حضور ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا ہر پہلو ہر طرح سے  کامل و اکمل ہے۔جس طرح آپ کے اوصاف میں کوئی آپ کا ثانی و مثل نہیں اسی طرح آپ کی شجاعت و بہادری میں کوئی آپ کے جیسا نہیں۔بہادری اردو زبان کا لفظ ہے ،اس کو عربی میں شجاعت کہتے ہیں۔حضور اکرمﷺ کی بے مثال شجاعت کا عالم یہ تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے بہادر صحابی کا یہ قول ہے کہ جب لڑائی خوب گرم ہوجاتی تھی اور جنگ کی شدت دیکھ کر بڑے بڑے بہادروں کی آنکھیں پتھرا کر سرخ پڑجایا کرتی تھیں اس وقت میں ہم لوگ حضورﷺ کے پہلو میں اپنابچاوٴ کرتے تھے اور آپ سب سے زیادہ آگےبڑھ کر اور دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کر جنگ فرماتے تھے۔(الشفاء،1/116)

آپﷺ اپنی شجاعت میں بھی سب پر فائق تھے۔چنانچہ ایک رات مدینہ منورہ کے لوگ ڈر گئے اور شور وغل برپا ہوگیاگویا کوئی چور یا دشمن آتا ہے ۔ آپ نے ابو طلحہ کا گھوڑا لیا جو سست رفتاراور سرکش تھا، اس کی پیٹھ پر بغیر زین کےسوارہوگئے اور تلوار لٹکائےہوئے جنگل کی طرف اکیلے ہی تشریف لے گئے، جب لوگ اس آواز کی طرف گئے تورسول اللہﷺ ان کو راستے میں واپس آتے ہوئے ملے،آپ نے ان کو تسلی دی کہ ڈرو مت! ڈرو مت! اور گھوڑے کی نسبت فرمایا کہ ہم نے اسے دریا کی مانند تیز رفتار پایا۔

(بخاری ،4/108-109، حدیث:6033)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ حضورﷺ سے زیادہ بہادر، طاقتور، سخی اور پسندیدہ میری آنکھوں نے کبھی کسی کو نہیں دیکھا۔(سیرت مصطفیٰ ، ص620)

اسی طرح غزوات میں جہاں بڑے بڑے دلاور و بہادر بھاگ جایا کرتےتھے آپ ثابت قدم رہا کرتے تھے۔ چنانچہ جنگِ احد میں جب مسلمانوں کو ہزیمت ہوئی تو یہ کوہ ِاستقامت اپنی جگہ پر قائم رہے اور دشمنوں پر تیر پھنکتے رہے ،جب کمان پارہ پارہ ہوگئی تو سنگ اندازی شروع کی۔ جنگِ حنین میں چند جانباز آپ کے ساتھ رہ گئے تھے باقی سب بھاگ گئے تھے اس نازک حالت میں آپ نے اسی پر اکتفا نہ کیا کہ اپنی جگہ پر قائم رہ کر دفاع فرمائیں بلکہ اپنے خچر کو بار بار ایڑ لگاکر دشمن کی طرف بڑھنا چاہتے مگر وہ جانباز مانع آرہے تھے۔

(سیرت رسول عربی، ص 217)

حضور ﷺ کی بہادری کے تو کیا کہنے کہ جب اعلانِ دعوت پر قریش نے آپ کی سخت مخالفت کی اور ابو طالب نے بھی آپ کا ساتھ چھوڑنےکا ارادہ کیا تو آپ نے یوں فرمایا:چچا جان! اللہ کی قسم! اگر وہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ میں اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ میں رکھ دیں تاکہ میں اس کام کو چھوڑ دوں تب بھی میں اس کام کو نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ خدا اسے غالب کردے یا میں ہلاک ہوجاؤں۔

(سیرت رسول عربی ،ص 218)

اللہ کریم آقا کریمﷺ کے صدقے دینِ اسلام کے معاملے میں ہمیں بہادری اور ہمت سے کام کرنے کی توفیق عطا فرما ئے۔ آمین