ہر شخص چاہے، وہ طالب علم ہو یا معلم، مریض ہو یا ڈاکٹر، گاہک ہو یا دکان دار، کرائے دار ہو یا مالک مکان، کاریگر ہو یا سیٹھ، ماتحت ہو یا نگران، جس درجے کا شخص ہو، اس پر اس کی حالتِ وقت کے مطابق کچھ نہ کچھ ذمہ داری عائد ہوتی ہے، جس کا اس کے وقت پر انجام دینا ازحد ضروری ہے، مگر ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی خرابی جو ہے، وہ یہ کہ ٹال مٹول کرنا، سُستی کا مظاہرہ کرنا، کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرنا، مگر پھر یہ کہہ کر اسے مُلتوی کردینا کہ ابھی نہیں، پھر سہی یا فلاں کام فلاں وقت پریا فلاں دن کر لوں گا یا پھر کسی کام کو کرتے کرتے اس کو ادھورا چھوڑ دینا، یہ سب ایسی بُری عادات ہیں، جسے معاشرے میں سب ہی نا پسند کرتے ہیں، حتی کہ بخاری شریف حدیث نمبر 6223 میں ہے:"بے شک اللہ پاک چھینک کو پسند فرماتا ہے اور جماہی کو ناپسند کرتا ہے۔"(بخاری، کتاب الادب ما یستحب من العطاس الخ، ص1540، حدیث6223، ملتقظاً)

علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:"جماہی زیادہ کھانے کی وجہ سے ہوتی ہے اور یہ سُستی کی علامت ہے، اس لئے اللہ پاک کو ناپسند ہے۔"(فیض القدیر، ج2، ص367، تحت الحدیث1871) معلوم ہوا کہ اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سستی کی علامات کو بھی پسند نہیں فرماتے تو ایک مسلمان شخص کیوں کر اسے پسند کرے گا۔

سُستی اصل میں ہے کیا؟

"سستی اصل میں رفتار کا وصف ہے، ایک کام آپ ایک گھنٹے میں کر سکتے ہیں، لیکن اس سے غفلت برت کر اسے دو، تین یا چار گھنٹے میں پورا کرتے ہیں تو یہ سُستی ہے،" کام کرنے کو دل نہ کرنا، آج کام بلاوجہ اگلے دن پر ڈال دینا، "ابھی کرتا ہوں" اچھا کرتا ہوں" کہہ کر کام کو مُلتوی کردینا بھی سُستی ہی کا حصّہ ہے۔ ایک برطانوی مصنف پارکسن سن نے لکھا ہے" کہ جب ہم کسی کام کو کرنے کے لئے بہت سا وقت مختص کریں تو وہ کام پھیل جاتا ہے۔"

سُستی کے طبی اسباب:

سُستی بعض اوقات جسمانی امراض کی وجہ سے ہوتی ہے، مثلاً نیند پوری نہ ہو تو سستی آتی ہے، ٹینشن ہو تو کام کی رفتار سُست پڑ جاتی ہے، بلڈپریشر یا شوگر لیول لو(low) ہو جائے تو سستی کا سبب بنتی ہے، جسم میں خون یا وٹامن کی کمی ہوجائے، موسمی تبدیلی کا بھی ہمارے مزاج پر اثر پڑتا ہے، ان سب کے علاوہ ایک شخص جسے جسمانی طور پر کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، مگر یہ اس کے مزاج کا حصّہ بن جاتی ہے، ایسی سُستی باطنی امراض کی وجہ ہوتی ہے، جو کہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے، ہم سب ہی اس بُری عادت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، مگر اس سے بچنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے، آئیے!اپنی رہنمائی کے لئے ہمارے بزرگانِ دین رحمہم اللہ المبین کی حیات مبارکہ سے ایک مثال ملاحظہ کیجئے:

کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃاللہ علیہ سے ایک موقع پر کسی نے کہا کہ حضور یہ آج کا کام کل کے لئے رکھ دیں، کل کر لیجئے گا، تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا:" مجھ سے ایک دن کا کام بمشکل ہوپاتا ہے، تو کل میں دو دن کا کام کیونکر کر سکوں گا۔" اس حکایت سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوا کہ اگر ہم آج کے کام کو آج ہی کرنے کی عادت بنالیں تو ہمارے لئے آسانیاں ہی آسانیاں ہوں۔

آئیے!سُستی کو دور کرنے اور چھٹکارا پانے کے لئے چند علاج ملاحظہ کیجئے اور اس سے اپنا آج اور کل سنوارئیے:

1۔ٹال مٹول مت کیجئے:

اپنے کاموں کو آج کی بجائے کل پر ملتوی نہ کیجئے، سستی کی سب سے اہم وجہ طول امل(لمبی امیدیں) ہیں، جو کام آپ کل کے لئے چھوڑ رہے ہیں، اسے آج ہی بجا لائیے، کیونکہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اور لمبی امیدوں کا شکار ہوکر کام ادھورا چھوڑنا، خود کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔(ابن ماجہ، کتاب:تجارت، صفحہ 357، حدیث 2236)

اسی طرح مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں چاہئے کہ اپنے گناہوں پر نادم ہو کر آج کے آج ہی توبہ کرلیں، اس سے بالکل غفلت نہیں برتنی چاہئے، اللہ عزوجل کے دیئے گئے قیمتی لمحات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اسے راضی کر لینا چاہئے۔

2۔صبح جلدی اُٹھنے کی عادت بنائیے:

اللہ کے آخری نبی، رسول ِہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی"یا اللہ پاک! میری امت کے صبح کے وقت میں برکت عطا فرما" الحمداللہ صبح کے کاموں میں برکت ہوتی ہے، لہذا! اپنی عادت بنا لیجئے کہ صبح وقت پر بیدار ہو کر فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد اپنے تمام دن کے کاموں کا ایک سادہ اور آسان سا جدول بنا لیجئے، شروع میں اپنے لئے تھوڑے تھوڑے کاموں کو مختص کرکے انہیں ان کے اوقات پر بجا لانے کی کوشش کیجئے، اس طرح جب معمول کے مطابق عادت بن جائے گی، تو بڑے بڑے کاموں کو بھی باآسانی عمل میں لایا جاسکے گا۔

3۔ محاسبہ کی عادت بنائیے:

روزانہ اپنا محاسبہ کرنے کی عادت بنالیجئے، کہ اس سے دنیا و آخرت دونوں جہانوں کے بے شمار فائدے حاصل ہوں گے، اس کا بہت ہی آسان اور بہترین طریقہ ہمارے پیارے پیر و مرشد، امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کے عطاکردہ نیک اعمال کے مطابق عمل کرتے ہوئے اپنے اعمال کا جائزہ لینا ہے، اپنے محاسبے سے ہوگا یہ کہ آپ کو اپنے بارے میں غور و فکر کرنے کا موقع ملے گا اور آپ اللہ عزوجل کی دی ہوئی زندگی اور سانسوں کو کن کاموں میں بجالاتے ہیں، وہ سامنے آئے گا، اپنے روزمرہ کے کاموں میں غور و فکر کرنے سے اپنی زندگی کا اصل مقصد سمجھ میں آئے گا۔

4۔ اچھوں کی صحبت اختیار کیجئے:

یقیناً یہ آپ سب کے علم میں ہوگا کہ صحبت کا انسان پر کس قدر اثر ہوتا ہے، اچھوں کی صحبت اچھا اور بروں کی صحبت بُرا بنا دیتی ہے، اپنے قیمتی وقت کی قدر کرتے ہوئے بری صحبتوں سے حتی الامکان دور رہیئے اور اپنا وقت ان میں ضائع کرنے کے بجائے اپنے اہم اور ضروری کاموں پر صرف کیجئے، اچھے صحبت حاصل کر نے کے لئے دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہو جائیے۔

5۔موبائل کے غیر ضروری استعمال سے بچئے:

جہاں تک ممکن ہو، موبائل کا استعمال کم سے کم کیجئے اور سوشل میڈیا اور دیگر غیر ضروری کاموں میں موبائل کا استعمال وقت کی بربادی کا ذریعہ ہے، اپنا وقت اس میں ضائع کرنے کی بجائے اپنے بنائے ہوئے جدول کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کیجئے، آسانیاں ہی آسانیاں فراہم ہوں گی۔

آخر میں اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی عطا کی گئی نعمت زندگی کی قدر کرنے اور اس کے قیمتی لمحات کو ضائع کرنے کے بجائے نیک اور جائز کاموں میں صرف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین