فرمان آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:"روزانہ صبح جب سورج طلوع ہوتا ہے، تو اس وقت "دن"یہ اعلان کرتا ہے:اگر کوئی اچھا کام کرنا ہے تو کر لو کہ آج کے بعد میں کبھی پلٹ کر نہیں آؤں گا۔"(شعب الایمان، جلد3، صفحہ 386، حدیث نمبر 3740)

آج کا کام کل پر چھوڑنا ایک ایسی عادت ہے، جس کی وجہ سے بسا اوقات انسان کو نقصان اٹھانا اور پریشانی و ندامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے باوجود انسان سُستی یا معمولی تھکاوٹ کی وجہ سے ایسے کام کو بھی کل پر ڈال دیتا ہے، جس کا آج کرنا ضروری ہوتا ہے، اس حوالے سے ہمارے بزرگانِ دین کا انداز کتنا محتاط ہوا کرتا تھا، اس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں:

ایک مرتبہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃاللہ علیہ سے کسی نے عرض کی، یا امیر المؤمنین!یہ کام آپ کل پر مؤخر فرما دیجئے، ارشاد فرمایا:" میں روزانہ کا کام ایک دن میں بمشکل مکمل کرپاتا ہوں، اگر آج کا کام بھی کل پر چھوڑ دوں گا تو پھر دو دن کا کام ایک دن میں کیونکر کر سکوں گا۔"(نیک بننے اور بنانے کے طریقے، صفحہ 489)

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اے ابنِ آدم! موت کی تیاری میں جلدی کر اور کل کل کی رٹ نہ لگا، جو کرنا ہے آج کرلے، کیونکہ تو یہ نہیں جانتا کہ کب تجھے اللہ پاک کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔"(مدنی انعامات، صفحہ7)

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں: توبہ میں تاخیر کرنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے، جسے ایک درخت کو اکھاڑنے کی حاجت ہے، لیکن جب وہ دیکھتا ہے کہ درخت مضبوط ہے اور اسے سخت مشقت کے بغیر نہیں اُکھاڑا جا سکتا، تو کہتا ہے:میں اسے ایک سال بعد اُکھاڑوں گا، حالانکہ درخت جب تک قائم رہتا ہے، اس کی جڑیں مضبوط ہوتی جاتی ہیں اور خود اس کی عمر جوں جوں بڑھتی ہے، یہ کمزور ہوتا جاتا ہے، تو دنیا میں اس سے بڑھ کر اَحمق کوئی نہیں کہ اس نے قوت کے باوجود کمزور کا مقابلہ نہ کیا اور اس بات کا منتظر رہا کہ جب یہ خود کمزور ہو جائے گا اور کمزور شے مضبوط ہوجائے تو اس پر غلبہ پائے گا۔(احیاء العلوم، جلد 2، صفحہ 238)

یہی معاملہ دیگر کاموں کا بھی ہے، کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کی مصروفیات بڑھتی اور صحت و طاقت گھٹتی ہے، لہذا! ہمیں گناہ چھوڑنے، توبہ کرنے، نیک اعمال بجا لانے،(حقوق العباد تلف ہوئے ہوں تو) معافی تلافی کرنے، (قضانمازیں، روزے وغیرہ ہوں تو ان کو) ادا کرنے، نیز دیگر ضروری کاموں کو کل پر ٹالنے سے بچنا چاہئے، زندگی یقیناً بے حد مختصر ہے، جو وقت مل گیا، سو مل گیا، آئندہ وقت ملنے کی امید دھوکہ ہے، کیا معلوم آئندہ لمحے ہم موت سے ہم آغوش ہوچکے ہوں، جیسا کہ مشہور ہے کہ "نماز پڑھو، اس سے پہلے کہ تمہاری نماز پڑھی جائے" لہذا! خود پر تھوڑی سختی کیجئے اور اپنے ذہن میں"آج نہیں، کل صحیح" کی جگہ"ابھی نہیں، تو کبھی نہیں" بٹھا لیجئے، مشہور مقولہ ہے:tomorrow never come, do your work today"یعنی کل کبھی نہیں آئے گا، آج ہی اپنا کام کر لیجئے" کل کی بجائے آج اور آج کے بجائے ابھی کا ذہن بنائیں، ان شاء اللہ دونوں جہاں میں کامیابی آپ کا مقدر ہوگی۔