نبیِ کریم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا ہر ہر وصف کامل و اکمل ہے۔انہی اوصاف میں سے ایک وصف شجاعت و بہادری بھی ہے جس میں حضور ﷺ اپنی مثال آپ ہیں اور یہ محتاجِ بیان نہیں۔آئیے!کچھ روایات و واقعات ملاحظہ فرمائیے۔چنانچہ

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے: جب لڑائی خوب گرم ہو جاتی تھی اور جنگ کی شدت دیکھ کر بڑے بڑے بہادروں کی آنکھیں پتھرا کر سرخ پڑ جایا کرتی تھیں اس وقت میں ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو کر اپنا بچاؤ کرتے تھے جبکہ آپ ہم سب لوگوں سے زیادہ آگے بڑھ کر دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کر جنگ فرماتے تھے۔ہم لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ شخص شمار کیا جاتا تھا جو جنگ میں رسول اللہ ﷺ کے قریب رہ کر دشمنوں سے لڑتا تھا۔(الشفاء،1/ 116 ملخصاً)

حضرت براء ابنِ عازب غزوۂ حنین کے متعلق فرماتے ہیں کہ ابو سفیان ابنِ حارث رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھے تو جب مشرکین نے آپ کو گھیر لیا تو آپ اترے کہنے لگے: میں جھوٹا نبی نہیں۔ میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں ۔فرماتے ہیں: اس دن حضور ﷺ سے زیادہ کوئی بہادر نہیں دیکھا گیا۔(بخاری،3/111،حدیث:4317)(سیرتِ مصطفیٰ،ص620)(شرح زرقانی،3/517 )

ایک دن مدینہ منورہ کے لوگ ڈر گئے اور شوروغل برپا ہوا گویا کوئی چور یا دشمن آیا ہے۔آپ ﷺ نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا گھوڑا لیا جو سست رفتار اور سرکش تھا ،آپ اس کی پیٹھ پر بغیر زین کے سوار ہو گئے اور تلوار آڑے لٹکائے ہوئے جنگل کی طرف اکیلے ہی تشریف لے گئے،جب لوگ اس آواز کی طرف گئے تو رسول اللہ ﷺ ان کو راستے میں واپس آتے ہوئے مِلے، آپ ﷺ نے ان کو تسلی دی کہ ڈرو مت! ڈرو مت! اور گھوڑے کی نسبت فرمایا کہ ہم نے اسے دریا کی مانند تیز رفتار پایا۔(بخاری،4/ 108109، حدیث:6033)

آنحضرت ﷺ کی قوتِ بدنی بھی سب سے زیادہ تھی۔غزوۂ احزاب میں جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خندق کھود رہے تھے تو ایک جگہ ایسی سخت زمین ظاہر ہوئی کہ سب عاجز آ گئے۔ آپ سے عرض کی گئی تو آپ بذاتِ خود خندق میں اُترے اور ایک کدال ایسا مارا کہ وہ سخت زمین ریگ رواں (اڑنے والی ریت) کا ایک ڈھیر بن گئی۔(بخاری،3/ 51،حدیث: 4101)اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ جانِ کائنات ﷺ کی شجاعت و بہادری کے متعلق یوں فرماتے ہیں:

جس کو بارِ دوعالَم کی پروا نہیں ایسے بازو کی قوت پہ لاکھوں سلام

(حدائقِ بخشش،ص 303)

بہادری خوبی اور بزدلی ایک عیب ہے۔بہادری کا حسن بھی سرکارِ دو عالم ﷺ میں کمال درجے کا رہا جبکہ بزدلی کو حضور ﷺ نے نا پسند فرمایا۔اللہ پاک ہمیں بھی شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے جرأت و بہادری کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہِ خاتمِ النبیین ﷺ