حضور ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا ہر پہلو ہر طرح سے کامل و اکمل ہے۔جس طرح آپ کے اوصاف میں کوئی آپ کا ثانی و مثل نہیں اسی طرح آپ کی شجاعت و بہادری میں کوئی آپ کے جیسا نہیں۔بہادری اردو زبان کا لفظ
ہے ،اس کو عربی میں شجاعت کہتے ہیں۔حضور اکرمﷺ کی بے مثال شجاعت کا عالم یہ تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے بہادر صحابی کا یہ قول ہے کہ جب لڑائی خوب گرم
ہوجاتی تھی اور جنگ کی شدت دیکھ کر بڑے
بڑے بہادروں کی آنکھیں پتھرا کر سرخ پڑجایا
کرتی تھیں اس وقت میں ہم لوگ حضورﷺ کے پہلو میں اپنابچاوٴ کرتے تھے اور آپ سب سے زیادہ آگےبڑھ کر اور
دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کر جنگ فرماتے تھے۔(الشفاء،1/116)
آپﷺ اپنی
شجاعت میں بھی سب
پر فائق تھے۔چنانچہ ایک رات مدینہ منورہ کے لوگ ڈر گئے اور شور وغل برپا ہوگیاگویا کوئی چور یا دشمن آتا ہے ۔ آپ نے ابو طلحہ کا گھوڑا لیا جو سست رفتاراور سرکش تھا، اس کی
پیٹھ پر بغیر زین کےسوارہوگئے اور تلوار لٹکائےہوئے جنگل کی طرف اکیلے ہی تشریف لے گئے، جب لوگ اس آواز کی طرف گئے تورسول اللہﷺ ان کو راستے میں واپس آتے ہوئے ملے،آپ نے ان کو تسلی دی کہ ڈرو مت! ڈرو مت! اور گھوڑے کی نسبت
فرمایا کہ ہم نے اسے دریا کی مانند تیز رفتار پایا۔
(بخاری ،4/108-109،
حدیث:6033)
حضرت عبداللہ بن
عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ حضورﷺ سے زیادہ بہادر، طاقتور، سخی اور پسندیدہ میری آنکھوں نے کبھی کسی کو نہیں دیکھا۔(سیرت مصطفیٰ ،
ص620)
اسی طرح غزوات میں جہاں بڑے بڑے دلاور و بہادر بھاگ جایا کرتےتھے آپ ثابت قدم رہا کرتے تھے۔ چنانچہ
جنگِ احد میں جب مسلمانوں کو ہزیمت ہوئی تو یہ کوہ ِاستقامت اپنی جگہ پر قائم رہے
اور دشمنوں پر تیر پھنکتے رہے ،جب کمان
پارہ پارہ ہوگئی تو سنگ اندازی شروع کی۔
جنگِ حنین میں چند جانباز آپ کے ساتھ رہ گئے تھے باقی سب بھاگ گئے تھے اس نازک حالت میں آپ نے اسی پر اکتفا نہ کیا کہ اپنی جگہ پر قائم
رہ کر دفاع فرمائیں بلکہ اپنے خچر کو بار بار ایڑ لگاکر دشمن کی
طرف بڑھنا چاہتے مگر وہ جانباز مانع آرہے
تھے۔
(سیرت رسول عربی، ص 217)
حضور ﷺ کی بہادری کے
تو کیا کہنے کہ جب اعلانِ دعوت پر قریش نے آپ کی سخت مخالفت کی اور ابو طالب نے بھی آپ کا ساتھ چھوڑنےکا ارادہ کیا تو آپ نے یوں فرمایا:چچا جان! اللہ کی قسم! اگر وہ سورج
کو میرے دائیں ہاتھ میں اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ میں رکھ دیں تاکہ میں اس کام کو
چھوڑ دوں تب بھی میں اس کام کو نہیں
چھوڑوں گا یہاں تک کہ خدا اسے غالب کردے یا میں ہلاک ہوجاؤں۔
(سیرت رسول عربی ،ص 218)
اللہ کریم آقا کریمﷺ
کے صدقے دینِ اسلام کے معاملے میں ہمیں بہادری اور ہمت سے کام کرنے کی توفیق عطا فرما ئے۔ آمین
بہادری یہ اردو زبان کا کلمہ ہے اور اس کو عربی میں شجاعت
کہتے ہیں جو کہ ایک فضیلت ہے۔ شجاعت یہ ہے کہ غضب کی قوت ہوتے ہوئے اس کو عقل کے
تابع کر دیا جائے۔حضور ﷺ کی شجاعت و بہادری اس مرتبے تک تھی کہ کوئی اس سے ناواقف
نہ تھا یعنی مشہور تھی۔آپ کو بہت سے سخت مواقع پیش آئے کہ بڑے بڑے بہادر شجاع نہ
ٹھہر سکے مگر آپ ثابت قدم رہے اور نہ ہٹے مقابلہ کیا مگر پیٹھ نہ دکھائی، نہ وہاں
سے ایک انچ بھی ادھر ادھر ہوئے۔ کوئی شجاع ہو مگر وہ بھاگنے پر مجبور ہوتا وہ دور شمار میں آتا ہے اور اس کے ٹل جانے کی یاد
باقی رہتی ہے،لیکن حضور ﷺ ہر مقام پر ثابت قدم رہے،نیز رسول اللہ ﷺ دیگر اوصافِ حمیدہ
کی طرح اس وصف میں بھی سب پر فائق تھے،چنانچہ روایت میں ہے کہ ایک رات مدینہ منورہ
کے لوگ ڈر گئے اور شور و غل برپا ہوا گویا کوئی چور یا دشمن آیا ہے، آپ نے حضرت
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا گھوڑا لیا جو سست رفتار اور سرکش تھا، آپ اس کی پیٹھ پر
بغیر زین کے سوار ہو گئے اور تلوار لٹکائے ہوئے جنگل کی طرف اکیلے ہی تشریف لے گئے،
جب لوگ اس آواز کی طرف گئے تو رسول اللہ ﷺ ان کو راستے میں واپس آتے ہوئے ملے،آپ
نے ان کو تسلی دی کہ ڈرو مت! ڈرو مت!اور گھوڑے کی نسبت فرمایا کہ ہم نے اسے دریا کی
مانند تیز رفتار پایا ہے۔(بخاری،4/108،109،حدیث:6033)
غزوات میں جہاں بڑے بڑے دلاور بہادر بھاگ جایا کرتے تھے آپ
ثابت قدم رہا کرتے تھے ۔چنانچہ
جنگِ احد میں جب
مسلمانوں کو ہزیمت ہوئی تو یہ کوہ ِاستقامت اپنی جگہ پر قائم رہے اور دشمنوں پر تیر
پھینکتے رہے جب کمان پارہ پارہ ہو گئی تو سنگ اندازی شروع کی۔جنگِ حنین میں صرف
چند جانباز آپ کے ساتھ رہ گئے تھے باقی سب بھاگ گئے تھے ،اس نازک حالت میں آپ
نے اسی پر اکتفا نہ کیا کہ اپنی جگہ پر
قائم رہ کر دفاع فرمائیں بلکہ اپنے خنجر کو بار بار ایڑ لگا کر دشمن کی طرف بڑھانا
چاہتے تھے مگر وہ جانباز مانع آ رہے تھے۔
(سیرتِ رسولِ عربی،ص354)
جب گھمسان کا معرکہ
ہوا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضورﷺکی آڑ میں پناہ لیا کرتے تھے
چنانچہ حضرت برا بن عازب رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اللہ پاک کی قسم! جب لڑائی شدت
سے ہوا کرتی تھی تو ہم رسول اللہ ﷺ کی پناہ ڈھونڈا کرتے تھے اور ہم میں سے بہادر
وہ ہوتا تھا جو آپ کے ساتھ دشمن کے مقابل کھڑا ہوتا تھا۔(مسلم،ص980،حدیث:1776)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب لڑائی شدت اختیار
کر جاتی اور آنکھیں سرخ ہو جاتیں تو ہم رسول اللہ ﷺ کے بچاؤ کی فکر کرتے لیکن آپ
سے زیادہ کوئی بھی دشمن کے قریب نہ ہوتا۔
(الشفاء،1/116)
اسی طرح ایک جنگ میں ابی بن خلف
ملعون اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر آپ کو شہید کر دینے کی نیت سے آگے بڑھا۔ حضورِ
اقدس ﷺ نے اپنے ایک جاں نثار صحابی حضرت حارث بن صمہ رضی اﷲ عنہ سے ایک چھوٹا سا
نیزہ لے کر ابی بن خلف کی گردن پر ماراجس سے وہ تلملا گیا۔گردن پر بہت معمولی زخم
آیا اور وہ بھاگ نکلامگر اپنے لشکر میں جا کر اپنی گردن کے زخم کے بارے میں لوگوں
سے اپنی تکلیف اور پریشانی ظاہر کرنے لگااور بے پناہ ناقابلِ برداشت درد کی شکایت
کرنے لگا۔اس پر اس کے ساتھیوں نے کہا:یہ تو معمولی خراش ہے!تم اس قدر پریشان کیوں
ہو؟ اس نے کہا کہ تم لوگ نہیں جانتے کہ ایک مرتبہ مجھ سے محمد(ﷺ) نے کہا تھا کہ
میں تم کو قتل کروں گا!اس لئے۔یہ توبہرحال زخم ہے میراتو اعتقادہے کہ اگر وہ میرے
اوپر تھوک دیتے تو بھی میں سمجھ لیتا کہ میری موت یقینی ہے۔
(مدارج النبوت،2/127۔129ملتقطاً)
اسی طرح امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنے قصیدے میں
ایک شعر یہ بھی ذکر کیا ہے جس کا ترجمہ
کچھ یوں ہے کہ آپ ﷺ معرکہ میں کافروں کا
مقابلہ کرتے رہے یہاں تک کہ دشمن نیزوں کے پےدر پے وار کے سبب تختہ قصاب پر رکھے
ہوئے گوشت کے مشابہ ہو گئے تھے۔
تشریح: اس شعر میں حضور ﷺ کی شجاعت کا ذکر ہے کہ حضور ﷺ
اعلاء کلمۃ اللہ یعنی اللہ پاک کا نام بلند کرنے کے لیے کفار سے برابر جنگ کرتے
رہے اور پھر امام بوصیری نے فرمایا:ان کفار کی لاشیں صحابہ کے نیزوں پر ایسی لٹک
رہی تھی جیسے قصاب کا گوشت سلاخوں پر لٹکتا ہے۔(قصیدہ بردہ شریف،ص145)
اے اللہ پاک اس قوم کو بھی حضور ﷺ کی بہادری کے صدقے بہادری
عطا فرما،اسلام کو غلبہ عطا فرما اور اُمّت ِمسلمہ کوجہاد کے ذریعے فتحِ عظیم
عطافرما۔آمین
حضور ﷺ اس وصف پر
بھی فائق تھے۔ رسولِ اکرم ﷺ کی بے مثال شجاعت کا یہ عالم تھا کہ حضرت علی رضی اللہ
عنہ جیسے بہادر صحابی کا یہ قول ہے کہ جب لڑائی خوب گرم ہو جاتی تھی اور جنگ کی
شدت دیکھ کر بڑے بڑے بہادروں کی انکھیں پتھرا کر سرخ پڑجایا کرتی تھی اس وقت میں
ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو کر اپنا بچاؤ کرتے تھے اور آپ ہم سب لوگوں
سے زیادہ آگے بڑھ کر اور دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کر جنگ فرماتے تھے اور ہم
لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ شخص شمار کیا جاتا تھا جو جنگ میں رسول اللہ ﷺ کے
قریب رہ کر دشمنوں سے لڑتا تھا۔(سیرتِ مصطفیٰ، ص 619تا620)
جس کو بارِ دو عالم
کی پرواہ نہیں ایسے بازو کی قوت
پہ لاکھوں
غزوات میں جہاں بڑے بڑے دلارو بہادر بھاگ جایا کرتے تھے آپ ﷺ
ثابت قدم رہا کرتے تھے چنانچہ جنگِ احد میں جب مسلمانوں کو ہزیمت ہوئی تو یہ کوہِ
استقامت اپنی جگہ پر قائم رہے اور دشمنوں پر تیر پھینکتے رہے۔جب کمان پارہ پارہ ہو
گئی تو سنگ اندازی شروع کی۔جنگِ حنین میں صرف چند جانباز آپ کے ساتھ رہ گئے تھے
باقی سب بھاگ گئے تھے اس نازک حالت میں
آپ نے اسی پر اکتفا نہ کیا کہ اپنی جگہ پر
قائم رہ کر دفاع فرمائیں بلکہ اپنے خچر کو بار بار ایڑ لگا کر دشمن کی طرف بڑھانا
چاہتے تھے مگر وہ جان باز مانع آرہے تھے۔ جب گھمسان کا معرکہ ہوا کرتا تھا تو
صحابہ کرام علیہم الرضوان حضور ﷺ کی آڑ میں پناہ لیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت براءبن
عازب رضی اللہ عنہ کا قول ہے: اللہ پاک کی
قسم!جب لڑائی شدت سے ہوا کرتی تھی تو ہم نبی ﷺ کی پناہ ڈھونڈا کرتے تھے اور ہم میں
سے بہادر وہ ہوتا تھا جو آپ کے ساتھ دشمن کے مقابل کھڑا ہوتا تھا۔(مسلم، ص980، حدیث:1776)(سیرتِ رسولِ عربی،ص349)
ایک رات مدینۂ منورہ کے لوگ ڈر گئے اور شور وغل برپا ہوا
گویا کوئی چور یا دشمن آیا ہے توآپ نے
حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا گھوڑا لیا جو سست رفتار اور سرکش تھا،آپ اس کی پیٹھ پر بغیر زین کے سوار ہو گئے اور تلوار
لٹکائے ہوئے جنگل کی طرف اکیلے ہی تشریف لے گئے جب لوگ اس آواز کی طرف گئے تو رسول
اللہ ﷺ راستے میں واپس آتے ہوئے ملے ،آپ
نے ان کو تسلی دی کہ ڈرو مت! ڈرو مت!اور گھوڑے کی نسبت فرمایا کہ ہم نے اسے دریا کی
مانند تیز رفتار پایا۔(بخاری،4/108-109،
حدیث:6033)
اعلانِ دعوت پر قریش نے آپ کی سخت مخالفت کی، جب ابو طالب
نے بھی آپ کا ساتھ چھوڑنے کا ارادہ کیا تو آپ نے یوں فرمایا:چچا جان!اللہ کی
قسم!اگر وہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ میں اور چاند کو بائیں ہاتھ میں رکھ دیں تاکہ
میں اس کام کو چھوڑ دوں تب بھی اس کام کو نہ چھوڑوں گا یہاں تک کہ خدا اسے غالب کر
دے یا میں خود ہلاک ہو جاؤں۔(سیرۃ نبویۃ لابن ہشام،ص103،104ملخصاً)
ہجرت سے پہلے قریش نے مسلمانوں کو اس قدر ستایا کہ ان کا پیمانہ
صبر لبریز ہو گیا تنگ آکر انہوں نے حضور ﷺ سے عرض کی کہ آپ ان پر بددعا فرمائیں،یہ
سن کر آپ کا چہرۂ مبارک سرخ ہو گیا اور فرمایا:تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں ان پر
لوہے کی کنگھیاں چلائی جاتیں جس سے گوشت پوست سب علیحدہ ہو جاتا اور ان کے سروں پر
آرے رکھے جاتے اور چیر کر دو ٹکڑے کر دیے جاتے مگر یہ اذیتیں ان کو دین سے پھیر نہ
سکتی تھیں۔ اللہ پاک دینِ اسلام کو کمال تک پہنچائے گا یہاں تک کہ ایک سوار
صنعاء سےحضر موت تک سفر کرے گا اور اسے
خدا کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوگا۔(بخاری، 2/573،حدیث: 3802)
رہے گا روز افزوں
آپ کا شہرہ قیامت میں بلاغت کا فصاحت کا شجاعت کا سخاوت کا
حضور ﷺ کی قوتِ بدنی بھی سب سے زیادہ تھی۔غزوۂ احزاب میں
جب صحابہ کرام علیہم الرضوان خندق کھود رہے تھے تو ایک جگہ ایسی سخت زمین ظاہر ہوئی
کہ سب عاجز آگئے اور آپ سے عرض کیا گیا تو آپ خندق میں اترے اور ایک کدال ایسا مارا کہ وہ سخت زمین ریگ رواں کا ایک
ڈھیر بن گئی۔(سیرت رسول عربی ،ص،354 تا 355)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ
حضور ﷺ سے زیادہ بہادر اور طاقتور، سخی اور پسندیدہ میری انکھوں نے کبھی کسی کو نہیں
دیکھا۔(سیرتِ مصطفیٰ،ص620)
رکانہ پہلوان سے کشتی:
حضور اقدس ﷺ کی جسمانی طاقت بھی حد اعجاز کو پہنچی ہوئی تھی
اور آپ نے اپنی اس معجزانہ طاقت و قوت سے ایسے ایسے محیرالعقول کار ناموں اور
کمالات کا مظاہرہ فرمایا کہ عقلِ انسانی اس کے تصور سے حیران رہ جاتی ہے۔چنانچہ
عرب کا مشہور پہلوان رکانہ آپ کے سامنے سے گزرا ،آپ نے اس
کو اسلام کی دعوت دی تو وہ کہنے لگا کہ اے محمد!اگر آپ مجھ سے کشتی لڑ کر مجھے
پچھاڑ دیں تو میں آپ کی دعوت اسلام کو قبول کر لوں گا۔حضور اکرم ﷺ تیار ہو گئے اور
اس سے کشتی لڑ کر اس کو پچھاڑ دیا، پھر اس
نے دوبارہ کشتی لڑنے کی دعوت دی آپ نے دوسری مرتبہ بھی اپنی پیغمبر انہ طاقت سے اس
کو اس زور کے ساتھ زمین پر پٹک دیا کہ وہ دیر تک اٹھ نہ سکا اور حیران ہو کر کہنے
لگا کہ اے محمد! خدا کی قسم!اپ کی عجیب شان ہے کہ آج تک عرب کا کوئی پہلوان میری پیٹ
زمین پر نہیں لگا سکا مگر آپ نے دم زدن مین مجھے دو مرتبہ زمین پر پچھاڑ دیا۔(سیرتِ
مصطفیٰ،ص 621)
نہیں وہ
میٹھی نگاہ والا خدا کی رحمت ہے جلوہ فرما غضب
سے اُن کے خدا بچائے جلال باری عتاب میں ہے
اے اللہ کریم !ہمیں بھی بہادری کے ساتھ دین کے کاموں میں دل
جمعی کے ساتھ ہر وقت خوشاں رہنے کی توفیق اور اپنے پیارے حبیب اللہ ﷺ کی پیروی
کرنے کی توفیق عطا فرما۔آمین
بہادری کے لغوی معنی ہیں:جرأت،شجاعت ،دلیری،جوانمردی۔
بہادری اور طاقتوری کے بارے میں حدیثِ مبارکہ میں جو بیان کیا
گیا ہے وہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا :طاقتور وہ نہیں جو پہلوان ہو دوسرے کو
پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔( بخاری ،4/130،حدیث: 6114)
بہرحال بہادری کی جو بھی تعریف کی جائے،آقا ﷺ جس طرح دوسری
صفات میں کامل واکمل و بے مثال ہیں اسی طرح کریم آقا ﷺ اپنی بہادری میں بھی بے مثل
وبے مثال تھے ۔
سب سے اعلیٰ عزت
والے غلبہ و قہرو طاقت والے
حرمت والے کرامت
والے تم پر لاکھوں سلام
ویسے تو آقا کریم ﷺ کی مبارک زندگی اس طرح کے واقعات سے بھری
پڑی ہے لیکن اختصار کے پیشِ نظر کچھ واقعات پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گی۔
نبیِ کریم ﷺ اور عرب کے مشہور پہلوان:
مضافاتِ مکہ میں رکانہ نامی پہلوان رہتا تھا،اس کا نسبی تعلق خاندانِ بنو
ہاشم سے تھا،وہ بڑا ہی طاقتور،شہ زور، زبردست رعب و دبدبے کا مالک اور مار دھاڑ
کرنے والا شخص تھا۔کوہِ اضم کے دامن میں ایک شاداب وادی تھی جہاں وہ بکریاں چرایا
کرتا تھا ،اس وادی میں کسی کو دم مارنے کی جرأت نہ ہوتی تھی،لوگ اس کا سامنا کرنے
سے کتراتے تھے،مشرکین اور دیگر دشمنانِ اسلام کے پروپیگنڈے کی وجہ سے وہ رسولِ
اکرم ﷺ سے شدید نفرت کے جذبات رکھتا تھا، اس کی دشمنی اس حد تک تھی کہ معاذ اللہ
وہ آپ کو شہید کرنے کےدرپے ہو گیا تھا۔امت پر مہربان،دو جہان کے سلطان ﷺ کسی قسم
کے خطرے کو خاطر میں لائے بغیر ایک روز دینِ اسلام کی دعوت کے لئے رُکانہ کی وادی
میں تنِ تنہا تشریف لے گئے،رُکانہ بھی ادھر آنکلا، آپ کو دیکھ کر بپھر گیا اور
تکبر کے نشے میں بد مست ہو کر بولا: یامُحَمّدُ
!اَنْتَ الّذِیْ تَشْتِمُ اٰلِھَتَنَا یعنی اے
محمد! آپ ہی ہیں وہ جو ہمارے معبودوں کو بُرا کہتے ہیں؟ اس کے بعد وہ مزید تلخ
کلامی پر اتر آیا اور کہنے لگا:اے محمد! آپ ہمارے معبودوں کو نیچا اور کمزورکہتے ہیں
اور اپنے رب کی بڑائی بیان کرتے ہیں۔ اگر میرا آپ کے ساتھ خاندانی رشتہ نہ ہوتا تو
آج میں آپ کا کام تمام کر دیتا، لیکن میں آپ کو بغیر مقابلہ کئے جانے نہ دوں گا۔اس
کے بعد رُکانہ نے آپ کو کُشتی لڑنے کی دعوت دی اور کہا:میں اپنے خداؤں کو پکاروں
گا اور آپ اپنے خدا کو مدد کے لئے پکاریں،اگر آپ نے مجھے پچھاڑ دیا تو میں آپ کو
دس بکریاں دوں گا۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اس کا چیلنج قبول کر لیا اور اس سے کُشتی
لڑنے پر آمادہ ہو گئے۔آپ نے رُکانہ کے ہاتھوں میں ہا تھ دیئے اور اس کا پنجہ مروڑ
دیا ،رُکانہ کے ہوش اُڑ گئے اور وہ درد سے تڑپنے لگا،آپ نے اسے دھکا دیا تو وہ خشک
پتے کی طرح زمین پرگر گیا۔رُکانہ کو اپنی قوتِ بازو پر ناز تھا، وہ سوچ بھی نہیں
سکتا تھا کہ صادق و امین ﷺ یوں چند لمحوں
میں اسے اس طرح نیچا دکھا دیں گے، جو کچھ ہوا اس کی توقع کے برعکس تھا لیکِن رُکانہ
نے اسے اتفاق سمجھتے ہوئے ہار نہ مانی، ہوش بحال ہوئے تو اس نے دوبارہ کُشتی لڑنے
کی درخواست کی ،آپ ﷺ نے اس کی درخواست منظور فرما لی لیکن اس کا نتیجہ بھی پہلے سے
مختلف نہ ہوا یعنی اس بار بھی وہ ایک لمحہ میں ہار گیا۔ رُکانہ تصویر ِحیرت بن گیا،
اس کے وہم وگمان میں بھی نا تھا کہ اس جیسے ہٹے کٹے پہلوان کا ایسا حشر ہو گا لیکن
اب بھی وہ شکست قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوا اورتیسری بار پھر کُشتی لڑنے کی درخواست کی جو
آپ نے قبول فرما لی۔ تیسری بار پھر شکست اس کا مقدر بنی اور وہ آپ کے زورِ بازو کی
تاب نہ لاکر گر گیا اور بولا:یہ سب آپ نے نہیں کیا بلکہ آپ کے غالب و وقادر معبود اللہ
پاک نے کیا ہے، جبکہ میرے خداؤں نے مجھے رسوا کیا ہے۔(دلائل النبوۃ للاصبہانی ،2/235 ماخوذاً)
شہزادہ ٔاعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
بگڑی ناؤ کون سنبھالے ہائے
بھنور سے کون نکالے
ہاں ہاں زور و طاقت والے تم پر لاکھوں
سلام
تم پر لاکھوں سلام تم پر لاکھوں
سلام
سبحان اللہ! ہمارے پیارے آقا ﷺ کس قدر بہادر تھے کہ آپ نے
رُکانہ جیسے پہلوان کو ہر بار پچھاڑ کر رکھ دیا۔اس واقعہ میں آقا ﷺ کی ہر طرح
بہادری موجود ہے یعنی جسمانی طاقت کے
اعتبار سے بھی، نڈر ہونے کے اعتبار سے بھی اور غصے پر قابو کے اعتبار سے بھی۔تاریخ
ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔چنانچہ
ایک رات مدینہ منورہ کے لوگ ڈر گئے اور شور و غل برپا ہوا
کہ کوئی چور یا دشمن آیا ہے۔آپ نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا گھوڑا لیا جو سست
رفتار اور سرکش تھا۔آپ اس کی پیٹھ پر بغیر زین کے سوار ہو گئے اور تلوار آڑے
لٹکائے ہوئے جنگل کی طرف اکیلے ہی تشریف لے گئے۔جب لوگ اس آواز کی طرف گئے تو رسول
اللہ ﷺ ان کو راستے میں واپس آتے ہوئے ملے۔آپ نے ان کو تسلی دی اور فرمایا: ڈرو مت!
ڈرو مت ! اور گھوڑے کی نسبت فرمایا :ہم نے اسے دریا کی مانند تیز رفتار پایا۔
(بخاری،4/108-109، حدیث:6033)
غزوات میں جہاں بڑے
بڑے بہادر و دلاور بھاگ جایا کرتے تھےآپ ثابت قدم رہا کرتے تھے جیسا کہ جنگ ِ اُحد
میں جب مسلمانوں کو شکست ہوئی تو آپ پھر بھی ثابت قدم رہے اور دشمنوں پر تیر پھینکتے
رہے۔جنگ حنین میں صرف چند جانباز آپ ﷺ کے ساتھ رہے باقی سب بھاگ گئے اس نازک وقت میں
آپ نے اسی پر اکتفا نہ کیا کہ اپنی جگہ پر قائم رہ کر مدافعت فرمائیں بلکہ اپنے
خچر کو بار بار ایڑ لگا کر دشمن کی طرف بڑھانا چاہتے تھے مگر وہ جانباز مانع آ رہے
تھے۔(سیرت رسولِ عربی،ص354)
آقا ﷺ کی قوتِ بدنی اس قدر زیادہ تھی کہ غزوۂ احزاب میں جب
سب صحابہ کرام علیہم الرضوان خندق کھود رہے تھے تو ایک ایسی سخت چٹان ظاہر ہوئی کہ
سب عاجز آ گئے آپ ﷺ سے عرض کیا گیا تو آپ ﷺ بذات خود تشریف لائے حالانکہ اس وقت
بھوک کی وجہ سے شکمِ اطہر پر پتھر باندھا ہوا تھا، تو پیارے آقا ﷺ بھوک کی شدّت کے
باوجود خود خندق میں اترے اور ایک کدال ایسا مارا کے وہ ریت کے بھر
بھرے ٹیلے کی طرح بکھر کر پاش پاش ہو گئی۔(بخاری،3/51،حدیث:4101ملخصاً)
اس سے معلوم ہوا
کہ پیارے آقا ﷺ جیسا نہ کوئی ہے نہ ہو گا اور نہ ہی ہو سکتا ہے، اسی لئے تو اعلیٰ حضرت
رحمۃ اللہ علیہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
یہی بولے سِدرہ والے چمنِ جہاں کے تھالے سبھی میں نے چھان ڈالے تِرے پایہ کا نہ پایا
تجھے یک نے یک بنایا
جب گھمسان کا معرکہ ہوا کرتا تھا تو صحابہ کرام علیہم
الرضوان حضور ﷺ کی آڑ میں پناہ لیا کرتے تھے چنانچہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں:اللہ پاک کی قسم! جب لڑائی شدت سے ہوا کرتی تھی تو ہم نبیِ کریم ﷺ
کی پناہ ڈھونڈا کرتے تھے اور ہم میں سے بہادر وہ ہوا کرتا تھا جو آپ ﷺ کے ساتھ
دشمن کے مقابل کھڑا ہوتا تھا۔(مسلم، ص980،
حدیث:1776)
اللہ پاک ہمیں آقا ﷺ کی بہادری کے صدقے دین کے تمام معاملات
میں بہادری دکھانے کی توفیق مرحمت فرمائے اور ہمیں بہادر بنائے۔آمین بجاہِ خاتم ِالنبیین
ﷺ
جیسے ہمارے آقاﷺباقی صفات میں بے مثل و بے مثال تھے ویسے ہی
آپ کی بہادری بھی بے مثال تھی۔ چنانچہ ایک رات مدینہ کے لوگ ڈر گئے اور شور و غل
برپا ہو گیا گویا چور یا ڈاکو آگیا ہو،حضور ﷺ نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا گھوڑا
لیا جو کہ سست رفتار اور سرکش تھا،آپ ﷺ اس کی پیٹھ پر بغیر زین کے سوار ہو گئے اور
تلوار آڑے لٹکائے ہوئے جنگل کی طرف اکیلے ہی تشریف لے گئے۔ جب لوگ اس آواز کی طرف
لوٹے تو حضور ﷺ ان کو راستے میں واپس آتے ہوئے ملے اور آپ نے ان کو تسلی دی کہ ڈرو
مت ڈرو مت! اور گھوڑے کی نسبت فرمایا کہ ہم نے اسے دریا کی مانند تیز رفتار پایا۔
(سیرتِ رسولِ عربی،ص
354)
قریش کی
مخالفت اور حضور ﷺ کی بہادری:
اعلانِ دعوت پر قریش
نے آپ کی سخت مخالفت کی، جب ابو طالب نے بھی آپ کا ساتھ چھوڑنے کا ارادہ کیا تو آپ
نے یوں فرمایا:چچا جان!اللہ کی قسم! اگر وہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ میں اور چاند
کو بائیں ہاتھ میں رکھ دیں تاکہ میں اس کام کو چھوڑ دوں تب بھی میں اس کام کو نہ
چھوڑوں گا یہاں تک کہ خدا اسے غالب کر دے یا میں خود ہلاک ہو جاؤں۔(سیرت رسول عربی،ص
355)
آقا ﷺ
کی شجاعت کے متعلق صحابہ کرام کے اقوال:
حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے بہادر صحابی کا قول ہے کہ جب
لڑائی خوب گرم ہو جاتی تھی اور جنگ کی شدت دیکھ کر بڑے بڑے بہادروں کی انکھیں
پتھرا کر سرخ پڑ جایا کرتی تھی اس وقت ہم
آقا ﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو کر اپنا بچاؤ کرتے تھے۔آپ ﷺ ہم سب لوگوں سے زیادہ آگے
بڑھ کر اور دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کر جنگ فرماتے تھے اور ہم لوگوں میں سب سے زیادہ
بہادر وہ شمار کیا جاتا تھا جو جنگ میں رسول اللہ ﷺ کے قریب رہ کر دشمنوں سے لڑتا
تھا۔(الشفاء،1/116)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ
حضور ﷺ سے زیادہ بہادرو طاقتور، سخی اور پسندیدہ میری آنکھوں نے کبھی کسی اور کو
نہیں دیکھا۔(دارمی،1/44،
رقم:59)
حضرت براء بن عاذب رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اللہ کی قسم!
جب لڑائی شدت سے ہوا کرتی تھی تو ہم نبیِ کریم ﷺ کی پناہ ڈھونڈا کرتے تھے اور ہم میں
سے بہادر وہ ہوتا تھا جو آپ کے ساتھ دشمن کے مقابل کھڑا ہوتا تھا۔ (مسلم، ص980، حدیث:1776)
غزوۂ حنین
کا معرکہ اور حضور ﷺ کی بہادری:
جنگِ حنین میں 12 ہزار کا لشکر کفار کے حملوں کی تاب نہ لا
کر پسپا گیا تھا اور کفار کی طرف سے لگاتار تیروں کی بارش ہو رہی تھی ،اس وقت بھی
رسول اللہ ﷺ ایک بھی قدم پیچھے نہ ہٹے۔ آپ ایک سفید خچر پر سوار تھے اور حضرت سفیان
بن حارث رضی اللہ عنہ خچر کی لگام پکڑے
ہوئے تھے اور آپ اکیلے دشمنوں کے لشکروں
کے ہجوم کی طرف بڑھتے چلے جا رہے تھے اور یہ
کلمات زبانِ اقدس پر جاری تھے:
اَنَا النَّبِيُّ لَا کَذِبْ
اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
(بخاری
،3/111،حدیث:4317)(سیرتِ مصطفیٰ،ص620)(شرح زرقانی،3/517)
جب تمام لشکر بھاگ گیا پھر بھی آپ ڈٹے رہے اور دشمنوں کا
مقابلہ کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے آقا ﷺ شجاعت و بہادری میں مخلوق میں سب
سے بلند تر اور بے مثال ہیں۔ آپ صرف شجاعت و قوت میں نہیں بلکہ تمام صفات میں بے مثل و بے مثال ہیں جیسا کہ
امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
یہی بولے سِدرہ والے چمنِ جہاں کے تھالے
سبھی میں نے چھان ڈالے تِرے پایہ کا نہ پایا
تجھے یک نے یک بنایا
حضور ﷺ کی سیرتِ مبارکہ ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے۔حضورِ
اکرم ﷺ زندگی کے ہر ہر گوشے میں کامل و اکمل ہیں۔ دو جہاں کے سردار ﷺ شجاعت و بہادری میں اپنی مثال آپ ہیں۔جس طرح
علم و حلم ، عفو و درگزر، عدل و انصاف، زہد و تقویٰ، صبر و تحمل میں آپ کا کوئی
ثانی نہیں بالکل اسی طرح شجاعت و بہادری میں بھی کوئی آپ کا ثانی نہیں ہے۔دو عالم
کے مالک و مختار، باذنِ پروردگار ﷺ سب سے زیادہ دلیر وبہادر تھے۔
حضور ﷺ کی بہادری احادیث کی روشنی میں:
1صحابہ حضور ﷺ کی پناہ میں:
خلیفۂ چہارم و امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں:میں نے بدر کے دن خود کو دیکھا کہ ہم حضور نبیِ کریم ﷺ کی پناہ لے رہے
تھے اور آپ ہم سے زیادہ دشمن کے قریب تھے اور اس دن آپ ﷺ سب سے زیادہ بہادری کے
ساتھ لڑنے والے تھے۔آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جب جنگ کا میدان گرم ہوتا اور ہماری
دشمنوں کے ساتھ مڈ بھیڑ ہوتی تو ہم رسول اللہ ﷺ کی پناہ میں آجاتے، پس کوئی بھی آپ
سے زیادہ دشمن کے قریب نہ ہوتا۔(شرح
السنۃ،7/47،حدیث:3592)
2بہادری کا معیار حضور ﷺ کی قربت میں لڑنا ہے:
منقول ہے کہ تاجدارِ رسالت ﷺ کا کلام بہت کم ہوتا اور گفتگو
بہت تھوڑی ہوتی۔ آپ ﷺ جب جہاد کا حکم فرماتے تو خود بھی اس کی تیاری فرماتے اور میدانِ
جہاد میں آپ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ لڑتے تھے اور بہادر وہی ہوتا جو لڑائی آپ کے قریب رہتا کیونکہ آپ دشمن کے زیادہ قریب
ہوتے تھے ۔
(مسلم،ص980، حدیث:1776)
3لڑائی میں سب سے پہلا وار:
حضرت عمر بن حصین
رضی اللہ عنہ نے فرمایا:رسولِ بے مثال،صاحبِ جود و نوال ﷺ کفار کے جس لشکر سے بھی لڑتے سب سے پہلے آپ ہی وار فرماتے۔صحابہ
کرام علیہم الرضوان کا بیان ہے کہ حضور نبیِ کریم ﷺ بہت سخت حملہ کرتے تھے۔ایک
موقع پر جب مشرکین نے گھیرا تنگ کر لیا تو حضور نبیِ برحق ﷺ اپنے خچر سے نیچے اتر
آئے اور ارشاد فرمانے لگے: اَنَا النَّبِیُّ
لَاکَذِب اَنَا ابْنُ عَبْدِ
الْمُطَّلِب ترجمہ:میں نبی ہوں
اس میں کوئی جھوٹ نہیں، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔پس اس دن سے آپ سے زیادہ مضبوط
شخص کوئی نہیں دیکھا گیا۔
(بخاری،3/111،حدیث:4317)(سیرتِ
مصطفیٰ،ص620)(شرح زرقانی،3/517)
4شجاعتِ مصطفےٰ ﷺ:
حضرت عبداللہ بن
عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ سے زیادہ بہادر، طاقتور،سخی اور پسندیدہ میری آنکھوں نے کبھی کسی کو نہیں دیکھا ۔(سیرتِ مصطفیٰ،ص620)
5حضور ﷺ کی طاقتِ نبوت:
غزوہ ٔاحزاب کے موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب خندق کھود رہے تھے
ایک ایسی چٹان ظاہر ہو گئی جو کسی طرح کسی
سے بھی نہ ٹوٹ سکی مگر جب آقا ﷺ نے اس پر پھاوڑا مارا تو وہ ریت کے بھر بھرے ٹیلے
کی طرح بکھر کر پاش پاش ہوگئی۔(بخاری،3/51،حدیث:4011)
ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ آپ بہت شجاعت و بہادری والے تھے۔آپ کی مبارک
زندگی ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے۔اللہ پاک ہمیں حضور ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنے اور
ان کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا سینہ آقا ﷺ کی
محبت میں مدینہ بنائے۔آمین
بہادری ایک فضیلت ہے۔بہادری یہ ہےکہ غضب کی قوت ہوتے ہوئے
اس کو عقل کے تابع کر دیا جائے۔ یہ خوف کی ضد ہے۔حضور ﷺ کی بہادری اس مرتبہ تک تھی
کہ کوئی اس سے ناواقف نہ تھا،یعنی مشہور تھی۔آپ کو بہت سے سخت مواقع پیش آئے کہ
بڑے بڑے بہادر شجاع نہ ٹھہر سکےمگرآپ ثابت قدم رہے اور نہ ہٹے، مقابلہ کیا مگر پیٹھ
نہ دکھائی، نہ وہاں سے ایک اِنچ اِدھر اُدھر ہوئے۔ کوئی شجاع ہو مگر وہ بھاگنے پر
مجبور ہوتا اور دور شمار میں آتا ہے اور
اس کے ٹل جانے کی یاد باقی رہتی ہے لیکن حضور ﷺ ہر مقام پر ثابت قدم ہی رہے۔
احادیث:
حضرت براء رضی اللہ عنہ سے بالاسناد مروی ہے کہ ان سے کسی
نے پوچھا:کیا غزوۂ حُنین کے دن تم لوگ حضورﷺ کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے،لیکن رسول
اللہ ﷺ نہیں بھاگے تھے،پھرکہا کہ میں نے حضور ﷺ کو سفید دراز گوش پر دیکھا اور
ابوسفیان رضی اللہ عنہ اس کی لگام پکڑے ہوئے تھے ، درآنحالیکہ حضور یہ زجز پڑھ رہے
تھے:أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِب، أَنَا ابْنُ عَبْدِ
الْمُطَّلِب یعنی میں وہ نبی ہوں جو جھوٹا نہیں اور میں عبدالمطلب کی
اولاد ہوں۔
پس اس دن حضورﷺسے بڑھ کر کوئی بہادر نہ دیکھا گیا۔ایک
راوی کا کہنا ہے کہ آپ اپنےدراز گوش ( خچر ) سے اتر گئے تھے۔(بخاری،3/111،حدیث:4317)(سیرتِ
مصطفیٰ،ص620)(شرح زرقانی،3/517)
حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب مسلمان اور کافر گتھم
گتھا ہو گئے اور مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے تو حضورﷺ اپنے خچر کو کفار کی طرف دوڑا رہے تھے۔میں اس کی لگام
پکڑ کر اسے تیز بھاگنے سے روک رہا تھا۔جبکہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ اس کی رکاب پکڑے
ہوئے تھے۔ (مسلم، ص 757، حدیث: 4612)
ایک روایت میں ہے
کہ رسول اللہ ﷺ جب غضب فرماتے، حالانکہ آپ کا غضب صرف اللہ پاک کے لیے ہوتا تھا،
تو کوئی چیز آپ کے غضب کی تاب نہ لا سکتی تھی۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما
فرماتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ سے بڑھ کر کسی کو بہادر ، صاحبِ حوصلہ،سخی اور ہر
معاملہ میں خوش نہ دیکھا۔ (مقدمہ دارمی،1/30)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب لڑائی شدت اختیار
کر جاتی اور آنکھیں سُرخ ہوجاتیں تو ہم رسول اللہ ﷺ کے بچاؤ کی فکر کرتے لیکن آپﷺ
سے زیادہ کوئی بھی دشمن کے قریب نہ ہوتا۔بدر کے دن بیشک ہم رسول اللہ ﷺ کی پناہ میں
تھے اور آپ ہم سے آگے دشمن کےقریب تھے اور اس دن سب سے بڑھ کر آپ لڑائی میں تھے
اور کہتے ہیں کہ بہادر وہی گنا جاتا تھا جو دشمن کے قریب ہونے کے وقت رسول اللہ ﷺ
سے زیادہ نزدیک ہوتا تھا کیونکہ آپﷺ دشمن کے قریب ہوتے تھے۔ (الشفاء،
1/116)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ کریمﷺ تمام لوگوں
سے بہتر ، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ایک رات مدینہ کے لوگ گھبرا
گئے اور لوگ آواز کی جانب چل پڑے تو دیکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اس جانب سے واپس
آرہے ہیں ، گویا آپ اس آواز کی طرف پہلے ہی پہنچ گئے تھے اور خیر کی خبر لائے تھے ۔
آپﷺ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے پر بِلا زِین وکاٹھی سوار ہو کر تلوار گلے
میں لٹکا کر تشریف لے گئے تھے۔آپﷺ فرماتے تھے: ہر گز خوفزدہ نہ ہو۔ (بخاری، 2/284، حدیث:2908)(ابن ماجہ،3/345،حدیث: 2772)
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ جب کسی لشکر
کے مقابل ہوتے تومسلمانوں میں سے سب سے پہلے حملہ کرتے ۔ ( مکارم الاخلاق، ص54)
نبیِ کریم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا ہر ہر وصف کامل و اکمل ہے۔انہی
اوصاف میں سے ایک وصف شجاعت و بہادری بھی ہے جس میں حضور ﷺ اپنی مثال آپ ہیں اور یہ
محتاجِ بیان نہیں۔آئیے!کچھ روایات و واقعات ملاحظہ فرمائیے۔چنانچہ
حضرت علی رضی اللہ
عنہ کا قول ہے: جب لڑائی خوب گرم ہو جاتی تھی اور جنگ کی شدت دیکھ کر بڑے بڑے
بہادروں کی آنکھیں پتھرا کر سرخ پڑ جایا کرتی تھیں اس وقت میں ہم لوگ رسول اللہ ﷺ
کے پہلو میں کھڑے ہو کر اپنا بچاؤ کرتے تھے جبکہ آپ ہم سب لوگوں سے زیادہ آگے بڑھ
کر دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کر جنگ فرماتے تھے۔ہم لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر
وہ شخص شمار کیا جاتا تھا جو جنگ میں رسول اللہ ﷺ کے قریب رہ کر دشمنوں سے لڑتا
تھا۔(الشفاء،1/ 116 ملخصاً)
حضرت براء ابنِ عازب غزوۂ حنین کے متعلق فرماتے ہیں کہ ابو
سفیان ابنِ حارث رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھے تو جب
مشرکین نے آپ کو گھیر لیا تو آپ اترے کہنے لگے: میں جھوٹا نبی نہیں۔ میں عبد
المطلب کا بیٹا ہوں ۔فرماتے ہیں: اس دن حضور ﷺ سے زیادہ کوئی بہادر نہیں دیکھا گیا۔(بخاری،3/111،حدیث:4317)(سیرتِ
مصطفیٰ،ص620)(شرح زرقانی،3/517 )
ایک دن مدینہ منورہ کے لوگ ڈر گئے اور شوروغل برپا ہوا گویا
کوئی چور یا دشمن آیا ہے۔آپ ﷺ نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا گھوڑا لیا جو سست
رفتار اور سرکش تھا ،آپ اس کی پیٹھ پر بغیر زین کے سوار ہو گئے اور تلوار آڑے
لٹکائے ہوئے جنگل کی طرف اکیلے ہی تشریف لے گئے،جب لوگ اس آواز کی طرف گئے تو رسول
اللہ ﷺ ان کو راستے میں واپس آتے ہوئے مِلے، آپ ﷺ نے ان کو تسلی دی کہ ڈرو مت! ڈرو
مت! اور گھوڑے کی نسبت فرمایا کہ ہم نے اسے دریا کی مانند تیز رفتار پایا۔(بخاری،4/
108109، حدیث:6033)
آنحضرت ﷺ کی قوتِ بدنی بھی سب سے زیادہ تھی۔غزوۂ احزاب میں
جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خندق کھود رہے تھے تو ایک جگہ ایسی سخت زمین
ظاہر ہوئی کہ سب عاجز آ گئے۔ آپ سے عرض کی گئی تو آپ بذاتِ خود خندق میں اُترے اور
ایک کدال ایسا مارا کہ وہ سخت زمین ریگ رواں (اڑنے والی ریت) کا ایک ڈھیر بن گئی۔(بخاری،3/
51،حدیث: 4101)اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ جانِ کائنات ﷺ کی شجاعت و بہادری کے
متعلق یوں فرماتے ہیں:
جس کو بارِ
دوعالَم کی پروا نہیں ایسے
بازو کی قوت پہ لاکھوں سلام
(حدائقِ بخشش،ص
303)
بہادری خوبی اور بزدلی ایک عیب ہے۔بہادری کا حسن بھی سرکارِ
دو عالم ﷺ میں کمال درجے کا رہا جبکہ بزدلی کو حضور ﷺ نے نا پسند فرمایا۔اللہ پاک
ہمیں بھی شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے جرأت و بہادری کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بجاہِ خاتمِ النبیین ﷺ
فضائل و کمالات اور بہادری میں آپ ﷺ کا کوئی شریک نہیں۔رسول
اللہﷺ کی نبوت کی خبروں اور بعثت کی نشانیوں کو دیکھ کر کفار کے دل دہل گئے جیسے شیر
کی دھاڑ سن کر بے خبر بکریاں ڈر جاتی ہیں۔آپ ﷺ کو اللہ پاک کی طرف سے ایسا رعب و دبدبہ
عطا ہوا کہ نبیِ کریم ﷺ فرماتے ہیں:نصرت بالرعب میسرة
شھریعنی اللہ پاک نے مجھے ایسا رعب و جلال دیا ہے کہ ایک مہینے
کی مسافت پر بھی کوئی ہو تو اس پر میرا رعب طاری ہو جاتا ہے۔(
بخاری،1/133،حدیث:335)یہی رعب ودبدبہ و جلال تھا کہ مکہ بغیر جنگ کیے فتح ہو گیا۔(نشان مثردہ اردو
شرح قصیدہ بردہ ، ص175)
حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ
بہت بہادر تھے۔ایک رات مدینے شریف کے لوگوں نے کوئی خوفناک آواز سنی، لوگ اس آواز
کی طرف دوڑے تو انہوں نے حضور پاک ﷺکو اس جگہ سے واپس آتے ہوئے پایا جہاں سے یہ
خوفناک آواز آئی تھی(کیوں کہ آپ ﷺ تو کائنات میں سب سے زیادہ بہادر ہیں،لہٰذا آپ
لوگوں سے پہلے اس آواز کی طرف تشریف لے گئے تھے)اور اس وقت آپ ﷺ ارشاد فرما رہے
تھے: ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے، ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ (بخاری،2/284،حدیث:2908)
شجاعت و بہادری:حضور اکرم ﷺ کی بے مثال بہادری وشجاعت کا یہ عالم تھا کہ
حضرت علی رضی اللہُ
عنہ جیسے بہادر صحابی کا کہنا ہے
کہ جب لڑائی خوب گرم ہو جاتی تھی اور جنگ کی شدت دیکھ کر بڑے بڑے بہادروں کی آنکھیں
پتھرا کر سرخ پڑ جایا کرتی تھیں اس وقت میں ہم لوگ رسول اللہﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو
کر اپنا بچاؤ کرتے تھے ۔آپ ﷺ ہم سب لوگوں سے زیادہ آگے بڑھ کر اور دشمنوں کے بالکل
قریب پہنچ کر جنگ فرماتے تھے ۔ہم لوگ میں
سب سے زیادہ بہادر وہ شخص شمار کیا جاتا تھا جو جنگ میں رسول اللہﷺ کے قریب رہ کر
دشمنوں سے لڑتا تھا۔(الشفاء،1/ 116 ملخصاً)
نبیِ کریم ﷺ کی طاقت:حضور اقدس ﷺ کی جسمانی طاقت بھی اعجاز کو پہنچی ہوئی تھی۔آپ
ﷺ نے اپنی اس معجزانہ طاقت و قوت سے ایسے ایسے محیرالعقول کارناموں اور کمالات کا
مظاہرہ فرمایاکہ عقلِ انسانی اس کے تصور سے حیران رہ جاتی ہے۔غزوۂ احزاب کے موقع
پر صحابہ کرام علیہم الرضوان جب خندق کھود رہے تھے ایک ایسی چٹان ظاہر ہو گئی جو
کسی طرح کسی شخص سے بھی نہیں ٹوٹ سکی مگر جب آپ ﷺ نے اپنی طاقتِ نبوت سے اس پر
پھاوڑا مارا تو وہ ریت کے بھربھرے ٹیلے کی طرح بکھر کر پاش پاش ہوگئی۔ (بخاری، 3/51،حدیث:41101)
رکانہ پہلوان سے کشتی:عرب کا مشہور پہلوان رکانہ آپ ﷺ کے سامنے سے گزرا، آپ نے اس
کو اسلام کی دعوت دی تووہ کہنے لگا:اے محمد!اگر آپ مجھ سے کشتی لڑ کر مجھے پچھاڑ دیں تو میں آپ کی دعوتِ اسلام کو قبول کر
لوں گا۔حضور اکرم ﷺ تیار ہو گئے اور اس سے کشتی لڑ کر اس کو پچھاڑ دیا۔ پھر اس نے
دوبارہ کشتی لڑنے کی دعوت دی ،آپ نے دوسری مرتبہ بھی اپنی پیغمبرانہ طاقت سے اس کو
اس زور کے ساتھ زمین پر پٹخ دیا کہ وہ دیر تک اٹھ نہ سکا اور حیران ہو کر کہنے لگا:
اے محمد! خدا کی قسم!آپ کی عجیب شان ہے کہ آج تک عرب کا کوئی پہلوان میری پیٹھ زمین
پر نہیں لگا سکا مگر آپ نے دمِ زدن یعنی فوراً مجھے دو مرتبہ زمین پر بچھاڑ دیا۔
بعض مؤرخین کا قول ہے کہ رکانہ فورا ہی مسلمان ہو گیا،مگر بعض مؤرخین نے لکھا ہے
کہ رکانہ نے فتحِ مکہ کے دن اسلام قبول کیا۔(شرح زرقانی ،4/291)
ابو الاسود سے زور ازمائی:ابو الاسود جمحی اتنا بڑا طاقتور پہلوان تھا کہ وہ ایک چمڑے
پر بیٹھ جاتا تھا اور دس پہلوان اس چمڑے کو کھینچتے تھے تاکہ وہ چمڑا اس کے نیچے
سے نکل جائے مگر وہ چمڑا پھٹ پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کے باوجود اس کے نیچے سے
نکل نہیں سکتا تھا،اس نے بھی بارگاہِ اقدس
میں آکر یہ چیلنج دیا کہ اگر آپ مجھے کشتی میں پچھاڑ دیں تو میں مسلمان ہو جاؤں گا۔حضور
پاکﷺ اس سے کشتی لڑنے کے لیے کھڑے ہو گئے اور اس کا ہاتھ پکڑتے ہی اس کو زمین پر
پچھاڑ دیا،وہ آپ کی اس طاقتِ نبوت سے حیران ہو کر فوراً ہی مسلمان ہو گیا۔(شرح زرقانی،4/292
)
حضور نبیِ کریم ﷺ کی مبارک زندگی کا ہر گوشہ ہر طرح سے کامل
و اکمل ہے۔جس طرح علم وحلم، عفوو در گزر،زہد و تقویٰ،عدل و انصاف وغیرہ میں آپ کا
کوئی ثانی نہیں اسی طرح شجاعت و بہادری میں بھی آپ اپنی مثال نہیں رکھتے۔آقا ﷺکی بہادری
کا باب بھی نہایت وسیع اور عریض سمندر ہے جس کے بیان کے لیے دفتر درکار ہیں۔
غزوۂ بدر:حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:غزوۂ بدر کے دن ہم نبیِ
کریم ﷺ کی پناہ میں اپنا بچاؤ کرتے تھے۔آپ ہم سب سے زیادہ دشمن کے قریب ہوتے تھے۔اس
دن آقا ﷺلڑائی میں سب سے زیادہ مضبوط اور طاقتور تھے۔(شرح السنہ، 7/47،حدیث:3592)
بعض لوگ سخت لہجہ میں گفتگو کرنے کو باعث فخر تصور
کرتے ہیں حالانکہ اللہ کے محبوب دانائے غیوب ﷺ نے اسے عیب قرار دیا ہے اور نرمی کی
ترغیب دلائی ہے۔ چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے
کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نرمی جس چیز میں ہوتی ہے اسے زینت بخشتی ہے اور جس چیز
سے نرمی چھین لی جاتی ہے اسے عیب دار کر دیتی ہے۔ (مسلم، ص 1398، حدیث: 12594)
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ
نے فرمایا: جسے نرمی میں سے حصہ دیا گیا اسے بھلائی میں سے حصہ دیا گیا اور جو
نرمی کے حصے سے محروم رہا وہ بھلائی میں اپنےحصے سے محروم رہا۔ (ترمذی، 3/258،
حدیث:2525)
روایت ہے حضرت خالد بن ولید سے فرماتے ہیں کہ میرے
اور عمار ابن یاسر کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہو گئی تو میں نے گفتگو میں ان پر بہت
سختی کی عمار میری شکایت کرنے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گئے۔ پھر خالد پہنچے فرمایا
عمار نبی ﷺ سے شکایت کر رہے تھے تو خالد ان پر بہت سختی کرنے لگے ان کی سختی بڑھتی
گئی نبی ﷺ خاموش تھے کچھ کلام نہیں فرماتے تھے جناب عمار رونے لگے بولے یا رسول
الله کیا حضور خالد کو دیکھتے نہیں، تو نبی ﷺ نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا جو
عمار سے دشمنی کرے خدا اس سے دشمنی کرے اور جو عمار سے بغض رکھے خدا اس سے ناراض
ہو، خالد فرماتے ہیں کہ پھر میں نکلا تو مجھے حضرت عمار کی خوشنودی سے زیادہ پیاری
کوئی چیز نہ تھی پھر میں نے ان سے ان کی رضا کا برتاؤ کیا تو وہ راضی ہو گئے۔ (مراة
المناجيح، 8/509)
رسول الله ﷺ نے فرمایا: مال والے کا ٹال مٹول اس کی
آبرو کو اس کی سزا کو درست کر دیتا ہے۔ ابن مبارک نے فرمایا: آبرو حلال کرنے کا
مطلب یہ ہے کہ اس سخت کلامی کرے اور سزا یہ ہے کہ اسے قید کر دیا جائے۔ (مراۃ
المناجیح، 4/347)
ابن مبارک نے حضور کے دونوں کلمات کی تفسیر یوں
فرمائی کہ معنی یہ ہیں کہ اس سے سخت کلامی کرے مثلاً کہے تو ظالم ہے لوگوں کا مال
مارنے والا ہے یہ مطلب نہیں کہ اس پرنا جائز الزام لگائے۔
سخت کلامی پر صبر: ایک
دفعہ ایک شخص نے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ سے بہت سخت کلامی کی تو آپ
نے کافی دیر تک اپنا سر مبارک جھکائے رکھا پھر اس سے فرمایا: کیا تم یہ چاہتے ہو
کہ میں شیطان کے ہاتھوں کمزور ہو کر سلطانی غلبہ کے سبب تمہارے ساتھ ایسا سلوک
کروں جس کا کل تم مجھ سے بدلہ لو؟ (احیاء العلوم، 3/205)
ہمیں حضور پاک ﷺ کے اخلاق کے مطابق کلام کرنے کی
کوشش کرنی چاہیے۔ اگر ہم کسی سے تلخ کلامی سے پیش آئیں تو وہ شخص ہم سے بدظن ہوگا۔
آج کل ہمارے معاشرے میں اس طرح کی گفتگو بہت عام ہوئی ہے ایسی گفتگو کسی کی دل
آزاری کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ حضور ﷺ نے تو اسی گفتگو کو عیب قرار دیا ہے اللہ ہمیں
اچھے انداز سے گفتگو کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین
فی زمانہ اسلامی تعلیمات پر بحیثیت مجموعی عمل
کمزور ہونے کی وجہ سے اخلاقی و معاشرتی برائیاں بہت عام ہوگئی ہیں جو حسن معاشرت
کے بگار کا سبب بن رہی ہیں اور اگر گہری نظر ڈالی جائے تو ایک اہم پہلو تلخ کلامی
بھی ہے گویا کہ لگتا ہے ہر کوئی معاشرے کی تلخ کلامی جیسی نحوست کا شکار ہوتا چلا
جا رہا ہے۔
تلخ کلامی سے چھٹکارا پانے کے لیے اس کے مفہوم پر
غور کریں تو اس سے مراد ایسا کلام جو لوگوں کی ایذا رسانی اور دل آزاری کا سبب
بنتا ہے۔ اس ضمن میں تین روایات پڑھیئے اور اسے اپنی فکر آخرت کے مدنی گلدستے میں
سجائیے۔
1۔ صدر الشریعہ، بدر الطریقہ، حضرت علامہ مولانا
مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت جلد 2 صفحہ 407 پر لکھتے ہیں:
جو شخص مسلمان کو کسی فعل یا قول سے ایذا پہنچائے اگرچہ آنکھ یا ہاتھ کے اشارے سے
وہ مستحق تعزیر ہے۔ (در مختار، 6/106)
2۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
جب انسان صبح کرتا ہے تو تمام اعضاء زبان سے کہتے ہیں: ہم تجھے خدا کا واسطہ دیتے
ہیں کہ تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم بھی
ٹیڑھے ہوجائیں گے۔ (ترمذی، 4/184، حدیث:2415)
3۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے: کوئی شخص اچھی بات بول دیتا
ہے اس کی انتہا نہیں جانتا اس کی وجہ سے اس کے لیے اللہ کی رضا اس دن تک کیلئے
لکھی جاتی ہے جب وہ اسے ملے گا اور ایک
آدمی بری بات بول دیتا ہے جس کی انتہا نہیں جانتا اللہ اس کی وجہ سے اپنی ناراضی
اس دن تک لکھ دیتا ہے جب وہ اس سے ملے گا۔ (مشكاة المصابیح،2/193، حدیث: 2326)
لمحہ فکریہ: تلخ کلامی
اکثر مسلمانوں کی ایذا رسانی کا ذریعہ بنتی ہے اور مسلمانوں کی ایذا رسانی اللہ اور
نبی کریم ﷺ کی نافرمانی کا ذریعہ ہے۔
نقصانات: تلخ کلامی کے
بے شمار نقصانات ہیں۔ جن میں سے چند یہ ہیں: نیکیوں کا زائل ہونا، عداوت، قطع
تعلقی، مبلغ کے ایسے انداز کے سبب لوگوں کی علم دین سے دوری، دل آزاری۔
تلخ کلامی کا علاج: اس
ضمن میں تلخ کلامی کے چار علاج پیش خدمت ہیں: 1- نرم مزاجی کو اپنایا جائے 2-اخروی
آفتوں کو یاد کیا جائے 3- غصے اور چرچڑا پن سے دور رہا جائے 4- اپنے بڑوں کا ادب
اور چھوٹوں سے شفقت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔
امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: ایسا
بولو کہ لوگ سننا پسند کریں۔
ہے فلاح و کامرانی نرمی و آسانی میں ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی
میں
اللہ پاک ہمیں تلخ کلامی اور دل آزاری والی گفتگو
کرنے سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین ﷺ
خوش کلامی ایک مستحسن عمل ہے، اسلام میں اس کی
تاکید کی گئی ہےجب ہم بازار خریداری کے لئے نکلتے ہیں تو ہمیں اپنی مطلوبہ چیز کی
بہت ساری دکانیں نظر آتی ہیں لیکن ہم اس دکان میں جاتے ہیں جس دکاندار کا برتائو
اور بطور خاص بات چیت ہمیں اچھی لگتی ہے؛ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دکاندار نے اپنی
مہذب باتوں اور خوش اخلاقی سے ہمارا دل جیت لیا ہے۔اس کے بالمقابل ہم میں سے اکثر
لوگ اس دکان پر جانا پسند نہیں کرتے ہیں جہاں انہیں غیر مہذب،سخت اور ترش کلامی کا
سامنا ہو۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ دکاندار کی خوش کلامی سے صرف خریدار کا دل خوش
نہیں ہوتا بلکہ دکاندار کی تجارت بھی ترقی پاتی ہے اورخاص بات یہ ہے کہ اس کے لئے
تاجر کو پیسے بھی خرچ نہیں کرنے پڑتے،یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر ایم بی اے
جیسے کورسوں میں آداب گفتگو انتہائی اہمیت کے ساتھ سکھائے جاتے ہیں۔
خوش کلامی صرف مذکورہ ایک وجہ سے نہیں بلکہ متعدد
وجوہات سے اسلام میں ایک مستحسن عمل ہے، اسی بنیاد پر قرآن و حدیث میں اس کی تاکید
آئی ہے۔ دوستوں اور پیاروں سے پیار بھرے انداز میں سبھی بات کرتے ہیں لیکن اسلام
نے اجنبیوں اور دشمنوں سے بھی نرم گفتگو کی تاکید کی ہے۔اس کی بہترین مثال قرآن
مجید میں موجود ہے کہ جب حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو اللہ تبارک و تعالیٰ
نے وقت کے ظالم ترین شخص اور دشمنِ اہلِ ایمان فرعون کے پاس جانے کا حکم دیا تو
انہیں یہ تاکید کی کہ اس سے نرم گفتگو کریں۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری
تعالیٰ ہے: اِذْهَبَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰىۚۖ(۴۳) فَقُوْلَا لَهٗ
قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰى(۴۴) (پ
16، طہٰ: 43-44) ترجمہ: فرعون کے پاس جاؤ، بے شک وہ
سرکش ہوگیا ہے، سو اس سے نرمی سے بات کرو شاید وہ نصیحت حاصل کرے یا ڈر جائے۔ توجہ
فرمائیں کہ قرآن پاک کی اس تعلیم میں کسی صاحب ایمان سے نہیں بلکہ ایک بے ایمان
اور دین کے باغی شخص سے خوش کلامی کی تاکید کی گئی ہے؛اس سے جہاں اوروں کے ساتھ
ہماری بات چیت کا معیار مقرر ہوتا ہے وہیں اس ضمن میں بدرجہ اولیٰ دینی بھائیوں سے
حسن کلام کی ترغیب بھی ملتی ہے۔
دوسروں کو
خوش کرنے کو اسلام میں عبادت کا درجہ حاصل ہے۔ایک حدیث پاک میں نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:یقینا
فرائض کو ادا کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کسی مسلمان
کو خوش کرنا ہے۔ (معجم کبیر، 11/59، حدیث: 11079) یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے کیونکہ
لوگوں کو خوش کرنے کا سب سے آسان طریقہ خوش مزاجی کے ساتھ ان سے گفتگو ہے۔عملاً ہم
سب اس بات سے واقف ہیں کہ جس طرح کوئی ایک زہریلا لفظ کسی کا دن بگاڑنے کے لئے
کافی ہے، اسی طرح پیار بھرا ایک لفظ کسی کا دن سنوارنے کے لئے بھی کافی ہے۔
لہٰذاہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہمارے الفاظ تخریب کے بجائے تعمیر کے لئے
استعمال ہوں۔ ہماری بات چیت کس طرح تعمیر و تخریب کا سبب بن سکتی ہے، اس کا اندازہ
ہمیں ایک مشہور واقعہ سے ہوتا ہے:
واقعہ یہ ہے کہ کسی زمانے میں ایک بادشاہ تھا، اس
نے یہ خواب دیکھا کہ اس کے سارے دانت ٹوٹ گئے ہیں،چنانچہ اس نے صبح کو ایک تعبیر
بتانے والے کو بلوایا اور اس سے خواب کی تعبیر معلوم کی، اس نے بتلایا کہ اس خواب
کی تعبیر یہ ہے کہ آپ کے سامنے آپ کے اہل خانہ اور اولادیں وفات پا جائیں گی،یہ سن
کر بادشاہ بہت خفا ہوا اور اس معبر کا سر قلم کرنے کا حکم صادر کردیا۔ اس کے بعد
بادشاہ نے ایک دوسرے تعبیر بتلانے والے کو بلوایااور اس کے سامنے خواب کو بیان
کیا، معبر نے بتلایا کہ بادشاہ سلامت! اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ لمبی عمر پائیں گے
حتیٰ کہ آپ کے اہل خانہ سے بھی زیادہ آپ کی عمر ہوگی۔ یہ سن کر بادشاہ بہت خوش ہوا
اور معبر کو انعام و اکرام کے ساتھ رخصت کیا۔ غور فرمائیں کہ دونوں تعبیروں کا
مطلب ایک ہی بتایا گیا ہے لیکن کہنے کے انداز اور اسلوب نے کس قدر فرق پیدا کردیا۔
خوش کلامی اور مہذب گفتگو کے فوائد معلوم ہوجانے کے
بعد ہمارے لئے یہ ضروی ہے کہ ہم ذیل کی باتوں کو بھی اپنے ذہن میں رکھیں کہ لوگوں
کو اچھی بات چیت سے یا کسی دوسرے طریقے سے خوش کرتے وقت ہم دین کی سرحدوں کو ہر گز
پار نہ کریں یعنی اللہ پاک کو ناراض کرکے بندوں کو خوش نہ کریں کیونکہ بندوں کو
خوش کرنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کوخوش کرنا ہے نہ کہ ناراض کرنا۔ لہٰذا کوئی قریبی
شخص اپنی خوشی کے لئے ہم سے اگر یہ کہتا ہے کہ تم جھوٹ بول دو یا غلط بیان دے دو
تو ہم محض اپنے پیارے کی خوشی کے لئے ہر گز ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ اس صورت میں
اللہ کی خوشی سے ہم محروم ہوجائیں گے۔ اسی طرح اسلام نے ہمیں خوش کلامی کی ترغیب
دی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ہم غیر محرموں سے لچھے دار باتیں کر کے
اپنی عاقبت ہی خراب کرلیں۔
چونکہ ہم سب کی منزل آخرت ہے اس وجہ سے ہمیں خوش
کلامی اور بد کلامی کو آخرت کے نتائج کے آئینے میں ضرور دیکھنا چاہئے۔ اس حوالے سے
ذیل کی حدیث ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونی چاہئے:
حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ
ایک شخص نے عرض کیا: یا رسو ل اللہ ﷺ! فلانی عورت کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ
کثرت سے نماز، روزہ اور صدقہ خیرات کرنے والی ہے (لیکن) اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان
سے تکلیف دیتی ہے (یعنی برا بھلا کہتی ہے)۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا: وہ دوزخ
میں ہے۔ پھر اس شخص نے عرض کیا یا رسو ل اللہﷺ! فلانی عورت کے بارے میں یہ مشہور
ہے کہ وہ نفلی روزہ، صدقہ خیرات اور نماز تو کم کرتی ہے بلکہ اس کا صدقہ وخیرات
پنیر کے چند ٹکڑوں سے آگے نہیں بڑھتا لیکن اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے کو ئی
تکلیف نہیں دیتی۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: وہ جنت میں ہے۔(شعب الایمان، 7/78،
حدیث: 9545)