قرآنِ کریم میں ارشادِ باری ہے:وَ لِلّٰهِ
الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا ۪(پ ٩
الاعراف 180)ترجمۂ
کنز العرفان: اور بہت اچھے نام اللہ ہی کے ہیں تو اسے ان ناموں سے پکارو۔اللہ
پاک معبودِ حقیقی ہے اس کے سوا کوئی خدا نہیں اوروہ حقیقتاً واحد ہے اور اَسماء و
صِفات کی کثرت اس کی ذات کو تعبیر کرنے کے مختلف ذرائع ہیں۔ یہ نہیں کہ صفات کی
کثرت ذات کی کثرت پر دلالت کرے جیسے کسی آدمی کو کہیں کہ یہ عالم بھی ہے اور سخی
بھی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسے عالم بھی کہہ سکتے ہیں اور سخی بھی، نہ یہ کہ دو
نام رکھنے سے وہ ایک سے دو آدمی بن گئے۔اللہ پاک کے علاوہ کسی اور کو رحمٰن کہنا
جائز نہیں جبکہ رحیم کہا جاسکتا ہے۔(تفسیر صراط الجنان، طہٰ، تحت
الآیۃ ٨)خدائے
پاک کا ذاتی نام اللہ ہے، اس کو اسمِ ذات بھی کہتے ہیں اور لفظ اللہ کے سوا اور
نام جو اس کی کسی صفت کو ظاہر کرے اسے صفاتی نام یا اسمائے صفات کہتے ہیں۔
(فرض علوم سیکھیے صفحہ 24)قرآنِ پاک میں موجود اللہ کریم کے
اَسماءُ الحسنیٰ میں سے 10 نام درج ذیل ہیں:(1) اللہ (پ1
الفاتحہ1)اللہ
اس ذاتِ اعلیٰ کاعظمت والا نام ہے جو تمام کمال والی صفتوں کی جامع ہے اور بعض
مفسرین نے اس لفظ کے معنٰی بھی بیان کیے ہیں جیسے اس کا ایک معنی ہے: ’’عبادت کا
مستحق‘‘ دوسرا معنی ہے: ’’وہ ذات جس کی معرفت میں عقلیں حیران ہیں ‘‘ تیسرا معنی
ہے: ’’وہ ذات جس کی بارگاہ میں سکون حاصل ہوتاہے‘‘ اور چوتھا معنی ہے: ’’وہ ذات کہ
مصیبت کے وقت جس کی پناہ تلاش کی جائے۔‘‘(تفسیر صراط
الجنان، الفاتحہ، تحت الآیۃ 1)(2 ، 3)الرَّحْمٰن (بہت
مہربان) ،
الرّحِیْم(رحمت
والا) (پ 1
الفاتحہ 2)رحمٰن
اور رحیم اللہ پاک کے دو صفاتی نام ہیں۔ رحمٰن کا معنٰی ہے: نعمتیں عطا کرنے والی
وہ ذات جو بہت زیادہ رحمت فرمائے اور رحیم کا معنی ہے: بہت رحمت فرمانے والا۔ یاد رہے !حقیقی طور پرنعمت عطا فرمانے والی
ذات اللہ کریم کی ہے کہ وہی تنہا ذات ہے جو اپنی رحمت کا بدلہ طلب نہیں فرماتی، ہر
چھوٹی، بڑی ، ظاہری، باطنی، جسمانی، روحانی، دنیوی اوراخروی نعمت اللہ پاک ہی عطا
فرماتا ہے اور دنیا میں جس شخص تک جو نعمت پہنچتی ہے وہ اللہ کریم کی رحمت ہی سے
ہے کیونکہ کسی کے دل میں رحم کا جذبہ پیدا کرنا، رحم کرنے پر قدرت دینا، نعمت کو
وجود میں لانا، دوسرے کا اس نعمت سے فائدہ اٹھانا اور فائدہ اٹھانے کیلئے اعضاء کی
سلامتی عطا کرنا، یہ سب اللہ پاک کی طرف سے ہی ہے۔
(تفسیر صراط الجنان، الفاتحہ، تحت الآیۃ 2)(4) الْعلِیْم (جاننے
والا)
(پ 1 البقرة 127)اللہ
پاک علیم ہے یعنی اس کو صفتِ علم حاصل ہے، اس کا علم ہر شے کو محیط ہے، ہر چیز کی
اس کو خبر ہے، جو کچھ ہورہا ہے یا ہوچکا یا آئندہ ہونے والا ہے، پوری تفصیل کے
ساتھ ان سب کو ازل میں جانتا تھا، اب (بھی) جانتا ہے اور
ابد تک جانے گا۔ اشیاء بدلتی ہیں، اس کا علم نہیں بدلتا، ایک ذرہ بھی اس سےپوشیدہ
نہیں، اس کے علم کی کوئی انتہا نہیں، وہ غیب و شہادت سب کو یکساں جانتا ہے، علم
ذاتی اس کا خاصہ ہے۔ (فرض علوم سیکھیے صفحہ 29)(5) مٰلِكُ الْمُلْكِ(مُلک
کا مالک)
(پ 3 آل عمران
26)سلطنت
و حکومت بلکہ کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ پاک کی ملک ہے جسے چاہے عطا فرمائے۔ کتنی بڑی
بڑی سلطنتیں گزریں جن کے زمانے میں کوئی تصور بھی نہ کرسکتا تھا کہ یہ بھی کبھی
فنا ہوں گی لیکن اللہ، مالکُ الملک کی زبردست قوت وقدرت کا ایسا ظہور ہوا کہ آج
ان کے نام و نشان مٹ گئے۔ یونان کا سکندرِ اعظم، عراق کا نمرود، ایران کا کسریٰ
ونوشیرواں ، ضحاک، فریدوں ، جمشید، مصر کے فرعون، منگول نسل کے چنگیز اور ہلاکو
خان بڑے بڑے نامور حکمران اب صرف قصے کہانیوں میں رہ گئے اور باقی ہے تو ربُّ
العلَمین کا نام اور حکومت باقی ہے اور اسی کو بقا ہے۔ (تفسیر صراط
الجنان، آل عمران، تحت الآیۃ 26)(6 ، 7) الْجَبَّار (بے
حد عظمت والا) ، الْمُتَكَبِّر (اپنی بڑائی بیان فرمانے والا) (پ 28
الحشر 23)اللہ
پاک اپنی ذات اور تمام صفات میں عظمت اور بڑائی والا ہے اور اپنی بڑائی کا اظہار
کرنا اسی کے شایاں اور لائق ہے کیونکہ اس کا ہر کمال عظیم ہے اور ہر صفت عالی ہے
جبکہ مخلوق میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ تکبُّر یعنی اپنی بڑائی کا اظہار کرے
بلکہ بندے کیلئے شایاں یہ ہے کہ وہ عاجزی اور اِنکساری کااظہار کرے۔(تفسیر
صراط الجنان، الحشر، تحت الآیۃ 23)(8) الرّزّاق(بڑا رزق دینے
والا)
(پ 27 الذٰریٰت
58)اللہ
پاک رزاق ہے۔ وہی تمام ذی روح کو رزق دینے والا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی
مخلوق کو وہی روزی دیتا یے، وہی ہر چیز کی پرورش کرتا ہے، وہی ساری کائنات کی
تربیت فرماتا اور ہر چیز کو آہستہ آہستہ بتدریج اس کے کمالِ مقدار تک پہنچاتا ہے۔
وہ رب العالمین ہے یعنی تمام عالم کا پرورش کرنے والا، حقیقتاً روزی پہنچانے والا
وہی ہے، ملائکہ وغیرہم وسیلے اور واسطے ہیں۔ (فرض علوم
سیکھیے صفحہ 30)(9 ، 10) السّمِیْع (سننے
والا) ، الْبصِیْر
(دیکھنے
والا)
(پ 1٧ الحج 61)
اللہ پاک سمیع و بصیر ہے یعنی اس میں صفتِ سماعت و صفتِ بصارت ہے۔ ہر پست سے پست
آواز تک کو سنتا ہے اور ہر باریک سے باریک کو دیکھتا ہے، وہ ہر موجود کو سنتا اور
ہر موجود کو دیکھتا ہے۔ (فرض علوم سیکھیے صفحہ 29)