دنیا کے پہلے قتل سے لے کر اب تک بے شمار لوگ طبعی موت کے
بجائے قتل ہوکر دنیا سے رخصت ہوچکے مگر تاحال یہ سلسلہ رُکا نہیں بلکہ وقت گزرنے
کے ساتھ ساتھ اس میں تیزی آتی جارہی ہےاورنِت نئے طریقوں سے لوگوں کو قتل کیا
جارہا ہے، جس کا کوئی پیارا قتل ہوتا ہے اس پر جو گزرتی ہے، اسے کن کن مسائل کا
سامنا ہوتا ہے! یہ حقیقتاً وہی سمجھ سکتا ہے۔افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی
کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی،
خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا
جاتا ہےیہ جبکہ قرآن پاک اور حدیث مبارکہ میں شدت کے ساتھ اس کی مذمت آئی ہے، اللہ
پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: مَنْ قَتَلَ
نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ
النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ
کنز الایمان: جس
نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں
کو قتل کیا۔
احادیث مبارکہ میں بھی اس کی وعید بیان ہوئی ہے چند ملاحظہ
فرمائیں:
فرامینِ مصطفیٰ:
(1) بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل
کرنا ہے۔ (بخاری،4/358، حدیث: 6871)
(2) بارگاہِ الٰہی میں مقتول اپنے قاتل کو پکڑے ہوئے حاضر
ہوگا جبکہ اس کی گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا، وہ عرض کرے گا: اے میرے
پروردگار! اس سے پوچھ، اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ پاک قاتل سے دریافت فرمائے
گا: تُونے اسے کیوں قتل کیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے اسے فلاں کی عزّت کے لئے قتل
کیا، اسے کہا جائے گا: عزّت تو اللہ ہی کے لئے ہے۔ (معجم اوسط، 1/224، حدیث:766)
(3)کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے
کا شکار ہو گا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے
قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، 1/
205)
(4) قیامت کے دن سب سے پہلے خون ِناحق کے بارے میں لوگوں کے
درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔ (مسلم، ص711، حدیث: 4381) حکیم الامت مفتی احمد یار خان
رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: خیال رہے کہ عبادات میں پہلے نماز کا حساب ہوگا اور
حقوق العباد میں پہلے قتل و خون کا یا نیکیوں میں پہلے نماز کا حساب ہے اور گناہوں
میں پہلے قتل کا۔ (مراۃ المناجیح،2/306)
(5) ہر گناہ کے بارے میں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ بخش دے گا۔
لیکن جو شرک کی حالت میں مرگیا اور جس نے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردیا اُن
دونوں کو نہیں بخشے گا۔ (ابو داود، 4/139، حدیث: 4270)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کسی مسلمان کو قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے۔
اگر مسلمانوں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا
شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب
کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز تک جہنم میں رہے گا۔