قتلِ ناحق کتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی وجہ سے حضرتِ آدم کا بیٹا اپنے باپ کے دربار سے نکلا اورکفر و شرک میں مبتلا ہو کر مرا۔ اور قیامت تک ہونے والے ہر قتلِ ناحق کا بدلہ آپنے سر لے کر جہنم کا مستحق بنا کہ جو شخص کوئی بُرا طریقہ ایجاد کرے تو قیامت تک جتنے لوگ اس برے طریقے پر عمل کریں گے سب کے گناہ میں وہ جس نے ایجاد کیا حصہ دار ہو گا۔ بلاشبہ دین سلام امن اور سلامتی کا دین ہے یہ وہ دین ہے جس میں راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے پر بھی ثواب ملتا ہے۔ اور اسلام امن پسند دین ہے اس میں انسانی جان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر ہے۔ (ترمذی، 3/98، حدیث: 1400)

افسوس بعض لوگ یعنی دہشت گرد تو بے قصور بچوں اور لوگوں کو سکول مساجد میں بم دھماکوں کے ذریعے موت کی نیند سُلا دیتے ہیں، ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔( مسلم، ص 60، حدیث:260)

شریعت میں قتلِ عمد یعنی اسلحہ کے ساتھ جان بوجھ کر قتل کرنے کی سزا دُنیا میں فقط قصِاص یعنی قتل کا بدلہ قتل ہے، مقرر بھی یہی ہے ہاں اگر اولیائے مقتول معاف کردیں یا قاتل سے مال لے کر صلح کر لیں تو یہ بھی ہوسکتا ہے۔ (ظاہر گناہوں کی معلومات، ص 78) خیال رہے کہ ظلماً قتل کرنا ، قتل کرانا یا مدد دینا یا قاتل کی حمایت کرنے والے سب ہی سزا کے مستحق ہیں۔

اللہ پاک قرآن مجیدمیں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

مسلمان آدمی کیسا ہی گنہگار ہو مگر وہ رحمت الہی کی وسعت میں رہتا ہے مگر ظالم قاتل اللہ کی رحمت کا مستحق نہیں رہتا۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، حضور پُر نور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس میں حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)

افسوس ! فی زمانہ ایک گھر سے لے کر عالمی سطح تک اس معاملے میں مسلمانوں کا حال ایسا ہی نظر آ رہا ہے کہ مسلمان اپنے گھر میں بھی بے روزگاری مہنگائی سے تنگ ہوکر مایوسی میں اہل خانہ کو قتل کرنے کے گناہ میں ملوث ہوتے ہیں جبکہ خالق نے رزق دینے کا وعدہ کر رکھا ہے اپنے ہی بہن بھائیوں کے ساتھ جائیداد کی بِنا پر اُن کو قتل کر دیا جاتا ہے آہ صرف یہ دُنیا کی محبت کا نتیجہ ہے، حدیث شریف میں ہے کہ دُنیا کی محبت ہر گناہ کی جڑ ہے، اس کے علاوہ سیاسی معاملات کہ ایک فریق اپنے قائد کی حمایت میں دوسرے گروپ کے ممبر کو قتل کر دیتا ہے۔ شاید ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ بروزِ قیامت معلامات میں پہلے قتلِ ناحق کی متعلق سوال ہوگا تب قاتل کا جواب ہوگا کہ میں نے فُلاں قتل اپنے لیڈر کی ملکیت کی بنا پر کیا میں فلاں کو سپورٹ کرتا اور اُس کا ماتحت تھا اس نے مجھ سے قتل کروایا اسے بھی پکڑ۔ اس سے موجوہ حکومتوں کو سبق لینا چاہیے کہ اُن کی بدانتظامی کی وجہ سے قتل کی جرات روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ نیز اس پیش کردہ روایت پر غور کرنا چاہیے۔

قتل ناحق کا ایک سبب آدمی کا تکبر اور انا بھی ہے کہ بعض اوقات اپنے حق میں معولی سی بے ادبی کرنے والے کو قتل کر دیتا ہے۔ ایک ہی مقصد میں اگر کوئی آگے بڑھنے کی کوشش کرے تو شدید حسد تکبر اور غصے کی وجہ سے قتل کرنے تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ فلاں مجھ سے زیادہ قابل کیسے ہے اُس کی تو اتنی اوقات نہیں کہ مجھ سے پہلے یہ کام کرے وغیرہا۔

قتل ناحق کی مذمت میں 5 مدنی پھول:

(1) ناحق قتل کرنے والے پر اس کا دِین تنگ ہوجاتا ہےاور وہ اپنے اس گناہ کے سبب تنگی میں رہتا ہے۔

(2)ناحق قتل کرنے والا اعمال صالحہ کی توفیق سے محروم ہو جاتا ہے۔

(3)جب بندہ ناحق قتل، شراب وغیرہ گناہوں میں پڑتا ہے تو شیطان اس کے ہاتھ پاؤں بن جاتا ہے اور پھر اسے ہر شر کی طرف لے جاتا ہے اور ہر بھلائی سے پھیر دیتا ہے۔

(4)مؤمن جب تک ناحق قتل نہیں کرتا اسے نیک اعمال میں جلدی کرنے کی توفیق ملتی رہتی ہے۔ لیکن جیسے ہی وہ ناحق قتل میں مبتلا ہوتا ہےتو وہ اس توفیق سے محروم کردیا جاتاہے۔

(5) ناحق قتل کرنے والا کبیرہ گناہ کرنے والا اور رحمت الہی سے محروم ہے۔ لہذا اس گناہ سے بچنے کے لیے خوف خدا پیدا کیجیے۔ انجام یاد رکھیے کہ وقتی جذبات میں یا منصوبہ بندی کے ذریعے ہی یہ قتل کرنا دُنیا اور آخرت میں تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ قاتل کو ملکی قانون کی سزا تو ملے گی ساتھ میں خاندان والوں کو ذلت کا سامنا بھی ہوگا۔ اور دل میں مسلمانوں کے احترام کا ہونا لازمی ہے۔ بے شک ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کی جان کو جلنے ڈوبنے یا قتل سے بچنا پوری انسانيت کو بچنا ہے۔ اس کے لیے علم دین بہترین ذریعہ ہے جس کے سیکھنے سے گناہوں سے بچنے میں بہت مدد ملے گی ان شاء اللہ خوفِ خدا جیسی دولت اور بہت کچھ حاصل ہوگا۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کسی بھی مؤمن کے قتل ناحق جیسے کبیرہ گناہ سے محفوظ فرمائے، ہمیں مسلمانوں کی عزت جان ومال کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔