آج کا کام کل پر چھوڑنے والے لوگ خود بھی پریشان ہوتے اور دوسروں کو بھی پریشان کرتے ہیں،  اگر آج نیک اعمال نہ کئے تو کل قیامت کو ایک ہی پکار ہوگی:

فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا۔ ترجمۂ کنزالایمان:"ہمیں پھر بھیج کہ نیک کام کریں۔"(پ21، السجدۃ: 12)

غفلت سے بیدار ہونے کے بارے میں دو فرامینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:

1۔ارشاد فرمایا:" پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، ٭ جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، ٭ صحت کو بیماری سے پہلے، ٭ مالداری کو تنگدستی سے پہلے، ٭ فرصت کو مشغولیت سے پہلے، ٭ اور زندگی کو موت سے پہلے۔"(مستدرک، کتاب الرقاق نعمتان مغبون فیھا۔۔الخ، 5/435، حدیث7916)

2۔ارشاد فرمایا:"بندے کاغیر مفید کاموں میں مشغول ہونا، اس بات کی علامت ہے کہ اللہ نے اس سے اپنی نظرِ عنایت پھیر لی ہے اور جس مقصد کے لئے بندے کو پیدا کیا گیا ہے، اگر اس کی زندگی کا ایک لمحہ بھی اس کے علاوہ گزر گیا، تو وہ اس بات کا حقدار ہے کہ اس کی حسرت طویل ہو جائے۔"(تفسیر روح البیان، سورہ بقرہ، تحت الآیۃ 232، 1/363)

اے جوانو اور توبہ میں تاخیر کرنے والو! کیا تم غور نہیں کرتے کہ تم کب سے اپنے نفس سے وعدہ کر رہے ہو کہ کل عمل کروں گا، کل عمل کروں گا اور وہ کل آج میں بدل گیا، کیا تم نہیں جانتے کہ جو کل آیا اور چلا گیا، وہ گزشتہ کل میں تبدیل ہوگیا، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ تم آج عمل کرنے سے عاجز ہو تو کل زیادہ عاجز ہو گے۔

آج کا کام کل پر چھوڑنے والا اُس آدمی کی طرح ہے، جو درخت کو اُکھاڑنے میں جوانی میں عاجز ہو اور اسے دوسرے سال تک مؤخر کر دے، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ جوں جوں وقت گزرتا چلا جائے گا، درخت زیادہ مضبوط اور پُختہ ہوتا جائے گا اور اُکھاڑنے والا کمزور ہوتا جائے گا، پس جو اُسے جوانی میں نہ اُکھاڑ سکا، وہ بڑھاپے میں قطعاً نہ اُکھاڑ سکے گا، جو شخص جوانی میں احکامِ شریعہ کی بجاآوری میں کوتاہی برتتا ہے تو اس سے کیسے اُمید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ بڑھاپے میں ان غلطیوں کا مداوا کر سکے گا، لہذا جوانی کو غنیمت جانئے اور اسی عمر میں نفس کو لگام دیجئے اور توبہ میں جلدی کیجئے، نہ جانے کس وقت موت کا پیغام آ جائے، کیونکہ موت نہ تو جوانی کا لحاظ کرتی ہے، نہ بچپن کی پرواہ۔

ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ مجھے اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ۔ (پارہ30، العصر:2)

ترجمۂ کنز الایمان:بے شک آدمی ضرور نقصان میں ہے۔" کا ترجمہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا، میں ثمرقند کے بازار میں گیا ، وہاں ایک آدمی برف بیچ رہا تھا اور ساتھ آواز لگا رہا تھا کہ مجھ پر رحم کرو، مجھ سے برف خرید لو، میں ایک ایسا تاجر ہوں جس کا مال بھی پگھلا جا رہا ہے، بزرگ فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ کامفہوم کیا ہے، جس طرح سانسیں پگھلتی جا رہی ہیں، اسی طرح زندگی بھی پگھلتی جا رہی ہے۔

اے جوانوں اور توبہ میں تاخیر کرنے والوں! اب جو مخصوص زندگی دی گئی ہے، یہ تو گزر جانی ہے، ایک لمحہ نہیں ٹھہرے گی، اس لئے زندگی کو اس انداز سے گزارئیے کہ ہمارا ربّ اور اس کا محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے راضی ہو جائیں، ہر سانس کے بدلے نیکیاں کمائیے، ورنہ برف کے پگھلتے ہوئے قطروں کی طرح زندگی سانس سانس کر کے ٹوٹ رہی ہے اور ہم ہر لمحہ موت کے قریب ہو رہے ہیں۔

اللہ کریم ہمیں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہمیں ہر سانس کو بامقصد گزارتے ہوئے، زندگی کی آخری سانس تک اخلاص و استقامت کے ساتھ دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین