بہادری کے لغوی معنی ہیں:جرأت،شجاعت ،دلیری،جوانمردی۔
بہادری اور طاقتوری کے بارے میں حدیثِ مبارکہ میں جو بیان کیا
گیا ہے وہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا :طاقتور وہ نہیں جو پہلوان ہو دوسرے کو
پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔( بخاری ،4/130،حدیث: 6114)
بہرحال بہادری کی جو بھی تعریف کی جائے،آقا ﷺ جس طرح دوسری
صفات میں کامل واکمل و بے مثال ہیں اسی طرح کریم آقا ﷺ اپنی بہادری میں بھی بے مثل
وبے مثال تھے ۔
سب سے اعلیٰ عزت
والے غلبہ و قہرو طاقت والے
حرمت والے کرامت
والے تم پر لاکھوں سلام
ویسے تو آقا کریم ﷺ کی مبارک زندگی اس طرح کے واقعات سے بھری
پڑی ہے لیکن اختصار کے پیشِ نظر کچھ واقعات پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گی۔
نبیِ کریم ﷺ اور عرب کے مشہور پہلوان:
مضافاتِ مکہ میں رکانہ نامی پہلوان رہتا تھا،اس کا نسبی تعلق خاندانِ بنو
ہاشم سے تھا،وہ بڑا ہی طاقتور،شہ زور، زبردست رعب و دبدبے کا مالک اور مار دھاڑ
کرنے والا شخص تھا۔کوہِ اضم کے دامن میں ایک شاداب وادی تھی جہاں وہ بکریاں چرایا
کرتا تھا ،اس وادی میں کسی کو دم مارنے کی جرأت نہ ہوتی تھی،لوگ اس کا سامنا کرنے
سے کتراتے تھے،مشرکین اور دیگر دشمنانِ اسلام کے پروپیگنڈے کی وجہ سے وہ رسولِ
اکرم ﷺ سے شدید نفرت کے جذبات رکھتا تھا، اس کی دشمنی اس حد تک تھی کہ معاذ اللہ
وہ آپ کو شہید کرنے کےدرپے ہو گیا تھا۔امت پر مہربان،دو جہان کے سلطان ﷺ کسی قسم
کے خطرے کو خاطر میں لائے بغیر ایک روز دینِ اسلام کی دعوت کے لئے رُکانہ کی وادی
میں تنِ تنہا تشریف لے گئے،رُکانہ بھی ادھر آنکلا، آپ کو دیکھ کر بپھر گیا اور
تکبر کے نشے میں بد مست ہو کر بولا: یامُحَمّدُ
!اَنْتَ الّذِیْ تَشْتِمُ اٰلِھَتَنَا یعنی اے
محمد! آپ ہی ہیں وہ جو ہمارے معبودوں کو بُرا کہتے ہیں؟ اس کے بعد وہ مزید تلخ
کلامی پر اتر آیا اور کہنے لگا:اے محمد! آپ ہمارے معبودوں کو نیچا اور کمزورکہتے ہیں
اور اپنے رب کی بڑائی بیان کرتے ہیں۔ اگر میرا آپ کے ساتھ خاندانی رشتہ نہ ہوتا تو
آج میں آپ کا کام تمام کر دیتا، لیکن میں آپ کو بغیر مقابلہ کئے جانے نہ دوں گا۔اس
کے بعد رُکانہ نے آپ کو کُشتی لڑنے کی دعوت دی اور کہا:میں اپنے خداؤں کو پکاروں
گا اور آپ اپنے خدا کو مدد کے لئے پکاریں،اگر آپ نے مجھے پچھاڑ دیا تو میں آپ کو
دس بکریاں دوں گا۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اس کا چیلنج قبول کر لیا اور اس سے کُشتی
لڑنے پر آمادہ ہو گئے۔آپ نے رُکانہ کے ہاتھوں میں ہا تھ دیئے اور اس کا پنجہ مروڑ
دیا ،رُکانہ کے ہوش اُڑ گئے اور وہ درد سے تڑپنے لگا،آپ نے اسے دھکا دیا تو وہ خشک
پتے کی طرح زمین پرگر گیا۔رُکانہ کو اپنی قوتِ بازو پر ناز تھا، وہ سوچ بھی نہیں
سکتا تھا کہ صادق و امین ﷺ یوں چند لمحوں
میں اسے اس طرح نیچا دکھا دیں گے، جو کچھ ہوا اس کی توقع کے برعکس تھا لیکِن رُکانہ
نے اسے اتفاق سمجھتے ہوئے ہار نہ مانی، ہوش بحال ہوئے تو اس نے دوبارہ کُشتی لڑنے
کی درخواست کی ،آپ ﷺ نے اس کی درخواست منظور فرما لی لیکن اس کا نتیجہ بھی پہلے سے
مختلف نہ ہوا یعنی اس بار بھی وہ ایک لمحہ میں ہار گیا۔ رُکانہ تصویر ِحیرت بن گیا،
اس کے وہم وگمان میں بھی نا تھا کہ اس جیسے ہٹے کٹے پہلوان کا ایسا حشر ہو گا لیکن
اب بھی وہ شکست قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوا اورتیسری بار پھر کُشتی لڑنے کی درخواست کی جو
آپ نے قبول فرما لی۔ تیسری بار پھر شکست اس کا مقدر بنی اور وہ آپ کے زورِ بازو کی
تاب نہ لاکر گر گیا اور بولا:یہ سب آپ نے نہیں کیا بلکہ آپ کے غالب و وقادر معبود اللہ
پاک نے کیا ہے، جبکہ میرے خداؤں نے مجھے رسوا کیا ہے۔(دلائل النبوۃ للاصبہانی ،2/235 ماخوذاً)
شہزادہ ٔاعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
بگڑی ناؤ کون سنبھالے ہائے
بھنور سے کون نکالے
ہاں ہاں زور و طاقت والے تم پر لاکھوں
سلام
تم پر لاکھوں سلام تم پر لاکھوں
سلام
سبحان اللہ! ہمارے پیارے آقا ﷺ کس قدر بہادر تھے کہ آپ نے
رُکانہ جیسے پہلوان کو ہر بار پچھاڑ کر رکھ دیا۔اس واقعہ میں آقا ﷺ کی ہر طرح
بہادری موجود ہے یعنی جسمانی طاقت کے
اعتبار سے بھی، نڈر ہونے کے اعتبار سے بھی اور غصے پر قابو کے اعتبار سے بھی۔تاریخ
ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔چنانچہ
ایک رات مدینہ منورہ کے لوگ ڈر گئے اور شور و غل برپا ہوا
کہ کوئی چور یا دشمن آیا ہے۔آپ نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا گھوڑا لیا جو سست
رفتار اور سرکش تھا۔آپ اس کی پیٹھ پر بغیر زین کے سوار ہو گئے اور تلوار آڑے
لٹکائے ہوئے جنگل کی طرف اکیلے ہی تشریف لے گئے۔جب لوگ اس آواز کی طرف گئے تو رسول
اللہ ﷺ ان کو راستے میں واپس آتے ہوئے ملے۔آپ نے ان کو تسلی دی اور فرمایا: ڈرو مت!
ڈرو مت ! اور گھوڑے کی نسبت فرمایا :ہم نے اسے دریا کی مانند تیز رفتار پایا۔
(بخاری،4/108-109، حدیث:6033)
غزوات میں جہاں بڑے
بڑے بہادر و دلاور بھاگ جایا کرتے تھےآپ ثابت قدم رہا کرتے تھے جیسا کہ جنگ ِ اُحد
میں جب مسلمانوں کو شکست ہوئی تو آپ پھر بھی ثابت قدم رہے اور دشمنوں پر تیر پھینکتے
رہے۔جنگ حنین میں صرف چند جانباز آپ ﷺ کے ساتھ رہے باقی سب بھاگ گئے اس نازک وقت میں
آپ نے اسی پر اکتفا نہ کیا کہ اپنی جگہ پر قائم رہ کر مدافعت فرمائیں بلکہ اپنے
خچر کو بار بار ایڑ لگا کر دشمن کی طرف بڑھانا چاہتے تھے مگر وہ جانباز مانع آ رہے
تھے۔(سیرت رسولِ عربی،ص354)
آقا ﷺ کی قوتِ بدنی اس قدر زیادہ تھی کہ غزوۂ احزاب میں جب
سب صحابہ کرام علیہم الرضوان خندق کھود رہے تھے تو ایک ایسی سخت چٹان ظاہر ہوئی کہ
سب عاجز آ گئے آپ ﷺ سے عرض کیا گیا تو آپ ﷺ بذات خود تشریف لائے حالانکہ اس وقت
بھوک کی وجہ سے شکمِ اطہر پر پتھر باندھا ہوا تھا، تو پیارے آقا ﷺ بھوک کی شدّت کے
باوجود خود خندق میں اترے اور ایک کدال ایسا مارا کے وہ ریت کے بھر
بھرے ٹیلے کی طرح بکھر کر پاش پاش ہو گئی۔(بخاری،3/51،حدیث:4101ملخصاً)
اس سے معلوم ہوا
کہ پیارے آقا ﷺ جیسا نہ کوئی ہے نہ ہو گا اور نہ ہی ہو سکتا ہے، اسی لئے تو اعلیٰ حضرت
رحمۃ اللہ علیہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
یہی بولے سِدرہ والے چمنِ جہاں کے تھالے سبھی میں نے چھان ڈالے تِرے پایہ کا نہ پایا
تجھے یک نے یک بنایا
جب گھمسان کا معرکہ ہوا کرتا تھا تو صحابہ کرام علیہم
الرضوان حضور ﷺ کی آڑ میں پناہ لیا کرتے تھے چنانچہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں:اللہ پاک کی قسم! جب لڑائی شدت سے ہوا کرتی تھی تو ہم نبیِ کریم ﷺ
کی پناہ ڈھونڈا کرتے تھے اور ہم میں سے بہادر وہ ہوا کرتا تھا جو آپ ﷺ کے ساتھ
دشمن کے مقابل کھڑا ہوتا تھا۔(مسلم، ص980،
حدیث:1776)
اللہ پاک ہمیں آقا ﷺ کی بہادری کے صدقے دین کے تمام معاملات
میں بہادری دکھانے کی توفیق مرحمت فرمائے اور ہمیں بہادر بنائے۔آمین بجاہِ خاتم ِالنبیین
ﷺ