قتل ناحق کی مذمت از ہمشیرہ محمد منیب، فیضان ام
عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا کفر کے بعد کبیرہ گناہوں میں
سے سب سے بڑا گناہ ہے قرآن حدیث میں اس کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ قرآن پاک میں
ارشاد باری ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا
مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ
وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
فرامین مصطفیٰ:
1۔ جس نے اس شخص کو قتل کیا جس نے اسلامی حکومت سے معاہدہ
کر رکھا تھا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھے گا اور بلاشبہ اس کی خوشبو چالیس سال
کی راہ سے پائی جاتی ہوگی۔(بخاری، 2/365، حدیث: 3166)
2۔ بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو ناحق قتل کرنا
ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث: 6871)
3۔ کسی شخص پر کسی بھی شخص کاقتل معاف نہیں بلکہ حضرت
ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: امید ہے کہ اللہ ہر
گناہ معاف فرمائے سوائے اس شخص کے جو حالتِ شرک میں فوت ہو جائے یا اس شخص کے جس
نے کسی کا قتل کیاہو۔ (ابو داود، 4/139، حدیث: 4270)
مزید یہ کہ اللہ کے آخری نبی ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر
فرمایا: میرے بعد ایک دوسرے کے قاتل بن کر کافر نہ ہوجانا۔ ( صحیح بخاری، 4/435،
حدیث: 7080 )
دعا ہے کہ اللہ پاک تمام امت محمدی ﷺ کی جان و مال کی حفاظت
فرمائے۔ آمین یا رب العالمین