کسی مسلمان کو بغیر کسی شرعی مجبوری کے ناجائز
ظلماً قتل کرنا، نا حق قتل کرنا ہے۔ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا کفر کے بعد کبیرہ
گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ ہے۔
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی مسلمان مرد کا جو لااِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی گواہی اور میری رسالت کی شہادت دیتا ہو خون صرف تین صورتوں میں سے کسی ایک
صورت میں حلال ہے: 1۔ نفس کے بدلے میں نفس، 2۔ ثیب زانی (شادی شدہ زانی) اور 3۔
اپنے مذہب سے نکل کر جماعت اہلِ اسلام کو چھوڑ دے (مرتد ہو جائے یا باغی ہو جائے)۔
(بخاری، 4/361، حدیث:6878)یہاں قتل سے مراد قتل عمد ہے کیونکہ قصاص صرف قتل عمد
میں ہے قتل خطاء یا قتل شبہ عمد میں قصاص نہیں صرف دیت ہے جیسا کہ گزر چکا۔
2۔ آقا کریم ﷺ نے فرمایا: اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان
کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، 1/
205)
افسوس آج کل قتل کرنابڑا معمولی سا کام ہو گیا ہے چھوٹی
چھوٹی باتوں پر جان سے ماردینا غنڈہ گردی، دہشت گردی وغیرہ کرنا عام ہو گیا ہے
مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے گروپ جتھے اور عسکری ونگ بنے ہوئے
ہیں جن کا کام ہی قتل و غارت گری کرنا ہے۔ (صراط الجنان، 2/276)
خلا صہ کلام: اگر کسی مسلمان کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور
ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور اگر قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا
ارتکاب کیا تو یہ گناہ کبیرہ ہےاور ایسا شخص مدت دراز تک جہنم میں رہے گا۔
رب تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمام امتِ
محمدیہ کو اِس اور تمام کبیرا گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین