھی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خاوند کی موجودگی میں (نفلی) روزہ رکھے لیکن اس کی اجازت سے رکھ سکتی ہے، اورکسی کوبھی اس کے گھرمیں داخل ہونے کی اجازت نہ دےلیکن اس کی اجازت ہو توپھر داخل کرے۔ (بخاری، 3/462، حدیث: 5195)

ان کے شوہر کو راضی رکھنے مزید چند امور درج ذیل ہیں:

(1) ازدواجی تعلقات میں مطلقاً شوہر کی اطاعت کرنا (2) اس کی عزت کی سختی سے حفاظت کرنا (3) اس کے مال کی حفاظت کرنا (4) ہر بات میں اس کی خیر خواہی کرنا (5) ہر وقت جائز امور میں اس کی خوشی چاہنا (6) اسے اپنا سردار جاننا (7) شوہر کونام لے کر نہ پکارنا (8) کسی سے اس کی بلا وجہ شکایت نہ کرنا (9) اور خداتوفیق دے تو وجہ ہونے کے باجود شکایت نہ کرنا (10) اس کی اجازت کے بغیر آٹہویں دن سے پہلے والدین یا ایک سال سے پہلے دیگر محارم کے یہاں نہ جانا (11) وہ ناراض ہو تو اس کی بہت خوشامد کرکے منانا۔ (فتاویٰ رضویہ، 24/371 ملخصاً)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ رشتوں کا ادب و احترام اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


شوہر کو راضی رکھنے کے چند اہم نکات اور طریقے درج ذیل ہیں:

1۔ احترام اور محبت: شوہر کے ساتھ عزت و محبت کا رویہ رکھیں۔ ان کی باتوں کو غور سے سنیں اور ان کے جذبات کی قدر کریں۔

2۔ مخلصانہ بات چیت: اگر کوئی مسئلہ یا غلط فہمی ہو تو کھل کر، مگر نرم لہجے میں، بات کریں۔ مسائل کو دبانے کے بجائے انہیں حل کرنے کی کوشش کریں۔

3۔ شکرگزاری کا اظہار: شوہر کی کوششوں، محبت اور محنت کی تعریف کریں۔ ان کے اچھے کاموں کو سراہیں اور ان کا شکریہ ادا کریں۔

4۔ احساسات کی قدر: شوہر کے مزاج اور جذبات کا خیال رکھیں۔ اگر وہ تھکے ہوئے ہوں یا پریشان ہوں تو ان کو سکون فراہم کریں۔

5۔ اپنے رویے میں نرمی: نرم مزاجی اور خوش اخلاقی سے بات کریں۔ سخت لہجے یا تلخ الفاظ سے گریز کریں۔

6۔ وقت کا خیال رکھیں: شوہر کے ساتھ وقت گزاریں۔ ان کی دلچسپیوں میں شریک ہوں اور ان کی پسند و ناپسند کو مدنظر رکھیں۔

7۔ گھر کو سکون کا گہوارہ بنائیں: گھر کا ماحول خوشگوار رکھیں تاکہ شوہر گھر میں آرام اور سکون محسوس کریں۔

8۔ اپنی ذمہ داریوں کا خیال رکھیں: اپنے فرائض پورے کریں اور شوہر کی ضروریات کا خیال رکھیں، جیسے ان کے لباس، کھانے اور دیگر ضروریات کی دیکھ بھال۔

9۔ دعا اور صبر: اللہ سے دعا کریں کہ آپ کے درمیان محبت اور اتفاق قائم رکھے۔ بعض اوقات صبر اور وقت مسائل کا بہترین حل ہوتا ہے۔

10۔ تعمیری رویہ اپنائیں: شوہر کی کمزوریوں پر تنقید کرنے کے بجائے ان کی مدد کریں تاکہ وہ بہتر بن سکیں۔

یاد رکھیں کہ خوشگوار ازدواجی زندگی محبت، اعتماد اور احترام پر مبنی ہوتی ہے۔ ان اصولوں پر عمل کرتے ہوئے آپ شوہر کو راضی رکھنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔

شوہر کو راضی رکھنے کے لیے درج ذیل باتیں اہم ہیں:

1۔ محبت اور توجہ: شوہر کو یہ محسوس کروائیں کہ آپ ان سے محبت کرتی ہیں اور ان کی اہمیت کو سمجھتی ہیں۔ ان کے جذبات کا احترام کریں اور ان کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کریں۔

2۔ تعریف اور حوصلہ افزائی: ان کے اچھے کاموں کی تعریف کریں۔ حوصلہ افزائی شوہر کو خوش اور پراعتماد بناتی ہے۔

3۔ خوش اخلاقی: نرم مزاجی اور خوش اخلاقی سے دل جیتا جا سکتا ہے۔ سخت رویہ مسائل کو بڑھا سکتا ہے، اس لیے نرمی اپنائیں۔

4۔ اپنے رویے کی جانچ: خود احتسابی کریں۔ اگر آپ کے رویے میں کوئی کمی ہے تو اسے درست کرنے کی کوشش کریں۔

5۔ ان کی پسند کا خیال رکھیں: شوہر کی پسندیدہ چیزیں جیسے کھانے، لباس، یا شوق پر توجہ دیں۔ ان کی خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔

6۔ گھر کو سکون دہ جگہ بنائیں: شوہر کے لیے گھر کو ایسی جگہ بنائیں جہاں وہ خوشی اور سکون محسوس کریں۔ صاف ستھرا ماحول اور خوشگوار گفتگو اس میں مددگار ہوسکتی ہے۔

7۔ بحث سے گریز: چھوٹے مسائل پر جھگڑنے کے بجائے صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔ غیر ضروری بحث سے رشتے میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔

8۔ اعتماد پیدا کریں: شوہر کے ساتھ اپنے تعلق میں اعتماد کو بنیاد بنائیں۔ شک اور غلط فہمیوں سے پرہیز کریں۔

9۔ دعا اور روحانی مدد: اللہ سے دعا کریں کہ آپ کے درمیان محبت اور ہم آہنگی پیدا کرے۔ نماز اور دعا کی پابندی رشتے میں برکت لاتی ہے۔

10۔ ذاتی وقت دیں: ان کے ساتھ وقت گزاریں اور ان کی باتوں کو سنیں۔ شوہر کے مسائل میں دلچسپی لینا اور ان کا حل ڈھونڈنے میں مدد دینا ان کو خوشی دے سکتا ہے۔

یہ تمام نکات آپ کے شوہر کے دل میں آپ کے لیے محبت اور قربت بڑھانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔


شادی کے بعدزندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے، اسے پرسکون اور خوشحال بنانے میں میاں بیوی دونوں کا کردار اہم ہے،چنانچہ انہیں ایک دوسرے کا خیرخواہ، ہمدرد،سخن فہم(یعنی بات کو سمجھنے والا)،مزاج آشنا(مزاج کو جاننے والا)، غم گساراور دلجوئی کرنے والا ہونا چاہئے۔کسی ایک کی سستی و لاپرواہی اور نادانی گھرکا سکون برباد کرسکتی ہے۔دین اسلام نے میاں اور بیوی کے جدا جدا حقوق ہمیں تعلیم فرمائے ہیں۔آج ہم شوہروں کو راضی رکھنے کی اہمیت اور اس کے طریقے قرآن و سنت کی روشنی میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی حولے سے اللہ پاک کے پیارے حبیب ﷺ کے عطا کردہ چند مدنی پھول پیش خدمت ہیں:

(1) ہر جائز کام میں شوہر کی اطاعت کرنا: شوہر حاکم ہوتا ہے اوربیوی محکوم،اس کے الٹ کا خیال بھی کبھی دل میں نہ لائیے، لہٰذا جائز کاموں میں شوہرکی اطاعت کرنا بیوی کو شوہر کی نظروں میں عزت بھی بخشے گا اور وہ آخرت میں انعام کی بھی حقدار ہوگی،لہذا حدیث مبارکہ میں ہے : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضور ﷺ نے فرمایا: عورت جب پانچوں نمازیں پڑھے اور ماہ رمضان کے روزے رکھے اور اپنی عفّت کی محافظت کرے اور شوہر کی اطاعت کرے تو جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو۔ (حلیۃ الاولیاء، 6/336، حدیث: 8830)

(2) بدکلامی نہ کرے: اگر کسی بات پر شوہر کو غصہ آجاتا ہے اور وہ بیوی کو کچھ بول دیتا ہے تو بیوی پر لازم ہے کہ وہ شوہر کو پلٹ کر جواب نہ دے نہ ہی اس سے بدکلامی کرے کہ شوہر کے ناراض ہونے کا خطرہ ہے۔کبھی کبھار معاذاللہ بات اتنی بڑھ جاتی ہے کہ طلاق تک نوبت آجاتی ہےاور شوہر کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ہے۔

جنتی عورت کی شان : شوہر ناراض ہو جائے تو اس حدیث پاک کو اپنے لئے مشعل راہ بنائے جس میں جنتی عورت کی یہ خوبی بھی بیان کی گئی ہے کہ جب اس کا شوہر اس سے ناراض ہوتو وہ کہتی ہے: میرایہ ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے، جب تک آپ راضی نہ ہوں گے میں سوؤں گی نہیں۔ (معجم صغیر، 1/46)

اس کے علاوہ شوہر کے بہت سی ایسی اہم باتیں ہیں جو عورت پر لازم ہیں بس بیوی کو یہ حدیث پاک یاد رکھنی چاہیے کہ اگر شوہر کے نتھنوں سے خون اور پیپ بہہ کر اس کی ایڑیوں تک جسم بھر گیا ہو اور عورت اپنی زبان سے چاٹ کر اسے صاف کرے تو اس(شوہر)کا حق ادا نہ ہوگا۔ (ارشادات اعلیٰ حضرت، ص 55)

(3)شوہر کی حاجت کو پورا کرے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسول اللہ ﷺ فرمایا: شوہر نے عورت کو بلایا اس نے انکار کر دیا اور غصہ میں اس نے رات گزاری تو صبح تک اس عورت پر فرشتے لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ (بخاری، 2/388، حدیث: 3237)

(4)شوہر کے لئے بناو سنگار کرے: شوہر کام کاج سے گھر واپس آئے تو گندے کپڑے، الجھے بال اور میلے چہرے کے ساتھ اس کا استقبال اچھا تاثر نہیں چھوڑتا بلکہ شوہر کیلئے بناؤ سنگار بھی اچھی اور نیک بیوی کی خصوصیات میں شمار ہوتا ہے اور اپنے شوہر کے لئے بناؤ سنگار کرنا اس کے حق میں نفل نماز سے افضل ہے۔ چنانچہ فتاویٰ رضویہ میں ہے: عورت کا اپنے شوہر کے لئے گہنا (زیور) پہننا، بناؤ سنگار کرنا باعث اجر عظیم اور اس کے حق میں نماز نفل سے افضل ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 22/126)

(5)شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے: عورت پر حق ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے اگر اس نے ایسا کیا تو واپس لوٹنے یا توبہ کرنے تک فرشتے اس پرلعنت بھجتے رہیں گے۔ (احیاء العلوم، 2/217)

(6)شوہر کو کسی بھی طرح کی تکلیف نہ دے: حضور اقدس ﷺ فرماتے ہیں: جب عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ایذا دیتی ہے تو حور عین کہتی ہیں خدا تجھے قتل کرے اسے ایذا نہ دے یہ تو تیرے پاس مہمان ہے عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آئے گا۔ (ترمذی، 2/392، حدیث: 177)

(7)قبولیتِ نماز کے لیے شوہر کو راضی رکھنے کی تاکید : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تین شخص ہیں جن کی نماز قبول نہیں ہوتی اور ان کی کوئی نیکی بلند نہیں ہوتی: (۱)بھاگا ہوا غلام جب تک اپنے آقاؤں کے پاس لوٹ نہ آئے اور اپنے کو ان کے قابو میں نہ دے دے۔اور(۲)وہ عورت جس کا شوہر اس پر ناراض ہے اور (۳)نشہ والا جب تک ہوش میں نہ آئے۔ (شعب الایمان، 6/417، حدیث: 8727)

فتاوی رضویہ سے لئے گئے شوہر کے چند حقوق اختصاراً پیش خدمت ہیں: (1)ازدواجی تعلقات میں مطلقاً شوہر کی اطاعت کرنا (2) اس کی عزت کی سختی سے حفاظت کرنا (3) اس کے مال کی حفاظت کرنا (4) ہر بات میں اس کی خیر خواہی کرنا (5) ہر وقت جائز امور میں اس کی خوشی چاہنا (6) اسے اپنا سردار جاننا (7) شوہر کونام لے کر نہ پکارنا (8) کسی سے اس کی بلا وجہ شکایت نہ کرنا (9) اور خداتوفیق دے تو وجہ ہونے کے باجود شکایت نہ کرنا (10) اس کی اجازت کے بغیر آٹہویں دن سے پہلے والدین یا ایک سال سے پہلے دیگر محارم کے یہاں نہ جانا (11) وہ ناراض ہو تو اس کی بہت خوشامد کرکے منانا۔ (فتاویٰ رضویہ، 24/371 ملخصاً)

ہر شوہر بعض چیزوں کو پسند کرتا ہے اور بعض کو ناپسند نیک بیوی کی شان یہ ہونی چاہیے کہ اس کے جذبات خیالات میں اس کے موافق ہونے کی پوری پوری کوشش کرے اور جو اللہ و رسول نے شوہر کے حقوق بیان کیے ہیں اگر ان کو پورا کرے تو ان شاء الله الکریم میاں بیوی کے درمیان پیار محبت اور اتفاق پیدا ہو جائے گا اور شوہر بھی راضی رہے گا اور اسکے الله و رسول ﷺ بھی اس عورت سے راضی رہیں گے۔

اللہ پاک ہمیں اپنے گھریلو معاملات بھی شریعت کے مطابق چلانے کی توفیق عطا فرمائے ۔


اسلام نے میاں بیوی کے تعلق کو محبت، رحمت اور سکون کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ شوہر اور بیوی کا رشتہ باہمی احترام، اعتماد اور محبت پر مبنی ہونا چاہیے۔ ایک نیک بیوی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے شوہر کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرے، کیونکہ اس سے گھریلو زندگی خوشگوار اور پرسکون بنتی ہے۔

ایک نیک بیوی وہ ہے جو اپنے شوہر کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرے، اس کے حقوق کا خیال رکھے اور اسے محبت اور عزت دے۔ قرآن و حدیث میں بیوی کے لیے شوہر کی اطاعت اور اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے بے شمار فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ ان تعلیمات پر عمل کر کے ازدواجی زندگی کو خوشگوار اور کامیاب بنایا جا سکتا ہے۔

قرآن مجید میں شوہر اور بیوی کے تعلق کے اصول:

1۔ محبت اور رحمت: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ- (پ 21، الروم: 21) اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کی۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شوہر اور بیوی کا رشتہ محبت اور رحمت پر قائم ہونا چاہیے۔

2۔ اطاعت اور نرمی: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز العرفان: تو نیک عورتیں اطاعت کرنے والی اور انکی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت و توفیق سے حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں۔ اس آیت میں نیک بیویوں کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں، جو شوہر کی اطاعت گزار اور وفادار ہوتی ہیں۔

حدیث شریف میں بیوی کے فرائض:

1۔ شوہر کی اطاعت کا اجر: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب عورت اپنے شوہر کی اطاعت کرتی ہے، پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہے، رمضان کے روزے رکھتی ہے اور اپنی عزت و عفت کی حفاظت کرتی ہے، تو اسے کہا جائے گا: جنت کے جس دروازے سے چاہو داخل ہو جاؤ۔ (حلیۃ الاولیاء، 6/336، حدیث: 8830)

2۔ شوہر کو خوش رکھنے کی فضیلت: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ کسی کو سجدہ کرے تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (ابن ماجہ، 2/411، حدیث: 1853) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شوہر کا مقام کتنا بلند ہے اور بیوی کو اس کی عزت اور اطاعت کرنی چاہیے۔

شوہر کو راضی رکھنے کے عملی طریقے:

1۔ خوش اخلاقی اور نرمی: نرمی اور محبت سے بات کرنا ایک بیوی کا سب سے خوبصورت وصف ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: مسلمان عورتوں میں سب سے بہترین وہ ہے جو اپنے شوہر کے لیے خوشبو لگائے اور اس کے ساتھ نرمی سے پیش آئے۔

2۔ صفائی اور زینت: شوہر کو خوش رکھنے کے لیے بیوی کو اپنے لباس، صفائی اور خوشبو کا خاص خیال رکھنا چاہیے تاکہ شوہر کو ذہنی اور روحانی سکون ملے۔

3۔ احترام اور عزت: شوہر کی عزت کرنا، اس کے فیصلوں کا احترام کرنا اور اس کے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے میں مدد دیتا ہے۔

4۔ کھانے پینے کا اہتمام: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بیوی شوہر کی خدمت میں جو بھی خرچ کرتی ہے، وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔ شوہر کے لیے اچھے کھانے کا انتظام کرنا محبت کے اظہار کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔

5۔ گھر کا سکون بنانا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: دنیا ایک دولت ہے اور بہترین دولت نیک بیوی ہے۔ (ابن ماجہ، 2/412، حدیث: 1855) بیوی کو چاہیے کہ وہ گھر کے ماحول کو سکون بخش اور خوشگوار بنائے تاکہ شوہر باہر کی پریشانیوں سے محفوظ رہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہر شوہر کو بیوی کے لیے اور ہر بیوی کو شوہر کے لیے باعث سکون و راحت بنائے اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


شادی کے بعد زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے، اسے پرسکون اور خوشحال بنانے میں میاں بیوی دونوں کا کردار اہم ہے،چنانچہ انہیں ایک دوسرے کا خیر خواه، ہمدرد، سخن فہم (یعنی بات کو سمجھنے والا)، مزاج آشنا (مزاج کو جاننے والا)، غم گساراور دلجوئی کرنے والا ہونا چاہیئے۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز العرفان: تو نیک عورتیں اطاعت کرنے والی اور انکی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت و توفیق سے حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں۔

شوہر کو راضی رکھنے کے متعلق حدیث مبارکہ: نبی کریم ﷺنے فرمایا: جس عورت کا اس حال میں انتقال ہوا کہ اس کا شوہر اس سے راضی تھا تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ (احیاء العلوم، 2/215)

رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث پاک میں ایک ذمّہ دار بیوی کی بہت اہم خصوصیات بیان فرمائی ہیں: (1) حکم ماننے والی (2) شوہر کو خوش رکھنے والی (3) مال و عزّت کی حفاظت کرنے والی۔

شوہر کو ناراض کرنے کی وعید پر حدیث مبارکہ: بیوی کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ شوہر کے احسانات کی ناشکری سے بچے کہ یہ بری عادت نہ صرف اس کی دنیوی زندگی میں زہر گھول دے گی بلکہ آخرت بھی تباہ کرے گی، جیسا کہ نبیّ برحق ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے جہنّم میں اکثریت عورتوں کی دیکھی۔ وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: وہ شوہر کی ناشکری اور احسان فراموشی کرتی ہیں۔ (بخاری،3/463، حدیث:5197)

شوہر کام کاج سے واپس آئے تو گندے کپڑے، الجھے بال اور میلے چہرے کے ساتھ اس کا استقبال اچھا تأثر نہیں چھوڑتا بلکہ شوہر کیلئے بناؤ سنگار بھی اچھی اور نیک بیوی کی خصوصیات میں شمار ہوتا ہے اوراپنے شوہر کے لئےبناؤ سنگار کرنا اس کے حق میں نفل نماز سے افضل ہے۔ چنانچہ فتاویٰ رضویہ میں ہے: عورت کا اپنے شوہر کےلئے گہنا (زیور)پہننا، بناؤ سنگارکرنا باعث اجر عظیم اور اس کے حق میں نماز نفل سے افضل ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 22/126)

شوہر کو راضی رکھنے کیلئے فتاویٰ رضویہ سے لئے گئے شوہر کے چند حقوق اختصاراً پیش خدمت ہیں: (1)ازدواجی تعلقات میں مطلقاً شوہر کی اطاعت کرنا، (2) اس کی عزت کی سختی سے حفاظت کرنا، (3)اس کے مال کی حفاظت کرنا، 4)ہر بات میں اس کی خیر خواہی کرنا، (5) ہر وقت جائز امور میں اس کی خوشی چاہنا، (6) اسے اپنا سردار جاننا، (7) شوہر کو نام لے کر نہ پکارنا، (8) کسی سے اسکی بلاوکہ شکایت نہ کرنا، (9)وہ ناراض ہو تو اس کی بہت خوشامد کے کے منانا، (10)خداتوفیق دے تو وجہ ہونے کے باجود شکایت نہ کرنا، (11) اس کی اجازت کے بغیر آٹھویں دن سے پہلے والدین یا ایک سال سے پہلے دیگر محارم کے یہاں نہ جانا۔ (فتاویٰ رضویہ، 24/371 ملخصاً)

مثالی بیوی: مثالی بیوی بننے کے لیے عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے جسم، لباس اور گھر کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھے۔ حدیث پاک میں شوہر کو خوش کرنے والی عورت کو بہترین قرار دیا گیا ہے چنانچہ پیارے آقا ﷺ نے نیک بیوی کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی بیان فرمائی کہ اگر اس کا شوہر اسے دیکھے تو وہ (اپنے ظاہری اور باطنی حسن و جمال سے) اسے خوش کر دے۔ (ابن ماجہ، 2/414، حدیث:2857)

نیک عورت کی 6 نشانیاں: خاوند کی مدد گار، اپنی عزت کی حفاظت کرنے والی، نماز کی پابند،

شوہر کی فرمانبردار، خوش اخلاق، صبر اور شکر کرنے والی۔ لہذا عورت کی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ اپنے شوہر کے حقوق کا خیال رکھتی ہے اور بروقت اسکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ چاہیے کہ شوہر کے حقوق ادا کر کے الله پاک کی رضا کی حقدار بنے۔

اللہ پاک ہر عورت کو امہات المؤمنین اور سیدہ فاطمۃالزہرا رضی اللہ عنہن کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اسلام میں چھینک کو صرف ایک جسمانی عمل نہیں بلکہ اللہ پاک کی نعمت اور رحمت کا اظہار سمجھا گیا ہے۔ چھینک کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کے متعلق واضح تعلیمات دی ہیں جو نہ صرف شکرگزاری سکھاتی ہیں بلکہ باہمی خیرخواہی اور دعاؤں کا تبادلہ بھی بناتی ہیں۔

چھینک کے متعلق آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے کہ: اللہ پاک چھینک کو پسند اور جماہی کو ناپسند کرتا ہے، تو جب تم میں سے کوئی چھینکے اور اللہ کی حمد کرے تو ہر سننے والے مسلمان پر حق ہے کہ اسے چھینک کا جواب دے یعنی یرحمک اللہ کہے۔

(بخاری، 4/163، حدیث:6226)

چھینک کے متعلق معلومات فراہم کرنے اور اس کی اہمیت بتانے کے لئے شیخ طریقت امیر اہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے عاشقان رسول کو اس ہفتے 16 صفحات کا رسالہ چھینک کے آداب پڑھنے/سننے کی ترغیب دلائی ہے اور پڑھنے/سننے والوں کو اپنی دعاؤں سے بھی نوازا ہے۔

دعائے عطار

یاربّ کریم! جو کوئی 16 صفحات کا رسالہ چھینک کے آداب پڑھ یا سُن لے اُسےاپنی رضا پر راضی رہنے کی سعادت دے اور ماں باپ سمیت اس کی بے حساب مغفرت فرما۔ اللّٰھم اٰمین بجاہِ خاتَم النبیّن صلی اللہ علیہ و سلم

یہ رسالہ آڈیو میں سننے اور اردو سمیت کئی زبانوں میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کیجئے:

Download


حضور نبی رحمت ﷺ کے دریائے رحمت سے بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں نے بھی بہت فیض لیا۔آپ بچوں پر بہت شفقت فرماتے،انہیں اپنے پاس بلاتے،گود میں اٹھاتے،سر پر ہاتھ پھیرتے،دعائيں دیتے،دینی، دنیوی اور اخلاقی تربیت فرماتے،سواری پر ساتھ سوار فرماتے اور والدین کو بھی بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے ، اچھی تربیت کرنے اور ان کی آخرت سنوارنے کی تعلیمات دیتے۔

بچے اللہ پاک کی نعمت ہوتے ہیں۔ان سے پیار اور الفت بھرا برتاؤ (Behave) ہی کرنا چاہیے۔بچے اپنے ہوں یا دوسروں کے بچے بچے ہی ہوتے ہیں۔ ان سے ہمیشہ ، مہربانی سے پیش آنا چاہیے۔جو بچوں سے شفقت سے پیش آتے ہیں اللہ پاک انہیں جنت میں گھر سے نوازے گا۔ چنانچہ

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں،رَسُولُ الله ﷺ نے ار شاد فرمایا:بے شک جنت میں ایک گھر ہے جسے دارُ الفرح کہا جاتا ہے۔اس میں وہی لوگ داخل ہوں گے جو بچوں کو خوش کرتے ہیں۔

(جامع صغیر،ص 140 ،حدیث:2321)

بچوں کی حضورِ اکرم ﷺ کی نگاہ میں کیا حیثیت ہے اس کا اندازہ اس مبارک فرمان سے لگا يئے کہ مسلمانوں کے بچے جنت کی چڑیاں ہیں ۔ ( مسلم،ص 1086 ،حدیث:6701)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ سب سے زیادہ بچوں پر مہربان تھے۔(مسلم،ص 974،حدیث:6026)

آئیے!حضور ﷺ کی اپنی نواسیوں سے محبت کے بارے میں سنتی ہیں۔چنانچہ

حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی بیٹی کا نام امامہ تھا۔حضور ﷺ کو اپنی سب سے بڑی نواسی حضرت امامہ رضی اللہ عنہا سے بڑی محبت تھی۔ چنانچہ

سرکار ﷺ کی اپنی نواسی سے شفقت:حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیارے آقا ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ(اپنی نواسی)امامہ بنتِ ابو العاص رضی اللہ عنہا کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے۔پھر آپ نماز پڑھانے لگے تو رکوع میں جاتے وقت انہیں اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو انہیں اٹھا لیتے۔( بخاری، 4/100، حدیث:5996)

حکیمُ الاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:یہ عمل حضور ﷺ کی خصوصیت میں سے ہے، ہمارے لیے مفسدِ نماز ہے کیونکہ نماز میں بچی کو اتار نا چڑھانا اور روکنا عملِ کثیر سے خالی نہیں۔ ( مراۃ المناجیح،2 /133)

حضرت امامہ رضی اللہ عنہا سے حضور ﷺ کو بڑی محبت تھی۔آپ ان کو اپنے دوش مبارک پر بٹھا کر مسجد نبوی میں تشریف لے جاتے تھے۔

روایت ہے کہ ایک مرتبہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے آپ کی خدمت میں بطور ہدیہ ایک حلہ بھیجا جس کے ساتھ سونے کی ایک انگوٹھی بھی تھی جس کا نگینہ حبشی تھا۔حضور ﷺ نے یہ انگوٹھی حضرت امامہ رضی اللہ عنہا کو عطا فرمائی۔(سیرتِ مصطفیٰ، ص 693)

سونے کا خوبصورت ہار:اسی طرح ایک مرتبہ کسی نے حضور اکرم ﷺ کو ایک بہت ہی خوبصورت سونے کا ہار تحفے میں پیش کیا،جس کی خوبصورتی دیکھ کر تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن حیران رہ گئیں۔حضور ﷺ نے اپنی پاکیزہ بیویوں سے فرمایا کہ میں یہ ہار اس کو دوں گا جو میرے گھر والوں میں مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے۔تمام اَزواجِ مُطَہرات رضی اللہ عنہن نے یہ خیال کر لیا کہ یقیناً یہ ہار اب حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کو عطا فرمائیں گے مگر حضور ﷺ نے حضرت بی بی امامہ رضی اللہ عنہا کو قریب بلایا اور اپنی پیاری نواسی کے گلے میں اپنے مبارک ہاتھ سے یہ ہار ڈال دیا۔(شرح زرقانی علی المواہب،4 / 321 -مسند امام احمد ،9 / 399 ، حدیث : 24758)

یہ فطری بات ہے کہ انسان جس کے ساتھ جیسا رویہ اختیار کرتا ہے اس کے ساتھ بھی ویسا ہی انداز اختیار کیا جاتا ہے۔جو بچوں سے پیار کرتا ہے تو بچے بھی اس سے پیار کرتے ہیں ۔لہٰذا بچوں پر شفقت کیجیے دنیا و آخرت میں خوب برکتیں حاصل ہوں گی۔اللہ پاک ہمیں پیارے آقا ﷺ کی سنتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ 


حضور نبی رحمتﷺ کے دریائے رحمت سے بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں نے بھی بہت فیض لیا۔ آپ بچوں پر بہت شفقت فرماتے،انہیں اپنے پاس بلاتے،گود میں اٹھاتے،سر پر ہاتھ پھیرتے،دعائیں دیتے، دینی، دنیوی اور اخلاقی تربیت فرماتے،سواری پر ساتھ سوار فرماتے اور والدین کو بھی بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے ،اچھی تربیت کرنےاور ان کی آخرت سنوارنے کی تعلیمات دیتے۔

بچوں کی حضورِ اکرمﷺ کی نگاہ میں کیا حیثیت ہے؟اس کا اندازہ اس فرمانِ مبارک سے لگائیے کہ مسلمانوں کے بچے جنت کی چڑیاں ہیں۔(مسلم،ص1086،حدیث:6701)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبی کریم ﷺ سب سے زیادہ بچوں پر مہربان تھے۔

(مسلم،ص974،حدیث:6026)

دیگر بچوں کے ساتھ تو رحمۃ اللعالمینﷺ محبت و شفقت فرماتے ہی تھے ساتھ میں اپنی پیاری پیاری نواسیوں سے بھی بے حد محبت کا اظہار فرماتے تھے۔آئیے!جانتی ہیں کہ حضورﷺ کی کتنی نواسیاں تھیں۔

حضور پاکﷺ کی 4 نواسیاں تھیں ۔حضورﷺ کی سب سے بڑی شہزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی اولاد میں ایک لڑکی حضرت امامہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ (زرقانی،3/197)

ننھی بچی کو قیمتی ہار پہنا دیا:حضورﷺ اپنی ننھی نواسی حضرت امامہ رضی اللہ عنہا سے بے حد پیارے فرماتے اور آپ نے ہی ان کی پرورش فرمائی۔ایک مرتبہ بارگاہِ رسالت میں ہدیہ پیش کیا گیا جس میں ایک قیمتی ہار بھی تھا،آپ ﷺ نے فرمایا: یہ میں اسے دوں گا جو مجھے بہت پیارا ہے۔پھر آپ نے حضرت امامہ رضی اللہ عنہا کے گلے میں پہنا دیا۔(مسند امام احمد،41/232،حدیث:24704)

اپنی نواسیوں میں سے حضرت امامہ رضی اللہ عنہا سے حضورﷺ کو بڑی محبت تھی۔آپ ان کو اپنے دوش مبارک پر بٹھا کر مسجدِ نبوی لے جاتے تھے۔

روایت ہے کہ ایک مرتبہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے حضورﷺ کی خدمت میں بطورِ ہدیہ ایک حلہ بھیجا جس کے ساتھ سونے کی ایک انگوٹھی بھی تھی جس کا نگینہ حبشی تھا۔حضورﷺ نے یہ انگوٹھی حضرت امامہ رضی اللہ عنہا کو عطا فرمائی۔(شرح زرقانی،3/197)

حضورﷺ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی شہزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولادِ کریمہ میں تین صاحبزادیاں حضرت زینب، حضرت ام کلثوم اور حضرت رقیہ رضی اللہ عنہن حضورﷺ کی نواسیاں تھیں۔

حضورﷺ کی نواسی رقیہ رضی اللہ عنہا تو بچپن میں ہی وفات پا گئی تھیں۔سیدہ زینب رضی اللہ عنہا حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ اور سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں آئیں اور ان کی اولاد باقی نہ رہی۔اگرچہ سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے ایک فرزند پیدا ہوا اور ان کا نام زید تھا۔(مدارج النبوة مترجم،2/622)

یاد رکھیے!بچوں کے ساتھ بڑا بن کر رہنا کمال نہیں ہے بلکہ بچوں کے ساتھ بچہ بن کے رہنا اور ان میں گھل مِل جانا ہی کمال ہےجو کہ حضورﷺ کی ذاتِ مبارکہ میں ایک عملی نمونہ ہے!

اہلِ بیتِ اطہار کے فضائل و مناقب بےشمار ہیں۔چونکہ اس جگہ مقصود حضورﷺ کی اپنی نواسیوں سے محبت کا تذکرہ ہے،لہٰذا اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔اللہ پاک ہمیں بھی حضورﷺ کی سیرتِ مبارکہ پر عمل کرنے کی توفیق اور اس محبت کا صدقہ عظیم عطا فرمائے۔آمین بجاہِ خاتمِ النبیینﷺ

نبی کریم ﷺ کی مبارک زندگی کے بارے میں قرآنِ کریم فرماتا ہے:لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ(پ21،الاحزاب:21) ترجمۂ کنز الایمان:بے شک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے۔ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب شانِ حبیب الرحمن میں اس آیت پر بہت پیارا کلام فرمایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سرکارِ ابدِ قرار ﷺ کی مبارک ذات ہردرجے اور ہر مرتبے کے انسان کے لئے نمونہ ہے۔ مزید لکھتے ہیں:اگر کسی کی زندگی اہل و عیال کی زندگی ہے تو وہ یہ خیال کرے کہ میری تو ایک یا دو یا زیادہ سے زیادہ چار بیویاں ہیں اور کچھ اولاد مگر محبوب ﷺ کی 9 بیویاں ہیں،اولاد اور اولاد کی اولاد،غلام باندیاں،متوسلین اور مہمانوں کا ہجوم ہے،پھر کس طرح ان سے برتاؤ فرمایا اور اس کے ساتھ ساتھ کس طرح رب کی یاد فرمائی۔ (شانِ حبیب الرحمن، ص160-158 ملخصاً)

سب کو ان کے مقام و مرتبے کے اعتبار سے شفقتوں سے نوازاخصوصا بیٹیوں کے فضائل بیان فرما کر عرب کے معاشرے کو وحشت و بربریت سے نکالا اور عملی طور پر بھی اس کا مظاہرہ فرمایا۔اپنی شہزادیوں بلکہ نواسیوں کو بھی پیار و محبت عطاسے نوازا۔سیرتِ نبی کی کتب میں نبی کریم ﷺ کی چار نواسیوں کا ذکر ملتا ہے: سیدہ امامہ،سیدہ زینب،سیدہ امِّ کلثوم اور سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہن۔سیدہ امامہ رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کی بڑی شہزادی حضرت بی بی زینب رضی اللہ عنہا کی بیٹی ہیں جبکہ بقیہ تینوں خاتونِ جنت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولادِ پاک ہیں۔آئیے!آخری نبی ﷺ کے گلشنِ نبوت کی مہکتی کلیوں کے ساتھ محبت و شفقت بھرے انداز کی کچھ جھلکیاں ملاحظہ کیجئے۔چنانچہ

تحفہ عطا فرمایا:ایک مرتبہ نجاشی بادشاہ نے سرورِ کائنات ﷺ کی خدمتِ بابرکت میں کچھ زیورات کی سوغات بھیجی اس میں ایک بیش قیمت حبشی نگینے والی انگوٹھی بھی تھی۔ اللہ پاک کے پیارے نبی،مکی مدنی ﷺ نے اُس انگوٹھی کو چھڑی یا مبارک انگلی سے مس کیا یعنی چھوا اور اپنی بڑی شہزادی زینب رضی اللہ عنہا کی پیاری بیٹی یعنی اپنی نواسی حضرت امامہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور فرمایا:اے چھوٹی بچی!اسے تم پہن لو۔

(ابو داود،4/125، حدیث:2225)

اسی طرح ایک مرتبہ ایک بہت ہی خوبصورت سونے کا ہار کسی نے حضور اقدس ﷺ کو نذر کیا جس کی خوبصورتی کو دیکھ کر تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن حیران رہ گئیں۔آپ نے اپنی مقدس بیویوں سے فرمایا کہ میں یہ ہار اس کو دوں گا جو میرے گھر والوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن نے یہ خیال کر لیا کہ یقیناً یہ ہار حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کو عطا فرمائیں گے مگر حضور ﷺ نے حضرت امامہ رضی اللہ عنہا کو قریب بلایا اور اپنی پیاری نواسی کے گلے میں اپنے دستِ مبارک سے یہ ہار ڈال دیا۔ (شرح زرقانی،3/197)

کندھوں پر سوار فرمالیا:حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : اللہ پاک کے محبوب ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ اپنی نواسی امامہ بنتِ ابوالعاص رضی اللہ عنہا کو اپنے مبارک کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے۔پھر آپ نماز پڑھانے لگے تو رکوع میں جاتے وقت انہیں اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو انہیں اٹھا لیتے۔( بخاری،2/100،حدیث:5996)

سبحان اللہ! کیا پیار ومحبت بھرا انداز ہے۔ یہ نبی کریم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ وصالِ ظاہری شریف کے بعد بھی واقعۂ کربلا میں اس کی جھلک نظر آتی ہے۔

جب امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اہلِ بیت کا کاروان طرح طرح کے مصائب سہتے ہوئے مدینہ منورہ پہنچا تو نواسیِ مصطفےٰ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا فریاد کرتی ہوئیں مدینے شریف میں داخل ہوئیں،پھر خاندانِ نبوت کے سوا کسی کو نہیں معلوم کہ حجرۂ عائشہ میں کیا ہوا۔نواسی صاحبہ کی اشک بار آنکھوں پر رحمت کی آستین کس طرح رکھی گئی؟ کربلا کے پسِ منظر میں مشیتِ الٰہی کا سر بستہ راز کن لفظوں میں سمجھایا گیا ؟( زلف و زنجیر،ص 263، 264ملخصاً) یقیناً سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا یوں پکار پکار کر اپنے نانا جان ﷺ سے فریاد کرنا جہاں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے عشق پر دلالت کرتا ہے وہیں نانا جان ﷺ کا اپنی پیاری نواسی سے محبت بھرے تعلق کی نشاندہی کرتا ہے۔اللہ پاک ہمیں بھی درسِ سیرتِ مصطفیٰ پر عمل کرتے ہوئے اپنے گھر کے افراد خصوصاً بچیوں کے ساتھ شفقت سے پیش آنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین