جوشخص کہتا ہے"ابھی رہنے دو، ابھی رہنے دو، بعد میں کرلیں گے"ایسے
افراد ہمارے گھروں، اسکولوں، دکانوں، شہر وغیرہ میں رہ کر ہمارے معاشرے کو خراب کر رہے ہیں اور خود کو بھی مشکل
میں ڈالتے ہیں، امام ابنِ جوزی نے بڑی
پیاری بات لکھی ہے:"جو شخص کہتا ہے، ابھی رہنے دو، کل کرلیں گے، وہ ایسا آدمی ہے جو کسی درخت کو کاٹنے جاتا ہے
اور درخت مضبوط ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ "چلو اسے اگلے سال کاٹ لوں
گا"، وہ یہ نہیں سوچتا کہ اگلے سال
درخت زیادہ مضبوط ہو جائے گا اور میری عمر بڑھ جائے گی اور کمزوری مجھ میں آ جائے
گی اور پھر وہ کاٹنا نہایت دشوار اور مشقت والا ہو جائے گا، اس طرح یہ جو ٹال مٹول اور سُستی کا جو معاملہ
ہے، یہ اس طرح ہے کہ آنے والے وقتوں میں
ہمارا کام مشکل سے مشکل ترین ہوتا چلا جاتا ہے۔ حضرت عبدالعزیز کے بارے میں آتا ہے
کہ آپ کو کسی نے کہا کہ آج کا کام کل پر رکھ دیں، کل کر لیجئے گا تو آپ نے فرمایا:کہ نہیں میرے سے تو ایک دن کا کام بہت مشکل
سے ہوتا ہے، کل جب دو دن کا کام جمع ہو
جائے گا تو میں وہ کیسے کروں گا۔"
امیراہلسنت کا معمول ہے کہ اگر آپ
نے مغرب اور عشاء کے درمیان کھانا نہیں کھایا، تو مثال کے طور پر اگر آپ کہیں، ابھی رہنے دو بعد میں کھالیں گے، تو جو جدول ہمارے سامنے ہے تو بعد میں کھائیں گے
کب! بعد میں کھانے کا ٹائم نہیں ہے، یہی
ایک کھانا کھانے کا وقت ہے، ایک وقت میں
اگر یہ کام نہیں کیا تو دوسرے وقت میں وہ کام کرنے کی گنجائش نہیں کہ وہ وقت تو کسی اور کام کے لئے ہم نے مخصوص کر
دیا ہے، اب یہ کہ یہ جو مزاج ہے، اس میں تبدیلی ضروری ہے، کیونکہ وقت گزر جانے کے بعد جب وہ کام کیا جاتا
ہے، تو نقصان ہوتا ہے، اگر واقعی آپ نے اپنے اندر وقت کی پابندی اور ہر
کام کو اس کے وقت پر کرنے کا مزاج پیدا
کرنا ہے، تو نماز کی عادت بنانی ہوگی، یعنی
اُسے قضا کرنے کے بجائے اس کے وقت پر پورا
کرنا چاہئے، کیونکہ یہ معمول انسان کو وقت
کا پابند بناتا ہے۔