محمد طیب عطّاری (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ
گلزار حبیب سبزہ زار لاہور، پاکستان)
آج کل ہمارا
معاشرہ طرح طرح کے گناہوں میں مبتلا ہے معاشرے میں برائیوں کی طرف رجحان بڑھتا ہوا
نظر آرہا ہے چھوٹی سی بات پر گھر کے گھر اُجر جاتے ہیں بھائی بھائی کے ساتھ دشمنی
رکھے ہوا ہے ایک رشتہ دار دوسرے رشتہ دار سے دشمنی رکھے ہوئے ہے ذرا سی زمین کے
ٹکڑے کی خاطر قتل ہورہے ہیں قتل اس طرح عام ہوتا جارہا ہے جیسے قتل وغارت کرنا
کوئی گناہ ہی نہیں ہے ،غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی
لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور
عسکری وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔ حالانکہ قرآن وسنت
میں ناحق قتل وغارت کرنے کی بہت سخت ترین وعیدات بیان کی گئی ہیں الله پاک قرآنِ
پاک کی سورۃ النساء میں ارشاد فرماتا ہے :
وَ مَنْ
یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَاوَ
غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًاعَظِیمًاُ
(ترجمہ
کنزالایمان) اورجو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ
مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار
رکھا بڑا عذاب۔ (تفسیر صراط الجنان)
مسلمان
کو ناحق قتل کرنے کی مذمت: کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا
شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں ا س کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے، ان
میں سے چار احادیث درج ذیل ہیں:
(1)حضرت انس
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی
جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن
احیاہا، 4/358، الحدیث:6871)
(2)کسی مسلمان
کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ
ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل
پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب
العین، من اسمہ علی، صفحہ 205، الجزء الاول)
(3)حضرت ابو
بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں
تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی:
مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے
پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔
الخ،1/23،الحدیث: 31)
(4)حضرت ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر
ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں
آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی
رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، (3/262،
حدیث: 2620)
مسلمان
کو قتل کرنا کیسا ہے؟ اگر مسلمانوں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب
کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی
سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز
تک جہنم میں رہے گا۔ آیت میں ’’خَالِدًا ‘‘کا لفظ ہے اس کا ایک معنیٰ ہمیشہ ہوتا
ہے اور دوسرا معنیٰ عرصہ دراز ہوتا ہے یہاں دوسرے معنیٰ میں مذکور ہے۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
تنویر مشتاق (درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ گلزار
حبیب سبزہ زار لاہور، پاکستان)
انسان گھل مل
کر رہنے میں انسیت پاتا ہے اور اسی کو پسند کرتا ہے ۔ اور جہاں چند لوگ مل کر رہیں
وہاں ایک دوسرے کی عزت کی رعایت کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے خیالات کو بھی
اخلاقی طریقہ سے بیان کرنے کا ذہن ہونا چاہیے مگر افسوس بد قسمتی سے انسیت کی جگہ
بغضیت کو ہر کوئ پالے ہوئے ہے اور شکاری کی طرح ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے
موقع کی تاک پر بیٹھے ہوۓ ہے ۔
شروع شروع
گالی گلوچ سے آغاز ہوتا ہے اور بات ختم کرنے کی بجائے مقابل کو ختم کرنے کی ہر
کوشش کرتے ہوئے قتل نا حق جیسے گناہ کبیرہ کے گھڑے میں بھی گرتے نظر آتے ہیں
آئیے قارئین
کرام قتل ناحق کے متعلق احادیث کی روشنی میں رہنمائی حاصل کرتے ہیں ۔ سات ہلاک
کرنے والے گناہوں سے بچو۔“ان گناہوں میں سے رسولِ پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےقتْلِ ناحق کو بھی شمار فرمایا ( مسلم،کتاب
الایمان،باب بیان الکبائرواکبرھا،ص60،حدیث:
89 )
دریافت کیا
گیا: سب سے عظیم گناہ کون سا ہے؟ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ارشاد فرمایا: تیرا کسی کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا ہم سَرقرار
دینا حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ سائل نے عرض کی : پھر کون سا ؟ فرمایا: تیرا
اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالنا کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔عرض کی گئی: پھر کون
سا ؟ فرمایا : تیرا اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرنا ۔(مسلم،کتاب الایمان،باب
بیان الکبائرواکبرھا،ص59،حدیث: 86 )
صرف احادیثِ
کثیرہ میں قتل ناحق کی مذمت بیان نہیں کی گئ ہے بلکہ اس کبیرہ گناہ کی مذمت قرآن
کریم میں بھی متعدد جگہ مذکور ہے آئیے
ایک آیت پاک
ملاحظہ کرتے ہیں: وَ
مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ
غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93) ترجمہ:
کنزالایمان : اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ
مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار
رکھا بڑا عذاب۔
معلوم ہوا جان بوجھ کر قتل کرنے والے کا بدلہ
جہنم میں ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ” جس نے کسی ذمی کو ( ناحق
) قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا ۔ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی
راہ سے سونگھی جا سکتی ہے ۔“ ( صحيح البخاري بَابُ إِثْمِ مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا
بِغَيْرِ جُرْمٍ حديث 3166 ط دار طوق النجاة )
سب
سے پہلے قتل کس نے کیا ؟ روایت ہے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا
:’’ جو بھی شخص ناحق مارا جاتا ہے اس کے قتل کا بوجھ حضرت آدم کے بیٹے ، ( قابیل )
جو سب سے پہلا قاتل تھا ، پر بھی ہو گا کیونکہ اس نے سب سے پہلے قتل کو جاری کیا
تھا ۔‘‘ (صحيح البخاري جزء 2 ص 79 ط دار طوق النجاة,)
حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ
قیامت کا زمانہ قریب ہوگا، تو عمل کم ہوجائیں گے بخل پیدا ہوجائے گا، فتنے ظاہر
ہوجائیں گے اور ہرج کی کثرت ہوگی لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ ہرج کیا ہے ؟ آپ نے
فرمایا : قتل، قتل اور شعیب ویونس ولیث اور زہری، کے برادر زادہ بواسطہ زہری،
حمید، حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں۔ صحیح
بخاری :باب ظهور الفتن ،جزء 9ص 48 حديث 7061 ط دار طوق النجاة)
اللہ پاک ہمیں
مسلمانوں کے خون کی حفاظت کرنے والا بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
محمد محسن عطاری (درجہ ثانیہ جامعۃُ المدینہ ہجویری سکیم لاہور ، پاکستان)
اسلام تکریم
انسانیت کا دین ہے۔ یہ اپنے ماننے والوں کو نہ صرف امن و آشتی تحمل و برداشت بقاء
باہمی کی تعلیم دیتا ہے بلکہ ایک دوسرے کے عقاید و نظریات اور مکتب و مشرب کا
احترام بھی سیکھاتا ہے۔
* اسلام میں کسی انسانی جان کی قدر و قیمت اور
حرمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے بغیر کسی وجھ کے ایک فرد کے
قتل کو پوری انسانیت کا خون بہانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ *
اسلام اس قدر
امن و سلامتی کا مذہب ہے اور اسلام کی نظر میں انسان کی جان کی کس قدر اہمیت ہے۔
اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو اسلام کی اصل تعلیمات کو پس پشت ڈال کر
دامن اسلام پر قتل و غارت کے حامی ہونے بد نما دھبا لگاتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی
نصیحت حاصل کرنی چاہیے جو مسلمان کہلا کر بے قصور لوگوں کو بم دھماکوں کو خود کش
حملوں کے ذریعے موت کی نیند سلا کر یہ گمان کرتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کی بہت بڑی
خدمت سرانجام دے دی۔
* سورۃ
النساء* آیت نمبر 93 وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا
فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ
اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93) ترجمہ: کنزالایمان اور جو کوئی مسلمان
کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس
پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔ ""
*قتل
ناحق کرنے کی مذمت * :
1- حضرت ابو
ہریرە رضی
الله تعالٰی عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کسی مومن کو قتل کرنے میں اگر
زمین و آسمان والے شریک ہو جائیں تو الله تعالٰی ان سب کو جہنم میں دھکیل دے گا ۔ (
ترمذی، کتاب الدیات ، باب الحکم فی الدماء ، 100/3 ، الحدیث : 1603 )
2- حضرت براء
بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے: رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی کے
نزدیک دنیا کا ختم ہوجانا ایک مسلمان کےظلما قتل سے زیادہ سہل ہے ۔ ( ابن ماجہ ،
کتاب الدیات ، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلما ، 261/3 ، الحدیث، 2619 )
3- حضرت انس
رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے۔ نبی پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ""بڑے کبیرہ گناھوں میں
سے ایک کسی جان کو (ناحق) قتل کرنا ہے۔ ( بخاری، کتاب الدیات، باب قول الله تعالٰی
، ومن احیاھا 358/4 ، الحدیث، 2871 )
4- حضرت ابو
ہریرە رضی
اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے الله کے آخری نبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا "" جس نے کسی مومن کے
قتل پر ایک حرفی جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن الله کی بارگاہ میں اس حال میں
آے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا 'یہ الله کی رحمت سے مایوس ہے '۔
( ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلما ، 242/3 ، الحدیث، 2620)
مسلمان کو قتل کرنا کیسا : اگر
مسلمان کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے ایسا شخص ہمیشہ
جہنم میں رہے گا۔ اگر قتل کو حرام ہی سمجھا پھر یہ قتل کرنا گناہ کبیرہ ہے ایسا
شخص مدت دراز تک جہنم میں رہے گا۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
محمد محسن رضا عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃُ
المدینہ قصور لاہور، پاکستان)
آج کل معاشرہ
تباہی کے گڑھے میں پھنسلتا چلا جارہاہے ایک دوسرے کو قتل کرنا انٹرنیشنل پرابلم بن
چکا ہےآئے دن نیوز پر خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ بھائی نےبھائی کو قتل کر دیا ہے
وغیرہ وغیرہ بس معاشرے میں لوگ ایک دوسرے کو ناحق قتل کرنے میں دھلے ہوئے ہیں جبکہ
ہمارے اسلام میں ناحق قتل کرنے کے بارے میں بہت مذمت بیان کی گئی ہے۔ قرآن مجید
میں رب العالمین ارشاد فرماتا ہے
وَ مَنْ
یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ
غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93) (پ
5،النساء ،93) ترجمه كنزالايمان : اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو
اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت
کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔
اس کے علاؤہ
کثیر احادیث مبارکہ میں قتل ناحق کی مذمت بیان کی گئی ہے
1: نبی کریم
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و
آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ
جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205، الجزء الاول)
2: رسولِ اکرم
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان
اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں
: میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے
ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من
المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1 / 23، الحدیث: 31)
3: حضور پر
نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی
مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ
میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ
کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3
/ 262، الحدیث: 2620)
غور کریں جب
ایک حرف جتنی مدد کرنے پر رب کی رحمت سے مایوسی کا پٹہ گلے میں ڈال دیا جائے گا تو
جو قتل ہی کر ڈالے ؟
4: تاجدارِ
رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے
کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب
قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 / 358، الحدیث: 6871)
افسوس کہ آج
کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینے کی
دھمکی دی جاتی ہے
انسانیت کا
نام ہی مٹتا چلا جا رہا ہے جبکہ اس معاملے میں رب العالمین اور رحمۃ للعالمین
عزوجل و صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے فرمان عبرت بالکل واضح ہیں معاشرے میں اس گندے
جراثیم کی بنیادی وجہ اگر دیکھا جائے تو لا علمی ہے اور دین سے دوری ہے اگر ہم
اپنی نسلوں کو علم دین کے شعلوں کا پروانہ وار بنا دیں تو امید ہے کہ معاشرہ گلاب
کی خوشبوؤں سے مہک اُٹھے گا اسکے ساتھ ساتھ اگر ہم دعوت اسلامی کا دینی ماحول
اپنالیں تو دل نفرتوں کے کیچڑ سے نکل کر محبتوں کی بہار بن جائے گے
اللّٰہ پاک
ہمیں دین اسلام کے قوانین پر عمل پیرا ہو کر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
کسی کا ناحق
قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے جس کا ذکر بہت سی احادیث مبارکہ میں ہوا ہے۔ ناحق قتل کرنے
کے بارے میں کچھ احادیث درج ذیل ہیں:
1:لا ترجعوا بعدي كفاره
يضرب بعضكم رقاب بعض(صحیح مسلم ج 1ص58) ترجمہ: میرے بعد کفر کی طرف نہ
لوٹ جانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردنیں مارنا شروع کر دیں۔ اور رسول اکرم صلی
اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
2:لا يَزَالُ الْعَبْدُ فِي
فَحَةٍ مِنْ دِينِهِ مَا لَمْ يَصُبُ دَمَّا حَرَامًا (صحیح مسلم ج
ا ص 58) بندہ ہمیشہ اپنے دین کی وسعت میں ہوتا ہے جب تک حرام خون تک نہ پہنچے۔
نبی اکرم صلی
اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے:
3:اولُ مَا يَقْضِي بَيْنَ
بدر النَّاسِ يَوْمَ القِيَامَةِ فِي الدِّمَاءِ -( صحیح
بخاری ج 2 ص 1014) قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون (قتل) کا فیصلہ ہو
گا۔
آپ کا ارشاد
گرامی ہے:
4: لَقَتْلُ مُؤْمِنَ
أَعْظَمُ عِنْداللهِ مِن زَوَالِ الدُّنْيَا( .السنن
الکبریٰ للبیہقی ج 8ص (22) کسی مومن کا قتل اللہ تعالیٰ کے ہاں دنیا کے زوال سے
بھی بڑا (جرم) ہے۔
رسول اکرم صلی
اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :
5:لا تَقْتُلُ نَفْسَ
ظُلْمًا إِلَّا كَانَ علَى ابْنِ آدَمَ الأَوَّلُ كُفْلَ مِنْ دَمِهَا لِأَنَّهُ
أُولُ مِن سَن القَتْلِ (صحیح مسلم ج2 ص 60) جب کوئی نفس ظلم کے طور پر قتل
ہوتاتواس کا گناہ حضرت آدم علیہ السلام کےپہلے بیٹے (قابیل) پر ہوتا ہے، وہ اس کے
خون کا ذمہ دار ہے، کیونکہ اس نےسب سے پہلے قتل کا طریقہ جاری کیا۔
حضرت معاویہ
رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے
فرمایا:
6: كُلِّ ذَنْب عَسَى
اللَّهُ أَن يغفره الا الرجل. يَمُوتُ كَافِرًا او الرَّجُلُ يَقْتُلُ مُؤْمِنًا
متعمدا،(مسند
امام احمد بن حنبل ج 4 ص 99) قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ کو بخش دے ، مگر جو
شخص حالت کفر میں مر جائے یا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
مسعود احمد (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم
مارکیٹ لاہور، پاکستان)
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو کسی کو نا حق قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے بہت زیادہ افسوس ہے کہ اج کل
قتل کرنا بڑا معمولی کام ہو گیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا غنڈہ
گردی دہشت گردی ڈکیتی خاندانی لڑائ تعقب والی لڑائیاں عام اور مسلمان کے خون کو
پانی کی طرح بہایا جاتا ہے ہیں گروپ اورجتھے اورعسکری ونگ بنے ہوۓہیں
جن کا کام ہی قتل و غارت گری کرنا ہے۔
وَ مَنْ
یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ
غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93) ترجمہ.
. کنزالایمان : اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے
کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے
تیار رکھا بڑا عذاب۔
ترجمہ کنز
الایمان: اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے عرصہ
دراز تک اس میں رہے گا اور اللہاللہ تعالی نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور
اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
کسی مسلمان کو
جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر حدیث میں اس کی بہت مذمت
بیان کی گئی ہے :
حدیث
نمبر 1: حضرت
انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے تاجدار مدینہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو ناحق قتل کرنا ہے ۔ (صحیح
بخاری شریف کتاب الدیات باب قول اللہ تعالی جلد 4. 358 حدیث نمبر 6871)
حدیث
نمبر 2 : کسی
مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہوگا ۔ حضرت ابوبکر
صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
اگر زمین و اسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالی سب کو
اوندے منہ جہنم میں ڈال دے گا ۔ (معجم الصغیر باب العین من اسمۀ علی
صفحہ نمبر205الجزءالاول )
حدیث
نمبر 3: حضرت
ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں
سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض
کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل
کرنے پرمُصِر تھا(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا
جلد،1 23 الحدیث31)
حضرت ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر
ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں
آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی
رحمت سے مایوس ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 /
262، الحدیث: 2620)
اللہ تعالی سے
دعا ہے کہ قتل نا حق کی نحوست سے محفوظ فرمائے اور ہمیں دوسرے لوگوں کو اس سے
بچانے کی توفیق عطا فرمائے
امین امین ثم امین جزاک اللہ خیرا
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
محمد عبداللہ (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ گلزار حبیب سبزہ زار لاہور،
پاکستان)
1۔ ایک مومن کا قتل پوری
دنیا کی تباہی سے بڑا گناہ ہے: اپنے گھنائونے اور ناپاک مقاصد کے حصول
کے لیے عام شہریوں اور پُر اَمن انسانوں کو بے دریغ قتل کرنے والوں کا دین اِسلام
سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ دین جو حیوانات و نباتات تک کے حقوق کا خیال رکھتا ہے وہ
اَولادِ آدم کے قتل عام کی اِجازت کیسے دے سکتا ہے! اِسلام میں ایک مومن کی جان کی
حرمت کا اندازہ یہاں سے لگالیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک
مومن کے قتل کو پوری دنیا کے تباہ ہونے سے بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ اِس حوالے سے چند
احادیث ملاحظہ فرمائیں:
1. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ
عَمْرٍو رضی اللہ عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ:
لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَی اللهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ ’’حضرت
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا
ناپید (اور تباہ) ہو جانا ہلکا (واقعہ) ہے۔‘‘(ترمذي، السنن، کتاب الديات، باب ما
جاء في تشديد قتل المؤمن، 4: 16)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری
کائنات کا ختم ہو جانا بھی کسی شخص کے قتلِ ناحق سے ہلکا ہے۔‘‘(ابن أبي الدنيا،
الأهوال: 190، رقم: 183)
حضرت عبد اللہ
بن عمرو رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا ناپید (اور
تباہ) ہو جانا ہلکا (واقعہ) ہے۔‘‘(ترمذي، السنن، کتاب الديات، باب ما جاء في تشديد
قتل المؤمن، 4: 16)
حضرت ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر
ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں
آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی
رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 / 262، الحدیث: 2620)
حضرت ابو بکرہ
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں
تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی:
مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے
پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1 / 23، الحدیث: 31)
حضرت انس
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی
جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن
احیاہا، 4 / 358، الحدیث: 6871)
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
ضمیر احمدعطاری (درجۂ سادسہ مرکزی جامعۃُ
المدینہ فیضانِ مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور ، پاکستان)
اسلام دینِ فطرت ہے،
مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنا خلافِ فطرتِ سلیمہ ہے لہٰذا اسلام نے قتلِ
ناحق کی شدید مذمت کی ہے چنانچہ الله پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَمَنْ
یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا
وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَلَعَنَهٗ وَاَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳)﴾ ترجمۂ
کنزُالایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ
مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیے تیار
رکھا بڑا عذاب۔(پ5، النسآء: 93)
قراٰنِ مجید کے علاوہ کئی
فرامینِ مصطفےٰ قتلِ ناحق کی مذمت پر دلالت کرتے ہیں، ان میں سے 4 ملاحظہ کیجئے:
(1)دنیا کے مٹ جانے سے بڑا سانحہ: اﷲ پاک کے نزدیک پوری کائنات کا ختم ہو
جانا بھی کسی شخص کے قتلِ ناحق سے ہلکا ہے۔(موسوعہ ابن ابی الدنیا، 6/234، حدیث:
231)
(2)عبادت قبول
نہ ہو: جس
شخص نے کسی مؤمن کو ظلماً ناحق قتل کیا تو اﷲ پاک اس کی کوئی نفلی اور فرض عبادت
قبول نہیں فرمائے گا۔(ابوداؤد،4/139، حدیث: 4270)
(3)مقتول قاتل
کو گریبان سے پکڑے گا: بارگاہِ الٰہی میں مقتول اپنے قاتل کو
پکڑے ہوئے حاضر ہوگا جبکہ اس کی گردن کی
رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا، وہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! اس سے پوچھ،
اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ پاک قاتل سے دریافت فرمائے گا: تُو نے اسے کیوں قتل
کیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے اسے فلاں کی عزّت کے لئے قتل کیا، اسے کہا جائے گا:
عزّت تو اللہ ہی کے لئے ہے۔(معجم اوسط،1/ 224، حدیث:766)
(4)سب سے پہلے
قتلِ نا حق کا فیصلہ: قیامت کے دن سب سے پہلے خونِ ناحق کے بارے میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا
جائے گا۔(مسلم، ص711، حدیث: 4381)
مفتی احمد یار خان نعیمی
رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: خیال رہے کہ عبادات میں پہلے نماز کا حساب ہوگا اور
حقوقُ العباد میں پہلے قتل و خون کا یا نیکیوں میں پہلے نماز کا حساب ہے اور
گناہوں میں پہلے قتل کا۔(مراٰۃ المناجیح،2/306، 307)
ہمارا معاشرہ جہاں دیگر
بہت سی برائیوں کی لپیٹ میں ہے وہیں قتلِ ناحق بھی معاشرے میں بڑھتا جا رہا ہے۔
ذرا سی بات پر جھگڑا کیا ہوا اور نادان فوراً ہی قتل پر اُتر آتے ہیں، وراثت کی
تقسیم پر جھگڑا، بچوں کی لڑائی پر جھگڑا، جانور دوسرے کی زمین میں کچھ نقصان کر دے
تو جھگڑا، کسی کی کار یا موٹرسائیکل سے ٹکر ہو جائے اگرچہ نقصان کچھ بھی نہ ہو پھر
بھی جھگڑا، بعض اوقات اس جھگڑے کی انتہا قتل ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ زمانۂ
جاہلیت واپس آ چکا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم
اسلامی تعلیمات پر عمل کریں، اپنے اندر صبر، حوصلہ اور برداشت کا جذبہ پیدا کریں، خوفِ خدا، عشقِ مصطفےٰ اور جہنم کا ڈر اگر ہر دل میں
پیدا ہوجائے تو معاشرے کو اس بُرے مرض
سے نکلنے میں دیر نہیں لگے گی۔
اللہ پاک ہمارے معاشرے سے
اس کبیرہ گناہ کا خاتمہ فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
محمد مدثر رضوی عطاری (درجۂ خامسہ جامعۃ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
علمائے کرام
آپ علیہ السلام کا نسب بیان کرتے ہوئے یوں بیان فرماتے ہیں الیاس بن فنحاص بن
العیزارین ہارون . آپ علیہ السلام کو الیاس نشبی بھی کہتے ہیں اور بعض نے یوں بھی
کہا الیاس بن العازرین العیزار بن ہارون بن عمران. بھی کہتے ہیں حضرت الیاس علیہ
السلام جب تشریف. لائے تو اس وقت لوگ ایک بعل نامی بت کی پوجا کرتے تھے تو آپ علیہ
السلام نے ان لوگوں کو بت کی پوجا کرنے سے منع فرمایا کہ وہ بت کی پوجا چھوڑ دیں،
لیکن آپ علیہ السلام نے بہت بڑی قربانی دی۔ آئیے آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی صفات
پڑھتے ہیں۔
حضرت
الیاس علیہ السلام رسولوں میں سے ہیں: اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد
فرماتا ہے۔ (صفت
آیت 123) ترجمۂ کنزالایمان: کنز العرفان : اور بیشک الیاس ضرور رسولوں میں سے ہے۔
تفسیر
: حضرت
الیاس علیہ الصلوة والسلام حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور آپ
علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام کے بہت عرصہ بعد بعلبک اور ان کے اطراف کے
لوگوں کی طرف مبعوث ہوئے
(2)
الله کے چنے ہوئے بندے تھے: اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا
ہے ! الأَعِبَادَ
اللهِ المُخلصين
(صفت آیت 128) ترجمة كنز العرفان مگر الله کے چنے ہوئے بندے ۔
تفسیر:اس
قوم میں سے برگزیدہ بندے جو حضرت الیاس علیہ السلام پر ایمان لائے انہوں نے عذاب
سے نجات پائی
(3)
آپ علیہ السلام کی ثنا باقی رکھی: الله تعالی قرآن پاک ارشاد فرماتا ہے :
وتَرَكْنَا
عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ ترجمہ کنز العرفان :
ہم نے پچھلوں
میں اسکی ثناء باقی رکھی ۔ ( صفت آیت (139)
(4)
آپ علیہ السلام پر سلامتی ہو: اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا
: ترجمة كنز العرفان: الیاس پر سلام ہو. (صفت آیت 130)
تفسیر:
اس
آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت الیاس علیہ السلام پر سلام . م
ہو اور دوسرا معنی یہ ہے کہ قیامت تک بندے ان کے حق میں دعا کرتے اور ان کی تعریف
کرتے رہیں گے اعلی درجہ کے کامل ایمان والے ہندوں میں سے اللہ تعالٰی قرآن پاک میں
ارشاد فرماتا ہے : بے شک وہ ہمارے اعلی درجہ کے
کامل الایمان والے بندوں میں سے ہے۔
چار
انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام ابھی تک زندہ ہیں: چار انبیاء
کرام علیہم انہیں میں سے حضرت الیاس علیہ السلام بھی ہے۔
(1) حضرت
ادریس علیہ السلام (2) حضرت عیسی علیہ سلام یہ دونوں انبیاء کرام میں ہیں۔
(3) حضرت. خضر علیہ السلام سمندر پر اور 4) حضرت الیاس علیہ السلام خشکی پر منتظم۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
عمران یونس (درجۂ رابعہ جامعۃُ المدینہ
شیرانوالہ گیٹ لاہور، پاکستان)
اللہ پاک نے انسانوں
کی ہدایت کے لیے انبیاء اور مرسلین کو دنیا میں مبعوث فرمایا اور انہوں نے انسانوں
کو تبلیغ فرمائی ان رسولوں میں سے ایک حضرت الیاس علیہ السلام بھی ہیں۔ ترجمہ کنز
الایمان : اور بے شک حضرت الیاس علیہ السلام رسولوں میں سے تھے ۔ (بحوالہ سورت
صافات آیت 123)
الیاس بن
یاسین بن شیر فخاص بن ایفرار بن ہارون بن عمران یعنی الیاس علیہ السلام حضرت ہارون
علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے وہ ہارون جو حضرت موسی علیہ السلام کے بھائی تھے
اور الیاس حضرت موسی علیہ السلام کے بعد نبی بن کر تشریف لائے تھے یہی قول مشہور
اور یہی جمہور کا مذہب ہے ۔ (حوالہ تفسیر روح البیان مکتبہ اویسیہ رضویہ)
اور حضرت
الیاس علیہ السلام بعلبک اور ان کے اطراف کے لوگوں کی طرف مبعوث ہوئے یاد رہے کہ
چار پیغمبر ابھی تک زندہ ہیں دو اسمان میں حضرت ادریس علیہ السلام اور حضرت عیسی
علیہ السلام اور دو زمین پر حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام حضرت
خضر علیہ السلام سمندر کی طرف اور حضرت الیاس علیہ السلام خشکی پر منتظم ہے قیامت
ائے گی تو اس وقت وفات پائیں گے اور بعض بزرگوں کی ان سے ملاقات بھی ہوئی ہے۔ (
حوالہ مکتبۃ المدینہ صراط الجنان ایت نمبر 123)
ترجمہ کنز
الایمان : اور ہم نے بعد والوں میں اس کی تعریف باقی رکھی الیاس پر سلام ہو بے شک
ہم نیکی کرنے والوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں بے شک وہ ہمارے اعلی درجے کے کامل
ایمان والے بندوں میں ہے
اسلام ہو
الیاسین بھی الیاس کی ایک لغت ہے جیسا سینا اور سینین دونوں طور وسینا نام ہیں ۔ ایسے
ہی الیاس اور الیاسین ایک ہی ذات کے نام ہیں ایک معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی کی طرف
سے حضرت الیاس علیہ السلام پر سلام ہو اور دوسرا معنی یہ ہے کہ قیامت تک بندے ان
کے حق میں دعا کرتے اور ان کی تعریف بیان کرتے رہے ہیں۔ ( حوالہ صراط الجنان 129
ایت132)
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
محمد شاہزیب سلیم عطاری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم
سادھوکی لاہور،پاکستان)
اللہ عزوجل نے
وقتاً فوقتاً انبیاء کرام علیہم السلام کو لوگوں کی طرف تبلیغ کے لیے بھیجا ان میں
سے حضرت الیاس علیہ السلام بھی ہیں ۔ جب بنی اسرائیل نے اللہ عزوجل کی عبادت چھوڑ
کر بعل نامی بت کی پوجا کرنی شروع کر دی اور جہاں وہ عبادت کرتے تھے اس کا نام "بک"
تھا۔ تو اللہ عز و جل نے آپ علیہ السلام کو بعلبک قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔
آپ علیہ السلام کا نام مبارک الیاس ہے اور آپ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں
سے ہیں۔ اور قرآن پاک میں آپ کا نام " ال یاسین - بھی مذکو رہے۔ اللہ عزوجل
نے حضرت الیاس علیہ السلام کے کچھ اوصاف قرآن مجید میں بھی ذکر فرمائے ہیں اور ان
میں سے چند آپ بھی پڑھئیے اور جھومئے۔
(1) قرب خاص کے لائق : اللہ تعالیٰ
قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے وَ زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى
وَ اِلْیَاسَؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ ترجمۂ کنز الایمان : اور زکریا
اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو یہ سب ہمارے قرب کے لائق ہیں۔ ،(پ 7 آیت 85 سورت
الانعام)
(2)
حضرت الیاس علیہ السلام پیغمبر: اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا
ہے وَ
اِنَّ اِلْیَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ
ترجمۂ کنز الایمان : اور بے شک الیاس پیغمبروں
سے ہے
(3)
اعلی درجے کے کامل ایمان والے : اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا
ہے سَلٰمٌ
عَلٰۤى اِلْ یَاسِیْنَ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا
الْمُؤْمِنِیْنَ ترجمۂ
کنز الایمان: سلام ہو الیاس پر۔ بے شک ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔ بے شک وہ
ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہے۔ (پ 23 آیت 130 تا 132 سورۃ
الصافات)
(4) حضرت الیاس علیہ السلام زندہ : اللہ
عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے وَ اِنَّ اِلْیَاسَ لَمِنَ
الْمُرْسَلِیْنَ ترجمۂ
کنز الایمان: اور بے شک الیاس پیغمبروں سے ہے۔
اس آیت کے تحت
تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ یاد رہے چار پیغمبر ابھی زندہ ہیں ان میں سے حضرت
الیاس علیہ السلام بھی ہیں ۔ یہ خشکی پر منتظم ہیں ۔ (پ23 آیت 123 سورت الصافات
تفسیر صراط الجنان)
(5) قیامت تک ان کے حق میں دعا: سَلٰمٌ
عَلٰۤى اِلْ یَاسِیْنَ: ترجمہ کنز الایمان : سلام ہو الیاس پر ۔ اس کے تحت
تفسیر صراط الجنان میں ہے سلام سے مراد ایک معنی یہ ہیں کہ قیامت تک بندے ان کے حق
میں دعا کرتے اور ان کی تعریف کرتے رہیں گے (پ 23 آیت 130 سورة الصافات تفسیر صراط
الجنان)
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
بہت سے انبیاء
کرام علیہم السلام کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے بعض کا اشارۃ اور بعض کا صراحتا ،
اور حضرت الیاس علیہ السلام ان انبیاء کرام میں سے ہیں کہ جن کا ذکر صراحتا قرآن
پاک میں موجود ہے ۔
حضرت
الیاس علیہ السلام کا نام و نسب:
آپ علیہ
السلام کا نام الیاس ہے اور آپ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد سے ہیں تفسیر
نعیمی میں آپ کا نسب یوں بیان کیا ہے : الیاس بن سنان بن فخاض بن عزار بن ہارون بن
عمران علیہم السلام ۔ بعض نے آپ کا نام ادریس لکھا ہے لیکن یہ غلط ہے اس لیے کہ آپ
علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام اور نوح علیہ السلام کی ذریت میں سے ہیں اور
ادریس علیہ السلام نوح علیہ السلام کے آباء میں سے ہیں۔ [تفسیر نعیمی 7/655، مکتبہ
اسلامیہ لاہور] قرآن پاک میں آپ کا نام ال یاسین بھی مذکور ہے " سَلٰمٌ
عَلٰۤی اِلْ یَاسِیۡنَ ﴿130﴾"
الیاس پر سلام ہو۔
حضرت
الیاس علیہ السلام کی قوم اور ان کو تبلیغ :
اللہ عزوجل نے
الیاس علیہ السلام کو ایک ایسی قوم کی طرف مبعوث فرمایا جو اللہ عزوجل کی عبادت چھوڑ
کر بتوں کی پوجا کرتی تھی اور جس بت کی وہ پوجا کرتے تھے اس کا نام
"بعل" تھا وہ بت سونے کا بنا ہوا تھا اس کی لمبائی 20 گز تھی ، اور اس
کے چار منہ تھے چار سو خدمت گزار اس بت کی خدمت کیا کرتے تھے ۔[تفسیر صراط الجنان 8/342،
مکتبۃ المدینہ کراچی] آپ علیہ السلام نے ان سے فرمایا : اے لوگو کیا تمہیں اللہ
عزوجل کا خوف نہیں اور تم اللہ عزوجل کے علاوہ معبود کی عبادت کرنے پر اس کے عذاب
سے ڈرتے نہیں کیا تم بعل کی پوجا کرتے ہو اور اس سے بھلائیاں طلب کرتے ہو جبکہ اس
رب کی عبادت کو ترک کرتے ہو جو بہترین خالق ہے اور وہ تمہارا رب ہے اور تمہارے اگلے
باپ دادا کا بھی رب ہے ۔[صراط الجنان 8/342، مکتبۃ المدینہ کراچی ] قرآن پاک کی
سورۃ الصافات میں اس کو یوں بیان کیا گیا ہے " اِذْ قَالَ
لِقَوْمِہٖۤ اَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿124﴾ اَتَدْعُوۡنَ بَعْلًا وَّ تَذَرُوۡنَ اَحْسَنَ
الْخٰلِقِیۡنَ ﴿125﴾ۙ اللہَ رَبَّکُمْ وَ رَبَّ اٰبَآئِکُمُ الْاَوَّلِیۡنَ ﴿126﴾" جب
اس نے اپنی قوم سے فرمایا کیا تم ڈرتے نہیں کیا بعل کو پوجتے ہو اور چھوڑتے ہو سب سے اچھا پیدا کرنے والے اللہ کو جو رب
ہے تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادا کا ۔
آپ
کے اوصاف:
قرآن پاک میں آپ کے جو اوصاف بیان فرمائے ہیں وہ یہ ہیں :
1- آپ انتہائی اعلی درجے کے کامل الایمان بندوں میں سے
ہیں۔فرمان باری تعالی ہے :" اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیۡنَ
﴿132﴾" [الصافات:132]بیشک وہ ہمارے اعلٰی درجہ
کے کامل الایمان بندوں میں ہے۔
2- آپ مرسلین میں سے ہیں فرمان باری تعالی ہے:"
وَ اِنَّ اِلْیَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیۡنَ ﴿123﴾"[الصافات:123] اور بیشک الیاس پیغمبروں سے ہے ۔
3- نیکی کرنے والے ہیں فرمان باری تعالی ہے :" اِنَّا
کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیۡنَ ﴿131﴾"[الصافات:131]بیشک ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو
آپ
کی حیات:
چار پیغمبر ابھی تک حیات ہیں دو آسمان میں 1-حضرت ادریس علیہ السلام 2- حضرت
عیسی علیہ السلام اور زمین پر 1-حضرت خضر علیہ السلام 2- حضرت الیاس علیہ السلام ۔
حضرت خضر علیہ السلام سمندر پر اور الیاس علیہ السلام خشکی پر منتظم ہیں ۔ [تفسیر
صراط الجنان 8/341، مکتبۃ المدینہ کراچی ]
اللہ عزوجل ان کے فیضان سے ہمیں بھی حصہ عطا فرمائے ۔ آمین۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔