اَسماءُ الحسنیٰ سے مراد اللہ پاک کے وہ نام ہیں، جن سے اللہ پاک کو پکارنے کا حکم دیا گیا ہے،چنانچہ پارہ 9، الاعراف: 180 میں ہے:وَلِلہِ الْاَسماءُالحسنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا۔ترجمہ کنز الایمان:اور اللہ ہی کے ہیں، بہت اچھے نام تو اسے ان سے پکارو۔اَسماءُ الحسنیٰ کے بارے میں ہمارے پیارے آقا،مدینے والے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:اللہ پاک کے نناوے (99) اسمائے حسنیٰ ہیں،جس نے یہ شمار کر لئے(یعنی یاد کر لئے) وہ جنت میں داخل ہوگا۔(بخاری، کتاب التوحید، باب ان اللہ مثۃ اسم الاواحد،4/537، حدیث7392)اللہ پاک کے ذاتی و صفاتی نام قرآنِ کریم کی مختلف سورتوں میں موجود ہیں، اسمائے حسنیٰ ہیں تو بہت زیادہ، مگر 99 زیادہ مشہور ہیں اور نیک و جائز کاموں کے لئے بھی بطورِ اوراد و وظائف استعمال ہوتے ہیں اور ان کے فضائل بھی بے شمار ہیں، لیکن قرآنِ کریم فرقانِ حمید میں کچھ اَسماءُ الحسنیٰ ایسے ہیں،جو مشہور 99 اَسماءُ الحسنیٰ کی نسبت زیادہ مشہور و معروف ہیں، ان میں سے 10 اَسماءُ الحسنیٰ یہ ہیں:1۔رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ:تمام جہانوں کا پالنے والا/ پروردگار۔ (الفاتحہ، آیت 01)عَلیٰ کُلِّ شَیٔءٍ قَدِیْرٌ:ہر چیز پر قدرت رکھنے والا۔ (پ 1، البقرہ: 20) مُحِیْطٌ بِالْکٰفِرِیْنَ:کافروں کو گھیرے ہوئے/ گھیرنے والا۔ (پ1، البقرہ 19)بَصِیْرٌ بِمَا یَعْمَلْوُنَ:دیکھنے والا اس کو جو وہ عمل کرتے ہیں۔(پ1، البقرہ 96)بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ:نیا پیدا کرنے والا آسمان و زمین۔(پ1، البقرہ:117)6۔بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ:لوگوں پر بہت مہربان، رحم والا۔ 2، البقرہ:143)7۔لَا یُحِبُّ الْفَسَادَہ:فساد کو ناپسند کرنے والا/کرتا ہے۔2، البقرہ: 205)8۔یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ:پسند رکھتا ہے بہت توبہ کرنے والوں اور پسند رکھتا ہے بہت ستھروں کو۔ 2، البقرۃ:222) 9۔عَلِیْمٌ بِالظّٰلِمِیْنَ:ظالموں کو خوب جانتا ہے/جاننے والا۔2، البقرہ:246)10۔اَلْعلِیُّ الْعَظِیْمُ:بلند شان والا، عظمت والا۔)پ03،البقرہ255)اللہ پاک کو پکارنے کے لئے اور بھی بہت سے ذاتی و صفاتی نام ہیں اور قرآنِ کریم میں مذکور ہیں، لہذا اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ قرآنِ پاک پڑھئے اور اس میں دی گئی تعلیماتِ دینیہ و اسلامیہ کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کیجیئے، اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


ربّ کریم کے بہت سے نام ہیں اور سب نام اچھے ہیں۔اللہ پاک کے ننانوے نام معروف ہیں جبکہ حقیقتاً اس سے بھی زیادہ نام ہیں جن کے معانی بہت پاکیزہ ہیں ۔قرآنِ پاک میں جن آیاتِ مبارکہ میں ربّ کریم نے اپنے اَسماءُالحسنٰی ذکر فرمائے، ان میں سے کچھ آیات یہ ہیں: 1۔اَللہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ اَلْحَیُّ الْقَیُّوۡمُ ۬ۚ (پ 3، الِ عمران: 2)ہُوَ اللہُ الَّذِیۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚاَلْمَلِکُ الْقُدُّوۡسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیۡمِنُ الْعَزِیۡزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ ؕسُبْحٰنَ اللہِ عَمَّا یُشْرِکُوۡنَ 0ہُوَ اللہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی ؕ یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ۚوَ ہُوَ الْعَزِیۡزُ الْحَکِیۡمُ 0٪(پ 28،الحشر،: 23 - 24)قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ0 ۚاَللہُ الصَّمَدُ ۚ0 (پ 30، الاخلاص:1،2)قُلِ ادْعُوا اللہَ اَوِادْعُوا الرَّحْمٰنَ ؕ اَیًّا مَّا تَدْعُوۡا فَلَہُ الۡاَسْمَآءُ الْحُسۡنٰی ۚ (پ15، بنی اسرائیل: 110)وَ ہُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِیۡمُ 0(پ 22، سبا: 26)مذکورہ آیاتِ مقدسہ میں موجود کچھ اَسمائے مبارکہ اور ان کے معانی:1۔اللہ:اس لفظ کے کئی معانی ہیں۔(1)وہی مخلوق پر قدرت رکھنے والا ہے۔(2)وہی کچھ ہوتا ہے جو وہ ارادہ کرتا ہے۔(3)وہی ایسا غالب ہے جس پر غلبہ نہ کیا جائے۔2۔اَلْمَلِک: (بادشاہ)یعنی وہی عزت دیتا ہے جس کو چاہے،وہی ذلت دیتا ہے جس کو چاہے،وہی مالک بنانے والااور بادشاہی دینے والا ہے۔3۔ اَلْقُدُّوْس:(پاکیزہ) (پاک ہر عیب سے)یعنی وہی عیبوں سے بَری ہے،ہر وصف کا کمال صرف اسی کے لئے ہے۔4۔اَلسَّلَام:(سلامتی والا،عیبوں سے بری،سلامتی دینے والا)یعنی جو اس کی اِطاعت کرے گا،سلامت رہے گا۔5۔اَلْمُؤْمِن: (امن دینے والا)یعنی ہدایت اور ایمان اسی کی طرف سے ہے،تصدیق و تکذیب اسی کے ساتھ ہے۔6۔اَلْمُھَیْمِن:(نگہبان،محافظ،خوف سے امن دینے والا)۔یہ نام کمال میں سے ہے،فضل کے تمام اوصاف کو جامع ہے اور نقص کے تمام اوصاف کے مخالف ہے،گویا کمال وہ ہے جس پر زوال نہیں ہے۔ 7۔ اَلْعَزِیْز:(غالب، عزت والا)یعنی وہ جو مغلوب نہ کیا جائے ، بھاگ کر آنے والوں کے لئے جائے پناہ ہے، ارادت مندوں کا مقصود وہی ہے۔8۔اَلْجَبَّار:(بڑا زبردست)وہ ہے جو عذاب دینے پر آئے تو شفقت نہ کرے،بخشش کرتے کمی سے نہ ڈرے، جب دینے پر آئے تو وافر دے۔9۔اَلْمُتَکَبِّر:(بڑائی والا،کبریائی والا) وہ ہے جس کے آگے کسی شے کی کوئی مقدار نہیں ہے،جس کو کسی عقاب و سزا کا ڈر نہیں ہے۔(شعب الایمان،1/ 118،116)10۔اَلْخَالِق:(پیدا کرنے والا)کسی بھی چیز کی اختراع کے ساتھ مختص ہے۔ (شعب الایمان، 1/123) ۔ان اَسماءُ الحسنیٰ کی بے شمار برکتیں اور ان کو یاد کرنے کی بڑی فضیلت ہے، چنانچہ نبی ِکریمصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک کے 99 نام ہیں، ایک سو سے ایک کم، جو انہیں یاد کرے اسے جنت میں داخلہ نصیب ہو گا۔ہمیں چاہئے کہ ہم بھی ان پیارے ناموں کو یاد کرکے ان کی برکتیں پائیں۔اللہ پاک ہمیں اپنے ناموں کی برکتیں نصیب فرمائے۔اٰمین بجاہِ النبی الکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


قرآنِ کریم میں ارشادِ باری ہے:وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا ۪(پ ٩ الاعراف 180)ترجمۂ کنز العرفان: اور بہت اچھے نام اللہ ہی کے ہیں تو اسے ان ناموں سے پکارو۔اللہ پاک معبودِ حقیقی ہے اس کے سوا کوئی خدا نہیں اوروہ حقیقتاً واحد ہے اور اَسماء و صِفات کی کثرت اس کی ذات کو تعبیر کرنے کے مختلف ذرائع ہیں۔ یہ نہیں کہ صفات کی کثرت ذات کی کثرت پر دلالت کرے جیسے کسی آدمی کو کہیں کہ یہ عالم بھی ہے اور سخی بھی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسے عالم بھی کہہ سکتے ہیں اور سخی بھی، نہ یہ کہ دو نام رکھنے سے وہ ایک سے دو آدمی بن گئے۔اللہ پاک کے علاوہ کسی اور کو رحمٰن کہنا جائز نہیں جبکہ رحیم کہا جاسکتا ہے۔(تفسیر صراط الجنان، طہٰ، تحت الآیۃ ٨)خدائے پاک کا ذاتی نام اللہ ہے، اس کو اسمِ ذات بھی کہتے ہیں اور لفظ اللہ کے سوا اور نام جو اس کی کسی صفت کو ظاہر کرے اسے صفاتی نام یا اسمائے صفات کہتے ہیں۔ (فرض علوم سیکھیے صفحہ 24)قرآنِ پاک میں موجود اللہ کریم کے اَسماءُ الحسنیٰ میں سے 10 نام درج ذیل ہیں:(1) اللہ (پ1 الفاتحہ1)اللہ اس ذاتِ اعلیٰ کاعظمت والا نام ہے جو تمام کمال والی صفتوں کی جامع ہے اور بعض مفسرین نے اس لفظ کے معنٰی بھی بیان کیے ہیں جیسے اس کا ایک معنی ہے: ’’عبادت کا مستحق‘‘ دوسرا معنی ہے: ’’وہ ذات جس کی معرفت میں عقلیں حیران ہیں ‘‘ تیسرا معنی ہے: ’’وہ ذات جس کی بارگاہ میں سکون حاصل ہوتاہے‘‘ اور چوتھا معنی ہے: ’’وہ ذات کہ مصیبت کے وقت جس کی پناہ تلاش کی جائے۔‘‘(تفسیر صراط الجنان، الفاتحہ، تحت الآیۃ 1)(2 ، 3)الرَّحْمٰن (بہت مہربان) ، الرّحِیْم(رحمت والا) (پ 1 الفاتحہ 2)رحمٰن اور رحیم اللہ پاک کے دو صفاتی نام ہیں۔ رحمٰن کا معنٰی ہے: نعمتیں عطا کرنے والی وہ ذات جو بہت زیادہ رحمت فرمائے اور رحیم کا معنی ہے: بہت رحمت فرمانے والا۔ یاد رہے !حقیقی طور پرنعمت عطا فرمانے والی ذات اللہ کریم کی ہے کہ وہی تنہا ذات ہے جو اپنی رحمت کا بدلہ طلب نہیں فرماتی، ہر چھوٹی، بڑی ، ظاہری، باطنی، جسمانی، روحانی، دنیوی اوراخروی نعمت اللہ پاک ہی عطا فرماتا ہے اور دنیا میں جس شخص تک جو نعمت پہنچتی ہے وہ اللہ کریم کی رحمت ہی سے ہے کیونکہ کسی کے دل میں رحم کا جذبہ پیدا کرنا، رحم کرنے پر قدرت دینا، نعمت کو وجود میں لانا، دوسرے کا اس نعمت سے فائدہ اٹھانا اور فائدہ اٹھانے کیلئے اعضاء کی سلامتی عطا کرنا، یہ سب اللہ پاک کی طرف سے ہی ہے۔

(تفسیر صراط الجنان، الفاتحہ، تحت الآیۃ 2)(4) الْعلِیْم (جاننے والا) (پ 1 البقرة 127)اللہ پاک علیم ہے یعنی اس کو صفتِ علم حاصل ہے، اس کا علم ہر شے کو محیط ہے، ہر چیز کی اس کو خبر ہے، جو کچھ ہورہا ہے یا ہوچکا یا آئندہ ہونے والا ہے، پوری تفصیل کے ساتھ ان سب کو ازل میں جانتا تھا، اب (بھی) جانتا ہے اور ابد تک جانے گا۔ اشیاء بدلتی ہیں، اس کا علم نہیں بدلتا، ایک ذرہ بھی اس سےپوشیدہ نہیں، اس کے علم کی کوئی انتہا نہیں، وہ غیب و شہادت سب کو یکساں جانتا ہے، علم ذاتی اس کا خاصہ ہے۔ (فرض علوم سیکھیے صفحہ 29)(5) مٰلِكُ الْمُلْكِ(مُلک کا مالک) (پ 3 آل عمران 26)سلطنت و حکومت بلکہ کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ پاک کی ملک ہے جسے چاہے عطا فرمائے۔ کتنی بڑی بڑی سلطنتیں گزریں جن کے زمانے میں کوئی تصور بھی نہ کرسکتا تھا کہ یہ بھی کبھی فنا ہوں گی لیکن اللہ، مالکُ الملک کی زبردست قوت وقدرت کا ایسا ظہور ہوا کہ آج ان کے نام و نشان مٹ گئے۔ یونان کا سکندرِ اعظم، عراق کا نمرود، ایران کا کسریٰ ونوشیرواں ، ضحاک، فریدوں ، جمشید، مصر کے فرعون، منگول نسل کے چنگیز اور ہلاکو خان بڑے بڑے نامور حکمران اب صرف قصے کہانیوں میں رہ گئے اور باقی ہے تو ربُّ العلَمین کا نام اور حکومت باقی ہے اور اسی کو بقا ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، آل عمران، تحت الآیۃ 26)(6 ، 7) الْجَبَّار (بے حد عظمت والا) ، الْمُتَكَبِّر (اپنی بڑائی بیان فرمانے والا) (پ 28 الحشر 23)اللہ پاک اپنی ذات اور تمام صفات میں عظمت اور بڑائی والا ہے اور اپنی بڑائی کا اظہار کرنا اسی کے شایاں اور لائق ہے کیونکہ اس کا ہر کمال عظیم ہے اور ہر صفت عالی ہے جبکہ مخلوق میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ تکبُّر یعنی اپنی بڑائی کا اظہار کرے بلکہ بندے کیلئے شایاں یہ ہے کہ وہ عاجزی اور اِنکساری کااظہار کرے۔(تفسیر صراط الجنان، الحشر، تحت الآیۃ 23)(8) الرّزّاق(بڑا رزق دینے والا) (پ 27 الذٰریٰت 58)اللہ پاک رزاق ہے۔ وہی تمام ذی روح کو رزق دینے والا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی مخلوق کو وہی روزی دیتا یے، وہی ہر چیز کی پرورش کرتا ہے، وہی ساری کائنات کی تربیت فرماتا اور ہر چیز کو آہستہ آہستہ بتدریج اس کے کمالِ مقدار تک پہنچاتا ہے۔ وہ رب العالمین ہے یعنی تمام عالم کا پرورش کرنے والا، حقیقتاً روزی پہنچانے والا وہی ہے، ملائکہ وغیرہم وسیلے اور واسطے ہیں۔ (فرض علوم سیکھیے صفحہ 30)(9 ، 10) السّمِیْع (سننے والا) ، الْبصِیْر (دیکھنے والا) (پ 1٧ الحج 61) اللہ پاک سمیع و بصیر ہے یعنی اس میں صفتِ سماعت و صفتِ بصارت ہے۔ ہر پست سے پست آواز تک کو سنتا ہے اور ہر باریک سے باریک کو دیکھتا ہے، وہ ہر موجود کو سنتا اور ہر موجود کو دیکھتا ہے۔ (فرض علوم سیکھیے صفحہ 29)


اَسماءُالحسنٰی سے مُراد اللہ پاک کے وہ نام ہیں جن سے اُسے پُکارنے کا حکم دیا گیا ہے۔اللہ پاک کے بہت سے نام ہیں جن میں سے ایک نام ذاتی ہے،اللہ،باقی نام صفاتی۔حق یہ ہے کہ اللہ پاک کے نام توقیفی ہیں کہ شریعت نے جو بتائے اُن ہی ناموں سے پکارا جائے۔اپنی طرف سے نام ایجاد نہ کیے جائیں۔اگرچہ ان کا ترجمہ صحیح ہو۔(مراۃُالمناجیح، 3/347)10 اَسماءُالحسنٰی کی تفصیل :قرآنِ کریم میں مذکور دس اَسماءُالحسنٰی یہ ہیں: 1) الرَّحْمٰن الرَّحِیْمِ(پ 1،الفاتحہ:2) (بہت مہربان، رحمت والا)رحمٰن کے معنی ہیں:دنیا میں تمام بندوں پر رحم فرمانے والا اور رحیم کے معنی ہیں:آخرت میں صرف مسلمانوں پر رحم فرمانے والا ،چونکہ دنیا آخرت سے پہلے ہے اِس لیے رحمٰن کا ذِکر رحیم سے پہلے ہوا۔ (مراۃالمناجیح،3/349)(2)اَلْمَلِكُ (بادشاہ)(پ28،الحشر:23)دنیا کے بادشاہ تھوڑی زمین کے تھوڑے زمانے میں بادشاہ ہوتے ہیں،ربّ کریم بذاتِ خود ہمیشہ سے بادشاہ ہے۔سارے عالَموں کا مالکِ حقیقی ہے۔ (مراۃُالمناجیح،3/349)(3)عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ (ہر نِہاں و عیاں کا جاننے والا)(پ28،الحشر:22)یعنی جو چیزیں بندے کے لیے غیب و شہادت ہیں، ربّ کریم اُن سب کو جانتا ہے، ورنہ ربّ کریم کے لیے کوئی چیز غیب نہیں۔ہر معدوم و موجود اُس پر ظاہر ہے۔اِن چیزوں کا غیب ہونا ہمارے لحاظ سے ہے۔ (تفسیر نورالعرفان،ص876)(4)اَلْحَیُّ(5)اَلْقَیُّوْمُ۔اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَالْحَیُّ اَلْقَیُّوْمُ (ترجمہ:اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں (وہ) خود زندہ، دوسروں کو قائم رکھنے والا ہے۔)(پ 3، الِ عمران:2)*حَیٌّ:دائم و باقی کے معنی میں ہے۔یعنی ایسا ہمیشہ رہنے والا ہے جس کی موت ممکن نہ ہو۔*اَلْقَیُّوْمُ سے مراد وہ ہے جو قائم بِالذّات یعنی بغیر دوسرے کی محتاجی اور تصرف کے خود قائم ہو اور مخلوق کی دنیا وآخرت کی زندگی کی حاجتوں کی تدبیر فرمائے۔(تفسیر صِراطُ الجِنان، 1/435)(6)اَلاَحَدُ (ایک)قُلْ ھُوَاللهُ اَحَدٌ(تم فرماؤ وہ اللہ ہے وہ ایک ہے)(پ 30،الاخلاص:1)اَحَدٌ بمعنی اکیلا و یگانہ یعنی اللہ پاک ذاتاً بھی ایک کہ اُس کے سِوا دُوسرا ربّ نہیں،صفاتاً بھی ایک کہ اُس جیسا کوئی نہیں، اَفعالاً بھی ایک کہ اُس جیسا کوئی جمیل افعال والا نہیں۔ (مراۃ المناجیح ،3/353)(7)اَلصَّمَدُ (بے نیاز)اللہ الصَّمَدُ(اللہ بے نیاز ہے)(پ30، الاخلاص:2)صَمَدٌکے بہت سے معنی ہیں ،جن میں سے یہ بھی ہے کہ وہ بے خوف جسے کسی کا ڈر نہیں۔حاجت و آفت سے مُنزہ و بری۔ (مراۃ المناجیح ،3/353)یعنی اللہ پاک ہر چیز سے غنی ہے کہ نہ کھائے، نہ پئےاور نہ ہی کسی کام میں کسی کا حاجت مند ہے۔(تفسیر نُورُالعرفان، ص965)(8)مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ (پ1،الفاتحۃ:3) (روزِجزاء کا مالِک) مالِک اُسے کہتے ہیں جو اپنی ملکیت میں موجود چیزوں میں جیسے چاہے تصرف کرے۔اللہ پاک دنیا و آخرت دونوں کا مالک ہے،لیکن دنیا کے مقابلے میں آخرت میں اللہ پاک کے مالک ہونے کا ظہور زیادہ ہوگا،کیونکہ اُس دن کسی کے پاس ظاہری سلطنت بھی نہ ہوگی جو اللہ پاک نے دنیا میں لوگوں کو عطا فرمائی تھی۔ (تفسیر صراطُ الجِنان ،1/4746)(9)اَلُقُدُّوْسُ(پ28،الحشر:23) (نہایت پاک) قُدُّوْسٌ کے معنی ہیں: اِمکان و حُدوث سے پاک، کسی کے وہم و خیال میں آنے سے پاک۔ (مراۃ المناجیح ،3/349)(10)اَلسَّلَامُ(پ28، الحشر:23) (سلامتی دینے والا) سَلام سے مراد ہے کہ مخلوق میں سے اَہلِ ایمان کو سلامتی و امن بخشنے والا۔ اِس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ عُیُوب سے پاک، غرض یہ کہ اللہ پاک ذاتی و صِفاتی عُیوب سے ہر طرح پاک ہے۔ (مراۃ المناجیح ،3/349)


اسماءُ الحسنیٰ کا معنی:اللہ پاک کے پیارے نام۔اَسماءُ الحسنیٰ ہمیشہ سے علمائے کرام اور مسلمانوں کا ایک اہم موضوع رہا ہے۔ قرآنِ پاک کو ابتدا سے پڑھنا شروع کریں تو کہیں پر اللہ پاک نے اپنا نام اللہ ذکر فرمایا ہے تو کہیں پر اللہ پاک نے مٰلِکِ یَوْمِ الدِّین0( پ 1،الفاتحۃ: 3) ذکر فرمایا ہے۔تو آگے چلیں تو کہیں پر اللہ پاک اپنا نام اَلرَّزّاق ذکر کرتا ہے،کہیں پر اپنا نام اَلْمَتِیْن تو کہیں پر اَلْمُحْیِ اور کہیں اَلْمُمِیْتُ ذکر فرمایا۔ قرآنِ پاک میں جگہ جگہ اللہ پاک کے نام موجود ہیں، لیکن تین مقامات پر اللہ پاک نے خاص طور پر اپنے ناموں کے بارے میں الاَسماءُ الحسنیٰ ارشاد فرمایا، یعنی ان ناموں کو اللہ پاک نے حسنٰی قرار دیا،حسنٰی کا مطلب ہوتا ہے : اچھے، بہتر، خوبی والے یعنی اللہ پاک کے جو نام ہیں، خود اللہ پاک نے ان کے بارے میں فرمایا: یہ نام خوبی والے ہیں ، بہتری والے ہیں۔پہلا مقام: سورۂ اعراف کی : 180میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:وَ لِلہِ الۡاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوۡہُ بِہَا ۪۔ترجمہ: اور بہت اچھے نام اللہ ہی کے ہیں تو اسے ان ناموں سے پکارو۔دوسرا مقام:سورۂ بنی اسرائیل کی : 110 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: قُلِ ادْعُوا اللہَ اَوِادْعُوا الرَّحْمٰنَ ؕ اَیًّا مَّا تَدْعُوۡا فَلَہُ الۡاَسْمَآءُ الْحُسۡنٰی ۚ ۔ترجمہ:تم فرماؤ ، اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر پکارو، سب اسی کے اچھے نام ہیں۔تیسرا مقام: اللہ پاک سورۂ طہٰ، : 8 میں ارشاد فرماتا ہے: اَللہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ لَہٗ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی0۔ ترجمہ:وہ اللہ ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔سب اچھے نام اسی کے ہیں۔ان تینوں آیتوں میں اللہ پاک نے اپنے خوبصورت ناموں کا تذکرہ فرمایا ہے۔ اللہ پاک کی ذات تو ایک ہی ہے، لیکن اس کے مختلف صفاتی نام ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک اللہ پاک کے ننانوے نام ہیں،یعنی ایک کم سو،جس نے انہیں یاد کر لیا،وہ جنت میں داخل ہوگا۔(مشکوة ،ص201) 10اَسماءُالحسنٰی:1۔اَلْقَیُّوْمُ:دوسروں کو قائم رکھنے والا ہے۔الْعَظِیْمُ: عظمت والا ہے۔(البقرۃ، : 255)چند اَسماءُالحسنٰیٰ کی وضاحت:3۔الْمَلِکُ:ملک اور حکومت کا حقیقی مالک ہےکہ تمام موجودات اس کی ملک اور حکومت کے تحت ہیں اور اس کا مالک ہونا اور اس کی سلطنت دائمی ہے،جسے زوال نہیں۔اَلْقُدُّوْسُ:ہر عیب سے اور تمام بُرائیوں سے نہایت پاک ہے۔السَّلَامُ: اپنی مخلوق کو آفتوں اور نقصانات سے سلامتی دینے والا ہے۔اَلْمُؤمِنُ:اپنے فرمانبردار بندوں کو اپنے عذاب سے امن بخشنے والا ہے۔الْمُھَیْمِنُ:ہر چیز پر نگہبان اور اس کی حفاظت فرمانے والا ہے۔اَلْعَزِیْزُ:ایسی عزت والا ہے،جس کی مثال نہیں مل سکتی اور ایسے غلبے والا ہے جس پر کوئی بھی غالب نہیں آ سکتا۔9۔10۔اَلْجَبَّارُ،اَلْمُتَکَبِّرُ:اپنی ذات اور تمام صفات میں عظمت اور بڑائی والا ہے اور اپنی بڑائی کا اظہار کرنا اس کے شایاں اور لائق ہے، کیونکہ اس کا ہر کمال عظیم ہے اور ہر صفت عالی ہے،جبکہ مخلوق میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ تکبر یعنی اپنی بڑائی کا اظہار کرے، بلکہ بندے کیلئے شایاں یہ ہے کہ وہ عاجزی اور انکساری کا اظہار کرے۔( صراط الجنان،10/94)اللہ پاک ہمیں اَسماءُالحسنٰی یاد کرنے اور ان خوبصورت ناموں کی برکت سے مالامال ہونے کی سعات عطا فرمائے۔اٰمین بجاہِ النبی الکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


الاَسماءُ الحسنیٰ:ربّ کریم کے مبارک ناموں کو اَسماءُ الحسنیٰ کہا جاتا ہے، الاَسماءُ الحسنیٰ کے معنیٰ ہیں:اچھا، بہتر، خوبی والا، یعنی اچھے، بہتری والے اور خوبی والے نام، اللہ پاک نے قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں (03) تین مقامات پر اپنے اَسماءُ الحسنیٰ کا ذکر فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا:وَلِلہِ الْاَسْمَآ ءُ الحُسْنیٰ فَادْعُوْہٗ بِھَا۔ (پ09، الاعراف:180)اَیًّا مَاتَدْعُوْ فَلَہُ اْلاَسماءُ الحسنیٰ (پ15، بنی اسرائیل، 110)اللہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ لَہُ الاَسماءُ الحسنیٰ۔ (پ16، طٰہ، 08)1۔اللہ:قرآنِ مجید میں (2699) بار اللہ پاک نے اپنا یہ نام مذکور فرمایا ہے، چنانچہ قرآنِ پاک کی پہلی سورت، الفاتحہ میں ارشاد فرمایا:الحمدللہ ربّ العٰلمین۔اللہ اس ذات کو کہتے ہیں کہ جس کے اندر تمام کی تمام صِفاتِ کمال پائی جائیں اور وہ تمام کے تمام عیبوں سے پاک ہو، اس نام کی خاصیت یہ ہے کہ جتنے بھی دیگر نام ہیں، ان کی نسبت اسمِ جلالت اللہ ہی طرف کی جاتی ہے، مثلاً اللہ رحمٰن ہے، یہ وہ نام ہے کہ گزشتہ اُمتیں بھی پروردگارِ عالم کا یہ نام جانتی تھیں۔2۔ الرحمٰن:امام خطابی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:رحمٰن اس ہستی کو کہتے ہیں،جس کی رحمت تمام مخلوق کو شامل ہو اور علامہ علی قاری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:جو حقیقی طور پر انعام کرنے والا ہو اور جس کی رحمت تام و مکمل ہو،ہر مؤمن و کافر،صالح و بدکار تمام مخلوق کو پہنچتی ہو،اسے رحمٰن کہتے ہیں،قرآنِ مجید میں اللہ پاک نے اس نام کا ذکر بھی کئی جگہ ارشاد فرمایا ہے،چنانچہ فرمایا:الرحمٰن الرحیم۔( فاتحہ، 02)اور پوری بھی اسی نام سے نازل فرما دی، جس کے بارے میں محبوبِ ربِّ کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم نے فرمایا:لِکُلِّ شیءٍ عُرُوسٌ و عُرُوسُ القُرآنِ الرحمٰن۔اور ایک حدیث میں منقول ہے کہ اللہ پاک کے لئے 100 رحمتیں ہیں، جن میں سے 1 مخلوق میں موجود ہے، جس کی وجہ سے درندے بھی اپنے بچوں پر رحم کرتے ہیں اور باقی 99 قیامت کے لئے مؤخر کردی ہیں۔3۔الخالق:اس کے معنیٰ ہیں:پیدا کرنے والا،چنانچہ ارشاد فرمایا:ھُوَ اللہ الخَالِقُ۔ہر شے کا حقیقی خالق اللہ پاک ہے۔( الحشر، 24)باقی ہر تخلیق باذنِ اللہ ہے، کائنات کے ذرّے ذرّے سے لے کر آسمان میں غور کیا جائے تو اس میں بعض ستارے ایسے ہیں کہ کئی زمینیں ان میں پوری آجائیں، پھر سات آسمان ہیں اور علماء فرماتے کہ ہر آسمان پہلے آسمان سے بہت بڑا ہے، پھر عرش و کرسی ہیں، جن کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اس کی کرسی آسمانوں اور زمینوں کو اپنی وسعت میں لئے ہوئے ہے، پھر اس تمام وجاہت کے ساتھ احکم الحاکمین اپنے بندے سے ماں سے بڑھ کر محبت فرماتا ہے تو یہ بات اپنے خالق کے قریب کردیتی ہے۔

4۔العزیز: العزیز کے معنیٰ ہیں غالب اور اللہ پاک ایسا غالب ہے کہ الغَالِبُ الذی لا یُغْلَبْ یعنی جس پر کوئی دوسرا غلبہ حاصل نہ کرسکے، چنانچہ ارشاد فرمایا:وَاِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ العَزِیْزُ الرَّحِیْم۔(الشعراء، 68)اور اس کا معنیٰ یہ بھی ہے کہ جو قوت و قدرت رکھنے والا ہو اور خود سے عزت والا ہو۔5۔الرزّاقُ:وہ ہستی جو مخلوق کو ہر طرح کا رزق عطا کرنے والی ہو، الرزّاق کا معنیٰ ہے: بہت زیادہ رزق دینے والا،اللہ پاک اپنی مخلوق میں ہر ایک کو اتنا رزق ضرور عطا فرماتا ہے،جس سے اس کی زندگی قائم رہے،وسعت اور تنگی کا تعلق اس رزق سے ہے جو ضرورت کے علاوہ ہو،ارشادِ باری ہے:اِنَّ اللہ ھُوَ الرزّاقُ۔(الذّٰرِیٰت، 51 )

زمین میں کوئی ایسی مخلوق نہیں ہے، جس کے رزق کا ذمّہ اللہ پاک پر نہ ہو۔6۔الجبّار:اس نام کا ذکر 108 مقامات پر قرآنِ مجید میں موجود ہے۔ارشاد فرمایا:اللہ عَلیٰ کُلِّ قَلْبِ مُتَکَبِّرٍ جَبَّارٍ۔(المؤمن،(35اس کے معنیٰ ہیں، وہ جو دوسروں پر غالب ہو، یعنی اپنے ارادے کو اپنے غلبہ کے ساتھ مخلوق میں نافذ فرما دے، علماء نے اس کا ایک معنیٰ المُصْلِح یعنی درست کرنے والا اور ایک معنیٰ ٹوٹے دل کو جوڑنے والا فرمایا ہے۔7۔السلام:یہ نام مبارک بھی قرآنِ مجید میں مذکور ہے،چنانچہ فرمایا: الْمَلِکُ القُدُّوْسُ السَّلٰم ۔)الحشر، (23اس کے معنیٰ ہیں: سلامتی دینے والا اور وہ ہستی جو خود سے سالم ہو، تمام عیوب و نقوص سے پاک اور صلح کرانے والا، مسلمانوں میں باہم۔8۔الغفور:یعنی وہ جو بہت زیادہ معاف فرمانے والا ہو اور جس کو معاف کیا،اس کے اس عیب کو چھپا بھی دے،ہر گناہ اس کی کیفیت چاہے جتنا ہی بڑا ہو،معاف فرما دے گا،سوائے مشرک کو جو اپنے شرک پر مرگیا، فرمایا: وَھُوَ الغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔( یونس، 107)اور یہ معاف کرنا عجز نہیں، بلکہ رحمت سے ہے۔9۔الوھّاب:بہت زیادہ عطا کرنے والا،قرآنِ مجید میں ہے:اِنَّکَ اَنْتَ الوَھّابُ۔)ال عمران(یعنی وہ ہستی جو بہت زیادہ عطا کرے اور اس دینے میں نہ کوئی غرض اور نہ کسی عوض کا طلبگار اور جب عطا کرے تو کوئی رکاوٹ ڈالنے والا نہ ہو۔10۔الشکور:اس کا مادہ شکر ہے،لیکن ذاتِ باری کے لئے اس کا معنیٰ ہے کہ بندوں کی عبادات،اطاعت اور ان کے اعمال کو قبول فرمانے والا اور اس کا بہترین بدلہ دینے والا، چنانچہ ارشادِ باری ہے: وَاللہ شکورٌ حَلِیْمٌ۔28، التغابن:17)اللہ پاک ہمیں اپنے تمام ناموں کو یاد کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی برکت سے مستفیض فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


پچھلے دنوں ڈسٹرکٹ ٹنڈو الہ یار صوبہ سندھ میں شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے تحت  سید مراد علی شاہ راشدی میمبر بار ایسوسی ایشن اینڈ وکیل ہائی کورٹ کو دعوت اسلامی کے تحت ہونے والے اجتماع ِپاک کی دعوت دی جس میں مرکزی رکن شوریٰ حاجی عبدلحبیب عطاری بیان کرینگے۔ 

گزشتہ دنوں عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں 26 دن پر مشتمل مدنی قافلہ کورس کا انعقاد کیا گیا جس میں کثیر ذمہ داراسلامی بھائیوں کی شرکت رہی۔

دورانِ کورس 11 فروری 2022ء بروز جمعہ مبلغِ دعوتِ اسلامی نے ’’امیر قافلہ کی حکمتیں‘‘ کے موضوع پر سنتوں بھرا بیان کرتے ہوئے اُن کی دینی، اخلاقی اور تنظیمی اعتبار سے تربیت و رہنمائی کی۔

بعدازاں ذمہ دار نے شرکائے کورس کو اپنےاپنے علاقوں میں نیکی کی دعوت عام کرنے کے حوالے سے چند نکات بتائے جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔(رپورٹ:محمد حارث عطاری شعبہ مدنی قافلہ ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


11 فروری 2022ء بروز جمعہ شعبہ مدنی قافلہ دعوتِ اسلامی کے تحت پاکستان کے صوبے KPK میں مدنی مشورے کا اہتمام کیا گیا جس میں مقامی مدنی قافلہ ذمہ داراسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

نگرانِ شعبہ مدنی قافلہ حاجی مشکور عطاری نے ذمہ داران سے 2022ء میں سفر کرنے والے مدنی قافلوں کی پلاننگ کے حوالے گفتگو کرتے ہوئے 12 دینی کاموں کا جائزہ لیا۔

اس موقع پر صوبہ ٔخیبر پختون خواہ کے مدنی قافلہ ذمہ دار منیر عطاری اور صوبہ گلگت بلستان کے مدنی قافلہ ذمہ دار راشد عطاری موجود تھے۔(رپورٹ:شعبہ مدنی قافلہ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


گزشتہ دنوں  تحصیل خانپور میں شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے اسلامی بھائیوں کا شخصیات سے ملاقاتوں کا سلسلہ رہا جن میں چیئرمین بلدیہ شہزاد انور پاکستان پیپلز پارٹی، ایم ۔پی۔اے ٹکٹ ہولڈر سہیل واحد سی ۔ای۔ او بلدیہ شہزاد، میڈیا سے فیاض بلوچ پریس کلب صدر اور ریسکیو افیسر عدیل غفار اوراس کےعملےشامل تھے ۔ملاقات میں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت ، فیضان مدینہ وزٹ کرنے اور مدنی قافلے میں سفر کرنے کی دعوت دی ۔ اس دوران شعبہ رابطہ کےتحصیل ذمہ دار بابرعطاری بھی ساتھ تھے۔


دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام مدنی مرکز فیضانِ مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور میں مدنی مشورے کا انعقاد کیا گیا جس میں شعبہ مدنی قافلہ کے پاکستان سطح کے ذمہ داران سمیت ذیلی شعبے دارالسنہ، 12 ماہ مدنی قافلہ، بیرون ملک مدنی قافلہ کے اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

اس دوران رکن ِ مرکزی مجلسِ شوریٰ حاجی امین قافلہ عطاری اور نگرانِ شعبہ حاجی مشکور عطاری نے ذمہ داران کی تربیت کرتے ہوئے شعبے کی سابقہ کارکردگیوں کا جائزہ لیا۔

واضح رہے اس مدنی مشورے میں شعبہ مدنی قافلہ بیرون ملک کی ذمہ داری کراچی میٹروپولیٹن کے ذمہ دار ساجد عطاری کو دی گئی جبکہ عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں انٹرنیشنل دارالسنہ کے لئے پاکستان شعبہ جات کے مدنی قافلہ ذمہ دار حارث عطاری کو مقرر کیا گیا۔(رپورٹ:محمد حارث عطاری شعبہ مدنی قافلہ ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


9 فروری 2022 ء  کو شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے مظفر گڑھ میں پولیس افسران اور سیاسی شخصیات کے ساتھ ملاقات کیں جن میں اسسٹنٹ کمشنر تحصیل جتوئی ملک شعیب احمد بوسن ، ڈی۔ایس۔پی۔تحصیل جتوئی محمد نصراللہ بابر ، ایڈیشنل ایس۔ ایچ۔او۔محمد راشد اقبال ، الخدمت پولیس مرکز انچارج جتوئی تحصیل محمد جعفر خان لغاری شامل ہیں۔ دورانِ ملاقات انہیں دعوت اسلامی کے دینی و فلاحی کاموں اور کچھ شعبہ جات کا تعارف پیش کیا اور ماہنامہ فیضان مدینہ تحفے میں دیا ۔