کلیم اللہ
چشتی عطّاری (درجۂ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ فاروقِ اعظم سادھوکی لاہور ،
پاکستان)
جس طرح مدینہ
منورہ کا مقام و مرتبہ بہت بلند و بالا ہے اسی طرح حرمِ مدینہ کے بہت فضائل ہیں
حرم مدینہ بھی شہر مدینہ کے اندر ہی ہے یہ وہ جگہ ہے جس کو نبیِّ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حرم یعنی حرمت و عزت والی جگہ قرار دیا ہے۔ بخاری شریف میں
ہے : مدینۂ منورہ عیر پہاڑ سے ثور پہاڑ تک حرم ہے۔ (بخاری، 4/323، حدیث:6755) اس
کے حقوق کی پاسداری و نگہبانی کے لئے بہت محتاط رہنا پڑے گا وگرنہ چھوٹی سی غفلت
کے سبب بہت بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آئیے حرمِ مدینہ کے حقوق میں سے
چند کا مطالعہ کیجئے:
(1)
درخت کاٹنے کی ممانعت: حرم مدینہ
کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اس حدود میں موجود درختوں وغیرہ کو نہ کاٹا جائے
کیونکہ یہ بھی حرم ہے جس طرح کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : مدینہ
یہاں سے وہاں تک حرم ہے لہٰذا اس کے درخت نہ کاٹے جائیں۔
(2)صبر کرنا:مدینۂ منورہ جس طرح اتنی برکتوں رحمتوں والا مقدس شہر
ہے اس میں انسان قلبی سکون و اطمینان محسوس کرتا ہے وہیں اگر کوئی آزمائش و
پریشانی نیکیوں میں اضافہ کرنے کے لئے تشریف لے آئے تو اس پر صبر کرنے والے کے لئے
بہت بڑی بشارت ہے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جو کوئی میرا
امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں
گا۔(مسلم، ص548، حدیث: 3339)
شہِ کونین نے جب صدقہ بانٹا
زمانے بھر کو دم میں کر دیا خوش
(3)
عیب جوئی نہ کرنا: مدینۂ منورہ کی
ہر چیز نفیس و عمدہ و اعلیٰ ہے اس میں کسی عیب و نقص کا شبہ تک نہیں، اگر بالفرض
طبعی طور پر کوئی چیز پسند نہ آئے تو اس میں عیب جوئی کی بجائے اپنی آنکھوں کا
دھوکا وعقل کی کمی سمجھے وگرنہ اس کی بڑی سخت سزا ہے۔ حضرت امام مالک رضی اللہُ
عنہ نے مدینۂ پاک کی مبارک مٹی کو خراب کہنے والے کے لئے 30 کوڑےلگانے اور قید
میں ڈالے جانے کا فتویٰ دیا۔ (الشفاء، 2/57)
جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سید عالم
اُس خاک پہ قرباں دلِ شیدا ہے ہمارا
(4)
تکلیف نہ پہنچانا: حرمِ مدینہ کے
حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ وہاں کے رہنے والوں سے پیار و محبت و حسن اخلاق سے پیش
آیا جائے، ان کو تکلیف پہنچانا تو دور کی بات صرف تکلیف پہنچانے کا ارادہ کرنے
والے کے لئے حضور علیہ السّلام نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اسے اس طرح پگھلا دے گا
جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ (مسلم، ص551، حدیث: 3359)
(5) یثرب کہنے کی ممانعت:مدینۂ منورہ کو یثرب کہنا جائز نہیں کیونکہ یہ لفظ اس
شہرِ مقدس کے شایانِ شان نہیں جس طرح کے حضور علیہ السّلام نے فرمایا: جس نے مدینہ
کو یثرب کہا اسے چاہئے کہ وہ اللہ پاک کی بارگاہ میں استغفار کرے کیونکہ مدینہ طابہ
ہے،طابہ ہے۔(مسند احمد،30/483، حدیث: 18519-بخاری،1/616، حدیث: 1867)
اس کے علاوہ بھی حرمِ مدینہ کے بہت سارے حقوق و
آداب ہیں مثلاً وہاں فضولیات ولغویات سے بچنا،آواز کو پست رکھنا، ہمیشہ زبان کو
درود پاک سے تر رکھنا، وہاں زیادہ عرصہ قیام نہ کرنا وغیرہ۔ اسی طرح جب حرم مدینہ
آئے تو ہو سکے تو پیدل،روتے ہوئے، سر جھکائے،نیچی نظریں کئے چلئے۔
حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا
ارے سر کا موقع ہے او جانے والے
اللہ پاک ہم
سب کو بار بار حاضری ِمدینہ کی سعادت عطا فرمائے اور حرمِ مدینہ کے تقدس وحقوق کی پاسداری
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم