بہادری ایک فضیلت ہے۔بہادری یہ ہےکہ غضب کی قوت ہوتے ہوئے اس کو عقل کے تابع کر دیا جائے۔ یہ خوف کی ضد ہے۔حضور ﷺ کی بہادری اس مرتبہ تک تھی کہ کوئی اس سے ناواقف نہ تھا،یعنی مشہور تھی۔آپ کو بہت سے سخت مواقع پیش آئے کہ بڑے بڑے بہادر شجاع نہ ٹھہر سکےمگرآپ ثابت قدم رہے اور نہ ہٹے، مقابلہ کیا مگر پیٹھ نہ دکھائی، نہ وہاں سے ایک اِنچ اِدھر اُدھر ہوئے۔ کوئی شجاع ہو مگر وہ بھاگنے پر مجبور ہوتا اور  دور شمار میں آتا ہے اور اس کے ٹل جانے کی یاد باقی رہتی ہے لیکن حضور ﷺ ہر مقام پر ثابت قدم ہی رہے۔

احادیث:

حضرت براء رضی اللہ عنہ سے بالاسناد مروی ہے کہ ان سے کسی نے پوچھا:کیا غزوۂ حُنین کے دن تم لوگ حضورﷺ کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے،لیکن رسول اللہ ﷺ نہیں بھاگے تھے،پھرکہا کہ میں نے حضور ﷺ کو سفید دراز گوش پر دیکھا اور ابوسفیان رضی اللہ عنہ اس کی لگام پکڑے ہوئے تھے ، درآنحالیکہ حضور یہ زجز پڑھ رہے تھے:أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِب، أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب یعنی میں وہ نبی ہوں جو جھوٹا نہیں اور میں عبدالمطلب کی اولاد ہوں۔

پس اس دن حضورﷺسے بڑھ کر کوئی بہادر نہ دیکھا گیا۔ایک راوی کا کہنا ہے کہ آپ اپنےدراز گوش ( خچر ) سے اتر گئے تھے۔(بخاری،3/111،حدیث:4317)(سیرتِ مصطفیٰ،ص620)(شرح زرقانی،3/517)

حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب مسلمان اور کافر گتھم گتھا ہو گئے اور مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے تو حضورﷺ اپنے خچر کو کفار کی طرف دوڑا رہے تھے۔میں اس کی لگام پکڑ کر اسے تیز بھاگنے سے روک رہا تھا۔جبکہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ اس کی رکاب پکڑے ہوئے تھے۔ (مسلم، ص 757، حدیث: 4612)

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب غضب فرماتے، حالانکہ آپ کا غضب صرف اللہ پاک کے لیے ہوتا تھا، تو کوئی چیز آپ کے غضب کی تاب نہ لا سکتی تھی۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ سے بڑھ کر کسی کو بہادر ، صاحبِ حوصلہ،سخی اور ہر معاملہ میں خوش نہ دیکھا۔ (مقدمہ دارمی،1/30)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب لڑائی شدت اختیار کر جاتی اور آنکھیں سُرخ ہوجاتیں تو ہم رسول اللہ ﷺ کے بچاؤ کی فکر کرتے لیکن آپﷺ سے زیادہ کوئی بھی دشمن کے قریب نہ ہوتا۔بدر کے دن بیشک ہم رسول اللہ ﷺ کی پناہ میں تھے اور آپ ہم سے آگے دشمن کےقریب تھے اور اس دن سب سے بڑھ کر آپ لڑائی میں تھے اور کہتے ہیں کہ بہادر وہی گنا جاتا تھا جو دشمن کے قریب ہونے کے وقت رسول اللہ ﷺ سے زیادہ نزدیک ہوتا تھا کیونکہ آپﷺ دشمن کے قریب ہوتے تھے۔ (الشفاء، 1/116)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ کریمﷺ تمام لوگوں سے بہتر ، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ایک رات مدینہ کے لوگ گھبرا گئے اور لوگ آواز کی جانب چل پڑے تو دیکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اس جانب سے واپس آرہے ہیں ، گویا آپ اس آواز کی طرف پہلے ہی پہنچ گئے تھے اور خیر کی خبر لائے تھے ۔ آپﷺ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے پر بِلا زِین وکاٹھی سوار ہو کر تلوار گلے میں لٹکا کر تشریف لے گئے تھے۔آپﷺ فرماتے تھے: ہر گز خوفزدہ نہ ہو۔ (بخاری، 2/284، حدیث:2908)(ابن ماجہ،3/345،حدیث: 2772)

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ جب کسی لشکر کے مقابل ہوتے تومسلمانوں میں سے سب سے پہلے حملہ کرتے ۔ ( مکارم الاخلاق، ص54)