ہر خوبی و کمال جس کا تعلق جسم سے ہو یا روح سے، ظاہر سے ہو یا باطن سے،دنیا سے ہو یا آخرت سے، فکر سے ہو یا عمل سے،فردِ واحد سے ہو یا ساری قوم سے، زمانۂ ماضی سے ہو یا حال و مسقبل سے بعطائے الٰہی تمام تر معاملات میں سید الانبیاء،محمد مصطفےٰ  ﷺ اکمل ترین صورت میں پائے جاتے ہیں۔اسی طرح تاجدارِ مدینہ ﷺ بہادری و شجاعت میں بھی سب سے اعلیٰ ہیں۔حضورخاتم النبینﷺ کی شجاعت و بہادری اس مرتبہ تک تھی کہ اس سے ناواقف کوئی نہ تھا،آپ کو بہت سخت مواقع پیش آئے کہ بڑے بڑے نامور بہادر ٹھہر نہ سکے مگر آپ ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہے۔ حضور پرنورﷺ کی بے مثل شجاعت و بہادری کا عالم یہ تھا کہ

سب سے بڑھ کر بہادر:

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ جیسے بہادر صحابی کا کہنا ہے کہ جب لڑائی خوب گرم ہو جاتی تھی اور جنگ کی شدّت دیکھ کر بڑے بڑے بہادروں کی آنکھیں پتھرا کر سرخ پڑ جایا کرتی تھیں اس وقت میں ہم لوگ نبی اکرمﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو کر اپنا بچاؤ کرتے تھے اور آپ ہم سب لوگوں سے زیادہ آگے بڑھ کر اور دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کر جنگ فرماتے تھے اور ہم لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ شخص شمار کیا جاتا تھا جو جنگ میں حضور سیدُ المرسلینﷺ کے قریب رہ کر دشمنوں سے لڑتا تھا۔(الشفاء،1/116)

تم ہو حفیظ و مُغیث کیا ہے وہ دشمن خبیث تم ہو تو پھر خوف کیا تم پہ کروروں درود

تمام لوگوں میں زیادہ بہادر:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حبیبِ خدا ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ شُجاع اور بہادر تھے۔ (مسلم، ص1262،حدیث:2307)

وہ چقا چاق خنجر سے آتی ہے صدا مصطفیٰ تیری صورت پہ لاکھوں سلام

حملے میں پہل:

عمران بن حصین کہتے ہیں کہ سرورِ عالمﷺ جب کسی لشکر کے مقابل ہوتے تو مسلمانوں میں سب سے پہلے حملہ کرتے۔ (مکارم اخلاق، ص 54)

سچے کبھی باطل کی حمایت نہیں کرتے ہو موت بھی سر پر تو شکایت نہیں کرتے

چٹان کا ریزہ ریزہ ہوجانا:

غزوۂ خندق میں جب صحابہ کرام خندق کھود رہے تھے تو اتفاق سے ایک بہت بڑی چٹان نکل آئی، صحابہ کرام نے اپنی اجتماعی طاقت سے اس کو توڑنا چاہا مگر وہ نہ ٹوٹی تو لوگوں نے مجبور ہو کر بارگاہِ رسالت میں ماجرا عرض کیا تو خود اٹھ کر تشریف لائے اور پھاؤڑا ہاتھ میں لے کر ضرب لگائی تو وہ چٹان ریت کے بھربھرے ٹیلوں کی طرح ہو کر بکھر گئی۔(بخاری،3/51، حدیث:4101)

معلوم ہوا کہ حضور ﷺ بہت زیادہ بہادر اور طاقتور تھے لیکن کبھی بھی اپنی بہادری اپنے نفس کے لئے استعمال نہیں فرمائی ہمیشہ اللہ پاک اور دین کی سربلندی کے لئے ہی استعمال فرمائی ۔چنانچہ

آپ ﷺاپنے لئے غضب نہ فرماتے:

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے ہر گز نہیں دیکھا کہ حضور اکرمﷺ نے اپنے کسی کام کیلئے کسی پر غضب فرمایا ہو جب کوئی اللہ پاک کا حکم چھوڑتا تو حضور اکرمﷺ اس پر بہت ناراض ہوتے۔ ( کیمیائے سعادت ،ص 521)