علمائے دین عوام الناس کے لیے علمِ دین
کا سر چشمہ ہوتے ہیں جن سے علوم دین کے پیاسے اپنی علم کی پیاس بجھاتے ہیں اور یہ ان
کے لیے راہ ہدایت کے ستارے ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر وہ اپنی زندگی کے اسفارطے کرتے ہیں۔علمائے
کرام کے فضائل بے شمار ہے چنانچہ علمائے کرام کی فضیلت پر
اﷲ پاک نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا ہے: ترجمہ کنزالایمان: اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں
اور فرشتوں نے اور عالموں نے۔(پ3،
اٰل عمران:18)اس آیتِ کریمہ میں اللہ پاک نے اس بات کی
گواہی دینے کے بعد کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، اپنی اس گواہی کے ساتھ ساتھ فرشتوں
اور اہلِ علم کی گواہی کو ملایا ہے ۔یقیناً اس میں اہلِ علم کی خصوصیت عظمیہ کا بیان ہے۔ اس
کے علاوہ بھی قرآنِ پاک میں کئی مقامات پر
علما کے فضائل بیان کئے گئے ہیں ، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: ترجمۂ کنزالایمان: اور
یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان فرماتے ہیں اور انہیں نہیں سمجھتے مگر علم والے( پ20، العنکبوت: 43) اس آیت سے تین فضیلتیں علما کی ثابت ہوئیں :1: خدائے رحمان نے
علما کو اپنے اور فرشتوں کے ساتھ ذکر کیا اور یہ ایسا مرتبہ ہے کہ نہایت (انتہاء)نہیں
رکھتا۔2:اُن
(علما) کو فرشتوں کی طرح اپنی واحدنیت (ایک ہونے) کا گواہ اور ان کی گواہی کو وجہ ثبوت
اُلوہِیّت( اپنے معبود ہونے کی دلیل) قرار
دیا۔3: ان
علما کی گواہی مانند گواہی ملائکہ کے(فرشتوں کی گواہی کی طرح) معتبر ٹھہرائی
اسی طرح سرکار مدینہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بکثرت احادیثِ مبارکہ میں بھی علما
کی شان بیان کی گئی ہے۔ آئیے! اس ضمن میں 5 فرمان مصطفٰے صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پڑھئے۔1:حضر ت ابو امامہ باہلی رضی
اللہ عنہ
فر ما تے ہیں ، حضو ر پُر نو ر صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم کی با رگاہ میں دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا، ان میں
سے ایک عالم تھا اور دوسرا عبادت گزار ، تو حضو ر اقدس صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: عالم کی فضیلت عبادت
گزار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنی پر ہے پھر سر کا ر دوعالم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرما یا: اللہ پاک ، اس کے فر شتے ، آسمانو ں اور زمین کی
مخلوق حتی کہ چیو نٹیا ں اپنے سوراخوں میں اور مچھلیا ں، لوگوں کو دین کا علم سکھا
نے والے پر درود بھجتے ہیں۔ (تر مذی ، کتاب الجنا ئز ،11۔باب ، 2/296،
حدیث : 395 ، صراط الجنا ن
جلد نمبر 8 صفحہ نمبر 440) یہ
ساری فضیلتیں اس وجہ سے ہیں کہ علما کی وجہ سے لوگ ہدایت پاتے ہیں۔ حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یومِ خیبر میں حضرت علی رضی
اللہ عنہ
کو جھنڈا دیتے ہو ئے وصیت کی تھی کہ جنگ کرنے سے پہلے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت
دو ۔اگر ایک کو بھی راہ ہدایت مل گئی تو یہ سرخ اونٹو ں سے بھی زیا دہ قیمتی متا ع
ہو گی۔علما میں سے اہلِ تقو یٰ علمائے باطن اور دل والوں کی فضیلت کے معترف تھے۔ چنانچہ
حضرت امام شا فعی رحمۃُ اللہِ علیہ شیبا ن راعی کے
سا منے اس طر ح بیٹھے جس طر ح طالب علم مکتب میں بیٹھتا ہے اور پو چھتے کہ اس معاملے کا حکم کیا ہے ؟ کسی نے آپ سے عرض کی
: حضور ! آپ جیسا عظیم شخص اس بدوی سے پو
چھتا ہے؟ فر ما یا : بے شک اسے اس چیز کی تو
فیق ملی ہے جس سے ہم غا فل ہیں۔2:اور وارد ہوا ( یعنی حدیث شریف میں
آیا ہے) کہ جب پروردگار قیامت کے دن اپنی کرسی
پر واسطے بندوں کے (یعنی بندوں کے درمیان فیصلہ فرما نے) قعود فرمائے گا (جیسا کہ اس
کی شان کے لائق ہیں تو ) علما سے فرمائے گا : جس کا خلاصہ و معنی یہ ہے کہ میں نے اپنا علم وحلم (نرمی) تم کو صرف اسی ارادے سے عنایت کیا کہ تم کو بخش
دو اور مجھے کچھ پروا نہیں۔ ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی فضل
الفقہ علی العبادۃ، 313/4، حدیث:2694۔3: نبیِ اکرم ،نور مجسم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اللہ پاک بڑا جَواد (سب سے
زیادہ نوازنے والا)ہے اورمیں سب آدمیوں میں بڑا سخی ہوں اور میرے بعد ان میں بڑا سخی وہ ہےجس نے کوئی علم سیکھا پھر اس
کو پھیلا دیا۔ (شعب
الایمان، باب فی نشرالعلم، 281/2، حدیث:
1747، باختصار۔4:
امام ذہبی نے روایت کیا رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن علما کی دوا توں کی سیاہی اور
شہیدوں کا خون تولا جائے گا روشنائی (سیاہی)
ان کی دواتوں کی شہیدوں کے خون پر غالب آئے گی۔ جامع بیان العم
وفضلہ، باب تفضیل العاماءعلی الشھداء، ص 48، حدیث:139۔5:احیاء
العلوم میں مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ خدائے پاک قیامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو
حکم دے گا: بِہِشت (جنت) میں جاؤ ۔علما عرض کریں گے:الٰہی! انہوں نے ہماری بتانے سے
عبادت کی اور جہاد کیا ۔حکم ہوگا :تم میرے نزدیک بعض فرشتوں کی مانند ہو، شفاعت کرو
کہ تمہاری شفاعت قبول ہوگی پس( علما پہلے) شفاعت کریں گے پھربِہِشت(جنت) میں جاؤ گے۔ احیاء
علوم الدین کتاب العلوم الباب الاول فی فضل العلم الخ، 24/1
علمائے کرام کو بہت اہمیت و فضیلت حاصل
ہے۔ان کے فضائل پر کتبِ حدیث بھری پڑی ہیں۔یاد
رکھیے!علمائے کرام کی تعظیم کرنا بے حد ضروری ہے کیونکہ علمائے کرام کے علم کی وجہ
سے توہین کرنا کفر ہے۔علمائے کرام کے فضائل پر پانچ فرامینِ مصطفٰے پڑھیے:(1)رسول
اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے ارشاد فرمایا:علما انبیا کے وارث ہیں ۔انبیا نے دینار و درہم کی میراث نہیں
چھوڑی بلکہ ان کی میراث علم ہے۔ پس جس نے ان کا علم حاصل کیا اس سے انبیا کی میراث
کا بڑا حصہ پا لیا۔(ابوداود،3641)(2)حضرت ابوہریرہ
رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے،اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص علمِ دین کی تلاش میں
کوئی راستہ چلے اللہ پاک اس کے لیے جنت کے راستے آسان کر دے گا۔(ترمذ
ی:2646-مسلم:2699-ابن ماجہ: 223 ،225)(3)حضرت ابو امامہ باہلی رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے
میری فضیلت تم میں سے ایک عام آدمی پر ہے۔اللہ پاک اور اس کے فرشتے اور آسمان اور
زمین والے یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے سوراخ میں اور مچھلیاں بھی اس شخص کے لئے جو
نیکی و بھلائی کی تعلیم دیتا ہے خیر و بھلائی کی دعائیں کرتی ہیں۔(ترمذی:2685-صحیح
الجامع:4213-صحیح الترغیب:81)(4) حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: فضیلتِ عالم کی عابد پر ستر 70 درجے
میں اتنی مسافت ہے جتنی آسمان اور زمین میں ہے۔( مسند ابی
یعلی،حدیث: 856)(5)حضرت ابو داود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن علما کی
قلم کی سیاہی اور شہید کے خون کو تولا جائے گا تو علما کے قلم کی سیاہی شہید کے
خون سے زیادہ وزنی ہو جائے گی۔
علم حاصل کرنا دنیا و آخرت میں نجات کا
ذریعہ ہے۔علم مال سے بہتر ہے۔علم پھیلانے سے بڑھتا ہے۔علم کی بدولت عالم اپنی
زندگی میں اللہ پاک کی اطاعت کرتا ہے۔عالم
کے مرنے بعد بھی اس کا ذکرِ خیر باقی رہتا ہے۔عالم لوگوں کو دین کے مسائل
سکھاتا ہے ۔عالم سے لوگ محبت کرتے ہیں۔علما کی میراث علم ہے۔علم کی فضیلت میں احادیثِ
مبارکہ:1:اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے تلاشِ علم کی تو یہ تلاش اس کے
گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہو گی۔(مشکاۃ المصابیح، ص35 ،حدیث: 209 ) 2:رات
میں ایک گھری علم کا درس تمام رات بیداری
سے بہتر ہے۔ (مشکاۃ
المصابیح،ص37،حدیث:230)3:نبیِ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اگر اس حال میں صبح کرو کہ
تم عالم ہو یا متعلم یا عالم کی باتیں سننےوالا اور عالم کا محب اور پانچواں نہ ہونا کہ ہلاک ہو جائے گا۔(ملفوظاتِ
اعلیٰ حضرت،حصہ دوم،ص284)حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے:علمِ دین
حاصل کرنے والے کے لئے فرشتے اپنے پر بچھا دیتے ہیں، سمندروں میں مچھلیاں ان کے
لئے استغفار کرتی ہیں۔علما کی فضیلت پر احادیثِ کریمہ:1:اچھوں سے اچھے بہترین علما
ہیں۔(مشکوۃ
المصابیح،ص 30،حدیث: 240 )2:عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی
میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر۔پھر فرمایا: اللہ پاک اور اس کے فرشتے اور تمام آسمان
و زمین والے یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور یہاں تک کہ مچھلیاں سب اس کی
بھلائی چاہتے والے ہیں جو کہ وہ عالم جو لوگوں کو اچھی باتیں کی تعلیم دیتا ہے۔3:عالموں
کی دواتوں کی روشنائی قیامت کے دن شہیدوں کے خون سے تولی جائے گی اور اس پر غالب ہو جائے گی۔4:علما کی مثال یہ ہے کہ جیسے آسمان میں ستارے
جس سے حشکی اور سمندر میں راستے کا پتا چلتا ہے۔ اگر ستارے مٹ جائیں تو راستے پر
چلنے والے بھٹک جائیں گے۔5:ایک عالم ایک ہزار عابد سے زیادہ شیطان پر سخت ہے۔(جنتی
زیور،ص 45 تا 47)جو علم کی تلاش میں نکلتا ہے وہ واپس تک اللہ پاک کی راہ میں ہوتا ہے۔علم کی جستجو میںسفر
کرنا ثواب ہے۔ علم سے عمل میں اضافہ ہوتا ہے۔ عمل کے اضافے سے بندہ نیکیوں پر فائز
ہو جاتا ہے۔اللہ پاک ہمیں علمِ دین حاصل کرنے اور اپنے علم پر عمل کرنے کی سعادت
عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
حدیثِ
مبارکہ میں یوں تو لا تعداد علما کے فضائل بیان کیے گئے ہیں لیکن یہاں حضورِ پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے لبہائے مبارکہ سے ادائیگی ادا کیے
گئے چند علما کے فضائل درج ذیل ہیں:(1)حضرت انس بن مالک رضی
اللہ عنہ
فرماتے ہیں: نبیِ پاک، رسولِ اکرم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک زمین پر علما کی مثال ان ستاروں
کی طرح ہے جن سے بحر و برکی تاریکیوں میں راہ نمائی حاصل کی جاتی ہے تو جب ستارے
ماند پڑ جائیں تو قریب ہے کہ ہدایت یافتہ لوگ گمراہ ہو جائیں۔(جنت
میں لے جانے والے اعمال،ص35-مسند احمد،4/314،حدیث:12600)(2)حضرت ابو
موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول
اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے فرمایا:اللہ پاک قیامت کے دن بندوں کو اٹھائے گا تو علما کو ان سے علیحدہ فرما
دے گا اور فرمائے گا :اے علم کے گروہ!میں
نے تمہیں عذاب دینے کے لیے علم عطا نہیں فرمایا،جاؤ!میں نے تمہیں معاف فرما دیا۔(معجم
اوسط،3/184،حدیث:4364)(3)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی
اللہ عنہما
سے روایت ہے ،رسولِ پاک صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:عالم کو عابد پر ستر درجہ فضیلت حاصل ہے
اور ان میں سے دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا تیز رفتار گھوڑے کی ستر سال
دوڑ کا سفر ہے۔(الترغیب
والترھیب،1/57)(4)پیکر
ِحسن و جمال،دافعِ رنج و ملال، صاحبِ جود و نوال صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:ایک فقیہ عالم شیطان پر
ایک ہزار عبادت گزاروں سے زیادہ سخت ہے۔(ترمذی،4/ 311)(5)
حضرت سمرہ رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے، رسولِ پاک صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن علما کی سیاہی اور
شہدا کے خون کو تولا جائے گا اور ایک روایت میں ہے:علما کی سیاہی شہدا کے خون پر
غالب آ جائے گی۔(تاریخِ بغداد،2/190)حضرت ابو
امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسولِ
پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن عالم اور عبادت گزار کو اٹھایا جائے گا تو عابد سے
کہا جائے گا:جنت میں داخل ہو جاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے گا:جب تک لوگوں کی شفاعت
نہ کر لو ٹھہرے رہو۔(الترغیب والترھیب،1/57،حدیث:34)حضرت
امام غزالی رحمۃُ
اللہِ علیہ
احیاء العلوم میں روایت کرتے ہیں:رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: نزدیک تر لوگوں کے یعنی
لوگوں میں سے درجۂ نبوت علما و مجاہدین ہیں۔(فیضانِ علم و
علما،ص20-19)
علمِ دین کے فوائد
و فضائل احادیث و روایات میں بے شمار ہیں۔علم کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ اللہ
پاک اور رسولِ اکرم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم کی صفت ہے۔دونوں جہاں کی بھلائی علم سے حاصل ہوتی ہے۔دونوں
جہاں کی بھلائی علم کے سبب ہاتھ آتی ہے۔پس انسان کو چاہیے کہ اس دولتِ عظمیٰ کی تحصیل
میں کوشش کرتا رہے اور اس کے ممانع یعنی روکنے والے امور کو دور کرے۔ علم سے بہتر کوئی
چیز نہیں ہے۔علم کی باتیں ا بھی عبادت ہے۔جو علم کی مجلس میں شریک ہوتا ہے اس پر رحمت
نازل ہوتی ہے اور عالم کی زیارت کرنے کا بھی بہت ثواب ہے۔اللہ پاک کے بندوں میں سے
علم والے ہی اس سے ڈرتے ہیں۔عالم اور جاہل دونوں برابر نہیں۔قرآنِ پاک میں ہے:ترجمہ:یعنی
اللہ بلند کرے گا ان لوگوں کے درجے جو ایمان
لائے تم میں سے اور ان کے جن کو علم دیا گیا۔(پ28،المجادلۃ:11)اس آیت سے ثابت ہے کہ علم ایمان
کی طرح بلندیِ مراتب کا سبب ہے۔علما کے فضائل پر پانچ فرامینِ مصطفٰے:1:سب سے بڑے سخی:بیہقی
روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:اللہ
پاک بڑا جوادیعنی سب سے زیادہ ہے اور میں آدمیوں میں بڑا سخی ہوں اورمیرے بعد ان میں
بڑا سخی وہ ہے جس نے کوئی علم سیکھا پھر اس کو پھیلا دیا۔(شعب الایمان،حدیث:1769)فرمانِ مصطفٰے
نمبر2: علما شفاعت کریں گے۔خدائے پاک قیامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا: بہشت میں جاؤ!علما عرض
کریں گے:الٰہی!انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کی اور جہاد کیا۔حکم ہوگا:تم میرے نزدیک
بعض فرشتوں کی مانند ہو، شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول ہو۔پس علما پہلے شفاعت کریں
گے پھر بہشت یعنی جنت میں جائیں گے۔(احیاء
العلوم،1/26)فرمانِ مصطفٰے نمبر3: 70صدیقین کا ثواب:حدیث شریف میں آیا
ہے:جو شخص ایک باب علم کا اوروں کے سیکھانے کے لیے سیکھے اس کو ستر صدیقوں کا اجر دیا
جائے گا۔(الترغیب والترھیب،حدیث:119)فرمانِ مصطفٰے نمبر4:علم والوں سے بھلائی کا ارادہ: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:خدائے پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا
کرتا ہے۔ (بخاری،1/41) فرمانِ مصطفٰے
نمبر5:مرنے کے بعد علم کا فائدہ:جب آدمی مرتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے مگر
علاوہ تین چیزوں کے1)کوئی صدقۂ جاریہ چھوڑ گیا۔2)یا ایسا علم جس سے لوگوں کو نفع ہو۔3)یا
لڑکا صالح یعنی نیک اولاد کے اس یعنی مرنے
والے کے واسطے دعا کرے۔یعنی تین چیزوں کا فائدہ مرنے کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔اللہ
پاک ہمیں علما کے فضائل میں سے حصہ پانے کی سعادت بخشے اور علمِ دین پر عمل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔
علم کے معنیٰ جاننا،آگاہ ہونا یا واقفیت
حاصل کرنا ہے،جبکہ علم کا شرعی معنی یہ ہے کہ اللہ پاک اور اس کے رسول صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ہمیں جو احکامات اور ہدایات دی ہیں
ان کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا اور ان پر عمل پیرا ہونے کے بارے میں پوری طرح علم
جاننا ،جبکہ عالم ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اپنی ضرورت کا علم کتابوں سے نکال سکے۔حضرت نبیِ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:عالم کی فضیلت عابد پر ایسی
ہے جیسی میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر اور علم وہی فائدہ مند ہے جس سے نفع اٹھایا جا
سکے۔ پہلا فرمان:ابو داؤد نے حضرت ابو
درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے فرمایا: جو شخص طلبِ علم میں کسی ایک راہ چلے خدا اسے بہشت کی راہوں میں سے ایک
راہ چلا دے اور بیشک فرشتے اپنی بازو طالبِ
علم کی رضامندی کے واسطے بچھاتے ہیں۔بے شک عالم کے لئے استغفار کرتے ہیں۔ سب زمین
والے اور سب آسمان والے یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں اور بے شک عالم کا عابد پر
ایسا ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی بزرگی سب ستاروں پر اور بے شک علما وارثِ انبیا
ہیں اور بےشک پیغمبروں نے درہم و دینار میراث نہ چھوڑی بلکہ علم کو میراث چھوڑا ہے۔پس جو علم حاصل کرے اس نے بڑا حصہ
حاصل کیا۔ (فیضان
علم و علما،ص 11) دوسرا فرمان:ترمذی کی حدیث میں ہے:تحقیق اللہ پاک
اور اس کے فرشتے سب زمین والے اور سب آسمان والے یہاں تک کہ چونٹی اپنے سوراخ میں اور یہاں تک کہ مچھلی یہ سب
درود بھیجتے ہیں علم سکھانے والے پر جو لوگوں کو بھلائی سکھاتا ہے۔
(فیضان علم و علما ،ص 19) تیسرا فرمان:اللہ پاک قیامت کے دن
عبادت گزاروں کو اٹھائے گا،پھر علما کو اٹھائے گا اور ان سے فرمائے گا:اے علما کے
گروہ !میں تمہیں جانتا ہوں اس لیے تمہیں اپنی طرف سے علم عطا کیا ہے اور تمہیں اس
لیے علم نہیں دیا تھا کہ تمہیں عذاب میں مبتلا کروں گا۔جاؤ! میں نے تمہیں بخش دیا ۔(
احیاءالعلوم،ص49 ) چوتھا فرمان:صحیح مسلم کی روایت میں وارد ہوا ہے :جو
طلِب علم میں کوئی راہ چلے خدا پاک اس کے
لئے جنت کی راہ آسان کرے گا۔ جب کچھ لوگ خدا کے گھروں سے کسی گھر میں جمع ہو کر
کتابُ اللہ پڑھتے ہیں اور آپس میں درست کرتے ہیں تو ان پر سکینہ نازل ہوتا ہے اور
رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں اور خدا اپنے
پاس والوں کے سامنے ان کا ذکر کرتا ہے یعنی فرشتوں پر ان کی خوبی اور اپنی رضامندی
ہندی ان سے ظاہر فرماتا ہے۔ (فیضان علم و علما،ص 17) پانچواں فرمان: جو علمِ دین حاصل کرے گا اللہ
پاک اس کی مشکلات آسان فرما دے گا اور اسے وہاں سے رزق پہنچائے گا جہاں اس کا گمان
بھی نہ ہو گا۔(
احیاءالعلوم،ص47)
علمائے کرام امت کے راہ نما ہیں۔ہم تک
شریعت کے احکام پہنچانے کا وسیلہ ہیں۔رہبرِ امت ہیں۔علما کی تعریف اللہ پاک نے قرآنِ
پاک میں فرمائی ہے۔علما وہ ہیں جن کے سینے علم سے منور ہیں۔علما کے بارے میں مزید
احادث پڑھتی ہیں کہ علما کا کیا مقام و مرتبہ ہے۔احادیث: عالم کا رتبہ اس حدیثِ
مبارکہ سے اندازہ لگائیے کہ کتنا شاندار ہے چنانچہ(1)حضرت امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ
نے روایت کیا :عالم کو ایک نظر دیکھنا سال بھر کی نماز و روزہ سے بہتر ہے۔(2)امام
ذہبی رحمۃُ
اللہِ علیہ
نے روایت کیا:رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے قیامت کے دن علما کی دواتوں کی سیاہی اور
شہیدوں کا خون تولا جائے گا، روشنائی یعنی ان کی دواتوں کی سیاہی شہیدوں کے خون پر
غالب آئے گی۔(فیضان
علم وعلما،ص15)
(3)امام محی السنہ بغوی رحمۃُ اللہِ علیہم
معالم التنزیل میں لکھتے ہیں:رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں :ایک فقیر شیطان پر ہزار
عابد سے زیادہ بھاری ہے ۔اس کی وجہ یہ ظاہر فرمائی کہ ایک عابد یعنی عبادت گزار
اپنے نفس کو دوزخ سے بچاتا جبکہ عالم ایک عالَم یعنی بہت سے لوگوں کو ہدایت فرماتا
ہے اور شیطان کے مکر و فریب سے آگاہ کرتا ہے۔(فیضان علم و
علما،ص18)(4)
نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:علما انبیا کے وارث ہیں اور یہ
بات بدیہی بات ہے کہ انبیا علیہم الصلوۃ و السلام
سے بڑھ کر کسی کا رتبہ نہیں اور انبیا علیہم الصلوۃ و السلام
کے وارثوں سے بڑھ کر کسی وارث کا مرتبہ نہیں۔(5)نبیِ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:مرتبۂ نبوت سے سب سے
زیادہ قریب عالم اور مجاہد ہے۔اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ علما نے رسولوں کے
پیغامات لوگوں تک پہنچائے اور مجاہد اس لیے کہ انہوں نے انبیائے کرام علیہم
الصلوۃ و السلام کے احکامات کو صحیح صحیح پورا کیا اور ان کے
احکامات کی پیروی کی۔(مکاشفۃ القلوب،ص471)قولِ عمر
فاروق:حضرت عمر فاروق رضی اللہ
عنہ
فرماتے ہیں:ہزار عابد قائم الیل،صائم النہار یعنی رات میں عبادت کرنے والے اور دن
میں روزہ رکھنے والے ان کا مرنا ایک عالَم کی موت کے برابر نہیں۔(فیضان
علم و علما،ص21)واقعہ:نبیِ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جبریل علیہ السلام
سے علما کی شان دریافت کی تو انہوں نے کہا:علمائے کرام آپ کی امت کی دنیا و آخرت
میں چراغ ہیں اور وہ خوش نصیب ہیں جو ان کی قدر و منزلت اور ان سے محبت کرتا ہے جبکہ
وہ بڑا بد نصیب ہے جو ان سے مخالفت رکھتا ہے ،مخاصمت(جھگڑا،بغض)رکھتا
ہے۔(نزہۃ
المجالس،ص303)جب
عالم کا وصال ہوتا ہے تو وہ ایسا ہے جیسا کہ روشن گھر سے فانوس نکل گیا۔ اس کے
جانے سے دنیا میں اندھیرا چھا جاتا ہے۔علما کو عین کی برکت سے عزت وعظمت،لام کی
برکت سے لطافت اور میم کی برکت سے محبت اورمحافظت زیادہ ہوتی ہے۔اللہ پاک ہمیں علما
کا ادب اور ان سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بلاشبہ کوئی بھی عاقل اس بات کا انکار
نہیں کرسکتا کہ علمائے حق راہ نمائی کے وہ موتی ہیں کہ جو اپنے علم کی چمک سے
لوگوں کو فیض یاب کرتے رہتے ہیں اور ان شاء اللہ کرتے رہیں گے ۔ نماز کے مسائل ،
روزے کی مشکلات ، حج کے فرائض ، وضو کے واجبات ، زکوۃ کا نصاب نیز ہمیں قدم قدم پہ
علما کی ضرورت ہے ، اور یہی ضرورت ہم پہ ان کی اہمیت روز روشن کی طرح واضح کرتی
چلی جاتی ہے ، جیسا کہ قرآنِ مجید فرقان حمید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :اِنَّمَا یَخْشَى
اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ اللہ سے اس کے بندوں میں سے
وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں ۔( سورۃ فاطر ، آیت نمبر 45)اس آیت کی
تفسیر میں ہے :علم والے بہت مرتبے والے ہیں کہ اللہ پاک نے اپنی خَشیَت اور خوف کو
ان میں مُنْحَصَر فرمایا ،لیکن یاد رہے !یہاں علم والوں سے مراد وہ ہیں جو دین کا علم
رکھتے ہوں اوران کے عقائد و اَعمال درست ہوں ۔(تفسیر صراط
الجنان ) صحیح
العقیدہ عالم کا دامن تھامنا ، ان کی پیروی کرنا ، قدم قدم پہ ان کی راہ نمائی
حاصل کرنا، ان کا ادب کرنا ، دنیا و آخرت میں کامیابی و سعادت مندی کا ذریعہ
ہے کہ ان کی خدمت دنیا و آخرت میں فلاح کا
باعث ہے ، جیسا کہ فرامینِ مصطفٰے سے واضح ہے : ترمذی نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر ہوا ایک
عابد اور دوسرا عالم ، آپ نے فرمایا : فَضْلُ الْعَالِمِ
عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِیْ عَلٰی اَدْنَاکُم یعنی عالِم
کی عابِد پر ایسی فضیلت ہے ، جیسے میری فضیلت تمہارے کمتر پر۔(کتاب
فیضان علم و علما ص 13 ، ترمذی ،
کتاب : العلم ، باب : ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ ، صفحہ : 632 ، حدیث : 2685)
بیہقى
روایت کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہىں : اللہ پاک بڑا جَواد(سب
سے زیادہ نوازنے والا) ہے اور میں سب آدمیوں میں بڑا سخی ہوں
اور میرے بعد اُن میں بڑا سخى وہ ہے جس نے کوئى علم سیکھا پھر اس کو پھیلادیا ۔(
کتاب فیضان علم و علما ص 13 ، شعب
الایمان، باب فی نشرالعلم، 2/ 281، حدیث : 1767،
باختصار ) *
حدیث شریف مىں آیا:جو طلب علم مىں مرجائے گا خدا پاک سے ملے گا دراں حالیکہ(اس
حال میں کہ)
اُس میں اور پیغمبروں مىں درجَۂ نبوت (اور اس کے کمالات)کے
سوا کوئى درجہ نہ ہوگا۔( کتاب فیضان علم و علما ص 15 ، الدارمی، المقدمة، باب فی فضل العلم والعالم 1/112
، حدیث : 354 ) *مَعالِمُ التَّنزیل میں لکھا ہے کہ
رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے فرمایا : جو شخص طلبِ علم میں سفر کرتا
ہے فرشتے اپنے بازؤوں سے اُس پر سایہ کرتے ہیں اور مچھلیاں دریا میں اور آسمان و
زمین اس کے حق میں دعا کرتے ہیں۔(کتاب فیضان علم و علما ص 15 ، ابوداود، کتاب العلم، باب فی کتاب
العلم، 3/ 445،
حدیث : 3641 ، بتغیر ) * امام مُحى السُّنّہ بغوىرحمۃ
اللہ علیہ
مَعالِمُ التَّنزیل مىں لکھتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہىں : اىک فقیہ شیطان پر ہزار
عابد سے زیادہ بھارى ہے۔(کتاب فیضان علم و علما ص 18 ، ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی
فضل الفقہ علی العبادة، 4/ 311، حدیث : 2690 ) اور وجہ اُس کى ظاہر ہے کہ عابد اپنے نفس کو
دوزخ سے بچاتا ہے اور عالِم اىک عالَم (بہت سے لوگوں)
کو ہداىت فرماتا ہے اور شیطان کے مکر وفرىب سے آگاہ کرتا ہے۔اللہ پاک ہمیں علما ئے
حق کا دامن تھامنے ، ان کی خدمت کرنے ، ادب کرنے ، ان کی سچی تقلید کرنے کا جذبہ عطا فرمائے اور علمِ
دین حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ امین بجاہ خاتم النبیین صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
اللہ پاک نے علمائے کرام کو بہت شان و
شوکت سے نوازا ہے۔قرآن و حدیث میں علمائے کرام کے فضائل بیان کیے گئے ہیں جن کو
پڑھنے سے علمائے کرام کی اہمیت و فضلیت کا اندازہ بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ ایک
بزرگ رحمۃُ
اللہِ علیہ
سے پوچھا گیا:انسان کون ہے؟فرمایا:علما۔حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃُ
اللہِ علیہ
نے غیر ِعالم کو انسانوں میں شمار نہ فرمایا کیونکہ علم ہی وہ خصوصیت ہے جس کی وجہ
سے انسان تمام جانوروں سے ممتاز ہوتے ہیں۔قرآنِ پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ:اللہ
نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں اور عالموں نے انصاف سے قائم
ہو کر۔ اس سے معلوم ہوا !اہلِ علم بڑی عزت والے ہیں کہ اللہ کریم نے انہیں اپنی
توحید کا گواہ اپنے ساتھ بنایا۔(پ3،ال عمران: 18)فرامینِ
مصطفٰے:1:علما انبیا کے وارث ہیں۔ اس سے پتہ چلا! اس سے پتا چلا کہ طرح نبوت سے
بڑھ کر کوئی مرتبہ نہیں اسی طرح نبوت کی وراثت سے بڑھ کر کوئی عظمت نہیں۔(ابن
ماجہ،1/ 146،حدیث:223) 2:زمین و آسمان کی تمام مخلوق عالم کے
لیے استغفار کرتی ہے لہٰذا اس سے بڑا مرتبہ کس کا ہوگا!اس کے لیے زمین و آسمان کے
فرشتے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔یہ اپنی ذات میں مشغول ہیں اور فرشتے استغفار میں
مشغول ہیں۔(احیاء
العلوم،1/45) 3:امام
ذہبی رحمۃُ
اللہِ علیہ
نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن علما کی دواتوں کی سیاہی
اور شہیدوں کا خون تولا جائے گا ،روشنی ان کی دواتوں کی شہیدوں کے خون پر غالب آئے
گی۔(فیضان
علم و علما،ص14)4: قیامت کے دن تین قسم کے لوگ شفاعت کریں گے:انبیا،علما
اور شہدا ۔معلوم ہوا!زیادہ عظمت والا مرتبہ وہ ہے جس کا ذکر مرتبۂ نبوت کے ساتھ
ملا ہوا ہے۔ (ابن
ماجہ،4/526) 5:عالِم
زمین میں اللہ پاک کا امین ہوتا ہے۔(احیاء العلوم،1/47)اقوالِ
بزرگانِ دین:کسی دانا کا قول ہے:1:عالم کی وفات پر پانی میں مچھلیاں اور ہوا میں
پرندے روتے ہیں۔عالم کا چہرہ اوجھل ہو جاتا ہے لیکن اس کی یادیں باقی رہتی ہیں۔(مسند
الفردوس،2/87)2:منقول
ہے:حضرت لقمان رحمۃُ اللہِ علیہ
نے اپنے بیٹے کو جو وصیتیں فرمائیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ بیٹا!علما کی صحبت
میں بیٹھا کرو،اپنے زانوں کو ان کے زانوں سے ملا دو کیونکہ اللہ پاک نورِ حکمت سے
دلوں کو ایسے زندہ کرتا ہے جیسے زمین کو مسلسل بارش سے۔(احیاء
العلوم،1/54)جو
علم سے متصل ہو، بلندیوں سے جا ملے۔علم ایک روشنی ہے اللہ پاک ہمیں علمِ نافع عطا
فرمائے۔آپ بھی علمِ دین سیکھنے سکھانے کا جذبہ پانے کے لیے دعوتِ اسلامی کے مشک بار
دینی ماحول سے وابستہ ہو جائیے۔
عالمِ دین روشنی کی مانند ہیں کیونکہ
ہمارے آقائے دو عالم، نورِ مجسم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم دونوں جہاں کے عالمِ دین ہیں۔ ایک عالم کو اپنے
محبوب مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے
نسبت ہے۔ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔فلاح کا پہلا ستون علما ئے کرام ہیں خواہ ان کو
امام سے تعبیر کریں،خواہ قاری سے،خواہ وہ کسی بھی سوسائٹی کا کوئی علمی کردار ادا
کر رہا ہو۔علما ئے کرام اپنا بدن کاٹ کر اور فاقے برداشت کر کے بھی اپنی اپنی ملت
و قوم کے سامنے اتنا شستہ و عمدہ کردار ادا کرتے ہیں کہ بعض علما کے کردار کو دیکھ
کر لوگوں کو اپنے آپ کو اچھے سانچے میں ڈھالنے کا موقع مل سکتا ہے۔رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں :حدیث:قیامت کے دن علما کی
سیاہی اور شہدا کے خون کو تولا جائے گا اور علما کی سیاہی شہدا کے خون پر غالب آ
جائے گی۔
(جامع صغیر،ص 590 حدیث:10026) فیضانِ علم و علما کتاب میں امیرِ اہلِ
سنت مولانا الیاس عطار قادری دامت برکاتہمُ العالیہ
لکھتے ہیں:صفحہ 8،9،10 :ترجمہ:کہہ تم فرماؤ کافی ہے اللہ پاک گواہ میرے اور تمہارے
بیچ میں اور وہ شخص جس کے پاس علم کتاب ہے۔مراتب کی بلندی:ترجمہ:یعنی اللہ پاک کر
دے گا ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے تم میں سے اور ان کے جن کو علم دیا گیا ہے
درجے۔اللہ پاک قرآنِ پاک میں فرماتا ہے:ان کے درجے بلند کر دئے جائیں گے جو علم
والے ہوں گے یعنی جو عالم ہوں گے ان کے درجے اللہ پاک بلند فرمائے گا ۔سبحان اللہ۔حدیث:ایک
فقیہ یعنی عالمِ دین شیطان پر ہزاروں عابدوں سے یعنی عبادت کرنے والوں سے زیادہ
بھاری ہے۔(ترمذی
)حدیث:عالم
کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودھویں شب میں چاند کی فضیلت سارے تاروں پر ۔(الترمذی،کتاب
العلم ،ماجاءفی فضل الفقہ علی العبادت)ایک اور جگہ رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں :حدیث:علما انبیا علیہم
الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں۔انبیا علیہم الصلوۃ
و السلام
نے دینار و درہم کی میراث نہیں چھوڑی بلکہ ان کی میراث علم ہے۔ پس جس نے علم حاصل
کیا اس نے انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کی میراث کا
بڑا حصہ پا لیا۔(ابو داؤد،3641 )حدیث:بے شک اللہ
پاک اور اس کے فرشتے آسمانوں اور زمینوں کی تمام مخلوق حتی کہ جو چیونٹیاں اپنے
بلوں میں اور مچھلیاں سمندر کے پانیوں میں اس کے لیے دعا مانگتی ہیں جو لوگوں کو
دین کی تعلیم دے۔( ترمذی،حدیث:2658)کتاب فیضانِ
علم و علما میں امیرِ اہلِ سنت مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت
برکاتہمُ العالیہ لکھتے ہیں: صفحہ نمبر 8اور 9 :آیت کا ترجمہ:گواہی
دی اللہ پاک نے کہ کوئی بندگی کے لائق نہیں سوا اس کے اور فرشتوں اور عالموں نے وہ
با انصاف ہے۔اس میں اللہ پاک نے فرشتوں کے ساتھ علما ئےکرام کا ذکر فرمایا ہے۔
عالم ایسا مرتبہ رکھتا ہے کہ جس کی انتہا نہیں ۔ ایک اور اس میں فضیلت دیکھنے کو
ملتی ہے کہ علما ئےکرام کی گواہی مانندِ گواہیِ ملائکہ کے معتبر ٹھہرائی۔دعا:اے اللہ
پاک!ہمیں بھی علمِ دین سیکھنے اور سیکھانے کی توفیق عطا فرما۔ہمیں بھی عالمات کی
زیرِ نگرانی رہنے کی توفیق عطا فرما ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
اللہ پاک نے علمائے
کرام کو بے شمار فضیلتوں سے نوازا ہے۔قرآن ِکریم میں ارشاد ہے:ترجمہ:اللہ سے اس کے
بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پ22،الفاطر:28) علم والوں کی شان ہی یہ ہے کہ وہ اللہ پاک سے ڈرتے ہیں لہٰذا
علمائے کرام کو عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ اللہ پاک سے ڈرنا چاہیے اور لوگوں کو
بھی اللہ پاک سے ڈرنے کی ترغیب دینی چاہیے۔حضرت ربیع بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جس کے
دل میں اللہ پاک کا خوف نہیں وہ عالم نہیں۔قرآنِ کریم میں ہے:ترجمہ: اور ان کے جن کو
علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔(پ28،المجادلۃ:11) اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ علمابڑے درجے والے اور دنیا و آخرت میں
ان کی عزت ہے۔علمائے کرام کے بارے میں 5 فرامینِ مصطفٰے ملاحظہ فرمائیے۔1:حضرت انس
بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک زمین پر علما کی مثال ان ستاروں کی طرح ہے جن سے بحروبر کی تاریکیوں
میں راہ نمائی حاصل کی جاتی ہے تو جب ستارے ماند پڑ جائیں تو قریب ہے کہ ہدایت یافتہ
لوگ گمراہ ہو جائیں۔(مسند احمد،4/314)2:حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نور کے
پیکر صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن عالم اور عابد عبادت گزار کو اٹھایا
جائے گا تو عابد سے کہا جائے گا: جنت میں داخل ہو جاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے گا: جب
تک لوگوں کی شفاعت نہ کرلو ٹھہرے رہو۔(الترغیب
والترھیب،1/57)3:حضرت ثعلبہ بن حکیم
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک اپنے بندوں کا فیصلہ کرنے کے لیے جب قیامت کے دن کرسی پر قعود
فرمائے گا جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے تو علما سے فرمائے گا:بے شک میں نے اپنا علم
اور حلم تمہیں اسی لیے دیا تھا کہ تمہاری خطاؤں کو معاف فرما دوں اور مجھے کوئی پروا
نہیں۔(طبرانی،2/84)4:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں بلند مرتبہ جنتیوں کے بارے میں نہ بتاؤں ؟صحابہ
کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! کیوں نہیں! ضرور بتائیے، ارشاد فرمایا:ھم علماء امتی یعنی وہ میری امت کے علما
ہیں۔(منہاج العابدین،ص31-32)5:حضرت ابو امامہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اس
علم کو قبض ہونے سے پہلے حاصل کر لو اور اس کے قبض ہونے سے مراد اس کا اٹھا لیا جانا
ہے۔ پھر رسول اکرم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے شہادت اور بیچ کی
انگلیاں ملا کر ارشاد فرمایا:عالم اور متعلم خیر میں حصہ دار ہیں اور ان کے علاوہ دیگر
لوگوں میں کوئی بھلائی نہیں۔(ابن ماجہ،1/150)اللہ پاک ہمیں علمائے کرام کے فیوض و برکات سے مال فرمائے اور
ہمیں ان کا ادب و احترام کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
اللہ پاک قرآنِ مجید، فرقانِ حمید میں
پارہ 21، سورة العنكبوت ،آیت نمبر 49 میں ارشاد فرماتا ہے:بَلْ هُوَ آيَاتٌ
بَيِّنَاتٌ فِىْ صُدُوْرِالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ طترجمۂ كنزالایمان
: بلکہ وہ روشن آیتیں ہیں ان کے سینوں میں جن کو علم دیا گیا۔سبحان
اللہ! اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں اہل ِعلم کی کس طرح فضیلت بیان فرمائی!علما کو
اللہ پاک نے کس قدر بزرگی اور مرتبہ عطا فرمایا ہے۔ ان کے فضائل کو مکمل طور پر
بیان کرنا بہت مشکل ہے ۔ ان کی فضیلت و عظمت قیامت کے دن کھلے گی جب عام لوگوں کو
تو حساب و کتاب کے لیے روکا جائے گا لیکن علما کو ان لوگوں کی شفاعت کے لیے روکا
جائے گا۔اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں اور اس کے پیارے حبیب، حبیبِ لبیب صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے احادیثِ طیبہ میں علما کے کثرت سے
فضائل بیان فرمائے ہیں ۔ کہیں ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے اپنا خوف اور خشیت ان کے
دلوں میں رکھی،تو کہیں فرمایا:یہ انبیا علیہم الصلوۃ و السلام
کے وارث ہیں۔ کہیں ان کو عبادت گزاروں پر فضیلت عطا فرمائی ،تو کہیں ان کو لوگوں
کے لیے حقیقی راہ نما قرار دیا۔چنانچہ علما کے فضائل پر مشتمل 5 احادیث درج ذیل
ہیں۔(1) حضور نبیِ رَحمت،شفیعِ اُمَّت صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :عالم زمین میں اللہ پاک
کا امین ہوتا ہے ۔ (جامع بیان العلم و فضل ،حدیث : 225،ص 74) (2)
حضور نبیِ کریم، رؤف رحیم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے : عالم اور عابد کے درمیان
100 درجے ہیں اور ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنی مسافت سَدھایا ہوا
عمدہ گھوڑا 70 سال تک دوڑ کر طے کرتا ہے ۔ (جامع بیان
العلم وفضلہ ، باب تفضیل العلم علی العبادة ، حدیث :118 ، ص 43 )
(3) حضور نبیِ پاک،صاحبِ لولاک،سیاحِ افلاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن تین
قسم کے لوگ شفاعت کریں گے : انبیا علیہم الصلوۃ و السلام، علما
اور شہدا۔ ( ابن ماجہ ،کتاب الزھد ، باب ذکر الشفاعۃ
،حدیث: 4313،ج 4 ، ص 526 )معلوم ہوا! زیادہ عظمت والا مرتبہ وہ
ہے جس کا ذکر مرتبۂ نبوت کے ساتھ ملا ہوا ہے اور یہ مرتبۂ شہادت سے بڑھ کر ہے۔
اگرچہ شہادت کی فضیلت میں بھی کثیر احادیث مروی ہیں۔(4) دو عالم کے مالک و مختار ،
مکی مدنی سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا
فرمانِ مشکبار ہے : علما ،انبیا علیہم الصلوۃ و السلام
کے وارث ہیں۔ (
ابن ماجہ ، کتاب السنۃ،باب فضل العلم و الحث الخ ، حدیث: 223 ، ج 1 ، ص 146 ) اس سے پتہ چلا!جس
طرح نبوت سے بڑھ کر کوئی مرتبہ نہیں اسی طرح نبوت کی وراثت (یعنی
علم )
سے بڑھ کر کوئی عظمت نہیں۔(5) تاجدارِ رِسالت ، شہنشاہِ نبوت صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :زمین و آسمان کی
تمام مخلوق عالم کے لئے استغفار کرتی ہے۔( ابن ماجہ ،
کتاب السنۃ ، باب فضل العلم والحثالخ ، حدیث: 223، ج 1 ، ص 146 )
لہٰذا اُس کا مرتبہ کس قدر بلند ہوگا جس کے لیے
زمین و آسمان کی تمام مخلوق مغفرت کی دعا کرتی ہو۔ اللہ پاک ہمیں علما کے مرتبے کو
سمجھنے اور اس کے مطابق ان کی تعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی
الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم