پچھلے دنوں نور پور تھل میں شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے تحت  ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے اسسٹنٹ کمشنر نور پور تھل مہتاب احمد خان بلوچ ، ایس ایچ او انسپکٹر خالد محمود اعوان ، ایس ایچ او مجاہد حسین کلیاڑ اور ریڈر اسسٹنٹ کمشنر ملک محمد بخش سے ملاقات کی ۔

ذمہ دار اسلامی بھائی نے دعوت اسلامی کی دینی و سماجی خدمات بیان کرتے ہوئے ہفتہ وار ہونے والے سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کرنے کی دعوت پیش کی اور مختلف رسائل پیش کئے گئے۔(کانٹینٹ : محمد مصطفی انیس انصاری ) 


گزشتہ روز ڈسٹرکٹ رحیم یار خان میں شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ڈویژن و ڈسٹرکٹ ذمہ دارنے صوبائی مشاورت کے نگران و رکن شوری حاجی محمد اسلم عطاری کے ہمراہ ڈی ایس پی آفس میں کنٹرولر محمد عرفان سے ملاقات کی۔

اس کے علاوہ رحیم یار خان میں ڈپٹی کمشنر سید موسی رضا ، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریاست علی ، ڈی پی او رحیم یار خان علی ضیاء و دیگر سیاسی و سماجی شخصیات سے ملاقات کیں ، شخصیات کو دعوت اسلامی اور اس کے شعبے جات کا تعارف کراتے ہوئے مدنی مرکز فیضان مدینہ وزٹ کرنے کی دعوت پیش کی اور مکتبۃالمدینہ کی مطبوعہ فیضان نماز تحفے میں پیش کی۔ (کانٹینٹ : محمد مصطفی انیس انصاری ) 


الحمدللہ عاشقان رسول کی تحریک دعوت اسلامی آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دُکھیاری امت کی خیر خواہی کرنے میں مصروف عمل ہے۔

دعوت اسلامی جہاں مختلف شعبہ جات کے ذریعے دین متین کی خدمت کر رہی ہے وہیں دنیا بھر کے چائنیز مسلمانوں میں کام کرنے کے لیے دعوتِ اسلامی کا چائنیز ڈیپارٹمنٹ کام کر رہا ہے۔

اس ڈیپارٹمنٹ کے تحت مدنی مرکز فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور میں 10ماہ کا رہائشی چائنیز مبلغ کورس کا آغاز ہوگیا ہے۔ اس کورس میں داخلہ لینے والے اسلامی بھائیوں نے ”اصلاح اعمال کورس“ کیا تاکہ باعمل مبلغ بن کر معاشرے کی اصلاح کی کوشش کرسکیں۔


گزشتہ روز ملتان میں شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ داران اور ملتان سٹی کے نگران نے  معروف سیاستدان و پارلیمینٹیرین مخدوم سید جاوید ہاشمی سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی ۔

دوران ملاقات سنت کی نیت سے ذمہ داران نے ان کی عیادت کی اور صحت یابی کے لئے دعائے خیر کی نیز ذمہ دار اسلامی بھائی نے دعوت اسلامی کی دینی و فلاحی خدمات بیان کیں جس پر سید جاوید ہاشمی نے دعوت اسلامی کی کاوشوں کو سراہا۔(کانٹینٹ : محمد مصطفی انیس انصاری )


دعوت اسلامی کے شعبہ چائنیز ڈیپارٹمنٹ کے تحت مدنی مرکز فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور میں 10 ماہ پر مشتمل چائنیز مبلغ کورس کا آغاز ہوچکا ہے۔

دوران کورس گزشتہ دنوں کورس کے اسلامی بھائیوں کے درمیان سافٹ اسکلز امپروومنٹ Soft skills improvementکے سلسلے میں ٹریننگ سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں پروفیسر ڈاکٹر یعقوب صاحب نے ” Effective way to learn “کے موضوع پر شرکا کی تربیت کی۔

سیشن کے آخر میں اسلامی بھائیوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار فرمایا۔


کرونا وبا کے بعد پہلی دفعہ بین الاقوامی سطح پر حج کا اعلان کردیا گیا ہے۔ رواں سال 2022ء میں دنیا بھر سے 10 لاکھ مسلمان حج کرسکیں گے جبکہ حکومت کی جانب سے ملک پاکستان کو 81 ہزار 132 عازمین کا کوٹہ دیا گیاہے۔

اس سال حج پر جانے والے خوش نصیب عاشقان رسول کے لئے دعوت اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضان کراچی (سندھ) میں 5 جون 2022ء بروز اتوار دوپہر 2بجے حج تربیتی اجتماع کا انعقاد کیا جائیگا جس میں اسلامی بھائیوں کو احرام باندھنے کا طریقہ اور حج کے متعلق دیگر احکام سکھائے جائیں گے۔

اسی روز رات 9:45 پر محفل مدینہ کا بھی اہتمام ہوگا جس میں شیخ طریقت امیر اہل سنّت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ عازمینِ حج کی تربیت فرمائیں گے جبکہ نعت خواں حضرات یادِ مدینہ اور حج کے کلام پیش کرکے عشق رسول میں اضافہ کریں گے۔

تمام عاشقان رسول سے اس اجتماع پاک میں شرکت کرنے کی درخواست ہے۔ 


پروفیشنلز حضرات کے لئے خوشخبری

دعوت اسلامی کے شعبہ پروفیشنلز ڈیپارٹمنٹ کے زیر اہتمام 19 جون 2022ء بروز اتوارعالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں پروفیشنلز اجتماع منعقد ہونے جارہا ہے۔

اس پروگرام میں مختلف شعبے سے وابستہ پروفیشنلز حضرات شرکت کرسکیں گے۔ پروفیشنلز اجتماع میں ہیڈآف پروفیشنلز ڈیپارٹمنٹ و موٹیویشنل اسپیکرمحمد ثوبان عطاری شرکا کے درمیان ” Building bridges “ کے موضوع پر بیان فرمائیں گے۔اس کے علاوہ اجتماع میں کارپوریٹ سیکٹر میں دینی کام کرنے اور اس کے طریقہ کار کے متعلق بھی ایک سیشن بھی منعقد کی جائے گی۔

تمام پروفیشنلز حضرات سے اس اجتماع میں شرکت کرنے کی درخواست ہے۔ 


زندگی میں کامیابی حاصل کرنے، اچھا ماحول بنانے، سکون پانے اور کردار اچھا کرنے کے لئے بہت سے اصول بنائے جاتے ہیں تاکہ ان اصولوں پر عمل کرکے زندگی میں سکون ملے، کردار اچھا ہو اور  ملک میں امن قائم ہو، اس حوالے سے ہر شعبے میں قانون سازی بھی کی جاتی ہے اور کچھ اداروں میں اس موضوع پر ٹریننگ سیشن بھی منعقد ہوتے رہتا ہے۔

لیکن مسلمانوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہمارے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہر ہر ادا ، ہر ہر عمل ہماری رہنمائی کے لئے کافی ہے۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیدائش سے لے کر ظاہری زندگی کو الوادع کہنے تک زندگی کا ہر لمحہ ہمارے لئے مشعل راہ اور اچھی زندگی گزارنے کے لئے بہترین نمونہ ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت پر عمل کرکے ہمارے اسلاف نے بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کیں ہیں۔

بانی دعوت اسلامی، امیر اہلسنت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ بھی وقتاً فوقتاً مسلمانوں کی رہنمائی کرتے اور سنت رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر عمل کرنے کی تاکید فرماتے رہتے ہیں۔

عاشقان رسول کو مزید ترغیب دلانے کے لئے امیر اہلسنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے اس ہفتے رسالہ 126 سنتیں اور آداب پڑھنے/ سننے کی ترغیب دلائی ہے اور پڑھنے / سننے والوں کو اپنی دعاؤں سے نوازا بھی ہے۔

دعوت اسلامی کی مجلس تراجم کی جانب سے اس رسالے کا سات زبانوں(اردو، انگلش، بنگلہ، ہندی، رومن اردو، سندھی، پشتو) میں ترجمہ بھی کیا گیا ہے، دعوت اسلامی کی ویب سائٹ پر ان زبانوں میں رسائل موجود ہیں، مذکورہ زبانوں کے جاننے والے درج ذیل لنک پر کلک کرکے رسائل کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔

دعائے عطار

یارب المصطفٰے! جوکوئی 17 صفحات کا رسالہ 126 سنتیں اور آداب پڑھ یا سن لے اُس کو بار بار حج کی سعادت دےاور بار بار میٹھا مدینہ دکھا۔ آمین

یہ رسالہ دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے ابھی مفت ڈاؤن لوڈ کیجئے

Download

رسالہ آڈیو میں سننے کے لئے کلک کریں

Audio Book


علمائے اسلام  اور مسلمانانِ عالَم کا قدیم زمانے سے یہ قابلِ تحسین اور لائقِ تقلید طریقہ چلا آرہا ہے کہ جب بھی سیِّدِ کائنات صلی اللہ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر دُرود شریف پڑھتے ہیں تو اِس کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کی مبارَک آل اور پیارے اَصحاب رضوانُ اللہ علیھم اَجمعین پر بھی دُرود و سلام بھیجتے ہیں۔یقیناً یہ خوبصورت انداز عقیدے کی درستی اور پختگی کی علامت ہے ؛کہ اِس طرز پر درود و سلام پڑھنے والے کو سرورِ دوعالَم، حُسنِ مجسَّم ،شفیعِ معظَّم صلی اللہ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کے تمام صحابہ اور جمیع اہلِ بیت سے عقیدت و محبت ہے،جو کہ ایمان کےلئے انتہائی ضروری ہے۔

علمائے اسلام نے تعظیمِ رسول کی علامات میں اِس بات کو بھی ذکر فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کے صحابہ اور اہلِ بیت سے محبت و عقیدت رکھی جائے اور ان حضرات کا ادب و احترام کیا جائے۔چنانچہ امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیفِ لطیف "شفاء شریف " میں اہلِ بیت اَطہار کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:

" وَمِنْ تَوْقِیْرِہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبِرِّہِ بِرُّ آلِہِ ذُرِّیَّتِہِ وَاُمَّھَاتِ الْمُؤْمِنِیْنَ اَزْوَاجِہِ۔"یعنی،سرکارِ اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کی تعظیم و توقیر میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کی آل، اَولاد اور اَزواج ( یعنی اُمہاتُ المؤمنین) کی تعظیم و توقیر کی جائے۔([1])

اور اِسی "شفاء شریف" میں آپ رحمۃ اللہ علیہ صحابۂ کرام کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:

" وَمِنْ تَوْقِیْرِہِ وَبِرِّہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَوْقِیْرِ اَصْحَابِہِ وَبِرُّھُمْ وَ مَعْرِفَۃُ حَقِّھِمْ وَ الْاِقْتِدَاءُ بِھِمْ وَحُسْنُ الثَّنَاءِ عَلَیْھِمْ۔" یعنی،سرورِ ذیشان صلی اللہ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کی تعظیم و توقیر میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کے صحابۂ کرام کی تعظیم و توقیر کی جائے،ان کے حق کو پہچانا جائے، ان کی اقتدا اور پیروی کی جائے اور ان کی مدح و ثنا کی جائے۔([2])

ان کے مَولیٰ کی اُن پر کروڑوں درود اُن کے اَصحاب وعِترَت پہ لاکھوں سلام([3])

محبتِ صحابہ و اہلِ بیت کا دُرست معنی:

یہاں ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ نبیِ کریم ،رسولِ عظیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کے مقدَّس صحابہ اور پیارے اہلِ بیت کی محبت سے مراد یہ ہے کہ ان حضرات میں سے ہر ایک سے محبت رکھی جائے ۔معاذاللہ! صحابہ یا اہلِ بیت میں سے کسی ایک فرد سے بھی بغض ونفرت رکھنا انتہائی ہلاکت خیز اور دُنیاو آخرت میں نقصان و خُسران کا باعث ہے اور یہ اِس بات کی بھی دلیل ہے کہ ایسے شخص کو دیگرصحابہ واہلِ بیت سے بھی سچی اور ایمانی محبت نہیں ہے؛کیونکہ اِن تمام تر نفوسِ قُدسیہ سے محبت اِ ن کی ذات کی وجہ سے نہیں ہے ،بلکہ ذاتِ مصطفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم سے تعلّق اور نسبت رکھنے کی وجہ سے ہے۔

لفظِ "صحابہ" صحابی کی جمع ہے،جس کا لفظی معنیٰ ہی "صحبت میں رہنے والا " اور " رفیق وساتھی "ہےاورمسلمانوں کا ہر سمجھدار بچہ بھی جانتاہے ہے کہ جماعتِ صحابہ پر لفظِ"صحابہ" کا اطلاق صحبتِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کی وجہ سے ہی کیا جاتاہے۔بالفاظِ دیگر صحابی کو صحابی ،صحبت و نسبتِ رسول صلی اللہ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کی وجہ سے ہی کہتے ہیں۔اِسی طرح "اہلِ بیت" کا لفظی معنیٰ ہی "گھر والے" ہے اور ہر مسلمان جانتا ہے کہ اہلِ بیت کو رسولِ کریم ،نبیِ عظیم صلی اللہ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کےمقدّس گھرانے اور خاندان سے ہونے کی وجہ سے ہی "اہلِ بیت" کہا جاتاہے۔ "اہلِ بیت" یعنی گھر والے، کس کے گھر والے ؟ جانِ کائنات ، مفخرِ موجودات صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کے گھر والے۔

چونکہ ذاتِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم سے تعلّق اور نسبت ہر صحابی اور اہلِ بیت کے ہر فرد ہی کو حاصل ہے، لہذا ان میں سے ہر ایک سے عقیدت و محبت رکھنا اور ہر ہر موقع پر اس محبت کا اظہار کرنا بھی ضروری ہے۔

چنانچہ اعلیٰ حضرت، مجدِّدِ اعظم امام اَحمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ اِسی حقیقت کا بیا ن یوں فرماتے ہیں:وَلَیْسَ حُبُّ الصَّحَابَۃِ لِذَوَاتِھِمْ، وَلَا حُبُّ اَھْلِ الْبَیْتِ لِاَنْفُسِھِمْ، بَلْ حُبُّھُمْ جَمِیْعاً لِوُصْلَتِھِمْ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ، فَمَنْ اَحَبَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ وَجَبَ اَنْ یُحِبَّھُمْ جَمِیْعاً ، وَمَنْ اَبْغَضَ بَعْضَھُمْ ثَبَتَ اَنَّہُ لَایُحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ۔ یعنی، صحابۂ کرام سے محبت اُن کی ذات کی وجہ سے نہیں ہے، اور اہلِ بیت کی محبت اُن کی اپنی جانوں کی وجہ سے نہیں ہے ، بلکہ ا ن تمام افراد سے محبت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم سے تعلّق اور نسبت رکھنے کی وجہ سے ہے ۔لہذا جو شخص نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم سے محبت کرتاہے تو اُس پر واجب ہے کہ اِ ن تمام حضرات (سارے ہی صحابہ و اہلِ بیت)سے محبت رکھے۔اور جو شخص اِن حضرات(صحابہ و اہل ِبیت ) میں کسی سے ایک سے بھی بُغض رکھے تو ثابت ہوجائے گا کہ ایسا شخص رسولِ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم سے بھی محبت نہیں رکھتا۔ ([4])

اہلِ سُنّت کا ہے بیڑا پار اَصحابِ حضور نَجم ہیں اور ناؤ ہے عِتْرت رسول اللہ کی([5])

ربِّ کریم عزوجل اپنے رسولِ ذیشانصلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کے تمام ہی صحابہ و اہلِ بیت کی سچی ،شرعی اور ایمانی محبت پر ہمیں استقامت عطا فرمائے اور ہر ہر موقع پر اپنے قول و فعل سے اِس محبت کا اظہار کرتے رہنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بِجاہ ِطٰہٰ ویٰس

ازقلم: ابوالحقائق راشد علی رضوی عطاری مدنی



([1])۔۔:شرح الشفاء،فی تعظیم امرہ وجوب توقیرہ وبرہ۔۔،ج2،ص81،دارالکتب العلمیہ۔

([2])۔۔:شرح الشفاء،فی تعظیم امرہ وجوب توقیرہ وبرہ۔۔،ج2،ص89،دارالکتب العلمیہ۔

([3])۔۔:حدائق ِ بخشش،ص308۔

([4])۔۔:المعتقد المنتقد مع حاشیۃ المعتمد المستند،ص264،دارالفقیہ۔

([5])۔۔:حدائق ِ بخشش،ص153۔


علم و علما کے فضائل بے شمار ہیں اور ان دونوں کے بنا  انسان کی زندگی مفلوج ہے۔علم کی اہمیت پیشِ نظر ہوگی تو علما کی قدر ممکن ہوگی ۔علم نہیں تو علما کی قدر کیوں کر ہو سکے گی!سب سے پہلے علم کے معنی سمجھیے:علم جہل کی ضد ہے۔علم کا معنی :جاننا۔متکلمین کے نزدیک علم کی تعریف یہ ہے:یہ صفت جس کے ساتھ قائم ہو،اس کے نزدیک ذکر کردہ چیز مُنکَشِف (یعنی ظاہر)ہوجائے۔عقل سے جو چیز معلوم ہو اسے عِلم کہتے ہیں۔حواس سے جو چیز معلوم ہو اسے شُعُور کہتے ہیں۔علم حاصل کرنے کے تین اسباب ہیں:1:سچی خبرسے2: حواس کی سلامتی سے3: اور عقل سے (نعمۃ الباری ،1/298)علم کی فضیلت کے متعلق قرآنِ پاک میں رشادِ باری ہے:یَرفَعِ اللہ الَّذِینَ اٰمَنُوا مِنکُم وَالَّذِینَ اُوتُوا العِلمَ دَرَجاتٍ واللہ بِمَا تَعمَلُونَ خَبیِرٌ 0(المجادلہ :11)حدیثِ پاک میں ہے: حضرت امیر ِمعاویہ رضی اللہ عنہ نے جانِ جاناں حضور پُرنور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:اللہ پاک جس کے ساتھ خیر (بھلائی) کا ارادہ فرماتا ہے اس کو دین کی فقہ (یعنی سمجھ بوجھ،فہم )عطا فرماتا ہے۔(مسلم،حدیث:1037،ابن ماجہ،حدیث:221،معجم کبیر،حدیث:860،جلد19)شرحِ حدیث: اس حدیث کو روایت کرنے والے حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں۔بعض بد باطن و بد طینت لوگ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتے ہیں ان کی شان میں تنقیص(کمی) کرتے ہیں اس لیے ان کی فضیلت میں ایک حدیثِ پاک پیشِ خدمت ہے:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: تمہارے سامنے اس دروازے سے ایک شخص آئے گا جو جنتی ہے تو اس دروازے سے حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ داخل ہوئے۔ دوسرے دن پھر آپ نے اسی طرح فرمایا ۔پھر آپ رضی اللہ عنہ آئے ۔عرض کی گئی :یارسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! وہ یہ ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں ،وہ یہ ہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ آپ نے شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: تم جنت کے دروازے پر مجھ سے اس طرح ملو گے۔(تاریخ دمشق ،13500،62/70)فقہ کالغوی و اصطلاحی معنی:خیر شر کی ضد ہے۔خیر کا معنی ہے: خالص مشقت اور اللہ پاک کے ارادہ کا مطلب ہے:دو مقدور چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو واقع کرنا۔اس کے بعد فرمایا:یفقہ فی الدین یعنی اس کو دین میں فقیہ بنا دیتا ہے ۔الفِقہ کا لغوی معنی ہے: دین کی سمجھ اور اس کا عرفی معنی ہے: تفصیلی دلائل سے شرعی احکام پر استدلال کرنا اور اس حدیث میں لغوی معنی ہی مناسب ہیں ۔حسن بصری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : فقیہ وہ ہے جو دنیا میں زاہد ہو اور آخرت میں راغب ہو،دین پر بصیرت رکھتا ہو اور دائمی عبادت کرتا ہو۔(عمدۃ القاری،2/74)علما کی فضیلت قرآنِ پاک کی روشنی میں: فَسئَلُوٓا اَھلَ الذِّکرِ اِن کُنتُمࣿ لاتَعلَمُونَ ( النحل:43)ترجمہ: اے لوگوں اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سےپوچھو۔تفسیر: اس آیت میں علم والوں سے مراد اہل ِکتاب ہیں اللہ پاک نے اہلِ کتاب سے دریافت کرنے کا حکم اس لیے دیا کہ کفارِ مکہ اس بات کو مانتے تھے کہ اہلِ کتاب کے پاس پچھلی کتابوں کا علم ہے اور ان کی طرف اللہ پاک نے رسول بھیجے تھے جیسے حضرت موسٰی اور حضرت عیسٰی علیہماالصلوۃ والسلام وغیرہ۔(تفسیر صراط الجنان ،تفسیر خازن ،النحل، تحت الآیۃ:43،3،124)علمائے کرام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کی شان میں پانچ فرامینِ مصطفٰے:1: فرمایا: بروزِ قیامت امتِ محمد کے علمامیں سے ایک عالِم لایا جائے گا تو اللہ پاک فرمائے گا:اے جبرائیل! اس کا ہاتھ پکڑ اور نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس لے جاؤ اور آپ اس وقت حوض کے کنارے لوگوں کو برتنوں میں پانی پلاتے ہوں گے۔پس جبرائیل علیہ السلام اس کا ہاتھ تھام کر حضور پُرنور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس لائیں گے۔ پس رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اٹھ کر اسے اپنے دست ِمبارک سے چلو سے پلائیں گے تو لوگ عرض کریں گے:یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ! آپ نے ہمیں برتنوں سے پلایا اور عالِم کو اپنے چلو مبارک سے تو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ارشاد فرمائیں گے:اس لیے کہ لوگ دنیا میں تجارت کے ساتھ مشغول رہے اور علما علم کے ساتھ مشغول رہے۔(قرۃ الابصار اردو ترجمہ دقائق الابصار،ص185)دوسری حدیثِ پاک میں رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :صرف ایسے عالم کے پاس بیٹھو جو تمہیں پانچ چیزوں کی طرف بلاتا ہو:1:شک سے یقین کی طرف، ریا سے اخلاص کی طرف ،دنیاکی خواہش سے زہد کی طرف،تکبر سے تواضع( یعنی عاجزی ) کی طرف اور دشمنی سے خیر خواہی کی طرف۔ ( احیاء العلوم، 1 / 28)تیسرا فرمانِ رسول ہے: قیامت کے دن تین قسم کے لوگ شفاعت کریں گے :انبیا علیہم الصلوۃ و السلام، علما اور شہدا۔ راوی فرماتے ہیں:بلند مرتبۂ نبوت و شہادت کے درمیان واسطہ ہے۔ (ابنِ ماجہ،حدیث:4313)آقائے دوعالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :علما جنت کی کنجیاں اور انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کے خلفاء ہیں۔راوی فرماتے ہیں:انسان کنجی (یعنی چابی )نہیں بنتا بلکہ اس کا مطلب ہے کہ اُس (یعنی عالم)کے پاس علم ہے جو چابی کا کام دیتا ہے اس پر دلیل یہ ہے کہ جو خواب میں اپنے ہاتھ میں چابی دیکھے تو اس کی تعبیر یہی ہوتی ہے کہ اسے علمِ دین کی دولت نصیب ہوگی۔ (فضل قدیر ترجمہ تفسیر کبیر ،2/422)رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : عالمِ دین کی فضیلت عابد پر ستر درجے زیادہ ہے جن میں سے ہر درجہ کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان فاصلہ ہے۔(کنزالعمال،حدیث:28792)دیکھا آپ نے!قرآن و احادیث کس خوبصورت انداز میں علمائے حق کے فضائل بیان فرمارہے! تو ما وشما کیا چیز کہ علمائے حق کے بارے میں کسی بھی طرح کی کمزور بات کریں! اللہ پاک سے دعا کہ ہمیں علمائے اہلِ سنت کا ہر آن ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔


قرآنِ مجید میں اس دنیا کو بنانے کا مقصد واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ الله پاک نے ارشاد فرمایا ہے:و ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون (پ27،الذریت:56) ترجمۂ کنزالعرفان: اور میں نے جن اور آدمی اسی لیے بنائے کہ میری عبادت کریں۔چنانچہ تمام عالم کو رب العلمین کی معرفت حاصل کرنے اور اس کی عبادت کے لیے بنایا گیا ہے اور اس بات کا کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ کسی بھی چیز کی معرفت حاصل کرنی ہو تو اس چیز کے ماہرین سے معلومات حاصل کی جاتی ہے ۔ اور اس چیز کے بارے میں اسی کے ماہرین درست ہدایت فراہم کر سکتے ہیں۔لہٰذا مخلوق کو خالق کی پہچان وہی ماہر شخص کروا سکتا ہے جو اس ذات پاک کی صحیح طور پر معرفت رکھتا ہو اور اس ذات پاک کے بارے میں دلائل کے ساتھ علم رکھنے والا ہو ۔ اور جس شخص میں یہ صفات پائی جاتی ہیں اسے دین اسلام میں عالم کا لقب دیا گیا ہے۔علمائے کرام ہی وہ ہستیاں ہیں جو رب العلمین کی پہچان حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ علمائے کرام الله پاک کی کتاب قرآنِ پاک اور رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاکیزه فرمان کو سیکھ کر، سمجھ کر آگے ہم تک پہنچاتے ہیں، چاہے وہ بیان کی صورت میں ہو یا کتاب کے ذریعے ہو ، وعظ ہو یا نصيحت الغرض ہم عام لوگوں کو، نا جاننے والوں کو، علم نا رکھنے والوں کو الله پاک اور اس کے دین کی صحیح اور سچی معرفت یہی علمائے کرام دلاتے ہیں۔اسی لیے علمائے کرام کو رب کریم نے بہت فضیلت عطا فرمائی ہے کہ بغیر علمائے کرام کے مقصد حیات باقی نہیں رکھ سکتا کہ بغیر ان کے الله پاک کی صحیح اور درست پہچان حاصل ہونا اور حاصل کرنا یہ سب ناممکن ہو جائے۔علمائے کرام کے فضائل پر کئی آیات کریمہ اور احادیثِ مبارکہ موجود ہیں جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ علمائے کرام کا مقام الله پاک کے ہاں بہت فضیلت والا ہے ۔ چنانچہ علمائے کرام کی فضیلت پر مبنی 5 احادیثِ مبارکہ ملاحظہ کیجیے: رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں (1) نزدیک تر لوگوں کے لوگوں میں سے درجۂ نبوت سے علماء و مجاہدین ہیں۔ احياء علوم الدين، كتاب العلم، الباب الأول في فضل العلمالخ 20/1 ، دار صادر بیروتتحقيق الله پاک اور اس کے فرشتے اور سب زمین والے اور سب آسمان والے یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور یہاں تک کہ مچھلی یہ سب درود بھیجتے ہیں علم سیکھانے والے پر جو لوگوں کو بھلائی سکھاتا ہے۔( ترمذی، کتاب العلم، ما جاء في فضل الفقہ على العبادة، 313/4 ، حدیث 2694، دار الفکر بیروت 1414 )رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا: قیامت کے دن علما کی دواتوں کی سیاہی اور شہیدوں کا خون تولاجائے گا روشنائی ان کی دواتوں کی شہیدوں کے خون پر غالب آئے گی۔( جامع بیان العلم و فضلہ،باب تفضيل العلما على الشهداء، ص 48، حديث 139، دار الكتب العلمیہ 1428)رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے سامنے دو آدمیوں کا ذکر ہوا ایک عابد دوسرا عالم، آپ نے فرمایا: بزرگی علم کی عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضيلت تمہارے کمتر پر۔( ترمذی، کتاب العلم، ما جاء في فضل الفقہ على العبادة،313/4، حدیث 2694، دار الفکر بیروت 1414)خدائے پاک قیامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا: بہشت میں جاؤ۔ وہ عرض کریں گے: الٰہی انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کی اور جہاد کیا حکم ہوگا: تم میرے نزدیک بعض فرشتوں کی مانند ہو، شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول ہو۔ پس علما پہلے شفاعت کریں گے پھر بہشت میں جاویں گے۔ احياء علوم الدين، كتاب العلم، الباب الأول في فضل العلم الخ، 26/1، دار صادر بیروتجب ہمارے رب کے ہاں علمائے کرام کا مرتبہ اتنا اعلى و افضل ہے تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ہر لمحے اپنے علمائے کرام کا ادب و احترام کریں، تاکہ ہم ان سے فیض حاصل کر کے اپنے خالق و مالک سے اپنا تعلق مضبوط کر سکیں کہ يقيناً علمائے کرام الله پاک کے مقرب اور محبوب ترین بندوں میں سے ہیں جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ارشاد ہوا: اے ابراہیم!میں علیم ہوں، ہر علیم کو دوست رکھتا ہوں یعنی علم میری صفت ہے اور جو میری اس صفت پر ہے وہ میرا محبوب ہے۔(فيضان علم و علما، ص 20، مكتبة المدينه)


چند فضائل علمِ دین کے ترغیب (مسلمانوں کے شوق کے لیے) کے لیے لکھے جاتے ہیں:امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :علم مدار کار اور قطب دین ہے( یعنی علمِ دین و دنیا میں کامیابی کی بنیاد ہے )حقیقت میں کوئی کمال دنیا اور آخرت میں بغیر اس صفت (یعنی علم) کے اور ایمان بغیر اس کے کامل نہیں ہوتا ۔مصرعہ ہے:بے علم نتواں خدارا شناخت یعنی بغیر علم کے خدا کو پہچان نہیں سکتے ۔یہ ہے علم کی فضیلت اللہ پاک ہمیں اخلاص کے ساتھ علمِ دین سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں علم نافع عطا فرمائے ۔امین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماسی طرح کئی احادیثِ مبارکہ میں علما کی فضیلتیں ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے پانچ درج ذیل ہے:علما کی فضیلت پر پانچ فرامینِ مصطفٰے :(1)احیاء العلوم میں مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ خدائے پاک قیامت کے دن عابدوں مجاہدوں کو حکم دیگا: بہشت (جنت)میں جاؤ ۔علما عرض کریں گے: الٰہی!انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کی اور جہاد کیا ۔حکم ہوگا: تم میرے نزدیک بعض فرشتوں کی مانند ہو،شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول ہو۔پس (علما پہلے)شفاعت کریں گے پھر بہشت (جنت)میں جائیں گے۔ (2)بخاری اور ترمذی نے بسند صحیح روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ بِهِ خَيْراً يُّفَقِّههُ فِي الدِّينِ یعنی اللہ پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین میں دانشمند (دین کی سمجھ عطا)کرتا ہے۔اشباہ والنظائرمیں لکھا ہے کہ کوئی اپنے انجام سے واقف نہیں سوا ئےفقیہ کے کیونکہ وہ باخبار مخبر صادق (سچی خبریں دینے والے نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بتانے سے)جانتا ہے (کہ)اس کے ساتھ خدا پاک نے بھلائی کا ارادہ کیا ہے۔(3)ابوداؤد نے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو شخص طلب علم میں کسی ایک راہ چلے خدا اسے بہشت (جنت)کی راہوں سے ایک راہ چلا دے اور بے شک فرشتے اپنے بازو طالب علم کی رضامندی کے واسطے بچھاتےہیں اور بے شک عالم کے لیے استغفار کرتے ہیں سب زمین والے اور سب آسمان والے یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں اور بے شک فضل عالم کا عابد پر ایسا ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی بزرگی (فضیلت)سب ستاروں پر اور بے شک علما وارث انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے ہیں اور بے شک پیغمبروں نے درہم و دینار میراث نہ چھوڑی بلکہ علم کو میراث چھوڑا ہے پس جو علم حاصل کرے اس نے بڑا حصہ حاصل کیا۔(3)صحیح مسلم کی روایت میں وارد ہوا کہ جو طلب علم میں کوئی راہ چلے خدا (پاک)اس کے لیے بہشت (جنت)کی راہ آسان کرے گا اور جب کچھ لوگ خدا پاک کے گھروں سے کسی گھر میں جمع ہو کر کتاب اللہ پڑھتے ہیں اور آپس میں درس کرتے ہیں (پڑھتے پڑھاتے)ہیں ان پر سکینہ نازل ہوتا ہے اور رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں اور خدا پاک اپنے پاس والوں کے سامنے ان کا ذکر کرتا ہے یعنی فرشتوں پر ان کی خوبی اور اپنی رضامندی ان سے ظاہر فرماتا ہے ۔(4) حدیث میں ہے: عالم کی مجلس میں حاضر ہونا ہزار رکعت نماز ،ہزار بیماروں کی عیادت اور ہزار جنازوں پر حاضر ہونے سے بہتر ہے۔ کسی نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اور قراءت قرآن سے بھی ؟یعنی کیا علم کی مجلس میں حاضر ہونا قراءت قرآن سے بھی افضل ہے ؟فرمایا: آیا (کیا)قرآن بغیر علم کے نفع بخشتا ہے؟یعنی فائدہ قرآن کا بے علم کے حاصل نہیں ہوتا۔(5)حضرت امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ احیاء العلوم میں روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں: نزدیک تر لوگوں کے (لوگوں میں سے)درجۂ نبوت سے علما و مجاہدین ہیں۔یعنی ان (علما و مجاہدین )کا مرتبہ پیغمبروں کے مرتبہ سے بہ نسبت تمام خلق (مخلوق) کے قریب ہے کہ اہلِ علم اس چیز پر جو پیغمبر لائے دلالت کرتے ہیں اور اہلِ جہاد اس چیز پر کہ پیغمبر لائے تلواروں سے لڑتے ہیں۔یہ ہیں علم وعلما کے فضائل اللہ کریم ہمیں قیامت تک علما کی کا خوب خوب فیضان نصیب فرمائے اور ہمیں حقیقی عالمہ بنائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم