مدینہ یہ وہ بابرکت شہرہےجہاں آقائےدوجہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مکہ سے ہجرت کرنے کے بعد قیام فرمایا اور یہ وہی شہر جسے رب العالمین نے اپنے محبوب کے لئے پسند فرمایا مدینہ منورہ نہایت افضل شہر ہے کیونکہ وہاں روضہ رسول ہے مدینہ منورہ کی خاک ، خاکِ شفاء ہے اور مدینہ منورہ کا وہ مقام جہاں حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا جسم اطہر تشریف فرما ہے وہ ہر مقام سے افضل ہے یہاں تک کہ خانہ کعبہ، عرش و کرسی و جنت سے بھی افضل ہےاس عظمت والے شہر کی احترام و تعظیم ہر مسلمان پر لازم ہے اور مدینہ کا وہ حصہ جسے آقائے دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حرم قرار دیا لہذا اسکے کچھ حقوق ہیں جن پر عمل پیرا ہونا ہر اہل ایمان پر واجب ہے ۔قرآن کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتاہے:وَ اِذْ قَالَتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْهُمْ یٰۤاَهْلَ یَثْرِبَ ترجمہ کنزالعرفان:اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا اے مدینہ والو! (پارہ 21,سورۃ الاحزاب,آیت 13)

اس آیت میں’’یثرب‘‘کا لفظ ذکر ہوا،اسکےبارےمیں اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں’’قرآنِ عظیم میں کہ لفظ’’یثرب‘‘ آیا وہ اللہ نےمنافقین کا قول نقل فرمایا ہے.یثرب کا لفظ فساد وملامت سے خبر دیتاہے وہ ناپاک اسی طرف اشارہ کرکے یثرب کہتے، اللہ عذوجل نے ان پر رد کے لئے مدینہ طیبہ کا نام طابہ رکھا، حضورِ اقدس،سرورِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : ’’یَقُولُونَ یَثْرِبَ وَہِیَ الْمَدِینَۃُ‘‘ وہ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ تو مدینہ ہے۔(بخاری،کتاب فضائل المدینۃ، باب فضل المدینۃ۔۔۔الخ،1/ 417،الحدیث:1871، مسلم،کتاب الحج، باب المدینۃ تنفی شرارہا، ص717، الحدیث: 488(1382)

اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا:اِنَّ اللہ تَعَالٰی سَمَّی الْمَدِیْنَۃَ طَابَۃَ ‘‘ بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مدینہ کا نام طابہ رکھا۔

روایت ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سوائے قرآن کے اور اس کے جو اس کتاب میں ہے کچھ اور نہ لکھا فرمایا کہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں مدینہ منورہ عیر سے ثور تک کے درمیان حرم ہے تو جو اس میں کوئی بدعت ایجاد کرے یا کسی بدعتی کو پناہ دے تو اس پر الله کی اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے اس کے نہ فرائض قبول ہوں نہ نفل مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے کہ ان کا ادنی آدمی بھی کوشش کرسکتا ہے جوکسی مسلمان کی عہد شکنی کرے اس پر اللہ ،فرشتوں اور سارے انسانوں کی لعنت ہے نہ اس کے فرض قبول نہ نفل جو اپنے کو اپنے دوستوں کی بغیر اجازت کسی قوم سے عقد دوستی باندھے اس پر اللّٰه کی فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے نہ اس کے فرض قبول ہوں نہ نفل۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4,ص225 ,حدیث نمبر:2728 )

حضرت انس رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے احد چمکا تو فرمایا یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں یقینًا ابراہیم علیہ السلام نے مکہ معظمہ کو حرم بنایا اور میں مدینہ کے گوشوں کے درمیان کو حرم بناتا ہوں.

یعنی ابراہیم علیہ السلام نے حدود مکہ معظمہ کو اپنی دعا سے حرم بنایا یا اس کی حرمت کو ظاہر فرمایا ورنہ وہ حرم تو خدا تعالٰی کے حکم سے ہے اور پہلے سے ہی ہے اور میں حدود مدینہ کو اپنے اختیار خداداد سے حرم بناتا ہوں اس سے پہلے مدینہ حرم نہ تھا نہ اس کی حرمت قرآن پاک میں مذکور ہے۔مدینہ کو حرم بنانے کے معنے وہ ہی ہیں جو پہلے عرض کیے گئے کہ اس مقدس مقام کی تعظیم و توقیر واجب ہے،اسے اجاڑنے ویران کرنے کی کوشش کرنا حرام ہے،یہاں شکار وغیرہ مکروہ ہے۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4,ص, 237حدیث نمبر:2745 )