دین اسلام جہاں اپنے ماننے والوں دیگر نیک اعمال کا حکم دیتا ہے وہیں اسکی خوبصورتی یہ بھی ہے کہ نہایت احسن انداز میں حقوق العباد کا حکم بھی ارشاد فرماتا ہے، حقوق العباد میں عمر رسیدہ حضرات کے حقوق بھی شامل ہیں اگر سب کے حقوق پورے کیے جائیں تو ایک غیر خوشگوار معاشرہ ایک خوشگوار معاشرے کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔آئیے جانتے ہیں حقوق کہتے کس کو ہیں؟ چنانچہ حقوق جمع ہے حق کی، جس کے معنیٰ ہیں:فردیا جماعت کا ضروری حصہ۔ (المعجم الوسیط، ص 188) جبکہ حقوقُ العباد کا مطلب یہ ہوگاکہ وہ تمام کام جوبندوں کو ایک دوسرے کے لئے کرنے ضروری ہیں۔ان کا تعلق چونکہ بندے سے ہے اسی لئے ان کی حق تلفی کی صورت میں اللہ پاک نے یہی ضابطہ مقرر فرمایا ہے کہ جب تک وہ بندہ معاف نہ کرے معاف نہ ہوں گے۔ (فتاویٰ رضویہ، 24/459-  460ملخصاً)

قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ(۸۸) (پ 14، الحجر:88) ترجمہ: تم اپنے پروں کو مسلمانوں کے لیے جھکائے رکھو۔

چند حقوق ملاحظہ کیجیے:

جگہ دینے میں جلدی کی جائے: مجلس میں بیٹھے ہوں اور کوئی بزرگ آجائے تو ان کے لیے جگہ بنائی جائے۔ حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بوڑھا شخص حُضورِ اکرم ﷺ سے ملاقات کے لئے حاضر ہوا، لوگوں نے اسے جگہ دینے میں دیر کی تو رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔ ( ترمذی، 3/369، حدیث: 1926)

ان کی تعظیم کی جائے: ہر مسلمان کی تعظیم فرض ہے لہذا معمر افراد کی عزت کرنے میں بھی چستی سے کام لیاجائے۔ یہ اللہ کے جلال اور بزرگوں کی تعظیم میں سے ہے کہ اس مسلمان کی تعظیم کرنا جس کے بال سفید ہو چکے ہیں۔ (شعب الایمان، 7/ 460، رقم: 10987)

کچھ تقسیم کرنے میں انکو فوقیت دینا: کچھ تقسیم کررہا ہے اور ضعیف افراد بھی حاضر ہیں تو ان کی دل جوئی کیلیے انکو پہلے دینا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک پیالہ پیش کیا گیا تو آپ نے اُس میں سے نوش فرمایا اور آپ کے دائیں جانب ایک نو عمر لڑکا تھا اور بائیں جانب عمر رسیدہ حضرات تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے لڑکے! کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں یہ عمر رسیدہ لوگوں کو دے دوں۔ (بخاری، 2/ 829، حدیث: 2224)

معاملات میں ان کا لحاظ رکھاجائے: یعنی کہ جس معاملے میں انکے لیے آسانی ہو اور شریعت بھی اجازت دے تو اس کو اختیار کیا جائے۔ جو کوئی بھی لوگوں کو نماز پڑھائے وہ مختصر کرے کیونکہ ان میں کمزور بوڑھے اور کام کاج والے ہیں۔

ان کی بات توجہ سے سنی جائے: وہ بات کریں تو مکمل توجہ انکی جانب کرکے بات سننی چاہیے۔ حضور ﷺ جس طرح پہلے شخص پر توجہ دیتے تھے اور اس کی بات کو سنتے تھے، وہی توجہ آخری شخص پر بھی ہوتی تھی اور اس کو بھی اسی طرح توجہ سے سنتے۔

اے عاشقان رسول ﷺ ہمارے بزرگان دین ضعیف و معمر حضرات کے حقوق کا خصوصی لحاظ رکھتے تھے ہمیں بھی انکے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ الله پاک ہمیں تمام حقوق احسن انداز میں اداکرنے کی توفیق عطافرمائے۔


ہمارا دین اس قدر خوبصورت اور آسان ہے کہ یہ عمر رسیده افراد کی خدمت اور ان کی عزت و تکریم کو باعث برکت قرار دیتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ کا بغور مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ عمر رسیدہ افراد کا بے حد ادب و احترام فرمایا کرتے تھے جس کی ایک جھلک ہمیں فتح مکہ کے بعد رونما ہونے والے حیرت انگیز واقعات میں نظر آتی ہے جب حضرت ابو بكر صديق رضی اللہ عنہ کے بوڑھے والد آپ ﷺ کے دست مبارک پر اسلام قبول کرنے کے لیے مجلس میں لائے گئے تو آپ نے ان کی تعظیم میں کیا الفاظ ارشاد فرمائے۔ معمر اور ضعیف لوگوں کے حقوق کے حوالے سے چند اہم حقوق شامل ہیں:

عزت و احترام کا حق: ہر انسان کو عزت و احترام کا حق ہے، چاہے وہ معمر ہو یا ضعیف ان کی عزت کی حفاظت کرنا اور ان کے ساتھ احترام کے ساتھ برتاؤ کرنا ضروری ہے۔

صحت کا حق: معمر اور ضعیف افراد کو ان کی صحت کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ انہیں معمولی صحتی مراقبت طبی معاونت اور ضروری دوائیوں کی فراہمی کا حق ہے۔

حفاظتی امن کا حق: معمر اور ضعیف افراد کو معمولی حد تک حفاظتی امن کا حق ہے۔ ان کو حمایت فراہم کرنا ان کی حفاظت کی تدابیر اختیار کرنا اور ان کی حفاظت کے لئے مشترکہ اقدامات اٹھانا ضروری ہے۔

شعور اور خصوصیت کا حق: معمر اور ضعیف افراد کو اپنی خصوصیت اور شعور کی حفاظت کا حق ہے۔ ان کی انفرادیت کا احترام کرنا ان کے فیصلے اور ان کی خواہشات کا احترام کرنا اہم ہے۔

معاشی حقوق کا حق: معمر اور ضعیف افراد کو معاشی حقوق فراہم کرنا ضروری ہے، جیسے کہ معاشی سہولت روزگار کا حق اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کا حق۔ ان کو مالی مدد فراہم کرنا اور ان کی معاشی صورتحال کی خواہشات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔


ضعیف کو عزت دینا، ان کی سماعت کرنا، ان کی مدد کرنا اور ان کی حفاظت کرنا ان کے حقوق میں شامل ہیں۔ یہ حقوق ضعیفوں کو معاشرتی میل جول اور احترام کے ساتھ سلامت رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ ضعیفوں کی حفاظت کے لئے کئی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً ان کی صحت کا خیال رکھنا، ان کی تعلیم اور تربیت کا خیال رکھنا، ان کو معاشرتی میل جول اور عدالتی حقوق کا اہتمام کرنا، اور ان کی سماعت کرنا۔ ضعیفوں کو معاشرتی میل جول دینے کے لئے ہمیں ان کے ساتھ مہمان نوازی کرنی چاہئے۔ ان کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کریں، ان کے ساتھ احترام اور محبت سے پیش آئیں، اور ان کی باتوں کو سنیں اور سمجھیں۔ اس طرح ضعیفوں کو معاشرتی میل جول دیا جا سکتا ہے۔ ضعیفوں کو تعلیمی اور صحت کی خدمات فراہم کرنے کے لئے ہم ان کو مفت تعلیمی اداروں میں داخل کروا سکتے ہیں اور صحت کی خدمات کے لئے مفت صحت کیمپس یا ہسپتالوں کی تشکیل کر سکتے ہیں۔ یہ اقدامات ضعیفوں کو تعلیمی اور صحت کی خدمات فراہم کرنے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔ ضعیف کو عزت دینے کے لئے ہمیں ان کی باتوں کو سننا، ان کی رائے کی احترام کرنا، اور ان کی ضروریات کو پورا کرنا چاہئے۔ ہمیں ان کے ساتھ مہمان نوازی کرنی چاہئے اور ان کو اپنا ساتھی سمجھنا چاہئے۔ یہ طریقے ضعیف کو عزت دینے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔ ضعیفوں کیلئے کئی تعلیمی سہولیات موجود ہیں، جیسے کہ مفت تعلیمی ادارے، سماجی ویب سائٹس، اور آن لائن تعلیمی منصوبے۔ یہ سہولیات ضعیفوں کو تعلیمی مواقع فراہم کرتی ہیں۔ ضعیفوں کی حفاظت کے لئے ہمیں ان کی ضروریات کو سمجھنا، ان کی مدد کرنا، اور ان کی حقوق کی حفاظت کرنا چاہئے۔ ہمیں ان کی حفاظت کے لئے محفوظ ماحول اور جسمانی امن فراہم کرنا چاہیے اور ہر قسم کے تشدد سے بچنا چاہیے۔ یہ عوامل ضعیفوں کی حفاظت میں مددگار ہوسکتے ہیں۔ ضعیفوں کی حفاظت کے لئے ہم کچھ درج ذیل اقدامات بھی کر سکتے ہیں:

ان کی تعلیمی اور صحت کی ضروریات کو پورا کرنا۔

ان کو محفوظ ماحول میں رکھنا۔

ان کو قانونی حمایت فراہم کرنا۔

ان کو معاشرتی تشدد سے بچانا۔

یہ اقدامات ضعیفوں کی حفاظت میں مددگار ہوسکتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جب کوئی تم میں سے لوگوں کو نماز پڑھائے تو تخفیف کرے۔ کیونکہ جماعت میں ضعیف بیمار اور بوڑھے ( سب ہی ) ہوتے ہیں۔ لیکن اکیلا پڑھے تو جس قدر جی چاہے طول دے سکتا ہے۔

الله پاک ہم سب کو ان کے حقوق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


ہمارا دین اس قدر خوبصورت اور آسان ہے کہ یہ عمر رسیدہ افراد کی خدمت اور ان کی عزت و تکریم کو باعث برکت قرار دیتا ہے۔ حضور ﷺ کی حیات مبارکہ کا بغور مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ عمر رسیدہ افراد کا بھی ادب و احترام فرمایا کرتے تھے اور اسی طرح اسلام میں عمر رسیدہ اور ضعیف لوگوں کے حقوق بھی مقرر فرمائے ہیں جن پر عمل کرنا ہمارے لیے ضروری ہے، آئیے ضعیف اور عمر رسیدہ افراد کے حقوق ملاحظہ ہوں:

1۔ عمر رسیدہ اور ضعیف لوگوں کے حقوق کا خیال رکھنا اس قدر ضروری ہے کہ جو بڑے لوگوں یعنی عمر رسیدہ افراد کی عزت نہیں کرتا حضور ﷺ نے فرمایا کہ وہ ہم سے نہیں، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے: وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔ (ترمذی، 3/369، حدیث: 1926)

2۔ اسلام میں نہ صرف بوڑھے اور ضعیف لوگوں کے حقوق ادا کرنے کی تاکید فرمائی گئی ہے بلکہ جو کوئی بوڑھوں کی ان کی عمر رسیدگی کی وجہ سے عزت کرے گا تو اس کے لیے یہ انعام ہو گا کہ اللہ کریم اس پر کسی کو مقرر فرما دے گا جو بڑھاپے میں اس کی عزت کرے گا جیسا کہ حدیث پاک میں ہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جو جوان کسی بوڑھے کی عمر رسیدگی کے باعث اس کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے گا۔ (کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6011)

3۔ اسلام میں سماجی معاملات سے لے کر ہر قسم کے معاملات میں بڑے اور عمر رسیدہ لوگوں کے حقوق کا خیال رکھنے کا حکم دیا گیا ہے آئیے اس کے متعلق ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہما خیبر پہنچے تو وہ دونوں باغات میں ایک دوسرے سے الگ ہوگئے۔ (دریں اثنا) عبداللہ بن سہل قتل کردیئے گئے تو عبدالرحمٰن بن سہل اور مسعود کے بیٹے حویصہ اور محیصہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اپنے ساتھی کے معاملہ میں انہوں نے گفتگو کی تو عبدالرحمن نے ابتدا کی جب کہ وہ سب سے چھوٹے تھے۔ اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بڑے کے مرتبے اور عزت کا خیال رکھو۔ (بخاری، 4/138، حدیث: 6142)

4۔ معمر اَفراد کی تکریم اِجلالِ اِلٰہی کا حصہ ہے اس قدر بوڑھے افراد کی تعظیم اور تکریم کا حکم ہے کہ حدیث پاک میں ہے بوڑھے مسلمان افراد کی تکریم و تعظیم کرنا اللہ کریم کی تعظیم کا حصہ ہے، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا حصہ ہے، اور اسی طرح قرآن مجید کے عالم کی جو اس میں تجاوز نہ کرتا ہو اور اس بادشاہ کی تعظیم جو انصاف کرتا ہو۔ (ابو داود، 4/344، حدیث: 4843)

5۔ معمر اَفراد کی تکریم عظمتِ رِسالت کا نفاذ ہے معمر اور ضعیف افراد کی تعظیم کرنا بہت ضروری ہے اور احادیث مبارکہ میں بھی اس کا حکم ہے اور معمر افراد کی تعظیم کرنے کا اس قدر حکم ہے کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ جس نے میری امت کے معمر افراد کی عزت اور تکریم میری بزرگی اور عظمت سے ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک میری اُمت کے معمر افراد کی عزت و تکریم میری بزرگی و عظمت سے ہے۔ (کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6010)

اللہ کریم ہمیں بزرگوں کا ادب و احترام کرنے اور حضور ﷺ کے ہر حکم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


انسائی زندگی کے تین حصے ہیں: بچین، جوانی اور  بڑھاپا ہے۔ عموماً انسان کا بچپن کھیل کود میں گزر جاتا ہے جوانی کچھ بننے میں گزرتی ہے کہ مجھے کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ جبکہ بڑھاپا آتا ہے تو انسان کچھ کرنا بھی چاہے تو مختلف بیماریوں اور جسم کی کمزوریوں کی وجہ سے بے بس ہو جاتا ہے اور ایسے موقع پر اُسے دوسروں کی ضرورت ہوتی ہے۔

دین اسلام نے جہاں نماز روزہ زکوۃ حج کاروبار اور دیگر معلامات میں ہماری شرعی رہنمائی فرمائی ہے وہیں بوڑھوں کے مقام اور اُن کے ساتھ اچھے سلوک کو بھی بیان کیا ہے کمزور لوگوں میں بوڑھے والدین بھی ہیں ان کے حقوق بیان فرمائے گئے ہیں۔ چنانچہ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائيل: 23) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

والدین کا حق یہ ہے کہ ان کی شان میں تعظیم کے الفاظ کہے۔ اپنے نفیس مال کو ان سے نہ بچائے اُٹھنے بیٹھنے چلنے اور بات کرنے میں ان کا ادب لازم جانے ان کے لیے فاتحہ صدقات تلاوت قرآن سے ایصال ثواب کرے کہ یہ اِن کے حقوق میں شامل ہے۔

اس کے علاوہ معمروضعیف لوگوں میں بوڑھے والدین کے ساتھ ساتھ رشتہ داروں اور معاشرے میں موجود دیگر کمزورں کی بھی عزت کرنے کا حکم دیا ہے۔

1۔ بزرگوں کی تعظیم کرو: حضور نبی کریم رؤف رحیم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بوڑھے مسلمان کی عزت کرنا اللہ پاک کی تعظیم میں سے ہے۔ (ابو داود، 4/344، حدیث: 4843)بوڑھے اور بزرگ مسلمانوں کا بہت ادب و احترام کرنا چاہیے جہاں تک ممکن ہو انہیں ہر ہر معاملے میں آگے کرنا چاہیے ان کے ساتھ شفقت والا برتاؤ کرنا چاہیے۔ اللہ کی تعظیم یہ بھی ہے کہ اس کے وقار کی تعظیم کی جائے اور اس کا وقار بوڑھا مسلمان ہے۔

جیسی کرنی ویسی بھرنی: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نور کے پیکر تمام نبیوں کے سرور ﷺ نے ارشاد فرمایا، جو بھی جوان کسی بوڑھے کی اس کی عمر کی وجہ سے تعظیم کرئے تو اللہ تعالی اس کے لیے اُسے پیدا فرما دیتا ہے جو بڑھاپے میں اس کی عزت کرے گا۔ (کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6011)واقعی آدمی جیسا کرتا ہے ویسا ہی بھرتا ہے یعنی آج اگر ہم کسی بزرگ کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے تو کل ہماری اولاد بھی ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرے گی۔ نیز اس حدیث پاک میں لمبی عمر پانے کی بشارت بھی ہے۔

2۔ بوڑھوں کو ترجیح دیجیے: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کا ایک وفد بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور اُن میں سے ایک نوجوان گفتگو کے لیے کھڑا ہوا تو پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: یعنی تم ٹھہرو بڑا کہاں ہے۔ (شعب الایمان، 7/461، حدیث:10996)

معلوم ہوا ہمیں اسلام کی حسین تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے بوڑھوں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے اگر ہم گھر میں یا کہیں اور بیٹھے ہوں تو وہاں کوئی بڑا آجائے تو کھڑے ہوجائیں اور بزرگ افراد کو عزت و احترام کے ساتھ جگہ پر بٹھائیں اُن کو سلام کریں اور دعا لیں کہ انِ کی دعا اللہ پاک کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہے۔ یونہی اگر راستے میں جارہے ہوں کوئی بوڑھا شخص ملے تو انہیں عزت دیں اگر اُن کے پاس کوئی سامان ہو تو اُٹھا کر مدد کر دیں یا ٹریفک ہونے کی صورت میں سڑک پار کروا دیں۔ اور انہیں تکليف نہ دیں کہ جو بوڑهے افراد ہوتے ہیں وہ بچوں کی مانند ہوجاتے ہیں اور معاملات میں اِن سے مشورہ کرتے رہیں اِن کی رائے کو اہمیت دیں اِن کو اکیلا نہ چھوڑیں بلکہ وقت دیں ان شاء اللہ دلی سکون نصیب ہوگا۔

اللہ پاک ہمیں چھوٹوں پر شفقت اور بڑے بوڑھوں کی عزت کرنے اِن کے حقوق پورا کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین


ارشاد نبوی ہے: وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے۔ (ترمذی، 3/369، حدیث: 1926)یہ اسلام کی انسانیت نوازی اور اس کا درس احترام ہے جو اس ارشاد گرامی سے صاف طور پر ظاہر ہو رہا ہے جو اپنے سے بڑی عمر والوں کے ساتھ عظمت و احترام کا برتاؤ نہ کرے ان کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آئے ان کی بزرگی اور عمر رسیدہ ہونے کا خیال کرکے ان کا احترام ان کی تعظیم نہ کرے اسی طرح امر بالمعروف کو ترک کرنے والے اور برائی سے نہ روکنے والے کی بابت آپ ﷺ نے یہی حکم فرمایا کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ دنیا و آخرت کی فلاح بزرگوں خصوصاً بوڑھے والدین کی عزت و تکریم اور خدمت میں ہے۔

1۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا حصہ ہے اور اسی طرح قرآن مجید کے عالم کی جو اس میں تجاوز نہ کرتا ہو اور اس بادشاہ کی تعظیم جو انصاف کرتا ہو۔ (ابو داود، 4/344، حدیث: 4843)حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک میری امت کے معمر افراد کی عزت و تکریم میری بزرگی و عظمت سے ہے۔ (کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6010)

2۔ عمر رسیدہ افراد کی تکریم علامت ایمان ہے۔ معمر افراد کی بزرگی کے باعث انہیں خاص مقام و مرتبہ عطا کیا گیا۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ بھی مروی ہے: وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کا حق (بزرگی) نہیں پہچانتا۔ (ترمذی، 3/369، حدیث: 1926)

3۔ معمر افراد کی تکریم ہی صحت مند روایات کی اساس ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جو جوان کسی بوڑھے کی عمر رسیدگی کے باعث اس کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے۔ (کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6011)

4۔ معمر افراد کا وجود معاشرے کے لیے باعث برکت ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہمارے بڑوں کی وجہ سے ہی ہم میں خیر وبرکت پائی جاتی ہے۔پس وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کی توقیر نہیں کرتا۔ (ترمذی، 3/369، حدیث: 1926)

5۔ حضور اقدس ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جو نوجوان کسی بوڑھے آدمی کی اس کے بڑھاپے کی بناء پر تکریم کرے تو اللہ تعالیٰ اس نوجوان کے بوڑھا ہونے پر اس کے ساتھ بھی ایسے ہی اکرام کرنے والے کو مقرر فرمائے گا۔ (کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6011)

ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ کا ارشاد گرامی اس طرح منقول ہے: یہ بات اللہ کی عظمت میں شامل ہے کہ آدمی کسی بوڑھے مسلمان کی اس کے بڑھاپے کی بناء پر عزت کرے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں ہے: تمہارے بڑوں کے ساتھ ہی تم میں خیر و برکت ہے۔(کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6012)

6۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا: مجھے اپنے ضعیف لوگوں میں تلاش کرو کیونکہ ضعیف لوگوں کے سبب تمہیں رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔ (کنز العمال، 2/ 72، حدیث: 6016)

حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ ﷺ! جو شخص کسی قوم کا محافظ بن جائے تو کیا اسے اور دوسرے لوگوں کو مال غنیمت میں برابر حصہ ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ام سعد کے بیٹے! تمہیں تمہارے بوڑھوں کے سبب ہی رزق دیا جاتا اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔

حضرت عمرو بن میمون ازدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو: (1) جوانی کو بڑھاپے سے پہلے۔(2) صحت کو بیماری سے پہلے۔(3) خوش حالی کو ناداری سے پہلے۔(4) فراغت کو مشغولیت سے پہلے۔(5) زندگی کو موت سے پہلے۔(مشکاۃ المصابیح، 2/245، حدیث: 5174)


انسانی زندگی کے تین حصے ہیں: (1)بچپن (2)جوانی(3)بڑھاپا بڑھاپے میں انسان مختلف بیماریوں اور جسم کی کمزوری کی وجہ سے بے بس ہوجاتا ہے اور ایسے موقع پراسے پیارومحبت، آرام و سکون اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے، دین اسلام نے جہاں نماز، روزہ، زکوۃ،حج، کاروبار اور دیگر معاملات میں ہماری شرعی رہنمائی فرمائی ہے وہیں ضعیف اور معمر لوگوں کے مقام و مرتبہ اور ان کے ساتھ کس طرح پیش آنا ہے یہ بھی بیان کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے بہت سے حقوق بھی کیے ہیں جنہیں پورا کرنے کا حکم دین اسلام نے بھی دیا ہے کچھ حقوق مندرجہ ذیل ہیں:

(1) معمر اور ضعیف لوگوں کا یہ حق ہے کہ ان کی عزت کی جائے حضور اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: بوڑھے مسلمان کی عزت کرنا اللہ پاک کی تعظیم میں سے ہے۔ (ابو داود، 4/344، حدیث: 4843)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بوڑھا شخص حضوراکرم ﷺ کی بارگاہ میں ملاقات کے لیے حاضرہوا، لوگوں نے اسے جگہ دینے میں دیر کی تو رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔ (ترمذی، 3/369، حدیث: 1926)

امام طاؤس فرماتے ہیں کہ چار شخصوں کی تعظیم کرنا سنت ہے: (1)عالم (2)بوڑھا(3)حاکم(4)باپ۔ (شعب الایمان،6/198، حدیث: 7893)

(2) معمر اور ضعیف لوگوں کا حق یہ بھی ہے کہ ان کی تعظیم کرتے ہوئے کھڑے ہوجائیں اور انہیں پہلے سلام کریں ان کے پاس کوئی سامان ہوتووہ سامان اٹھا کر ان کی مدد کریں اورسفرکرنے کےدوران اگران کے پاس بیٹھنے کی جگہ نہ ہوتو ان کو اپنی جگہ پربٹھائیں۔

(3)معمر اورضعیف لوگوں کا حق یہ بھی ہے کہ ان کی موجودگی میں ان کی اجازت کو مقدم کیا جائے جیسا کہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بوڑھوں کی عزت کاکمال درجہ یہ ہے کہ ان کی موجودگی میں ان کی اجازت کےبغیر بولا بھی نہ جائے۔ (احیاءالعلوم، 2/245)

(4) معمر اور ضعیف لوگوں کو ترجیح دی جائے یہ بھی ان کے حق میں شامل ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ جُہَیْنَہْ قبیلے کا ایک وفد بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اوران میں سے ایک نوجوان گفتگو کے لیے کھڑا ہوا تو پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: مَہْ فَاَیْنَ الْکَبِیْرُ یعنی تم ٹھہرو! بڑا کہاں ہے؟ (شعب الایمان، 7/461، حدیث:10996)

(5)معمر اور ضعیف لوگوں کا یہ بھی حق ہے کہ ان کی خدمت کی جائے تاکہ ان کی دعائیں ملیں۔ حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں بوڑھے شخص کی دعا زیادہ قبول ہے اور اللہ پاک سفید داڑھی بالوں والے بندے کے پھیلے ہوئے ہاتھ خالی نہیں پھیرتا۔ (مراۃ المناجیح، 6/516)

مزید یہ ہے کہ ان کے حقوق کا خیال رکھ کر ہمیں بھی دینی اور دنیاوی فوائد حاصل ہوں گے ان کی عزت و اکرام و احترام کرنے سے اللہ پاک کی رضا حاصل ہوگی رزق میں اضافہ ہوگا اور عمر میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بوڑھوں کی عزت کرنے کی توفیق اس شخص کو ملتی ہے جس کے لیے اللہ پاک نے لمبی عمر کا فیصلہ فرمادیا ہے۔ (احیاء العلوم، 2/245)

اللہ پاک ہمیں دین اسلام کی روشن تعلیمات پرعمل کرتے ہوئے معمر اور ضعیف حضرات کی عزت، ادب و احترام اور ان کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبین ﷺ


(پارہ:4، النساء،84) ترجمہ کنز الایمان: تو اے محبوب اللہ کی راہ میں لڑو تم تکلیف نہ دیئے جاؤ گے مگر اپنے دم کی اور مسلمانوں کو آمادہ کرو قریب ہے کہ اللہ کافروں کی سختی روک دے اور اللہ کی آنچ سب سے سخت تر ہے اور اس کا عذاب سب سے کرّا۔

سید المرسلین ﷺَ کی شجاعت: اس آیت سے ثابت ہوا کہ تاجدارِ مدینہ ﷺ شجاعت میں سب سے اعلیٰ ہیں کہ آپ کو تنہا کفار کے مقابل تشریف لے جانے کا حکم ہوا اور آپ آمادہ ہوگئے۔ اللہ پاک کے بعد مخلوق میں سب سے افضل و اعلیٰ ہمارے نبی ﷺ ہیں اور آپ ہر صفت کے جامع و کامل ہیں اور شجاعت و بہادری بھی ایک صفت ہے تو پھر کیوں نہ ہو کہ یہ صفت بھی سب سے زیادہ ہمارے نبیﷺ میں موجود ہو اور یہ صفت حضور کی اس بے مثال بہادری کی گواہی خود صحابہ کرام علیہم الرضوان نے دی ہے، آئیے اس کے متعلق صحابہ کرام کے چند اقوال پڑھیے اور ہمارے پیارے نبی ﷺ کی بہادری کا اندازہ لگائیے:

خادم رسول، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حبیبِ خدا ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ شُجاع اور بہادر تھے۔ (مسلم، ص 1242، حدیث: 2307)

جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: میں نے نبی کریم ﷺ سے زیادہ بہادر اور طاقتور، سخی اور پسندیدہ کسی کو نہیں دیکھا۔ (الشفا، ص 114)

حضور پرنور ﷺ کی بے مثل شجاعت و بہادری کا یہ عالم تھا کہ حضرت علی المرتضیٰ کرّم اللہ وجہہ الکریم جیسے بہادر صحابی کا یہ قول ہے: جب لڑائی خوب گرم ہو جاتی تھی اور جنگ کی شدّت دیکھ کر بڑے بڑے بہادروں کی آنکھیں پتھرا کر سرخ پڑ جایا کرتی تھیں اس وقت میں ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو کر اپنا بچاؤ کرتے تھے اور آپ ہم سب لوگوں سے زیادہ آگے بڑھ کر اور دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کر جنگ فرماتے تھے اور ہم لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ شخص شمار کیا جاتا تھا جو جنگ میں حضور سیدُ المُرسَلین ﷺ کے قریب رہ کر دشمنوں سے لڑتا تھا۔ (الشفا، ص114)

غزوۂ حنین کے دن جب ابتداء ًمسلمان کفار کے حملے کی تاب نہ لاتے ہوئے میدانِ جنگ سے فرار ہوئے تو ایسے نازک وقت میں نبی کریم ﷺ ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے بلکہ اپنے سفید خچر پر سوار دشمنوں کی جانب پیش قدمی فرماتے رہے۔ (مسلم، ص 978، حدیث: 1775)

غزوۂ اَحزاب کے موقع پر خندق کھودتے ہوئے ایک ایسی چٹان ظاہر ہوئی جو کسی سے نہ ٹوٹ سکی، سرکارِ کائنات ﷺ کے وار سے وہ چٹان پارہ پارہ ہو گئی۔ (نسائی، ص 517، حدیث: 3173)

ایک رات اہلِ مدینہ ایک خوفناک آواز سن کر دہشت زدہ ہو گئے تو اس آواز کی سمت سب سے پہلے حضور اقدس ﷺ تشریف لے گئے۔

الغرض ہر جگہ ہر موقعہ پر ہمیں حضور پاک صاحب لولاک ﷺ کی بے مثال و با کمال شجاعت و بہادری کا جوہر ملتا ہے۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

تم ہو حفیظ و مُغیث کیا ہے وہ دشمن خبیث تم ہو تو پھر خوف کیا تم پہ کروڑوں درود


حضور ﷺ کو اللہ پاک نے جس طرح جمالِ صورت میں اولین و آخرین سے ممتاز اور افضل و اعلی بنایا ہے۔ اسی طرح آپ  کو کمالِ سیرت میں بھی بےمثل و بےمثال پیدا فرمایا ۔ ہم اور آپ حضور اکرم ﷺ کی شانِ عظمت بے مثال کو بھلا کیا سمجھ سکتی ہیں ! حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو دن رات سفر و حضر میں فضل و کمال کی تجلیاں دیکھتے رہے انہوں نے محبوب خداﷺ کے فضل و کمال کی جو مصوری کی ہے اس کو سن اور پڑھ کر کسی مداح ِرسول نے کیا خوب کہا ہے کہ

لم يخلق الرحمنُ مثلَ محمد ابداً و علمى أنه لا يخلق

یعنی اللہ پاک نے حضرت محمد ﷺ کا مثل پیدا فرمایا ہی نہیں اور میں یہی جانتا ہوں کہ وہ کبھی نہ پیدا کرے گا۔( حیاۃ الحیوان، 1/42 )

حضور ﷺ محاسنِ اخلاق کے تمام گوشوں کے جامع تھے۔ یعنی حلم وعفو، رحم و کرم، عدل و انصاف، جو دو سخا ، ایثار و قربانی،مہمان نوازی ،حیاداری،منساری ،تواضع و انکساری، شجاعت و بہادری کی اتنی منزلوں پر آپ فائزو سرفراز ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک جملے میں اس کی تصویرکھینچتے ہوئے فرمایا:كان خُلْقهُ القُرآنیعنی تعلیمات ِقرآن پر پورا پورا عمل یہی آپ کے اخلاق تھے ۔( دلائل النبوة ،للبیہقی، 1/ 309 )

بہادری :

حضور ﷺ کے محاسنِ اخلاق سے ایک کمال خلق بہادری و شجاعت بھی تھا۔ حضور ﷺکی بہادری کے کیا کہنے!آپ کی بے مثال شجاعت و بہادری کا عالم یہ تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسےبہادر صحابی کا قول ہے کہہ جب لڑائی خوب گرم ہو جاتی تھی اور جنگ کی شدت دیکھ کر بڑےبڑے بہادروں کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں اس وقت ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے بچاؤ کی فکر کرتے اور آپ ہم سب لوگوں سے زیادہ آگے بڑھ کراور دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کرجنگ فرماتے تھے اورہم لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ شخص شمار کیا جاتا تھا جو جنگ میں رسول اللہ ﷺ کے قریب رہ کر دشمنوں ں سے لڑتا تھا۔(الشفاء،1/116)

حضرت ابن ِعمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ سے بڑھ کر کسی کوبہادر ،صاحب حوصلہ سخی ،اورہر معاملے میں خوش نہ دیکھا۔( مقدمہ دار می، 1 /30)

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺجب کسی لشکرکے مقابل ہوتے تو مسلمانوں میں سے سب سے پہلے حملہ کرتے۔ (مکارم اخلاق ،ص54)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ کریمﷺ تمام لوگوں سے بہتر ،سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ایک رات مدینہ کے لوگ گھبر اگئے اور آواز کی جانب چل پڑے تو دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس جانب سےواپس آرہے ہیں۔گویا آپ اس آواز کی جانب پہلے ہی پہنچ گئے تھے اور خیر کی خبر لائے تھے۔آپ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے پر بغیر زین وکاٹھی سوار ہو کر تلوار گلے میں لٹکا کر تشریف لے گئے تھے۔آپﷺ فرماتے تھے:ڈرو مت!ڈرو مت!۔

(بخاری،4/108-109، حدیث:6033)

حضرت براء بن عازب اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےبیان فر مایا ہے کہ جنگِ حنین میں بارہ ہزار مسلمانوں کالشکر کفار کے حملوں کی تاب نہ لاکر بھاگ گیا تھا اور کفار کی طرف سے لگاتار تیروں کا مینہ برس رہا تھا اس وقت میں بھی رسول الله ﷺ ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے۔بلکہ ایک سفید خچر پر سوار تھے اور حضرت ابو سفیان بن حارث رضی اللہ عنہ آپ کی خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھے اور آپ اکیلے دشمنوں کے دل بادل لشکروں کے ہجوم کی طرف بڑھتے چلےجا رہے تھے اور رجز کے یہ کلمات زبانِ اقدس پر جاری تھے:

اَنَا النَّبِيُّ لَا کَذِبْ         اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

یعنی میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے۔میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔

(بخاری ،3/111،حدیث:4317)(سیرتِ مصطفیٰ،ص620)(شرح زرقانی،3/517)

اللہ پاک ہمیں حضور ﷺ کی سیرتِ مبارکہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین


بہادری ایسی قابلِ ستائش اور لائقِ تعریف صفت ہے کہ ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ اس صفت سے متصف ہو۔ یہ صفت ایک آدمی کے جسمانی طور پر قوی و طاقتور ہونے پر منحصر نہیں ہے بلکہ یہ صفت قلب وجگر کی مضبوطی پر موقوف ہے۔ نبیِ اکرم ﷺ کی شجاعت وبہادری  اور دلیری کے متعدد ایسے واقعات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نہایت ہی بہادر ،شجاع اور دلیر ہیں ۔چنانچہ

جنگ و غزوات میں بہادری:

جنگ و غزوات میں جہاں بڑے بڑے دلاور و بہادر میدانِ جنگ چھوڑ کر بھاگ جایا کرتے تھے وہاں حضور ﷺ ثابت قدم رہا کرتے تھے۔جیسا کہ

جنگِ احد میں جب مسلمانوں کو ہزیمت ہوئی تو یہ کوہِ استقامت اپنی جگہ پر قائم رہے اور دشمنوں پر تیر پھینکتے رہے، جب کمان پارہ پارہ ہوگئی تو سنگ اندازی شروع کردی۔(سیرتِ رسولِ عربی،ص354)

جب گھمسان کا معرکہ ہوا کرتا تو صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین حضور ﷺ کی آڑ میں پناہ لیا کرتے۔چنانچہ حضرت براء بن عازب رضی الله عنہ کا قول ہے: اللہ پاک کی قسم ! جب لڑائی شدت سے ہوا کرتی تھی تو ہم نبیِ کریم ﷺ کی پناہ ڈھونڈا کرتے تھے اور ہم میں سے بہادر وہ ہوتا جو آپ کے ساتھ جنگ میں دشمن کے مقابلے میں کھڑا ہوتا۔(مسلم ،ص980، حدیث :1776)

تبلیغِ دین اور حق گوئی میں بہادری:

نبیِ کریم ﷺ تبلیغِ دین کرتے ہوئے بھی حق بیان کرنے سے پیچھے نہ ہٹے۔آپ کو جھٹلایا گیا، طرح طرح کی اذیتيں دی گئیں پھر بھی ڈٹ کر تبلیغِ دین کی یہاں تک کے جب ابو طالب نے بھی آپ کا ساتھ چھوڑنے کا اردہ کیا تو آپ نے فرمایا:چچا جان ! الله کی قسم ! اگر وہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ میں اور چاند کو بائیں ہاتھ میں رکھ دیں تاکہ میں اس کام کو چھوڑ دوں تب بھی اس کام کو نہ چھوڑوں گا یہاں تک کے خدا اسے غالب کردے یا میں ہلاک ہوجاؤں۔(سیرت رسول عربی،ص 355)

یوں ہی سرکارِ دو عالمﷺ کی خدمت ِاقدس میں نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد حاضر ہوا جو ساٹھ افراد پر مشتمل تھا ،ان میں سے چوبیس معززین اور تین قوم کے مقتدا اور پیشوائے اعظم تھے۔آپ نے انہیں دعوتِ اسلام دی مگر وہ آمادہ نہ ہوئے۔الله پاک نے ان کے قائل نہ ہونے کی صورت میں ان سے مباہلہ کرنے کا ارشاد فرمایا ۔حکمِ الٰہی کے مطابق نبیِ کریم ﷺ نے ان سے مباہلہ کے لئے کہا۔انہوں نے مہلت مانگی۔اگلے روز نبیِ پاک ﷺ مباہلہ کے لیے امام حسن، امام حسین ، مولا علی اور فاطمہ الزہرہ رضی الله عنہم کو لیے روانہ ہوئے اور ان سے فرمایا کہ جب میں دعا کروں تو آمین کہنا۔پنجتن پاک کو دیکھ کر ابو حارثہ جو بڑا پادری تھا کہنے لگا:میں وه صورتیں دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ خدا سے دعا کریں کہ پہاڑ اپنی جگہ ٹل جائے تو بیشک ان کی دعا سے ٹل جائے گا، اس لئے تم مباہلہ نہ کرو ، ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے اور روئے زمین پر قیامت تک کوئی عیسائی نہ رہے گا۔ الله کی قسم ! تمہیں اس کی نبوت معلوم ہو چکی ہے اور تمہارے صاحب ( عیسی) کے بارے میں قول فیصل لایا ہے ۔ اللہ کی قسم ! جس قوم نے مباہلہ کیا وه ہلاک ہوگئی ۔یہ سن کر عیسائی ڈر گئے اور مباہلہ کی جرأت نہ کر سکے بلکہ صلح کر لی اور جزیہ دینا قبول کر لیا۔

(مواھب لدنیہ مع شرح زرقانی، 5/186۔190ملتقطًا)

نبیِ کریم ﷺکی جسمانی قوت:

آپ ﷺ کی قوتِ بدنی بھی سب سے زیادہ تھی ۔یہاں تک کے پہلوانوں کو بھی پچھاڑ دیا کرتے تھے۔رکانہ بن عبد العزیز جو قریش میں سب سے طاقتور تھا آپ ﷺ نے اسے کشتی میں دو بار پچھاڑ دیا یوں ہی ابو الاسود جحمی کو بھی پچھاڑ دیا تھا جو ایسا طاقتور تھا کہ گائے کی کھال پر کھڑا ہو جاتا ، دس جوان اس کھال کو اس کے پاؤں کے نیچے سے نکال لینے کی کوشش کرتے وه چمڑا پھٹ جاتا مگر اس کے نیچے سے نہ نکل سکتا تھا ۔ اس نے رسول اللہ ﷺ سے کہا:اگر آپ مجھے کشتی میں پچھاڑ دیں تو میں آپ پر ایمان لے آؤں گا ۔ نبیِ کریم ﷺ نے اسے پچھاڑ دیا مگر وه بد بخت ایمان نہ لیا۔(مواہب لدنیۃ مع شرح زرقانی،6/103،104)

مختصر یہ کہ نبیِ کریم ﷺ کے تمام اوصافِ کریمہ کے ساتھ ساتھ وصفِ بہادری میں بھی ہمارے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے ۔ اللہ کریم ہمیں نبیِ کریم ﷺ کی شجاعت و بہادری کا صدقہ نصیب فرمائے ۔امین

بہادری کی تعریف:

درد اور غم کی حالت میں ہمت رکھنا۔ نامنظوری کے خطرہ کے باوجود کسی کے اعتقادات پر درعمل ظاہر کرنے کی صلاحیت کو بھی بہادری کہتے ہیں۔بہادری واقعی ہماری ان افراد اور لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے میں مدد کرتی ہے جو ہمارے ساتھ بُرا سلوک کرتے ہوں یا جن سے ہمیں خطرہ ہو ۔

نبیِ کریم ﷺ کی بہادری:

حضور ﷺ کی مبارک زندگی ہر طرح سے کامل و اکمل ہے۔جس طرح علم و حلم ،عفو و درگزر ، عدل و انصاف اور زہد و تقویٰ وغیرہ میں آپ کا کوئی مقابل نہیں اسی طرح بہادری اور شجاعت میں بھی آپ ﷺ اپنی مثال نہیں رکھتے۔

حضور ﷺ کی بہادری پر اقوال صحابہ

جنگوں میں بہادری کی کیفیت:

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب لڑائی خوب گرم ہو جاتی تھی اور جنگ کی شدت دیکھ کر بڑے بڑے بہادروں کی آنکھیں پتھرا کر سرخ پر جایا کرتی تھیں اس وقت میں ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو کر اپنا بچاؤ کرتے تھے اور آپ ہم سب لوگوں سے زیادہ آگے بڑھ کر اور دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کر جنگ فرماتے تھے اور ہم لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ شخص شمار کیا جاتا تھا جو جنگ میں آپ کے قریب رہ کر دشمنوں سے لڑتا تھا۔(الشفاء،1/116ملخصاً)

بہادری سے کفار پر تیر برسانا:

حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مشرکین نے قتل و غارت کر کے ہمیں نقصان پہنچایا مگر آپ اپنی جگہ پر ثابت قدم رہے،ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے بلکہ دشمنوں کے سامنے کھڑے اپنی کمان سے تیر برساتے رہے۔ایک بار آپ کے صحابہ کا ایک گروہ آپ کی طرف آیا، دوسری بار ( دشمن کے شدید حملے کی وجہ سے) آپ سے دور رہ جاتا۔لیکن میں نے جب بھی آپ کو دیکھا آپ اپنی جگہ پر شجاعت کے ساتھ اپنے کمان سے کفار پر تیر برسا رہے تھے حتی کہ مشرکین پیچھے ہٹ گئے۔ ( سبل الہدی و الرشاد ، 4/ 197)

بہادری میں بے مثال:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: حضور ﷺ سے زیادہ بہادر،طاقتور،سخی اور پسندیدہ میری آنکھوں نے کبھی کسی کو نہیں دیکھا ۔( سیرتِ مصطفیٰ،ص 220)

ان سب روایات اور اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بہادری اور شجاعت میں بھی بے مثال تھے۔آپ کی بہادری اور شجاعت کے بارے میں جتنا لکھا جائے اتنا کم ہے۔اللہ پاک نبیِ کریم ﷺ کی بہادری کے صدقے ہمیں بھی اسلام کے دشمنوں کے خلاف شجاعت و بہادری عطا فرمائے۔آمین


ہر خوبی و کمال جس کا تعلق جسم سے ہو یا روح سے، ظاہر سے ہو یا باطن سے،دنیا سے ہو یا آخرت سے، فکر سے ہو یا عمل سے،فردِ واحد سے ہو یا ساری قوم سے، زمانۂ ماضی سے ہو یا حال و مسقبل سے بعطائے الٰہی تمام تر معاملات میں سید الانبیاء،محمد مصطفےٰ  ﷺ اکمل ترین صورت میں پائے جاتے ہیں۔اسی طرح تاجدارِ مدینہ ﷺ بہادری و شجاعت میں بھی سب سے اعلیٰ ہیں۔حضورخاتم النبینﷺ کی شجاعت و بہادری اس مرتبہ تک تھی کہ اس سے ناواقف کوئی نہ تھا،آپ کو بہت سخت مواقع پیش آئے کہ بڑے بڑے نامور بہادر ٹھہر نہ سکے مگر آپ ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہے۔ حضور پرنورﷺ کی بے مثل شجاعت و بہادری کا عالم یہ تھا کہ

سب سے بڑھ کر بہادر:

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ جیسے بہادر صحابی کا کہنا ہے کہ جب لڑائی خوب گرم ہو جاتی تھی اور جنگ کی شدّت دیکھ کر بڑے بڑے بہادروں کی آنکھیں پتھرا کر سرخ پڑ جایا کرتی تھیں اس وقت میں ہم لوگ نبی اکرمﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو کر اپنا بچاؤ کرتے تھے اور آپ ہم سب لوگوں سے زیادہ آگے بڑھ کر اور دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کر جنگ فرماتے تھے اور ہم لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ شخص شمار کیا جاتا تھا جو جنگ میں حضور سیدُ المرسلینﷺ کے قریب رہ کر دشمنوں سے لڑتا تھا۔(الشفاء،1/116)

تم ہو حفیظ و مُغیث کیا ہے وہ دشمن خبیث تم ہو تو پھر خوف کیا تم پہ کروروں درود

تمام لوگوں میں زیادہ بہادر:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حبیبِ خدا ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ شُجاع اور بہادر تھے۔ (مسلم، ص1262،حدیث:2307)

وہ چقا چاق خنجر سے آتی ہے صدا مصطفیٰ تیری صورت پہ لاکھوں سلام

حملے میں پہل:

عمران بن حصین کہتے ہیں کہ سرورِ عالمﷺ جب کسی لشکر کے مقابل ہوتے تو مسلمانوں میں سب سے پہلے حملہ کرتے۔ (مکارم اخلاق، ص 54)

سچے کبھی باطل کی حمایت نہیں کرتے ہو موت بھی سر پر تو شکایت نہیں کرتے

چٹان کا ریزہ ریزہ ہوجانا:

غزوۂ خندق میں جب صحابہ کرام خندق کھود رہے تھے تو اتفاق سے ایک بہت بڑی چٹان نکل آئی، صحابہ کرام نے اپنی اجتماعی طاقت سے اس کو توڑنا چاہا مگر وہ نہ ٹوٹی تو لوگوں نے مجبور ہو کر بارگاہِ رسالت میں ماجرا عرض کیا تو خود اٹھ کر تشریف لائے اور پھاؤڑا ہاتھ میں لے کر ضرب لگائی تو وہ چٹان ریت کے بھربھرے ٹیلوں کی طرح ہو کر بکھر گئی۔(بخاری،3/51، حدیث:4101)

معلوم ہوا کہ حضور ﷺ بہت زیادہ بہادر اور طاقتور تھے لیکن کبھی بھی اپنی بہادری اپنے نفس کے لئے استعمال نہیں فرمائی ہمیشہ اللہ پاک اور دین کی سربلندی کے لئے ہی استعمال فرمائی ۔چنانچہ

آپ ﷺاپنے لئے غضب نہ فرماتے:

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے ہر گز نہیں دیکھا کہ حضور اکرمﷺ نے اپنے کسی کام کیلئے کسی پر غضب فرمایا ہو جب کوئی اللہ پاک کا حکم چھوڑتا تو حضور اکرمﷺ اس پر بہت ناراض ہوتے۔ ( کیمیائے سعادت ،ص 521)