جوشخص کہتا ہے"ابھی رہنے دو، ابھی رہنے دو، بعد میں کرلیں گے"ایسے
افراد ہمارے گھروں، اسکولوں، دکانوں، شہر وغیرہ میں رہ کر ہمارے معاشرے کو خراب کر رہے ہیں اور خود کو بھی مشکل
میں ڈالتے ہیں، امام ابنِ جوزی نے بڑی
پیاری بات لکھی ہے:"جو شخص کہتا ہے، ابھی رہنے دو، کل کرلیں گے، وہ ایسا آدمی ہے جو کسی درخت کو کاٹنے جاتا ہے
اور درخت مضبوط ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ "چلو اسے اگلے سال کاٹ لوں
گا"، وہ یہ نہیں سوچتا کہ اگلے سال
درخت زیادہ مضبوط ہو جائے گا اور میری عمر بڑھ جائے گی اور کمزوری مجھ میں آ جائے
گی اور پھر وہ کاٹنا نہایت دشوار اور مشقت والا ہو جائے گا، اس طرح یہ جو ٹال مٹول اور سُستی کا جو معاملہ
ہے، یہ اس طرح ہے کہ آنے والے وقتوں میں
ہمارا کام مشکل سے مشکل ترین ہوتا چلا جاتا ہے۔ حضرت عبدالعزیز کے بارے میں آتا ہے
کہ آپ کو کسی نے کہا کہ آج کا کام کل پر رکھ دیں، کل کر لیجئے گا تو آپ نے فرمایا:کہ نہیں میرے سے تو ایک دن کا کام بہت مشکل
سے ہوتا ہے، کل جب دو دن کا کام جمع ہو
جائے گا تو میں وہ کیسے کروں گا۔"
امیراہلسنت کا معمول ہے کہ اگر آپ
نے مغرب اور عشاء کے درمیان کھانا نہیں کھایا، تو مثال کے طور پر اگر آپ کہیں، ابھی رہنے دو بعد میں کھالیں گے، تو جو جدول ہمارے سامنے ہے تو بعد میں کھائیں گے
کب! بعد میں کھانے کا ٹائم نہیں ہے، یہی
ایک کھانا کھانے کا وقت ہے، ایک وقت میں
اگر یہ کام نہیں کیا تو دوسرے وقت میں وہ کام کرنے کی گنجائش نہیں کہ وہ وقت تو کسی اور کام کے لئے ہم نے مخصوص کر
دیا ہے، اب یہ کہ یہ جو مزاج ہے، اس میں تبدیلی ضروری ہے، کیونکہ وقت گزر جانے کے بعد جب وہ کام کیا جاتا
ہے، تو نقصان ہوتا ہے، اگر واقعی آپ نے اپنے اندر وقت کی پابندی اور ہر
کام کو اس کے وقت پر کرنے کا مزاج پیدا
کرنا ہے، تو نماز کی عادت بنانی ہوگی، یعنی
اُسے قضا کرنے کے بجائے اس کے وقت پر پورا
کرنا چاہئے، کیونکہ یہ معمول انسان کو وقت
کا پابند بناتا ہے۔
آج کا کام کل پر چھوڑنے والے لوگ
خود بھی پریشان ہوتے اور دوسروں کو بھی پریشان کرتے ہیں، اگر آج نیک اعمال نہ کئے تو کل قیامت کو ایک ہی
پکار ہوگی:
فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا۔ ترجمۂ
کنزالایمان:"ہمیں پھر بھیج کہ نیک کام
کریں۔"(پ21، السجدۃ: 12)
غفلت سے بیدار ہونے کے بارے میں دو فرامینِ
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:
1۔ارشاد فرمایا:" پانچ چیزوں
کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، ٭ جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، ٭ صحت کو بیماری سے
پہلے، ٭ مالداری کو تنگدستی سے پہلے، ٭ فرصت کو مشغولیت سے پہلے، ٭ اور زندگی کو
موت سے پہلے۔"(مستدرک، کتاب الرقاق نعمتان مغبون فیھا۔۔الخ، 5/435، حدیث7916)
2۔ارشاد فرمایا:"بندے کاغیر
مفید کاموں میں مشغول ہونا، اس بات کی
علامت ہے کہ اللہ نے اس سے اپنی نظرِ عنایت پھیر لی ہے اور جس مقصد کے لئے بندے کو
پیدا کیا گیا ہے، اگر اس کی زندگی کا ایک
لمحہ بھی اس کے علاوہ گزر گیا، تو وہ اس
بات کا حقدار ہے کہ اس کی حسرت طویل ہو
جائے۔"(تفسیر روح البیان، سورہ بقرہ،
تحت الآیۃ 232، 1/363)
اے جوانو اور توبہ میں تاخیر کرنے
والو! کیا تم غور نہیں کرتے کہ تم کب سے اپنے نفس سے وعدہ کر رہے ہو کہ کل عمل
کروں گا، کل عمل کروں گا اور وہ کل آج میں
بدل گیا، کیا تم نہیں جانتے کہ جو کل آیا اور چلا گیا، وہ گزشتہ کل میں تبدیل ہوگیا، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ تم آج عمل کرنے سے عاجز
ہو تو کل زیادہ عاجز ہو گے۔
آج کا کام کل پر چھوڑنے والا اُس آدمی کی طرح ہے،
جو درخت کو اُکھاڑنے میں جوانی میں عاجز
ہو اور اسے دوسرے سال تک مؤخر کر دے، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ جوں جوں وقت گزرتا چلا جائے گا،
درخت زیادہ مضبوط اور پُختہ ہوتا جائے گا اور اُکھاڑنے والا کمزور ہوتا جائے گا، پس جو اُسے جوانی میں نہ اُکھاڑ سکا، وہ بڑھاپے میں قطعاً نہ اُکھاڑ سکے گا، جو شخص جوانی میں احکامِ شریعہ کی بجاآوری میں کوتاہی
برتتا ہے تو اس سے کیسے اُمید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ بڑھاپے میں ان غلطیوں کا مداوا
کر سکے گا، لہذا جوانی کو غنیمت جانئے اور
اسی عمر میں نفس کو لگام دیجئے اور توبہ
میں جلدی کیجئے، نہ جانے کس وقت موت کا
پیغام آ جائے، کیونکہ موت نہ تو جوانی کا
لحاظ کرتی ہے، نہ بچپن کی پرواہ۔
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ مجھے اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ۔ (پارہ30، العصر:2)
ترجمۂ کنز الایمان:بے شک آدمی
ضرور نقصان میں ہے۔" کا ترجمہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا، میں ثمرقند کے بازار میں گیا ، وہاں ایک آدمی
برف بیچ رہا تھا اور ساتھ آواز لگا رہا تھا کہ مجھ پر رحم کرو، مجھ سے برف خرید لو، میں ایک ایسا تاجر ہوں جس کا مال بھی پگھلا جا رہا ہے،
بزرگ فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ اِنَّ
الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ کامفہوم کیا ہے، جس طرح سانسیں پگھلتی جا رہی ہیں، اسی طرح زندگی بھی پگھلتی جا رہی ہے۔
اے جوانوں اور توبہ میں تاخیر کرنے والوں! اب جو مخصوص زندگی دی گئی
ہے، یہ تو گزر جانی ہے، ایک لمحہ نہیں ٹھہرے گی، اس لئے زندگی کو اس انداز سے گزارئیے کہ ہمارا
ربّ اور اس کا محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے راضی ہو جائیں، ہر سانس کے بدلے نیکیاں کمائیے،
ورنہ برف کے پگھلتے ہوئے قطروں کی طرح زندگی سانس سانس کر کے ٹوٹ رہی ہے اور ہم ہر
لمحہ موت کے قریب ہو رہے ہیں۔
اللہ کریم ہمیں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے
صدقے ہمیں ہر سانس کو بامقصد گزارتے ہوئے،
زندگی کی آخری سانس تک اخلاص و استقامت کے
ساتھ دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"پانچ
چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، 1۔ جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، 2۔ صحت کو
بیماری سے پہلے، 3۔ مالداری کو تنگدستی سے پہلے، 4۔ فرصت کو مشغولیت سے پہلے، 5۔زندگی
کو موت سے پہلے۔"(المستدرک، کتاب الرقاق، جلد 5، صفحہ 435، حدیث 7916) اور فرمایا:" روزانہ
صبح جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اُس وقت دن یہ اعلان کرتا ہے کہ"اگر آج کوئی
اچھا کام کرنا ہے تو کر لو کہ آج کے بعد میں کبھی پلٹ کر نہیں آؤں گا۔"(شعب
الایمان، باب فی الصیام، ما جا ءلیلۃ
النصف من الشعبان، جلد 3، صفحہ 386، حدیث 3840، ملخصاً)
جو کام آج کا ہے، وہ آج کا ہے اور جو کل کا ہے، وہ کل کا ہے، کل کس نے دیکھی ہے، کل تو کبھی آئی ہی نہیں، ہمارے بزرگانِ دین کا معمول تھا کہ وہ روز کا
کام روز فرماتے تھے اور سُستی اور کاہلی سے بہت دور تھے، جب انہوں نے وقت کی قدر دانی کی تووقت نے بھی ان
کی قدردانی کی اور اُن کا نام ہمیشہ کے لئے روشن ہوا، ہم یہاں کچھ بزرگوں کے اِرشادات ذکر کرتے ہیں:
حضرت علی رضی اللہ عنہ:
"یہ ایّام تمہاری زندگی کے صفحات ہیں، ان کو اچھے اعمال سے زینت دو۔"
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں:
"میں اپنی زندگی کے گزرے ہوئے
اس دن کے مقابلے میں کسی چیز پر نادم نہیں ہوتا، جو دن میرا نیک اعمال میں اضافے سے خالی ہو۔"
امام رازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
"خدا عزوجل کی قسم! کھانا
کھاتے وقت علمی مشغلہ ترک ہو جانے کا مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ وقت نہایت ہی قیمتی
دولت ہے۔"
امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
"میں ایک مدت تک اہلُ اللہ
کی صحبت سے فیضیاب رہا، ان کی صحبت سے
مجھے دو اَہَم باتیں سیکھنے کو ملیں:1۔ وقت تلوار کی طرح ہے، تم اس کو کاٹو ورنہ یہ تم کو کاٹ دے گا۔
2۔ اپنے نفس کی حفاظت کرو، اگر تم نے اس کو اچھے کام میں مشغول نہ رکھا تو
یہ تم کو کسی بُرے کام میں مشغول کر دے گا۔"
حضرت سیّدنا عمر بن عبدالعزیز
علیہ الرحمہ:
"ایک دن آپ رحمۃ اللہ علیہ کے
بھائی نے آپ کو مشورہ دیا کہ کبھی کبھی سیر و تفریح کے لئے بھی نکل جایا کریں، فرمایا:"پھر اس دن کا کام کس طرح انجام
پائے گا؟ انہوں نے کہا: دوسرے دن ہو جائے گا، فرمایا: میرے لئے یہی بہت ہے کہ روز کا کام روز
انجام پاجائے، دو دن کا کام ایک دن میں
کیوں کر پورا ہوگا۔"(سیرت ابنِ جوزی، ص 225، حضرت سیّدنا عمر بن عبدالعزیز کی
425 حکایات، ص423)
اللہ تعالی ان ہستیوں کے صدقے
ہمیں بھی وقت کا قدردان بنائے اور ہر دن کا کام اُسی دن کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ایک مرتبہ کسی نے حضرت سیّدناعمر بن عبدالعزیز
رحمۃاللہ علیہ سے عرض کی، یا امیر المؤمنین!یہ کام آپ کل پر مؤخر فرما دیجئے، آپ نے اِرشاد فرمایا:" میں روزانہ کا کام ایک دن میں بمشکل مکمل کرپاتا ہوں، اگر
آج کا کام بھی کل پر چھوڑ دوں گا، تو پھر دو دن کا کام ایک دن میں کیونکر کر سکوں
گا۔"(انمول ہیرے، صفحہ نمبر 16،17)
مذکورہ واقعے سے آج کا کام کل پر نہ چھوڑنے کا جذبہ ملا، جس طرح وقت کو دُرست جدول کے ذریعے، نیز ترجیحات کو متعین کرکے اور منصوبہ بندی کرنے کے
ساتھ استعمال کرنے کے کئیں فوائد و برکات ہیں، اسی طرح آج کا کام کل پر چھوڑنے کے کئی نقصانات
ہیں، آئیے ان میں سے چند کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں:
بے ضابطگی:
آج کا کام کل پر چھوڑنے سے انسانی
زندگی کے نظم و ضبط پر کافی اثر پڑتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے ضروری اُمور پر توجّہ نہیں
دے پاتا۔
منتشر خیالی:
آج کا کام کل پر چھوڑنے سے انسانی خیالات منتشر
رہتے ہیں، جس کی وجہ سے انسان ڈپریشن اور
مایوسی کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔
مؤ ثر کارکردگی کا نہ ہونا:
آج کام کل پر چھوڑنے سے کارکردگی میں بہتری نہ آنے
کے ساتھ ساتھ انسان ترقی کی جانب قدم نہیں بڑھا سکتا۔
عبادات میں تاخیر:
آج کا کام کل پر چھوڑنے کی عادت اپنانے سے انسان
اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ عبادات (نماز، روزہ، زکوۃ، وغیرہ) کو وقت پر ادا نہ کرکے کئیں عذابوں کا
حقدار ہو سکتا ہے۔
ہمارے معاشرے کا مشہور جملہ"آج
رہنے دو، کل کروں گا"، آج بہت سے افراد چاہے وہ گھر میں ہوں یا دفتر
میں، دکان میں ہوں یا اسکول میں، یہ جملہ
کہتے ہوئے نظر آتے ہیں، ایسے افراد اپنا
اور اپنے معاشرے کا نقصان کرتے ہیں، کیونکہ ہر کام کے لئے ایک وقت مقرر ہے، اگر کام کو اُس کے مقررہ وقت پر نہ کیا جائے تو
تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ بعد میں وہ کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے، بہت سے افراد بعض اوقات کام کو وقت پر نہ کرنے
کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں، لہذا! ہمیں ایسی ٹال مٹول سے بچنا چاہئے اور ہر
کام کو اس کے وقت پر کرنا چاہئے۔
توبہ میں تاخیر کرنا:
اگر ہم دنیاوی نقصانات سے ہٹ کر اُخروی نقصانات
دیکھیں، کام کو وقت پر نہ کرنے کے یا کام
کو کل پر چھوڑنے کے تو ہمیں صحیح معنوں
میں کام وقت پر کرنے کا جذبہ ملے گا، اس
حوالے سے حضرت سیّدنا امام محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ منہاج العابدین میں
جوانوں اور توبہ میں تاخیر کرنے والوں کو سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں:"کہ کیا تم
غور نہیں کرتے کہ تم کب سے اپنے نفس سے وعدہ کر رہے ہو کہ کل عمل کروں گا اور وہ
کل آج میں بدل گیا، کیا تم نہیں جانتے کہ
جو کل آیا اور چلا گیا، وہ گزشتہ کل میں
تبدیل ہو گیا، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ تم
آج عمل کرنے سے عاجز ہو، تو کل زیادہ عاجز
ہوگے، آج کا کام کل پر چھوڑنے اور توبہ و
اطاعت میں تاخیر کرنے والا اُس آدمی کی طرح ہے کہ جو درخت کو اُکھاڑنے سے جوانی
میں عاجز ہواور دوسرے سال کے لئے مؤخر کر دے، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ جوں جوں وقت گزرتا چلا
جائے گا، درخت زیادہ مضبوط اور پختہ ہوتا
چلا جائے گا اوراُکھاڑنے والا کمزور ہوتا چلا جائے گا، پس جو اس درخت کو جوانی میں نہ اُکھاڑ سکا، وہ بڑھاپے میں قطعاً نہ اُکھاڑ سکے گا۔"
اے عاشقانِ رسول! اِمام غزالی رحمۃ
اللہ علیہ کا یہ فرمان کس قدر فکر انگیز ہے کہ جو شخص جوانی میں اَحکامِ شرعیہ اور
اِطاعتِ الہی کی بجا آوری میں کوتاہی برتتا ہے، تو اُس سے کیسے اُمید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ
بڑھاپے میں غلطیوں کا مداوا کر سکے گا، کیونکہ اُس وقت جسم اور اعضاء کمزوری کا شکار ہو
چکے ہوں گے، لہٰذا! جوانی کو غنیمت جانئے
اور اِسی عمر میں نفس کے بے لگام اور منہ زور گھوڑے کو لگام دے دیجئے اور توبہ
کرنے میں جلدی کیجئے، نہ جانے کس وقت
پیغامِ اجل آ جائے، کیونکہ موت تو نہ
جوانی کا لحاظ کرتی ہے، نہ ہی بچپن کی
پرواہ۔
آہ!آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر
نہیں
سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں
اے عاشقانِ رسول!ابھی اپنے گناہوں
سے توبہ کیجئے اور اپنے ربّ عزوجل کی اطاعت میں مشغول ہو جائیں، اپنے ربّ کو راضی کرنے میں لگ جائیں، اللہ پاک ہم سب
کو توبۃ النصوح کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
جدول بنانا:
دنیا میں اپنا کام وقت پر کرنے کے لئے ضروری ہے
کہ ہم جدول بنائیں، اگر ہم اپنے پیر و
مرشد حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ
کے معمولات پر غور کریں تو ہمیں نظر آئے گا تو آپ اپنا ہر کام مقررہ وقت پر کرتے
ہیں، دُنیا کے تمام کامیاب لوگوں کی
کامیابی کا انحصار وقت کی پابندی پر ہوتا ہے، جدول بنانے کی ہمیں یہ برکت نصیب
ہوگی کہ ہم بہت سے فضول کاموں سے بچ جائیں گے اور اپنی زندگی کو سُنتِ رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کے مطابق گزاریں گے، بہت
پیاری بات کسی نے کہی ہے کہ"یہ وقت ہی ہے، جو انسان کو سونا بنا دیتا ہے اور یہ وقت ہی ہے،
جو انسان کو مٹی کر دیتا ہے۔"
اللہ پاک ہمیں اپنے وقت کی قدر
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین
فرمان آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:"روزانہ
صبح جب سورج طلوع ہوتا ہے، تو اس وقت "دن"یہ
اعلان کرتا ہے:اگر کوئی اچھا کام کرنا ہے تو کر لو کہ آج کے بعد میں کبھی پلٹ کر
نہیں آؤں گا۔"(شعب الایمان، جلد3، صفحہ 386، حدیث نمبر 3740)
آج کا کام کل پر چھوڑنا ایک ایسی
عادت ہے، جس کی وجہ سے بسا اوقات انسان کو
نقصان اٹھانا اور پریشانی و ندامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے باوجود انسان سُستی یا معمولی تھکاوٹ کی
وجہ سے ایسے کام کو بھی کل پر ڈال دیتا ہے، جس کا آج کرنا ضروری ہوتا ہے، اس حوالے سے ہمارے بزرگانِ دین کا انداز کتنا
محتاط ہوا کرتا تھا، اس کی ایک جھلک
ملاحظہ فرمائیں:
ایک مرتبہ حضرت عمر بن عبدالعزیز
رحمۃاللہ علیہ سے کسی نے عرض کی، یا امیر المؤمنین!یہ کام آپ کل پر مؤخر فرما
دیجئے، ارشاد فرمایا:" میں روزانہ کا کام ایک دن میں بمشکل مکمل کرپاتا ہوں، اگر
آج کا کام بھی کل پر چھوڑ دوں گا تو پھر
دو دن کا کام ایک دن میں کیونکر کر سکوں گا۔"(نیک بننے اور بنانے کے طریقے،
صفحہ 489)
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اے ابنِ
آدم! موت کی تیاری میں جلدی کر اور کل کل کی رٹ نہ لگا، جو کرنا ہے آج کرلے، کیونکہ تو یہ نہیں جانتا کہ کب تجھے اللہ پاک کی
طرف لوٹ کر جانا ہے۔"(مدنی انعامات، صفحہ7)
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ احیاء
العلوم میں فرماتے ہیں: توبہ میں تاخیر کرنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے، جسے ایک درخت کو اکھاڑنے کی حاجت ہے، لیکن جب وہ دیکھتا ہے کہ درخت مضبوط ہے اور اسے
سخت مشقت کے بغیر نہیں اُکھاڑا جا سکتا، تو کہتا ہے:میں اسے ایک سال بعد اُکھاڑوں گا، حالانکہ درخت جب تک قائم رہتا ہے، اس کی جڑیں مضبوط ہوتی جاتی ہیں اور خود اس کی
عمر جوں جوں بڑھتی ہے، یہ کمزور ہوتا جاتا
ہے، تو دنیا میں اس سے بڑھ کر اَحمق کوئی
نہیں کہ اس نے قوت کے باوجود کمزور کا مقابلہ نہ کیا اور اس بات کا منتظر رہا کہ
جب یہ خود کمزور ہو جائے گا اور کمزور شے مضبوط ہوجائے تو اس پر غلبہ پائے گا۔(احیاء
العلوم، جلد 2، صفحہ 238)
یہی معاملہ دیگر کاموں کا بھی ہے،
کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کی
مصروفیات بڑھتی اور صحت و طاقت گھٹتی ہے، لہذا! ہمیں گناہ چھوڑنے، توبہ کرنے، نیک اعمال بجا لانے،(حقوق العباد تلف ہوئے ہوں
تو) معافی تلافی کرنے، (قضانمازیں، روزے
وغیرہ ہوں تو ان کو) ادا کرنے، نیز دیگر
ضروری کاموں کو کل پر ٹالنے سے بچنا چاہئے، زندگی یقیناً بے حد مختصر ہے، جو وقت مل گیا، سو مل گیا، آئندہ وقت ملنے کی امید دھوکہ ہے، کیا معلوم آئندہ لمحے ہم موت سے ہم آغوش ہوچکے
ہوں، جیسا کہ مشہور ہے کہ "نماز پڑھو،
اس سے پہلے کہ تمہاری نماز پڑھی جائے"
لہذا! خود پر تھوڑی سختی کیجئے اور اپنے ذہن میں"آج نہیں، کل صحیح" کی جگہ"ابھی نہیں، تو کبھی نہیں" بٹھا لیجئے، مشہور مقولہ ہے:tomorrow never come, do your work today"یعنی کل کبھی نہیں آئے گا، آج ہی اپنا کام کر لیجئے" کل کی بجائے آج
اور آج کے بجائے ابھی کا ذہن بنائیں، ان شاء اللہ دونوں جہاں میں کامیابی آپ کا
مقدر ہوگی۔
ہر شخص چاہے، وہ طالب علم ہو یا معلم، مریض ہو یا ڈاکٹر، گاہک ہو یا دکان دار، کرائے دار ہو یا مالک مکان، کاریگر ہو یا سیٹھ، ماتحت ہو یا نگران، جس درجے کا شخص ہو، اس پر اس کی حالتِ وقت کے مطابق کچھ نہ کچھ ذمہ
داری عائد ہوتی ہے، جس کا اس کے وقت پر
انجام دینا ازحد ضروری ہے، مگر ہمارے
معاشرے کی سب سے بڑی خرابی جو ہے، وہ یہ
کہ ٹال مٹول کرنا، سُستی کا مظاہرہ کرنا، کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرنا، مگر پھر یہ کہہ کر اسے مُلتوی کردینا کہ ابھی
نہیں، پھر سہی یا فلاں کام فلاں وقت پریا
فلاں دن کر لوں گا یا پھر کسی کام کو کرتے کرتے اس کو ادھورا چھوڑ دینا، یہ سب ایسی بُری عادات ہیں، جسے معاشرے میں سب ہی نا پسند کرتے ہیں، حتی کہ بخاری شریف حدیث نمبر 6223 میں ہے:"بے
شک اللہ پاک چھینک کو پسند فرماتا ہے اور جماہی کو ناپسند کرتا ہے۔"(بخاری،
کتاب الادب ما یستحب من العطاس الخ، ص1540، حدیث6223، ملتقظاً)
علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ اس کی وجہ
بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:"جماہی زیادہ کھانے کی وجہ سے ہوتی ہے اور یہ سُستی
کی علامت ہے، اس لئے اللہ پاک کو ناپسند
ہے۔"(فیض القدیر، ج2، ص367، تحت الحدیث1871) معلوم ہوا کہ اللہ پاک اور اس کے
پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سستی کی علامات کو بھی پسند نہیں فرماتے تو ایک
مسلمان شخص کیوں کر اسے پسند کرے گا۔
سُستی اصل میں ہے
کیا؟
"سستی اصل میں رفتار کا وصف ہے،
ایک کام آپ ایک گھنٹے میں کر سکتے ہیں، لیکن اس سے غفلت برت کر اسے دو، تین یا چار گھنٹے میں پورا کرتے ہیں تو یہ سُستی
ہے،" کام کرنے کو دل نہ کرنا، آج کام بلاوجہ اگلے دن پر ڈال دینا، "ابھی
کرتا ہوں" اچھا کرتا ہوں" کہہ کر کام کو مُلتوی کردینا بھی سُستی ہی کا
حصّہ ہے۔ ایک برطانوی مصنف پارکسن سن نے لکھا ہے" کہ جب ہم کسی کام کو کرنے
کے لئے بہت سا وقت مختص کریں تو وہ کام پھیل جاتا ہے۔"
سُستی کے طبی اسباب:
سُستی بعض اوقات جسمانی امراض کی
وجہ سے ہوتی ہے، مثلاً نیند پوری نہ ہو تو
سستی آتی ہے، ٹینشن ہو تو کام کی رفتار سُست
پڑ جاتی ہے، بلڈپریشر یا شوگر لیول لو(low) ہو جائے تو سستی کا سبب بنتی ہے، جسم میں خون یا وٹامن کی کمی ہوجائے، موسمی تبدیلی کا بھی ہمارے مزاج پر اثر پڑتا ہے،
ان سب کے علاوہ ایک شخص جسے جسمانی طور پر
کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، مگر یہ اس کے مزاج
کا حصّہ بن جاتی ہے، ایسی سُستی باطنی
امراض کی وجہ ہوتی ہے، جو کہ نقصان دہ
ثابت ہوتی ہے، ہم سب ہی اس بُری عادت سے
جان چھڑانا چاہتے ہیں، مگر اس سے بچنے میں
کامیاب نہیں ہو پاتے، آئیے!اپنی رہنمائی
کے لئے ہمارے بزرگانِ دین رحمہم اللہ المبین کی حیات مبارکہ سے ایک مثال ملاحظہ
کیجئے:
کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز
رحمۃاللہ علیہ سے ایک موقع پر کسی نے کہا کہ حضور یہ آج کا کام کل کے لئے رکھ دیں،
کل کر لیجئے گا، تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا:" مجھ
سے ایک دن کا کام بمشکل ہوپاتا ہے، تو کل
میں دو دن کا کام کیونکر کر سکوں گا۔" اس حکایت سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوا کہ
اگر ہم آج کے کام کو آج ہی کرنے کی عادت بنالیں تو ہمارے لئے آسانیاں ہی آسانیاں
ہوں۔
آئیے!سُستی کو دور کرنے اور
چھٹکارا پانے کے لئے چند علاج ملاحظہ کیجئے اور اس سے اپنا آج اور کل سنوارئیے:
1۔ٹال مٹول مت کیجئے:
اپنے کاموں کو آج کی بجائے کل پر ملتوی نہ کیجئے،
سستی کی سب سے اہم وجہ طول امل(لمبی امیدیں)
ہیں، جو کام آپ کل کے لئے چھوڑ رہے ہیں، اسے آج ہی بجا لائیے، کیونکہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اور لمبی
امیدوں کا شکار ہوکر کام ادھورا چھوڑنا، خود کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔(ابن ماجہ، کتاب:تجارت، صفحہ 357، حدیث 2236)
اسی طرح مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں
چاہئے کہ اپنے گناہوں پر نادم ہو کر آج کے آج ہی توبہ کرلیں، اس سے بالکل غفلت نہیں برتنی چاہئے، اللہ عزوجل
کے دیئے گئے قیمتی لمحات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اسے راضی کر لینا چاہئے۔
2۔صبح جلدی اُٹھنے کی عادت بنائیے:
اللہ کے آخری نبی، رسول ِہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی"یا اللہ پاک! میری امت کے صبح کے وقت
میں برکت عطا فرما" الحمداللہ صبح کے کاموں میں برکت ہوتی ہے، لہذا! اپنی عادت بنا لیجئے کہ صبح وقت پر بیدار
ہو کر فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد اپنے تمام دن کے کاموں کا ایک سادہ اور آسان سا
جدول بنا لیجئے، شروع میں اپنے لئے تھوڑے
تھوڑے کاموں کو مختص کرکے انہیں ان کے اوقات پر بجا لانے کی کوشش کیجئے، اس طرح جب معمول کے مطابق عادت بن جائے گی، تو بڑے بڑے کاموں کو بھی باآسانی عمل میں لایا
جاسکے گا۔
3۔ محاسبہ کی عادت بنائیے:
روزانہ اپنا محاسبہ کرنے کی عادت
بنالیجئے، کہ اس سے دنیا و آخرت دونوں
جہانوں کے بے شمار فائدے حاصل ہوں گے، اس
کا بہت ہی آسان اور بہترین طریقہ ہمارے پیارے پیر و مرشد، امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کے عطاکردہ
نیک اعمال کے مطابق عمل کرتے ہوئے اپنے اعمال کا جائزہ لینا ہے، اپنے محاسبے سے ہوگا یہ کہ آپ کو اپنے بارے میں
غور و فکر کرنے کا موقع ملے گا اور آپ اللہ عزوجل کی دی ہوئی زندگی اور سانسوں کو
کن کاموں میں بجالاتے ہیں، وہ سامنے آئے
گا، اپنے روزمرہ کے کاموں میں غور و فکر کرنے سے اپنی زندگی کا اصل
مقصد سمجھ میں آئے گا۔
4۔ اچھوں کی صحبت اختیار کیجئے:
یقیناً یہ آپ سب کے علم میں ہوگا
کہ صحبت کا انسان پر کس قدر اثر ہوتا ہے، اچھوں کی صحبت اچھا اور بروں کی
صحبت بُرا بنا دیتی ہے، اپنے قیمتی وقت کی قدر کرتے ہوئے بری صحبتوں سے حتی الامکان دور رہیئے اور اپنا
وقت ان میں ضائع کرنے کے بجائے اپنے اہم اور ضروری کاموں پر صرف کیجئے، اچھے صحبت حاصل کر نے کے لئے دعوتِ اسلامی کے
مدنی ماحول سے وابستہ ہو جائیے۔
5۔موبائل کے غیر ضروری استعمال سے
بچئے:
جہاں تک ممکن ہو، موبائل کا استعمال کم سے کم کیجئے اور سوشل
میڈیا اور دیگر غیر ضروری کاموں میں موبائل کا استعمال وقت کی بربادی کا ذریعہ ہے،
اپنا وقت اس میں ضائع کرنے کی بجائے اپنے
بنائے ہوئے جدول کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کیجئے، آسانیاں ہی آسانیاں فراہم ہوں گی۔
آخر میں اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ
ہمیں اپنی عطا کی گئی نعمت زندگی کی قدر کرنے اور اس کے قیمتی لمحات کو ضائع کرنے
کے بجائے نیک اور جائز کاموں میں صرف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
آج کا کام کل پر مت چھوڑئیے، ورنہ اس کا نقصان آپ ہی کو اٹھانا پڑے گا، کہتے ہیں" گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں"
سبق آموز حکایت:
لہذا آج کا کام آج ہی کرنا ہوگا، کیونکہ کل کل کا ہی کام کرنا ہے، جیسا کہ ایک
طالب علم سارا سال اپنی پڑھائی پر توجّہ دینے کی بجائے کہتا ہے کہ آج نہیں سبق یاد
کرنا، میں کل کرلوں گا، پھر جب کل آتی ہے، تب بھی وہ یہی جملہ کہتا ہے کہ آج نہیں کل کر
لوں گا، یوں آہستہ آہستہ سال مکمل ہو جاتا
ہے اور امتحانات سر پر آ جاتے ہیں، اب حال
یہ ہے کہ طالبعلم اپنی پڑھائی پر توجّہ نہ دے سکنے پر بہت پچھتاتا ہے اور سوائے رسوائی
کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا ، آخر وہ یہی
کہتا ہے کہ" کاش! میں نے روزانہ کا کام، روز کیا ہوتا، روز انہ کا سبق روز یاد کیا ہوتا تو آج یہ نوبت نہ آتی، یوں وہ سراسر نقصان
اٹھاتا ہے اور پھر کامیابی کی منزل طے نہیں کر پاتا۔" اس لئے ہمیں چاہئے کہ آج کا کام آج ہی کریں، کل پر مت چھوڑیں، وقت کی قدر کیجئے، وقت بہت ہی قیمتی اور انمول تحفہ ہے۔ آج عمل کا موقع ہے:
امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ شیرِخدا
کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم نے ایک مرتبہ کوفہ میں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:اے
لوگوں! بیشک تمہارے بارے میں مجھے سب سے زیادہ اس بات کا خوف ہے کہ کہیں تم لمبی
لمبی امیدیں نہ باندھ بیٹھو اور خواہشات کی پیروی میں نہ لگ جاؤ، یاد رکھو! لمبی امیدیں آخرت کو بھلا دیتی ہیں
اور خبردار! نفسانی خواہشات کی پیروی راہِ حق سے بھٹکا دیتی ہے، خبردار! دنیا عنقریب پیٹھ پھیرنے والی اور آخرت
جلد آنے والی ہے، آج عمل کا دن ہے، حساب کا نہیں، کل حساب کا دن ہوگا، عمل کا نہیں۔
کوچ ہاں اے بےخبر ہونے کو ہے
کب تلک غفلت سحر ہونے کو ہے
باندھ لے تو شہ سفر ہونے کو ہے
ختم ہر فردِ بشر ہونے کو ہے
( موت کا تصور، ص38)
فرمانِ مصطفی صلی
اللہ علیہ وسلم:
پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے
غنیمت جانو، 1۔جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، 2۔صحت کو بیماری سے پہلے، 3۔مالداری کو
تنگدستی سے پہلے، 4۔فرصت کو مشغولیت سے پہلے، 5۔زندگی کو موت سے پہلے۔(چھٹیاں کیسے
گزاریں، صفحہ نمبر 4)
وقت کی قدر کیجئے:
وقت کی قدر کرتے ہوئے آج کا کام اگر آج ہی کریں
گے تو کامیاب ہو جائیں گے، آج وقت ہے، ہمیں چاہئے کہ ہم آج ہی نیکیوں پر استقامت حاصل
کرنے کے لئے کمر بستہ ہو جائیں، پتہ نہیں
ہمیں کل کا وقت بھی مل پائے گا یا نہیں۔
بعض لوگ نماز میں سستی کرتے ہیں
کہ آج نہیں، کل سے نماز شروع کروں گا، بعض
بے باک لوگ تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ
ابھی تو میری عمر ہی کیا ہے؟، جب بوڑھا ہوں گا تو نمازیں پڑھوں گا، نمازوں کے ساتھ ساتھ تہجد بھی پڑھوں گا، دیگر عبادات بھی بجا لاؤں گا، لیکن یہ زندگی تو صرف اتنی سی ہے کہ سانس کی
مالا ٹوٹ گئی تو بس، اب کچھ کرنے کی ہمت
نہ رہی، موت کسی بھی وقت آسکتی ہے، آج تو کئیں بچے پیدا ہوتے ہی وفات پا جاتے ہیں، تو اے نادانو! ذرا سوچئے کہ آپ کس طرح یہ جملہ
کہتے ہیں کہ جب بوڑھا ہو جاؤں گا تو ہی نماز پڑھوں گا، عبادتیں کروں گا، ایسا بالکل بھی نہیں کہنا چاہئے، توبہ کیجئے، اپنی نمازیں قضا نہ کریں کہ بلاوجہ نماز قضا
کرنے والوں کا نام جہنم کے دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے۔
آج کا کام کل پر
چھوڑنے کا ایک سبب:
"لمبی امیدیں بھی ہیں، کیونکہ لمبی امید ہوتی ہے تو اس لئے وہ کہتا ہے
کہ کل کرلوں گا، کس کو کیا پتہ؟ کل آئے گی
بھی یا نہیں، لہذا! ایسا نہ کیجئے، لمبی امیدیں نہ لگائیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امید کہتے کس کو ہیں۔
امید کسے کہتے ہیں"
دراز ی عمر کی آرزو اُمید ہے اور کسی چیز سے سیر
نہ ہونا، ہمیشہ زیادتی کی خوا ہش رہنا حرص
ہے، یہ دونوں چیزیں اگر تو دنیا کے لئے ہیں،
تو بری ہیں اور اگر آخرت کے لئے ہیں، تو اچھی۔ (مراٰۃ المناجیح، جلد 7، صفحہ 75)
انمول ہیرے:
دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے
مکتبۃالمدینہ کے مطبوعہ 26 صفحات پر مشتمل رسالے"انمول ہیرے" صفحہ 2 پر
شیخِ طریقت، امیر اہلسنت، بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال
محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:"ایک
بادشاہ اپنے مصاحبوں کے ساتھ کسی باغ کے قریب سے گزر رہا تھا کہ اس نے دیکھا، باغ میں سے کوئی شخص سنگریزے پھینک رہا
تھا، ایک سنگریزہ خود اس کو آ کر لگا، اس نے خدّام کو دوڑایا کہ جاکر سنگریزے پھینکنے
والے کو پکڑ کر میرے پاس لاؤ، چنانچہ
خدّام نے ایک گنوار کو حاضر کر دیا، بادشاہ نے کہا" یہ سنگریزے تم نے کہاں سے حاصل کئے؟ اس نے ڈرتے ڈرتے
کہا" میں ویرانے میں سیر کر رہا تھا کہ میری نظر ان خوبصورت سنگریزوں پر پڑی، میں نے ان کو جھولی میں بھر لیا، اس کے بعد پھرتا پھراتا اس باغ میں آ نکلا اور
پھل توڑنے کے لئے ان کو استعمال کیا، بادشاہ بولا"یہ پتھر کے سنگریزے دراصل
انمول ہیرے تھے، جنہیں تم نادانی کے
سبب ضائع کر چکے"، اس پر وہ شخص افسوس کرنے لگا، مگر اب اس کا افسوس کرنا بیکار تھا کہ وہ انمول
ہیرے اس کے ہاتھ سے نکل چکے تھے۔
یہ حکایت ہمیں اپنی زندگی کے
قیمتی لمحات کی قدردانی کا سبق دے رہی ہے کہ گزرتے وقت کا ہر لمحہ ایک قیمتی ہیرا
ہے، اگر یوں ہی بیکار ضائع کر دیا تو سوائے
حسرت و ندامت کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا، وقت
کی قدر کیا ہے؟آئیے اس کو قرآن کریم کی مشہور و معروف سورہ عصر سے سمجھنے کی کوشش
کرتے ہیں:
اِرشاد ہوتا ہے، ترجمۂ
کنزالایمان:" اس زمانۂ محبوب کی قسم! بیشک آدمی ضرور نقصان میں ہے، مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور ایک
دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔"(پ30،العصر: 1-3)
سورۂ عصر ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ ہم اپنی زندگی اور وقت کی اہمیت کو
سمجھیں۔
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے
منادی
قدرت نے گھڑی عمر کی اِک اور گھٹا
دی
آج کا کام کل پر مت ڈالئے، معلوم نہیں زندگی کا سورج کس وقت غروب ہو جائے، کیوں کہ جب بھی کسی نیک کام کاکہا جاتا ہے، تو عام طور پر یہی جواب ملتا ہے" کل سے
کروں گا"، مشہور مقولہ ہے:"tomorrow never come do your work today"یعنی کل کبھی نہیں آئے گی، آج ہی اپنا کام کر لو، یہ بات سبھی جانتے ہیں، مگر افسوس پھر بھی یہ "کل" ہمارے اور
نیک اعمال کے درمیان حائل ہے، ہمیں اپنی
زندگی سے اسی کل کے سلسلے کو ختم کرکے "جو کرنا ہے آج اور ابھی کرنا ہے"
کو اپنا مقصد بنانا ہوگا، آج کا کام کل پر
مت چھوڑئیے، کل کوئی دوسرا کام ہوگا اور
کل کل میں آج کا کام بھی نہ ہو پائے گا، لہذا کل کی بجائے آج اور آج کی بجائے ابھی کا ذہن بنانا ہوگا، کیونکہ دل کے خیالات بدلتے رہتے ہیں۔
حضرت سیّدنا امام بیہقی علیہ رحمۃ اللہ القوی
شعب الایمان میں نقل کرتے ہیں کہ تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عبرت
نشان ہے:"روزانہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس وقت "دن"یہ اعلان کرتا
ہے، اگر آج کوئی اچھا کام کرنا ہے تو کر
لو کہ آج کے بعد میں کبھی پلٹ کر نہیں آؤں گا۔"
اللہ عزوجل ہم
سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم